سوال:
غیر فطری مجامعت کا کیا حکم ہے؟
جواب:
اللہ تعالیٰ کے بے غایت لطف و کرم سے عورت مرد کے لیے سکون کا باعث ہے۔ یہ سکون اس وقت ناپید ہو جاتا ہے، جب مرد، عورت سے غیر فطری مباشرت کر کے اس کا تقدس پامال کر دیتا ہے، کیونکہ یہ اقدام حکم شریعت کی سخت خلاف ورزی ہے، نیز اخلاق و شرافت کے منافی بھی ہے۔ اس قبیح فعل کو عقل تسلیم نہیں کرتی اور نہ نقل تصدیق کرتی ہے۔ فطرت سلیمہ اور طبع مستقیم کے حامل مسلمان سے اس جرم کا ارتکاب ناممکن ہے۔ غیر فطری مجامعت گناہ کی سب سے بھیانک اور بدبخت صورت ہے۔ اس سے قوائے فکری و عملی پر سخت چوٹ لگتی ہے۔ اس کا نتیجہ ذلت و خسران اور تباہی و بربادی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس کے فاعل کو ہمیشہ ذلت و نامرادی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ یہ گناہ بدکاری سے بڑھ کر ہے، کفر کے بعد اس کا نمبر آتا ہے۔ اس کے نقصانات معاشرہ پر قتل سے بڑھ کر ہیں۔ اسے جائز کہنا اسلام کی پاکیزہ تعلیمات پر حملہ ہے، جو رشتہ ازدواج کا تقدس پامال کرتا ہے، انسانی صحت کو روگ لگاتا ہے، اور روحانیت کو سلب کرتا ہے۔
إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ
﴿البقرة: 222﴾
اللہ بہت توبہ کرنے والوں اور بہت پاک رہنے والوں کو محبوب رکھتا ہے۔
علامہ مظہری زیدانی حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إن الوطء في الدبر محرم في جميع الأديان
عورت کے ساتھ غیر فطری مجامعت تمام ادیان میں حرام ہے۔
المفاتيح في شرح المصابيح: 54/4
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لم يكن الوطء في الدبر جائزا في شريعة نبي من الأنبياء ومن نسب ذلك الى بعض السلف فقد كذب
عورت سے غیر فطری مجامعت کسی نبی کی شریعت میں روا نہیں تھی، بعض سلف کی طرف اس کا جواز منسوب کرنے والا جھوٹا ہے۔
زاد المعاد: 257/4
حافظ بغوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أما الإتيان في الدبر فحرام فمن فعله جاهلا بتحريمه نهي عنه فإن عاد عزر
بیوی کی پچھلی شرمگاہ میں جماع حرام ہے، جو اس کی حرمت سے ناواقفیت کی بنا پر ایسا کرے، اسے روکا جائے گا، دوبارہ کرے، تو اسے تعزیری سزا دی جائے گی۔
شرح السنة: 6/9
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إن إتيان النساء في أدبارهن من فعل قوم لوط وقد أجمع العلماء على تحريمه إلا قولا شاذا من بعض السلف وقد وردت في المنع عنه أحاديث
عورتوں سے غیر فطری مجامعت کرنا قوم لوط کے عمل سے ملتا جلتا ہے، اس کے حرام ہونے پر علما کا اجماع ہے، سوائے سلف میں سے ایک شاذ قول کے۔
تفسير ابن كثير: 183/3
علامہ ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
استحلال الدواة بزوجته كفر عند الجمهور
بیوی سے غیر فطری مجامعت کو حلال سمجھنا جمہور علما کے نزدیک کفر ہے۔
الأشباه والنظائر، ص 191
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
إتيان المرأة في دبرها حرام بالكتاب والسنة وقول جمهور السلف والخلف بل هو من اللواط
عورت کی پچھلی شرمگاہ میں جماع کرنا کتاب و سنت اور جمہور سلف و خلف کے قول کی رو سے حرام ہے، بلکہ یہ لواطت سے ملتا جلتا فعل ہے۔
مجموع الفتاوى: 266/32-267
عطاء رحمہ اللہ سے پوچھا گیا، تو فرمایا:
تلك كفر ما بدأ قوم لوط إلا ذاك أتوا النساء في أدبارهن ثم أتى الرجال الرجال
یہ کفر ہے، قوم لوط نے اسی سے ابتدا کی، پہلے وہ عورتوں کی دبر میں جماع کرتے تھے، پھر مردوں سے کرنے لگے۔
مساوي الأخلاق للخرائطي: 425، وسندہ حسن
طاؤس رحمہ اللہ سے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
ذلك الكفر
یہ کفر ہے۔
السنن الكبرى للنسائي: 9004، وسندہ صحیح
ایک روایت میں آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا، تو فرمایا:
هذا يسألني عن الكفر
یہ شخص مجھ سے کفر کے بارے میں پوچھتا ہے؟
مصنف عبد الرزاق: 442/11، ح: 20953، وسندہ صحیح
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔
تفسير ابن كثير: 593/1
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو قویم کہا ہے۔
التلخيص الحبير: 390/3
نیز فرماتے ہیں:
اثت حرثك من حيث نباته
اپنی کھیتی (بیوی) سے اس جگہ پر جماع کیجیے، جہاں سے کچھ اگ سکے۔
السنن الكبرى للبيهقي: 196/7، وسندہ صحیح
طاؤس رحمہ اللہ سے پوچھا گیا، تو فرمایا:
تلك كفرة
یہ کفر ہے۔
السنن الكبرى للنسائي: 9006، وسندہ حسن
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
من أتى أدبار الرجال والنساء فقد كفر
مردوں یا عورتوں سے غیر فطری عمل کا مرتکب، کفر کا مرتکب ہے۔
السنن الكبرى للنسائي: 9021، وسندہ حسن
سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
هل يفعل ذلك إلا كافر
بھلا کافر کے علاوہ بھی کوئی ایسا کر سکتا ہے؟
زوائد مسند الإمام أحمد: 210/2، وسندہ صحیح
ائمہ طاؤس، سعید بن مسیب، مجاہد اور عطاء بن ابی رباح رحمہم اللہ کہتے ہیں:
انهم كانوا ينكرون إتيان النساء في أدبارهن ويقولون هو كفر
یہ تابعین عورتوں کی دبر میں جماع سے منع کرتے تھے اور کہتے کہ یہ کفر ہے۔
سنن الدارمي: 1185، وسندہ حسن
امام عکرمہ رحمہ اللہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
انه كان يكره إتيان الرجل امرأته في دبرها ويعيبه عيبا شديدا
آپ رضی اللہ عنہ مرد کے عورت کی دبر میں جماع کرنے کو ناپسند کرتے تھے اور اس کو سخت برا جانتے تھے۔
سنن الدارمي: 1178، وسندہ صحیح
امام مجاہد رحمہ اللہ آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
من أتى امرأته في دبرها فليس من المتطهرين
جو بیوی سے دبر میں جماع کرے، وہ پاکیزہ خصلت نہیں۔
السنن الكبرى للنسائي: 9022، تفسير الطبري: 743/3، وسندہ حسن
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ما علمت حراما
میرے علم کے مطابق یہ حرام ہے۔
السنن الكبرى للنسائي: 9128، وسندہ صحیح
(السنن الكبرى للنسائي: 9128، وسندہ صحیح، طبع دار التأصيل)
تحفة الأشراف للمزي (7314) میں مَا عَلِمْتُ حَرَامًا کے الفاظ ہیں۔ یہ نسخے کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔