سوال:
غیر اللہ کو سجدہ کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:
غیر اللہ کو سجدہ کرنا شرک ہے، بالا اجماع حرام ہے۔
﴿لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ﴾
(فصلت: 37 )
سورج چاند کو سجدہ مت کرو، بلکہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرو کہ جس نے انہیں (سورج چاند وغیرہ کو) تخلیق کیا ہے، اگر تم خالص اسی کی عبادت کرتے ہو۔
❀ حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ (463ھ) فرماتے ہیں:
تحريم السجود على قبور الأنبياء وفي معنى هذا أنه لا يحل السجود لغير الله عز وجل.
(اس حدیث میں دلیل ہے کہ) انبیائے کرام کی قبروں پر سجدہ کرنا حرام ہے، معلوم ہوا کہ غیر اللہ کے لیے سجدہ کرنا جائز نہیں۔
(التمهيد: 383/6)
إن السجود لغير الله تعالى على وجه التعظيم كفر.
وتعظیم کی نیت سے غیر اللہ کو سجدہ کرنا کفر ہے۔
(المبسوط: 130/24)
❀ علامہ سرخسی حنفی رحمہ اللہ (483ھ) فرماتے ہیں:
كذلك نكفر بكل فعل أجمع المسلمون أنه لا يصدر إلا من كافر وإن كان صاحبه مصرحا بالإسلام مع فعله ذلك الفعل كالسجود للصنم وللشمس والقمر والصليب والنار.
اسی طرح ہم اس فعل کے ارتکاب پر بھی تکفیر کرتے ہیں، جس کے بارے میں مسلمانوں کا اجماع ہے کہ یہ فعل کسی کافر سے ہی صادر ہوسکتا ہے، خواہ وہ اس فعل کے ارتکاب کے ساتھ خود کو مسلمان بھی ظاہر کرتا ہو، جیسا کہ بت، سورج، چاند، صلیب اور آگ (وغیرہ) کو سجدہ کرنا۔
(الشفا: 611/2)
❀ علامہ رازی رحمہ اللہ (606ھ) فرماتے ہیں:
أجمع كل الأنبياء عليهم السلام على أن عبادة غير الله تعالى كفر سواء اعتقد فى ذلك الغير كونه إلها للعالم أو اعتقدوا فيه أن عبادته تقربهم إلى الله تعالى لأن العبادة نهاية التعظيم ونهاية التعظيم لا تليق إلا بمن يصدر عنه نهاية الإنعام والإكرام.
تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا اجماع ہے کہ غیر اللہ کی عبادت کفر ہے، خواہ وہ اس غیر کو عالم کا معبود سمجھتا ہو یا یہ اعتقاد ہو کہ اس کی عبادت انہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کر دے گی، کیونکہ عبادت تعظیم کی انتہا ہے اور تعظیم کی انتہا اسی ذات کے لیے روا ہے، جس سے نہایت اعلیٰ انعام و اکرام صادر ہوتے ہیں۔
(التفسير الكبير: 421/26)
❀ حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ) فرماتے ہیں:
ما يفعله كثير من الجهلة من السجود بين يدي المشايخ بل ذلك حرام وغيرها وسواء قصد السجود لله تعالى أو غفل وفي بعض صوره ما يقتضي الكفر أو يقاربه عافانا الله الكريم.
بہت سے جاہل لوگ جو اپنے مشائخ کے سامنے سجدہ کرتے ہیں، یہ ہر حال میں قطعی طور پر حرام ہے، خواہ وہ سجدہ قبلہ رخ ہو یا کسی اور سمت، خواہ اس کا ارادہ اللہ تعالیٰ کو سجدہ کرنے کا ہو یا یہ ارادہ مدنظر نہ ہو۔ بعض صورتوں میں یہ سجدہ کفریا اس کے قریب قریب پہنچ جاتا ہے، اللہ کریم ہمیں اس سے محفوظ رکھے۔
(المجموع: 69/4)
❀ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
كان من أتباع هؤلاء من يسجد للشمس والقمر والكواكب، ويدعوها كما يدعو الله تعالى، ويصوم لها، وينسك لها، ويتقرب إليها، ثم يقول: إن هذا ليس بشرك، وإنما الشرك إذا اعتقدت أنها هي المدبرة لي، فإذا جعلتها سببا وواسطة لم أكن مشركا، ومن المعلوم بالاضطرار من دين الإسلام أن هذا شرك.
مشرکوں کے متبعین میں سے ایک شخص سورج، چاند اور ستاروں کے لیے سجدہ کرتا ہے، انہیں اسی طرح پکارتا ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ کو پکارتا ہے، ان کے لیے روزہ رکھتا ہے، ان کے لیے قربانی کرتا ہے اور ان کا تقرب تلاش کرتا ہے، پھر کہتا ہے: یہ شرک نہیں ہے، شرک تو تب ہوگا، جب میں یہ عقیدہ رکھوں کہ یہ سب اشیا میرے لیے خود تدبیر کرتی ہیں اور جب میں ان اشیا کو وسیلہ اور واسطہ بناؤں، تو میں مشرک نہیں ہوں گا۔ جبکہ دین کے بنیادی عقائد میں سے ہے کہ یہ (واضح) شرک ہے۔
(درء تعارض العقل والنقل: 227/1)
❀ علامہ ابن عبد الہادی رحمہ اللہ (744ھ) فرماتے ہیں:
لو جاء إنسان إلى سرير الميت يدعوه من دون الله ويستغيث به، كان هذا شركا محرما بإجماع المسلمين.
اگر کوئی شخص میت کی چارپائی کے پاس آئے اور اللہ کے علاوہ اسے پکارے، اس سے مدد مانگے تو یہ شرک اور حرام ہے، اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
(الصارم المنكي: 436)
❀ علامہ ملاعلی قاری رحمہ اللہ (1014ھ) فرماتے ہیں:
إن السجدة لا تحل لغير الله.
غیر اللہ کے لیے سجدہ حلال نہیں۔
(مرقاة المفاتيح: 2125/5)
❀ علامہ صنع اللہ حنفی رحمہ اللہ (1120ھ) فرماتے ہیں:
قد ظهر الآن فيما بين المسلمين جماعات يدعون أن للأولياء تصرفات فى حياتهم وبعد الممات، ويستغات بهم فى الشدائد والبليات، وبهم تنكشف المهمات، ويأتون قبورهم، وينادونهم فى قضاء الحاجات، مستدلين على أن ذلك منهم كرامات …. وهذا كما ترى كلام فيه تفريط وإفراط وغلو فى الدين بترك الاحتياط، بل فيه الهلاك الأبدي، والعذاب السرمدي، لما فيه من روائح الشرك المحقق، ومصادرة الكتاب العزيز المصدق، ومخالفة لعقائد الأمة، وما أجمعت عليه هذه الأمة.
اس وقت مسلمانوں میں کئی گروہ نمودار ہوئے ہیں، جو دعویٰ کرتے ہیں کہ اولیا اپنی زندگی میں اور وفات کے بعد تصرفات کرتے ہیں، ان سے مصائب اور پریشانیوں میں مدد مانگی جاتی ہے، ان کی توجہ سے مشکلات حل ہوتی ہیں، یہ لوگ ان کی قبروں پر جاتے ہیں اور انہیں حاجت براری کے لیے پکارتے ہیں، اپنے دعوے پر یہ دلیل دیتے ہیں کہ اولیا یہ سب امور کرامات کے ذریعے کرتے ہیں۔ یہ ایسا کلام ہے، جس میں افراط و تفریط ہے، نیز یہ دین میں غلو ہے، اس میں احتیاط سے پہلوتہی برتی گئی ہے، بلکہ اس میں ابدی ہلاکت اور مسلسل عذاب ہے، کیونکہ اس میں واضح شرک پایا جاتا ہے، کتاب عزیز (قرآن) سے مزاحمت اور امت کے عقائد اور اجماع امت کی مخالفت ہے۔
(سيف الله على من كذب على أولياء الله: 15-16)