غیر اللہ کے تقرب کی خاطر ذبح کرنا

یہ تحریر محترم ابوحمزہ عبدالخالق صدیقی اور حافظ محمود الخضری کی کتاب شرک کے چور دروازے سے ماخوذ ہے۔

غیر اللہ کے تقرب کی خاطر ذبح کرنا

غیر اللہ کے تقرب کی خاطر ذبح کرنا شرک کا ذریعہ ہے، اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری اور لعنت کا باعث ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

((لَعَنَ اللَّهُ مَنْ ذَبَحَ لِغَيْرِ اللَّهِ.))
صحیح مسلم، كتاب الأضاحي، رقم: ١٢٤ سنن نسائی، کتاب الضحايا، رقم: ٤٤٢٧، صحيح الجامع الصغير، رقم: ٥١١٢۔

’’جو شخص غیر اللہ کے (تقرب) کی خاطر ذبح کرے، اس پر اللہ کی لعنت ہو۔“

حتی کہ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی قبر یا بت کے نام پر ایک مکھی جیسی حقیر شے کو بھی قربان کر دیا جائے تو یہ بھی شرک ہے، اور اس کی سزا جہنم ہے۔ سیدنا سلمانؓ فرماتے ہیں:

(( دَخَلَ رَجُلٌ الْجَنَّةَ فِي ذُبَابٍ، وَدَخَلَ النَّارَ رَجُلٌ فِي ذُبَابٍ، قَالُوا: وَكَيْفَ ذَلِكَ؟ قَالَ مَرَّ رَجُلَانِ عَلَى قَوْمٍ لَّهُمْ صَدِّمٌ لَا يُجَاوِرُهُ أَحَدٌ حَتَّى يُقَرِّبَ لَهُ شَيْئًا، فَقَالُوا لِأَحَدِهِمَا قَرْبُ، قَالَ: لَيْسَ عِندِي شَيْءٌ، فَقَالُو لَهُ : قَرَبُ وَلَوْ ذُبَابًا، فَقَرَّبَ ذُبَابًا، فَخَلُّوا سَبِيلَهُ، قَالَ : فَدَخَلَ النَّارَ ، وَقَالُوا لِلآخَرِ : قَرَبُ وَلَوْ ذُبَابًا، قَالَ: مَا كُنتُ لا قَرَبَ لِأَحَدٍ شَيْئًا دُونَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ، قَالَ: فَضَرَبُوا عُنُقَهُ، قَالَ: فَدَخَلَ الْجَنَّةَ ))
كتاب الزهد للامام أحمد، ص: ۳۳، رقم: ٨٤ حلية الأولياء // ٢٦٢، رقم: ٦٤٦. موقوف صحیح مغنى المريد: ١٠٦٠/٣۔

’’ایک شخص مکھی کی وجہ سے جنت میں جا پہنچا، اور ایک جہنم میں چلا گیا، لوگوں نے عرض کیا ، یہ کیسے؟ تو فرمایا کہ دو شخص چلے چلتے ایک بت پرست قوم کے پاس سے گزرے جو کسی مسافر کو اُن کے بت پر کچھ بھینٹ چڑھائے بغیر نہیں گزرنے دیتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے ایک کو کہا: ہمارے بت کے یہاں کچھ چڑھاوا چڑھاؤ! اس نے (معذرت کرتے ہوئے ) کہا کہ میرے پاس کوئی چیز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمہیں یہ ( عمل ) ضرور کرنا ہوگا ، اگر چہ ایک مکھی ہی کیوں نہ ہو ۔ پس اس نے لکھی قربان کر دی، اور اس کی جان بچ گئی ۔ لیکن وہ جہنم میں داخل ہوا۔ دوسرے کو بھی ایسا ہی کہا ( کہ تو بھی کسی چیز کا چڑھاوا چڑھا دے ) تو اس نے جواب دیا کہ میں غیر اللہ کے نام پر کوئی بھی چیز چڑھاوا نہیں چڑھا سکتا، اس کو(یہ جواب سنتے ہی) انہوں نے شہید کر دیا ، تو وہ جنت میں جا پہنچا۔‘‘

کسی صاحب قبر ولی، امام یا نبی کے نام پر ذبح کرنا تو کہاں جائز ہوگا، مطلق قبر کے پاس ذبیح کرنے کی بھی اسلام میں اجازت نہیں ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

((وَ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ ))

(المائده : ٣)

’’اور جسے کسی بت کے آستانہ پر ذبح کیا گیا ہو، ( تم پر حرام ہے ) ۔‘‘

مشرکین مکہ نے بیت اللہ کے ارد گرد بہت سے پتھر نصب کر رکھے تھے، جن پر جانوروں کو ذبح کرتے ، اور ان کے گوشت کو ٹکڑے بناتے تھے ، وہ لوگ ان پتھروں کی تعظیم کرتے تھے، اور ذبح کے ذریعہ ان پتھروں کے تقرب کی نیت کرتے تھے۔ انہی پتھروں کو ’’انصاب‘‘ کہا جاتا تھا۔

حافظ ابن کثیرؒ کہتے ہیں کہ اللہ نے مسلمانوں کو ایسا کرنے سے منع فرمایا اور ان ذبائح کو حرام قرار دیا، چاہے ذبح کے وقت ان پر اللہ کا نام لیا گیا ہو۔ اس لئے ایسے پتھروں کے پاس ذبح کرنا شرک باللہ ہے، جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیا ہے۔ (وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللهِ) میں تقریباً یہی حکم بیان کیا گیا ہے، لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ؛ (وَمَا ذُبِحَ عَلَى النَّصْبِ) میں ان جانوروں کا حکم بیان کیا گیا ہے، جنہیں بتوں کے لئے ذبح کیا گیا ہو، اور ( وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللهِ ) میں ان جانوروں کا جنہیں انبیاء و اولیاء کے لئے ذبح کیا گیا ہو۔
تفسير ابن كثير ٤٧٥/٢ ، تحقیق عبدالرزاق مهدی.

اسلام میں تو اللہ تعالیٰ کے لئے بھی ایسی جگہ ذبح کرنا جائز نہیں، جہاں غیر اللہ کے لئے ذبح کیا جاتا ہو ۔ ثابت بن ضحاکؓ سے روایت ہے:

(( نَذَرَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَن يُنْحَرَ إِبلا بِبُوَانَةَ، فَأَتَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنِّي نَذَرْتُ أَن أَنْحَرَ إِبْلَا بِبُوَانَةَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” هَلْ كَانَ فِيهَا وَكُنْ مِنْ أَوْثَانِ الْجَاهِلِيَّةِ يُعْبَدُ؟ ” قَالُوا: لَا ، قَالَ : ” هَلْ كَانَ فِيهَا عِيدٌ مِنْ أَعْبَادِهِمْ؟ قَالُوا: لَا ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَوفِ بِنَدْرِكَ فَإِنَّهُ لَا وَفَاءً لِنَدْرِ فِي مَعْصِيَةِ اللهِ . ))
سنن أبو داؤد، كتاب الأيمان والنذور، رقم ۳۳۱۳، سنن ابن ماجة، كتاب الكفارات، رقم: ۲۱۳۱، البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ المشكلة، رقم : ٣٤٣٧.

’’ایک شخص نے مقام بوانہ پر اونٹ ذبح کرنے کی نذر مانی ، اس نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا، تو آپ نے دریافت کیا کہ کیا زمانہ جاہلیت میں وہاں کسی بت کی پوجا ہوتی تھی؟ لوگوں نے کہا : نہیں ، آپ ﷺ نے پوچھا، کیا وہاں جاہلیت کی کوئی عید منائی جاتی تھی؟ لوگوں نے کہا نہیں، تو آپ ﷺ نے اس آدمی سے کہا کہ اپنی نذر پوری کرو، اللہ کی نافرمانی کر کے نذر نہیں پوری کی جائے گی ۔‘‘

شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ فتاویٰ عزیزی (ص: ۵۱۶) میں رقم طراز ہیں:

وَفِي غَرَائِبٍ أَبِي عُبَيْدِ وَيُسْتَانِ الفَقِيهِ وَكَبْرِ الْعِبَادِ أَنَّهُ لَا يَجُوزُ ذَبَحُ الْبَقَرَ وَالْغَنَمِ عِندَ القُبُورِ لِقَوْلِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ لَا عَفَرَ فِي الْإِسْلَامِ يَعْنِي عِندَ الْقُبُورِ هَكَذَا فِي سُبنَ أَبِي دَاوُدَ .

’’اور غرائب ابی عبید اور بستان الفقیہ اور کنز العباد میں ہے کہ جائز نہیں ہے ذبح کرنا گائے اور بکری کو قبروں کے نزدیک ، اس واسطے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ’’عقر‘‘ یعنی قبروں کے نزدیک ذبح کرنا اسلام میں نہیں ۔ ایسا ہی سنن ابو داؤد میں ہے۔‘‘

کتاب اللہ میں چار مقامات پر غیر اللہ کے لئے ذبح کو حرام کیا گیا ہے۔ فرمایا:

(اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ بِهٖ لِغَیْرِ اللّٰهِۚ)

(البقرة : ۱۷۳)

’’اللہ نے تم پر مردہ ، خون ، سور کا گوشت اور اس جانور کو حرام کر دیا ہے جسے غیر اللہ کے نام سے ذبح کیا گیا ہو۔“
تيسير الرحمن، ص: ٥١٤.

ابن جریرؒ نے بعض سلف سے ( وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ) کی تفسیر ( مَا ذُبِحَ لِغَيْرِ اللَّهِ ) نقل فرمائی ہے۔
تفسیر طبری ۰۹۰۱۲.

اسی طرح سیوطیؒ نے سید نا ابن عباسؓ سے ( وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ) کی تفسیر ( مَا ذُبِحَ لِغَيْرِ اللَّهِ) نقل فرمائی ہے۔
تفسير الدر المنثور ۲/ ۱۳۲، طبعة مركز هجر للبحوث والدراسات.

تفسیر نیشا پوری میں اس آیت کی تفسیر میں مرقوم ہے:

(( أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ لَوْ أَنَّ مُسْلِمًا ذَبَحَ ذَبِيحَةً وَقَصَدَ بِهَا التَّقَرَّبَ إِلَى غَيْرِ اللَّهِ صَارَ مُرْتَدًّا وَذَيْحَتُهُ ذَبِيحَةُ مُرْتَدِ. ))
بحواله فتاویٰ عزیزی، ص: ٥٣٧، فتح البيان ٢٤٠/١.

’’یعنی علماء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ ذبح کیا کسی نے کوئی ذبیحہ اور قصد کیا اسی ذبح سے تقرب غیر اللہ کا ، تو وہ شخص مرتد ہو جائے گا، اور اس کا ذبیحہ مرتد کے ذبیحہ کے مانند ہوگا۔“

فتح البیان (۲۴۰/۱) اور فتح القدیر (۰٫۱ ۱۷) میں ہے:

((وَمِثْلُهُ مَا يَقَعُ مِنَ الْمُعْتَقِدِينَ لِلْأَمْوَاتِ مِنَ الذَّبْحِ عَلَى قُبُورِهِمْ فَإِنَّهُ مِمَّا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ، وَلَا فَرُقَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الذَّبحِ لِمُوتُن.))

’’فوت شدہ بزرگوں کے ( جاہل ) معتقدین کا ان کی قبروں پر ذبح کرنے کا یہی حکم ہے، بلاشبہ یہ (وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ) میں داخل ہے، اور اس میں اور بت کے لئے ذبح کرنے میں کوئی فرق نہیں ۔‘‘

شریعت نے اس بارے میں اس قدر احتیاط برتی ہے کہ کسی ’’امیر‘‘ یعنی حاکم کے آنے پر اس کی تعظیم کے نقطۂ نظر سے نہ کہ ضیافت اور مہمانی کے طور پر اگر جانور ذبح کیا جائے گا تو وہ بھی حرام ہوگا ، جامع الرموز (ص: ۴۴۹) اور مجمع الانہار (۴۹۰٫۲ ) میں ہے:

((ذَبَحٌ لِقُدُوْمِ الْأميرِ وَنَحْوِهِ كَوَاحِدِ مِنَ الْعُظَمَاءِ يَحْرُمُ لِأَنَّهُ أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ وَلَوْ ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ تَعَالَى ، وَلَو ذُبِحَ لِلطَّيْفِ لَا يَحْرُمُ لِأَنَّهُ سُنَّةُ الْخَلِيلِ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَإِكْرَامُ الضَّيْفِ إِكْرَامُ اللهِ .))

’’حاکم یا کسی بڑے آدمی کے آنے پر ذبح کیا تو حرام ہوگا، کیونکہ یہ غیر اللہ ( کی تعظیم ) کے لئے پکارا گیا ہے۔ اگرچہ ( بوقت ذبح ) اللہ کا نام ذکر کیا گیا۔ اور اگر مہمان کی خاطر ذبح کیا تو حرام نہ ہوگا کیونکہ مہمانی تو سیدنا ابراہیمؑ کی سنت ہے اور مہمان کی تکریم اللہ تعالیٰ کا اکرام ہے۔“

بحر الرائق (۱۹۲٫۸) میں ہے:

(( وَلَوْ ذَبَحَ لِأَجَلٍ قُدُومِ الْأَمِيرِ أَوْ قُدُومِ وَاحِدٍ مِنَ الْعُظَمَاءِ وَذَكَرَ اسم اللهِ تَعَالى يَحْرُمُ أكلُهُ لِأَنَّهُ ذَيحُهَا لِأَجَلِهِ تَعْظِيمًا لَهُ .))

’’بادشاہ یا کسی بڑے آدمی کے آنے پر جانور ذبح کیا اور اس پر (بوقت ذبح) اللہ تعالیٰ کا نام بھی لیا تو اس کا کھانا حرام ہے، کیونکہ اس جانور کو بادشاہ وغیرہ کے آنے پر اس کی تعظیم کے لئے ذبح کیا گیا ہے۔“

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء