غیراللہ کی قسم، شرکیہ اعمال اور ان کے نقصانات – قرآن و حدیث کی روشنی میں
اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم اٹھانا
قسم کا مقصد کسی شے کی تعظیم اور عظمت کو ظاہر کرنا ہوتا ہے، اور چونکہ صرف اللہ تعالیٰ ہی سب سے عظیم اور لائق تعظیم ہے، لہٰذا قسم بھی صرف اللہ تعالیٰ کے نام کی ہی اٹھائی جا سکتی ہے۔ نبی کریم ﷺ، ولی، والدین، اولاد یا کسی محبوب کی قسم کھانا جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔
– بعض شعراء اپنے محبوب کے سر یا بالوں کی قسم کھاتے ہیں، جو کہ شرعاً ناجائز ہے۔
– حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو "کعبہ کی قسم” کہتے سنا تو فرمایا:
"اللہ کے سوا کسی کی قسم نہ اٹھاؤ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ‘جس نے اللہ کے سوا کسی اور کی قسم اٹھائی، اس نے کفر یا شرک کیا۔'”
**(ترمذی، النذور والایمان باب ماجاء ان من حلف بغیر اللہ فقد اشرک 1535، ابوداؤد 3251)**
– حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قسم کے طور پر کہا: "قسم ہے میرے باپ کی”، جس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"خبردار! اللہ تعالیٰ تمہیں منع کرتا ہے کہ تم اپنے باپوں کی قسم کھاؤ۔”
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر میں نے کبھی جان بوجھ کر یا بھول کر بھی غیراللہ کی قسم نہیں کھائی۔
**(بخاری: 2679، مسلم: 1646)**
– حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"جس نے لات اور عزیٰ کی قسم کھائی، تو اسے (کلمہ کی تجدید کرتے ہوئے) ‘لا الہ الا اللہ’ کہنا چاہیے۔”
**(بخاری 6107، مسلم 1647)**
اللہ کی چاہت کے ساتھ کسی اور کی چاہت کو شامل کرنا
کسی کی چاہت کو اللہ کی مشیئت کے ساتھ ملا دینا شرک ہے۔
– حضرت قتیلہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ایک یہودی نے رسول اللہ ﷺ سے کہا:
"تم اللہ کے ساتھ شرک کرتے ہو جب کہتے ہو: ‘ما شاء اللہ و شئت’۔”
اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"کہا کرو: ‘ما شاء اللہ ثم شئت’ اور قسم اٹھاؤ تو یوں کہو: ‘کعبہ کے رب کی قسم’۔”
**(نسائی، الایمان والنذور، باب الحلف بالکعبہ 3804)**
– حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
"ایک شخص نے کہا: ‘ما شاء اللہ و شئت’، آپ ﷺ نے فرمایا: ‘تو نے مجھے اللہ کے برابر کر دیا، بلکہ یوں کہو: ‘ما شاء اللہ وحدہ’۔”
**(مسند احمد 2561، 1/284)**
تمائم (گنڈے)
گنڈے لٹکانا یا ان پر ایمان رکھنا شرک ہے۔
– حضرت عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
"رسول اللہ ﷺ کے پاس دس افراد آئے، آپ ﷺ نے نو سے بیعت لی اور ایک سے نہیں، کیونکہ اس کے جسم پر تمیمہ (گنڈہ) تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ‘جس نے تمیمہ لٹکایا، اس نے شرک کیا’۔ اس شخص نے گنڈہ کاٹ کر پھینکا، پھر آپ ﷺ نے اس سے بیعت لی۔”
**(مسند احمد 17558، 4/156، سلسلہ صحیحہ للالبانی 492)**
– حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
"جھاڑ پھونک، گنڈہ اور محبت کا منتر سب شرک ہیں۔”
**(ابن ماجہ، الطب، باب تعلیق التمائم 3530)**
– جھاڑ پھونک کی اجازت دی گئی ہے بشرطیکہ اس میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں:
حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اپنی جھاڑ پھونک کے کلمات مجھے سناؤ، اگر ان میں شرک نہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔”
**(مسلم، کتاب السلام 2200)**
تمائم کی اقسام:
– گلے میں لٹکائے جانے والے دانے، مالے، موتی، کوڑیاں، مچھلی کے دانت یا کاغذ پر بے معنی الفاظ اور نقش۔
– اگر ان سے یہ عقیدہ رکھا جائے کہ یہ خود بخود بلاؤں کو دور کرتے ہیں تو **یہ شرکِ اکبر** ہے۔
– اگر اللہ کے اذن سے فائدے کا عقیدہ ہو تب بھی **شرکِ اصغر** کہلائے گا۔
قرآنی تعویذات:
– سلف صالحین میں اس پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
– بعض نے جائز اور بعض نے ناجائز قرار دیا۔
– چونکہ رسول اللہ ﷺ سے قرآنی تعویذ لٹکانا ثابت نہیں، لہٰذا علمائے حق نے بھی اس سے منع فرمایا۔
– **شیخ ابن باز رحمہ اللہ** کا اس کے عدم جواز پر فتویٰ موجود ہے۔
موجودہ حالات:
– آج مسلمان بیماریوں کے علاج، نظر بد، اور دیگر مسائل کے لیے گنڈے، چھلے، تعویذ وغیرہ عام استعمال کرتے ہیں۔
– بعض تعویذات میں جنّات اور شیاطین سے مدد مانگی جاتی ہے۔
– پیچیدہ نقش، حروفِ ابجد اور غیبی قوتوں کا سہارا لیا جاتا ہے، جو واضح شرک ہے۔
کاہن اور نجومی کی تصدیق کرنا
غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، اس کے سوا جو بھی غیب کی خبریں دے، وہ کافر یا دجال ہے۔
– حضرت زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ‘جس نے کہا کہ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی، وہ کافر ہوا۔’ ”
**(بخاری: 846، مسلم: 71)**
– حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:
"جو نجومی یا کاہن کے پاس گیا اور اس کی بات سچ مانی، یا حیض والی عورت سے مباشرت کی، یا عورت کے پچھلے مقام میں جماع کیا، وہ دینِ محمد ﷺ سے نکل گیا۔”
**(ابو داود، الطب، باب فی الکہان 3904)**
– رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جو نجومی کے پاس گیا، اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوگی۔”
**(مسلم، السلام، تحریم الکھانہ واتیان الکھان 2230)**
– حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:
"جس نے علم نجوم سیکھا، اس نے جادو سیکھا۔”
**(ابو داود، الطب، باب فی النجوم 3905)**
برصغیر میں پھیلتی بدعت:
– اشتہارات اور بورڈ: "اپنی قسمت معلوم کریں”، "محبوب کو قابو کریں”، "رزق میں وسعت” وغیرہ۔
– یہ عامل، بابا، نجومی لوگوں کے ہاتھ دیکھ کر یا لکیریں پڑھ کر جھوٹی خبریں دیتے ہیں۔
– شیطان کی مدد سے کبھی کبھار ان کی بات سچ بھی نکل جاتی ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت:
– "کاہنوں کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ وہ کچھ نہیں جانتے۔”
عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: "کبھی ان کی باتیں سچ بھی نکلتی ہیں”۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
"فرشتے آسمان سے جو فیصلے لے کر اترتے ہیں، شیطان چوری چھپے سن لیتے ہیں اور کاہنوں کو بتا دیتے ہیں۔ وہ اس میں سو جھوٹ ملا کر بیان کرتے ہیں۔”
**(بخاری 3210، مسلم 2228)**
بدشگونی لینا
اسلام بدشگونی کو سختی سے منع کرتا ہے۔
– مشرکین عرب پرندے اڑا کر ان کے رخ سے نیک یا بدشگونی لیتے تھے۔
– آج بھی کوے، بلی، محرم کے نکاح وغیرہ سے بدشگونی لی جاتی ہے۔
– حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"بدشگونی شرک ہے۔”
تین بار یہ فرمایا، اور پھر فرمایا:
"ہم میں سے ہر ایک کے دل میں بدشگونی کا خیال آتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ اسے توکل کے ذریعے ختم کر دیتا ہے۔”
**(ابو داود: الطب 3910)**
– حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
"جسے بدشگونی نے کسی کام سے روک دیا، اس نے شرک کیا۔”
صحابہ کرام نے عرض کیا: "اگر بدشگونی میں مبتلا ہو جائیں تو کفارہ کیا ہے؟”
آپ ﷺ نے فرمایا:
**اللهم لاَ خَيْرَ إلا خَيْرُكَ وَلاَ طَيْرَ إلا طَيْرُكَ وَلاَ إِلَهَ غَيْرُكَ**
"اے اللہ! بھلائی صرف تیری طرف سے ہے، اور آفت بھی وہی جو تو مقدر کرے، اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔”
**(مسند احمد ۲/۲۲۰، ۷۰۴۵، سلسلہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی ۴۳۰)**