جواب :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب بھی کسی بندے کو کوئی پریشانی اورغم لاحق ہو تو وہ یہ کلمات کہے :
« اللهم إني عبدك، وابن أمتك، ناصيتي بيدك، ماض فى حكمك، عدل فى قضاؤك، أسألك بكل اسم هو لك، سميت به نفسك أو علمته أحدا من خلقك أو أنزلته فى كتابك، أو استأثرت به فى علم الغيب عندك، أن تجعل القرآن ربيع قلبي، ونور صدري وجلاء حزني، وذهاب همي، إلا أذهب الله همه وحزنه وأبدله مكانه فرجا »
ا”ے اللہ! میں تیرا بنده، تیرے بندے کا بیٹا اور تیری بندی کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، تیرا حکم مجھ میں جاری ہے۔ میرے بارے میں تیرا فیصلہ عدل ہے، میں تجھ سے تیرے ہر اس خاص نام کے ساتھ سوال کرتا ہوں جو تو نے خود اپنا نام رکھا ہے یا اسے اپنی کتاب میں نازل کیا ہے یا اپنی مخلوق میں سے کسی کو سکھایا یا علم الغيب میں اسے اپنے پاس رکھنے کو ترجیح دی ہے کہ تو قرآن کو میرے دل کی بہار اور میرے سینے کا نور اور میرے غم کو دور کرنے والا اور میرے فکر کو لے جانے والا بنا دے۔“ [صحيح. مسند أحمد 391/1 مسند أبى يعلى 198/9 صحيح ابن حبان، رقم الحديث 972 المستدرك للحاكم 509/1]
اللہ تعالیٰ اس کے غم و فکر کو لے جاتا ہے اور اس کو بدلے میں کشادگی عطا فرماتا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
«من كثر همومه وغمومه، فليكثر من قول: لا حول ولا وقوة إلا بالله »
”جس کے غم اور پریشانیاں زیادہ ہوں، وہ کثرت سے «لا حول ولا قوة إلا بالله»، (نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کی طاقت نہیں مگر اللہ کے ساتھ) پڑھے۔“
صحیحین میں مروی ہے :
« أنها كنز من كنوز الجنة»
”وہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 6409 صحيح مسلم، رقم الحديث 2704]