غلام مصطفی نوری کی کتاب ترک رفع یدین میں تضاد بیانیاں اور جھوٹ
ماخوذ: ماہنامہ الحدیث، حضرو

نوری صاحب کی تضاد بیانیاں

نحمده و نصلي على رسوله الكريم، أما بعد:

غلام مصطفی نوری صاحب نے ایک کتاب ترک رفع یدین لکھی ہے جس میں ان کی بہت زیادہ تضاد بیانیاں ہیں، مثلاً ایک ہی راوی جب اس کی مرضی کے مطابق آیا تو اس کو ثقہ قرار دیا اور جب مرضی کے خلاف آیا تو اس پر جرح کر کے اس کو رد کر دیا ، اس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں:

❀نوری صاحب نے سجدوں کی رفع الیدین ثابت کرنے کے لیے ایک روایت پیش کی جس کے بارے میں لکھا: ’’اس سند میں غیر مقلدین اسماعیل بن عیاش پر کلام کرتے ہیں کہ وہ ضعیف ہے مختصراً اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ اسماعیل بن عیاش کے متعلق اپنی کتاب القول المسدد في الذب عن مسند أحمد میں فرماتے ہیں: بعض حضرات نے تو مطلقاً اسماعیل بن عیاش کو ثقہ قرار دیا ہے۔ محدث یعقوب بن سفیان نے کہا کہ کچھ لوگوں نے اسماعیل میں کلام کیا ہے حالانکہ اسماعیل بن عیاش ثقہ اور عادل راوی ہے۔ تو اس گفتگو سے معلوم ہوا کہ یہ بیج مرفوع حدیث ہے۔‘‘
(ص 293)

تضاد:

یہی اسماعیل بن عیاش جب رفع الیدین کرنے کی روایت میں آیا تو نوری صاحب نے لکھا ’’اس کی سند میں اسماعیل بن عیاش ہے حافظ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے تہذیب میں اس پر جرح و تعدیل کے اقوال نقل کیے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسماعیل بن عیاش جب بھی شام میں سے کسی سے روایت کرے تو یہ ثقہ اور جب اہل مدینہ اور شہر والے سے روایت کرے تو اس کی حدیث حجت نہیں رہتی۔ زیر بحث روایت میں اس نے صالح بن کیسان سے روایت کی ہے اور وہ اہل مدینہ سے ہیں اور اہل مدینہ سے یہ جب روایت کرے تو حجت نہیں ہوتا بس واضح ہو گیا کہ یہ روایت حجت نہیں ہے۔ نہ اس سے استدلال درست ہے ۔‘‘ (ص445)

پہلی روایت میں نوری صاحب نے اس کی حدیث کو صحیح کہا ہے، حالانکہ وہ بھی اس نے صالح بن کیسان سے بیان کی تھی، چونکہ وہ نوری صاحب کی تائید میں تھی اس لیے صحیح تھی اور یہ ان کے خلاف تھی اس لیے یہ ضعیف ہو گئی۔
❀ایک راوی جو نوری صاحب کی مرضی کے خلاف روایت میں آیا تو اس کے متعلق لکھا: ’’تا ہم اس سند میں حکم بن عتیبہ ہے جو کہ مجہول ہے۔‘‘ (ص453)

تضاد:

جب یہی راوی نوری صاحب کی مرضی کی روایت میں آیا تو نوری صاحب نے لکھا: ’’اس سند کا پانچواں راوی حکم بن عتیبہ ہے یہ بھی ثقہ ہے۔‘‘ (ص 462)

نوری صاحب اپنی عبارت کے آئینے میں کیسے دکھتے ہیں، چنانچہ ملاحظہ کیجیے:

’’راویوں پر بد اعتمادی ہے غیر مقلدین کی کہ ایک راوی بخاری میں آئے تو ثقہ اور اس کی حدیث صحیح ہوتی ہے۔ وہی راوی بخاری کے علاوہ کسی ایسی حدیث میں آجائے جو غیر مقلدین کے مزاج کے خلاف ہو تو پھر خدا کی پناہ اس راوی کو شہید کرنے کے لیے عزم صمیم کر لیتے ہیں اور اس پر جرح کرتے کرتے کئی کئی ورق سیاہ کر ڈالتے ہیں جو راوی بخاری میں ثقہ تھا اب وہ ضعیف بن گیا کیونکہ اس نے وہ حدیث بیان کی جو غیر مقلدین کے عمل و مزاج کے خلاف ہے یہ ہے غیر مقلدین کی دیانتداری اور انصاف ۔‘‘ (ص259)
وہ الزام ہم کو دیتے ہیں قصور اپنا نکل آیا

❀محمد بن فضیل ایک راوی ہیں جن کے بارے میں نوری صاحب لکھتے ہیں : ’’پھر اس اثر کی سند میں محمد بن فضیل ہے جس کے متعلق ابو داود نے کہا یہ شیعہ ہے ۔ ابن سعد نے کہا اس کے ساتھ دلیل نہ پکڑی جائے ۔‘‘ (ص424)

تضاد:

دوسری جگہ نوری صاحب نے محمد بن فضیل کی بیان کردہ روایت کی سند کے بارے میں لکھا: ’’اس سند کے تمام راوی صحیح بخاری شریف کے راوی ہیں اور ثقہ ثبت ہیں ۔‘‘ (ص 457)
❀ایک تابعی محارب بن دثار رحمتہ اللہ جب رفع الیدین کرنے کی ایک حدیث کی سند میں آئے تو نوری صاحب نے امام بخاری کا رد کرتے ہوئے لکھا: ’’اس کی سند میں محارب بن دثا ر ہے، جس کے متعلق امام ابن سعد نے کہا: لا يحتجون به کہ محدثین اس کے ساتھ دلیل نہیں پکڑتے ۔ پھر یہ شخص سیدنا عثمان غنی ذوالنورین رضی الله عنه اور حضرت سیدنا علی رضی الله عنه کے متعلق اس کے نظریات درست نہیں تھے تعجب ہے ایسے لوگوں سے جو رفع الیدین پر دلیل پکڑتے ہیں ۔‘‘ (ص 423-424)

نیز محارب بن دثار کو متکلم فیہ قرار دے کر میزان الاعتدال سے جرح نقل کرنے کے بعد نوری صاحب لکھتے ہیں: ’’اب آپ خود غور کریں کیا ایسے شخص کی روایت حجت ہو سکتی ہے۔ جو حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی الله عنه اور حضرت علی شیر خدا رضی الله عنه کا گستاخ ہو۔‘‘ (ص440)

تضاد:

پھر دوسری جگہ اسی کتاب میں نوری صاحب محارب بن دثار کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’حضرت محارب بن دثار جو کہ کوفہ کے قاضی تھے اور صاحب علم وفضل تھے ۔‘‘ (ص 256)
❀نوری صاحب ایک حدیث کے متعلق لکھتے ہیں : ’’پھر اس کی سند میں ایک راوی ابو ہلال محمد بن سلیم ابو ہلال الرابسی البصری ہے پھر اس کے متعلق محدثین کی جرح نقل کی اور لکھا: ” اس تفصیلی گفتگو سے واضح ہو گیا کہ یہ اثر صحیح نہیں بلکہ انتہائی کمزور ہے۔‘‘ (426-427)

تضاد:

جب اپنا مفاد عزیز ہوا تو پھر اسی راوی کی اسی روایت سے استدلال بھی کیا۔
(236-237)
❀نوری صاحب ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’اس کی سند میں عکرمہ بن عمار ہے جو کہ ضعیف ہے۔‘‘ الخ (ص253)

 تضاد:

اور پھر دوسری جگہ اسی عکرمہ بن عمار کی روایت سے استدلال بھی کیا۔ (ص 289)

❀ایک راوی ابراہیم بن منذر کی روایت نوری صاحب کی طبیعت کے خلاف آئی تو انھوں نے اس پر رد کرتے ہوئے لکھا: لیکن یہ اثر بھی سند ضعیف ہے۔ اس کی سند میں ایک راوی ابراہیم بن منذر ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔

’’اگر چہ اس کی بعض نے توثیق بھی کی ہے تاہم امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ اس میں کلام کرتے تھے اور اس کی مذمت کرتے تھے۔ ذکر یا ساجی کہتے ہیں : اس کے پاس منکر روایات ہیں علامہ ذہبی میزان میں لکھتے ہیں کہ اس نے امام احمد بن حنبل علیہ الرحمہ کو سلام کیا لیکن آپ نے اس کے سلام کا جواب بھی نہیں دیا۔ ذکر یا ساجی نے کہا کہ اس کے پاس منکر روایات ہیں۔‘‘ (ص441)

تضاد:

لیکن دوسری جگہ اسی راوی کی اسی روایت سے استدلال بھی کیا۔ (ص 237)
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے

❀نوری صاحب ایک راوی ابراہیم بن طہمان کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’اس کی سند میں ایک راوی ابراہیم بن طہمان ہے یہ بھی ضعیف ہے ۔‘‘ ( ص 441)

تضاد:

اور اپنی اس کتاب کے صفحہ ۲۳۷ پر ابراہیم بن طہمان کی روایت سے استدلال بھی کیا۔

❀نوری صاحب رفع الیدین کرنے کی ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :

’’اس کا چوتھا جواب : یہ ہے کہ اس کی سند میں حمید طویل ہے مناسب ہے کہ اس کے متعلق غیر مقلدین کے محدث علامہ عبد الرحمان مبارک پوری کی ہی رائے پیش کر دی جائے تاکہ غیر مقلدین کو انکار کرنے میں کچھ تو شرم محسوس ہو ( بشر طیکہ اگر ہو بھی ) مبارک پوری نے اپنی کتاب ابکار لمن میں ایک حدیث کی صحت کا انکار صرف اس لیے کر دیا ہے کہ اس کی سند میں یہی حمید طویل راوی ہے…. الخ خلاصہ اس عبارت کا یہ ہے کہ مبارک پوری نے کہا کہ میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں حمید طویل ہے اور وہ مدلس ہے اس نے حضرت انس رضی الله عنه سے عن کے ساتھ روایت کی ہے تو یہ روایت کیسے جید ہو سکتی ہے اور اس کا مدلس ہونا حافظ ابن حجر عسقلانی نے طبقات المدلسین میں بیان کیا ہے۔ تو ناظرین ثابت ہو گیا کہ مبارک پوری کے نزدیک بھی یہ روایت درست نہیں ہے کیونکہ اس میں بھی حمید طویل ہے اور اس نے حضرت انس رضی الله عنه سے عمن کے ساتھ روایت کی ہے جو کہ غیر مقلدین کے نزدیک حجت نہیں۔ پس واضح ہو گیا کہ حضرت انس رضی الله عنه کی حدیث موقوف حجت نہیں ۔‘‘ (ص379)

تضاد:

پھر ایک روایت جونوری صاحب کی طبیعت کے موافق تھی اسے بھی حمید طویل نے لفظ عن سے بیان کیا تو نوری صاحب نے کہا: ’’معلوم ہوا حضرت انس رضی الله عنه کی ثقہ صحیح حدیث میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین ہے اور کسی جگہ نہیں ۔‘‘ (ص 224)
آتی نہیں شرم مگر تجھے
نوری صاحب کی اپنی زبانی کچھ تو شرم محسوس ہو بشر طیکہ ہو بھی ۔
❀نوری صاحب لکھتے ہیں : ’’حافظ الدنیا علامہ ابن حجر عسقلانی نے طبقات المدلسین میں مدلس کو پانچ طبقات میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے طبقہ کی تدلیس بہت ہی کم ہے بالا تفاق قبول ہے۔ دوسرے طبقہ کی تدلیس کو بھی ائمہ نے قبول کیا ہے اور تیسرے طبقہ کے مدلسین جب تک سماع کی صراحت نہ کریں وہ قبول نہیں ۔‘‘ (ص463)

تضاد:

اور حمید طویل کو حافظ ابن حجر نے طبقہ ثالثہ میں ذکر کیا ہے۔ (طبقات المدلسین ت ۷) ایک روایت جسے حمید طویل نے لفظ عن کے ساتھ بیان کیا ہے لیکن وہ نوری صاحب کے مطلب کی تھی ، لہذا نوری صاحب نے لکھا: ’’لیکن امام ابو یعلی نے اپنی سند میں سند صحیح کے ساتھ اس حدیث کو مرفوع بیان کیا ہے۔‘‘ (ص285)

اب یہ روایت نوری صاحب کے مطلب کی تھی اس لیے نوری صاحب کو نہ حافظ ابن حجر کی طبقاتی تقسیم یا درہی اور نہ حمید طویل کی تدلیس نظر آئی۔ کیا خوب انصاف ہے؟

❀ نوری صاحب ایک راوی ابو قلابہ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’پھر اس میں ابو قلا بہ خود متکلم فیہ ہے یہ مدلس ہے اور یہ روایت عن سے ہے جو کہ حجت نہیں ۔‘‘ (ص 444-443)

 تضاد:

حالانکہ نوری صاحب نے خود لکھا ہے کہ پہلے طبقہ کی تدلیس بہت ہی کم ہے ۔ بالا تفاق قبول ہے۔ (ص 463) اور ابو قلابہ کو حافظ ابن حجر نے پہلے طبقہ ہی میں ذکر کیا ہے۔
(طبقات ت 15)

تنبیہ:

ابو قلا بہ تدلیس سے بری تھے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے افتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین ص 24
❀نوری صاحب ایک حدیث کی سند پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’لیکن اس کی سند میں ایک تو سعید بن ابی عروبہ ہیں جو کہ ثقہ ہیں لیکن مدلس ہیں اور یہ روایت بھی انھوں نے قتادہ سے لفظ عن کے ساتھ کی ہے اور جب مدلس عن کے ساتھ روایت کرے تو وہ حجت نہیں ہوتی ۔‘‘ (ص 425)

تضاد:

سعید بن ابی عرو بہ کو بھی حافظ ابن حجر نے اسی طبقے میں شمار کیا ہے جس طبقے میں سفیان ثوری ہیں۔ سفیان ثوری کی عن والی روایت کو کبار ائمہ نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن وہ نوری صاحب کے مطلب کی تھی، چنانچہ اسے صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا ہے۔ یہاں یہ روایت ان کے خلاف تھی تو اس کو ضعیف قرار دے دیا گیا۔ کیا یہی انصاف ہے؟

❀نوری صاحب لکھتے ہیں : پہلے طبقے کی تدلیس بہت ہی کم ہے۔ بالا تفاق قبول ہے۔
(ص 463)

تضاد:

لیکن دوسری طرف ایک روایت جونوری صاحب کی طبیعت کے خلاف تھی اور اس کی سند میں ایک یحیی بن سعید ہیں جنھیں حافظ ابن حجر نے پہلے طبقہ میں ذکر کیا ہے۔
(دیکھئے ت32)
اس کا رد کرتے ہوئے نوری صاحب لکھتے ہیں: ’’سلمان بن بسیار علیہ الرحمہ سے روایت کرنے والے جناب یحیی بن سعید ہیں یہ اگر چہ ثقہ ثبت حجت ہیں لیکن امام دمیاطی علیہ الرحمہ نے کہا کہ کہا جاتا ہے یہ تدلیس کرتا تھا اور مدلس جب عن سے روایت کرے تو وہ حجت نہیں خصوصاً غیر مقلدین کے نزدیک مذکورہ بالا روایات کو بھی یحیی بن سعید نے عن سے روایت کیا ہے لہذا یہ بھی پھر حجت نہیں ۔‘‘ (ص382)

لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
قارئین کرام! ذرا غور کریں کہ نوری صاحب نے کس طرح دجل و فریب سے کام لیا ہے۔ ایک ہی راوی جب مرضی کے مطابق آیا تو اس کی توثیق کر دی ، اس کی روایت سے استدلال کیا اور اسی راوی کی روایت جب مرضی کے خلاف آئی تو نوری صاحب نے اس راوی پر جرح کر کے اس کی روایت کو رد کر دیا ۔ خود ہی ایک قاعدہ بنا کر پھر خود ہی اس کو توڑ دیا ۔ کیا انصاف اسی کا نام ہے؟

ہمیں پتا ہے کہ نوری صاحب کی یہ مجبوری ہے، اگر وہ اس طرح کی ہیرا پھیری نہ کریں تو ان کی دکان بند ہو جاتی ہے۔

اس لیے یہ لوگ دن رات سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور اپنے مسلک کی خاطر صحیح احادیث کو ضعیف اور ضعیف احادیث کو صحیح ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں لیکن سوچنا چاہیے کہ ایک دن مرنا ہے اور مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش بھی ہونا ہے۔ تو وہاں کیا جواب دیں گے؟

تنبیه:

یحیی بن سعید تدلیس سے بری ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھئے الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین (ت ۳۲ ص ۳۲،۳۱)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کو حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
وما علينا إلا البلاغ المبين

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے