سوال
کیافرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ میں کہ مسمات غلام صغریٰ فوت ہوگئیں۔ انہوں نے وارث چھوڑے:
◄ ایک سگی بہن
◄ کچھ بہنیں جو صرف والد کی طرف سے مشترک ہیں
◄ غلام صغریٰ کے والد کا چچازاد بھائی محمد علی
(2) صورت:
مسمات غلام صغریٰ نے اپنی زندگی میں بغیر کسی دباؤ اور زبردستی کے، صحیح دماغ اور ہوش و حواس کے ساتھ کچھ جائیداد اپنے بھانجے کو ہبہ کردی اور ساتھ ہی کہا کہ جب تک میں زندہ ہوں، یہ جائیداد میرے قبضے میں رہے گی۔ میری وفات کے بعد یہ جائیداد میرے بھانجوں کو دے دی جائے، اور باقی غیر ہبہ شدہ جائیداد محکمہ اوقاف کو دے دی جائے۔
پوچھا گیا کہ شریعت محمدی ﷺ کے مطابق یہ جائیداد کس طرح تقسیم ہوگی؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ مرحومہ مسمات غلام صغریٰ کی جائیداد سے:
➊ پہلے کفن دفن کا خرچ نکالا جائے گا۔
➋ پھر اگر ان پر کوئی قرض تھا تو وہ ادا کیا جائے گا۔
➌ اس کے بعد ان کی وصیت (اگر کی ہو) کو ان کی کل جائیداد کے تیسرے حصے سے پورا کیا جائے گا۔
اس کے بعد بچی ہوئی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کو ایک مکمل رقم (یعنی ایک اکائی) قرار دے کر شرعی تقسیم کی جائے گی۔
ہبہ کی حقیقت
◄ مسمات غلام صغریٰ نے جو ہبہ کیا تھا، وہ برقرار نہیں رہے گا بلکہ وصیت میں تبدیل ہو جائے گا۔
◄ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ہبہ تو کیا لیکن قبضہ اپنے پاس رکھا، لہٰذا یہ ہبہ وصیت میں شمار ہوگا۔
◄ وصیت کا حکم یہ ہے کہ وہ کل مال کے تیسرے حصے تک ہی نافذ ہوگی۔
لہٰذا:
◈ غلام صغریٰ کی جو زمین بھانجوں کے لیے ہبہ کی گئی تھی، اس کا تیسرا حصہ (4 پائیاں، 5 آنے) بھانجوں کو دیا جائے گا۔
◈ باقی جائیداد (8 پائیاں 10 آنے) ورثاء میں تقسیم ہوگی۔
تقسیم جائیداد
کل جائیداد: 8 پائیاں 10 آنے
ورثاء کی تقسیم:
◈ سگی بہن: 4 پائیاں 5 آنے
◈ والد کی طرف سے بہن (علاتی بہن): 6 پائی 1 آنہ مشترک
◈ والد کا چچازاد (عصبہ): 8 پائیاں
شرعی دلائل
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَلَهُۥٓ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ﴾ (النساء)
حدیث پاک:
((ألحقوا الفرائض بأهلها فمابقى فلأولى رجل ذكر.))
صحیح بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث ابن الابن إذا لم يكن ابن، رقم الحدیث: 6735
صحیح مسلم، کتاب الفرائض، باب ألحقوا الفرائض بأهلها، رقم: 4141
جدید اعشاری فیصدی حساب
کل جائیداد = 100 فیصد
◈ سگی بہن: 2/1 = 50٪
◈ علَاتی بہن: 6/1 = 16.66٪
◈ والد کا چچازاد (عصبہ): 33.34٪
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب