غلام سے ایسا معاملہ طے کرنا کہ وہ کچھ رقم دے کر آزاد ہو جائے
تحریر: عمران ایوب لاہوری

غلام سے ایسا معاملہ طے کرنا کہ وہ کچھ رقم دے کر آزاد ہو جائے جائز ہے مکمل ادائیگی کے وقت وہ آزاد ہو جائے گا اور جتنا مال ادا کرے گا اتنا ہی آزاد ہوتا جائے گا
مکاتب ایسے غلام کو کہتے ہیں جس سے مخصوص معاوضے کے بدلے آزادی کا معاہدہ ہو ۔
[سبل السلام: 1964/4 ، قفو الأثر: 1785/5]
➊ ارشاد باری تعالی ہے کہ :
فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا ۖ وَآتُوهُم مِّن مَّالِ اللَّهِ الَّذِي آتَاكُمْ [النور: 33]
”تمہارے غلاموں میں سے جو کوئی کچھ تمہیں دے کر آزادی کی تحریر کرانی چاہے تو تم ایسی تحریر انہیں کر دیا کرو اگر تم کو ان میں بھلائی نظر آتی ہو اور اللہ نے جو مال تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے انہیں بھی دو ۔“
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يودى المكاتب بقدر ما عتق منه دية الحر ، وبقدر ما رق منه دية العبد
”مکاتب جس قدر آزاد ہے اتنی آزاد کی دیت ادا کرے گا اور جتنا غلام ہے اتنی غلام کی ۔“
[صحيح: إرواء الغليل: 1726 ، ابو داود: 4581 ، كتاب الديات: باب فى دية المكاتب ، نسائي: 4809 ، احمد: 260/1 ، ترمذي: 560/3 ، حاكم: 618/2 ، بيهقي: 326/10]
بعض حضرات کا مؤقف یہ ہے کہ مکاتب طے شدہ رقم کی مکمل ادائیگی سے پہلے غلام ہی رہے گا خواہ اس نے نصف سے بھی زیادہ رقم ادا کر دی ہو۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے:
أيما عبد كوتب بمائة أوقية فأدا ها إلا عشر أوقيات فهو رقيق
”جس غلام سے سو اُوقیہ کے عوض مکاتبت کی گئی اور اس نے دس اُوقیہ کے علاوہ بقیہ رقم ادا کر دی تو وہ غلام ہی ہے ۔“
[حسن: إرواء الغليل: 1674 ، احمد: 184/2 ، ابو داود: 3928 ، كتاب العتق: باب فى المكاتب يودي بعض كتابته فيعجز أو يموت ، ابن ماجة: 2519 ، ترمذى: 1260 ، حاكم: 218/2]
ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المكاتب عبد ما بقى عليه من مكاتبته درهم
”مكاتب غلام ہی ہے جب تک اس پر ایک درہم بھی باقی ہے ۔“
[حسن: صحيح ابو داود: 3323 ، كتاب العتق: باب فى المكاتب يؤدى بعض كتابته أو يموت ، ابو داود: 3926]
فی الحقیقت بظاہر متعارض ہونے کے باوجود یہ احادیث متعارض نہیں ہیں کیونکہ ان میں جمع وتطبیق ممکن ہے اور وہ اس طرح کہ ”جتنی رقم کی ادائیگی ابھی باقی ہے وہ اتنا غلام ہی ہے اگرچہ ایک درہم کے برابر ہی کیوں نہ ہو اور جتنی رقم ادا کر چکا ہے اتنا وہ آزاد ہے ۔“
[نيل الأوطار: 165/4 ، الروضة الندية: 331/2]
اس مسئلے میں اہل علم نے اختلاف کیا ہے اور اس میں علما کے مختلف مذاہب ہیں:
اول: جب تک غلام مکمل رقم ادا نہ کر دے کچھ بھی آزاد نہیں ہو گا۔ حضرت عمر ، حضرت زید ، حضرت ابن عمر ، حضرت عائشہ ، حضرت أم سلمه رضی اللہ عنہم ، امام مالک ، امام شافعی ، امام ابو حنیفہ اور امام اسحٰق رحمہم اللہ سے بھی یہی قول منقول ہے۔
ثانی: ادائیگی کے مطابق آزادی ہوتی جائے گی ۔ یہ قول حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔
ثالث: نصف رقم ادا کرنے کے بعد وہ غلام نہیں رہے گا البتہ باقی رقم ادا کرنا اس پر لازم ہو گا۔ یہ قول حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور امام ابراہیم نخعیؒ سے روایت کیا جاتا ہے ۔
رابع: مکاتبت کی رقم کا تین ربع ادا کر دے جبکہ چوتھے ربع کی ادائیگی سے عاجز آ جائے تو وہ آزاد ہے۔ یہ قول ابوبکر بن عبد العزیزؒ اور ابو الخطابؒ کی طرف منسوب ہے۔
خامس: مکاتب غلام جب مکاتبت کی رقم کا مالک بن جائے تو آزاد ہے اگرچہ ابھی ادائیگی نہ کی ہو۔ یہ قول امام احمدؒ کی طرف منسوب روایات میں سے ایک ہے ۔ انہوں نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے وہ یہ ہے:
إذا كان لإحداكن مكاتب فكان عنده ما يؤدى فلتحتجب منه
”جب تم میں سے کسی کا مکاتب غلام ہو اور اس کے پاس ادائیگی کی رقم موجود ہو تو وہ اس سے حجاب کرے ۔“
[ضعيف: ضعيف ابو داود: 848 ، كتاب العتق: باب فى المكاتب يؤدى بعض كتابته فيعجز أو يموت ، إرواء الغليل: 1769 ، المشكاة: 3400 ، ابو داود: 3928 ، ترمذي: 1261 ، ابن ماجة: 2520 ، أحمد: 289/6 ، حاكم: 219/2 ، عبد الرزاق: 15729 ، مسند حميدي: 289 ، ابن حبان: 45/8 ، بيهقي: 327/10]
(راجح) جتنی رقم کی ادائیگی ابھی باقی ہے اتنا وہ غلام ہے اور جتنی رقم ادا کر چکا ہے اتنا آزاد ہے۔
[مذاهب كي تفصيل كے ليے ملاحظه هو: قفو الأثر: 1788/5 – 1789 ، عون المعبود: 427/10 – 435 ، نيل الأوطار: 164/4 – 165]

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1