غلام بھی پناہ دے سکتا ہے
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
العبد المسلم رجل من المسلمين ذمته ذمنهم
”مسلمان غلام مسلمانوں کا ہی ایک فرد ہے لٰہذا اس کی دی ہوئی پناہ تمام مسلمانوں کی پناہ کی طرح ہے ۔“
[سنن سعيد بن منصور: 233/2 ، عبد الرزاق: 222/5 ، ابن أبى شيبة: 453/12]
ثابت ہوا کہ غلام بھی کسی کافر کو پناہ دے سکتا ہے ۔
❀ (احناف ) امان کی درستگی کے لیے چار شرائط ہیں:
➊ مسلمانوں کا کمزور ہونا اور کفار کا قوت میں ہونا ۔
➋ عقل ، یعنی پاگل اور بچے کی امان درست نہیں ۔
➌ بلوغت ، یعنی نابالغ بچے کی امان درست نہیں ۔
➍ اسلام ، یعنی کافر کی امان درست نہیں ۔
[بدائع الصنائع: 106/7 ، فتح القدير: 298/4 ، تبيين الحقائق: 247/3 ، الدر المختار: 249/3]
(عمر رضی اللہ عنہ ، شافعیؒ ، ثوریؒ ، اوزاعیؒ ، اسحاقؒ ) ہر مسلمان ، بالغ ، عاقل ، خود مختار ، مرد ہو یا عورت غلام ہو یا آزاد ، کی امان درست ہے ۔
(ابو حنیفہؒ ، ابو یوسفؒ ) غلام کی امان صرف اسی صورت میں درست ہے جب اسے قتال میں شرکت کی اجازت ہو ۔
(مالکؒ ) عورت کی امان حاکم کی اجازت کے بغیر درست نہیں ۔
[المغني: 75/13 ، سبل السلام: 1790/4]
(راجح ) پہلا (یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، وغیرہ کا ) موقف راجح ہے ۔
[نيل الأوطار: 98/5]
❀ کسی مسلمان قیدی کی دی ہوئی پناہ بھی درست ہے کیونکہ وہ بھی حدیث:
ذمة المسلمين
کے عموم میں شامل ہے اور عاقل و بالغ ، مکلّف و خود مختار ہے ۔
[المغني: 77/13]