غسل کن چیزوں سے واجب ہوتا ہے؟ مکمل اسلامی رہنمائی
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

واجباتِ غسل کا تفصیلی بیان

سوال:

غسل کن کن چیزوں کی وجہ سے واجب ہوتا ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

غسل ان چند اسباب کی بنیاد پر واجب ہوتا ہے جنہیں ذیل میں تفصیل سے بیان کیا گیا ہے:

(1) شہوت کے ساتھ منی کا انزال

◈ اگر حالت بیداری میں یا نیند کے دوران شہوت کے ساتھ منی خارج ہو تو غسل واجب ہو جاتا ہے۔
◈ اگرچہ نیند میں شہوت کا احساس نہیں ہوتا، لیکن چونکہ نیند میں احتلام ممکن ہے، اس لیے منی کے انزال پر غسل واجب ہے، چاہے شہوت کا احساس نہ ہو۔
◈ جب بھی منی شہوت کے ساتھ خارج ہو، ہر حال میں غسل فرض ہو جاتا ہے۔

(2) جماع (ہم بستری)

◈ اگر مرد اپنی بیوی کے ساتھ جماع کرے اور عضو مخصوص کو اس کی شرمگاہ میں داخل کرے، تو اس صورت میں بھی غسل واجب ہو جاتا ہے، چاہے صرف حشفہ (عضو کا اگلا حصہ) داخل ہو یا زیادہ حصہ۔

اس سلسلے میں دو احادیث وارد ہوئی ہیں:

پہلی حدیث:
«الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ»
(صحیح مسلم، الحيض، باب انما الماء من الماء، ح: ۳۴۳)
"پانی کا استعمال پانی نکلنے سے ہے۔”
یعنی اس وقت غسل واجب ہوتا ہے جب انزال ہو۔

دوسری حدیث:
«إِذَا جَلَسَ بَيْنَ شُعَبِهَا الْأَرْبَعِ ثُمَّ جَهَدَهَا فَقَدْ وَجَبَ الْغَسْلُ وَإِنْ لَمْ يُنْزِلْ»
(صحیح البخاري، الغسل، باب اذا التقی الختانان، ح: ۲۹۱ وصحيح مسلم، الحيض، باب نسخ الماء من الماء، ح: ۳۴۸، واللفظ له)
"جب وہ اس کی چار شاخوں کے درمیان بیٹھے اور جماع کے لیے کوشش کرے تو غسل واجب ہو جاتا ہے، اگرچہ انزال نہ ہو۔”

◈ اس حدیث کی روشنی میں اگر مرد و عورت کے درمیان جماع ہو جائے، مگر انزال نہ ہو، تو بھی دونوں پر غسل فرض ہو جاتا ہے۔
◈ بعض لوگ اس مسئلہ سے ناواقف ہوتے ہیں اور انزال نہ ہونے کی صورت میں غسل نہیں کرتے، حالانکہ یہ بہت اہم اور سنجیدہ معاملہ ہے۔
◈ ضروری ہے کہ مسلمان ان حدود کا علم حاصل کرے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ پر نازل فرمائی ہیں۔

(3) حیض اور نفاس

◈ عورت کو جب حیض آئے اور ختم ہو جائے تو غسل واجب ہے۔
◈ اسی طرح نفاس کا خون بند ہونے کے بعد بھی غسل فرض ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے:
﴿وَيَسـَٔلونَكَ عَنِ المَحيضِ قُل هُوَ أَذًى فَاعتَزِلُوا النِّساءَ فِى المَحيضِ وَلا تَقرَبوهُنَّ حَتّى يَطهُرنَ فَإِذا تَطَهَّرنَ فَأتوهُنَّ مِن حَيثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوّبينَ وَيُحِبُّ المُتَطَهِّرينَ ﴾
… سورة البقرة: 222
"اور تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، کہہ دو وہ تو نجاست ہے، سو ایام حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں ان سے مقاربت نہ کرو۔ ہاں جب پاک ہو جائیں تو جس طریق سے اللہ نے تمہیں حکم دیا ہے، ان کے پاس جاؤ۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ توبہ قبول کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔”

◈ نبی کریم ﷺ نے مستحاضہ کو حکم دیا تھا کہ جب وہ ایامِ حیض کے برابر وقت بیٹھ جائے تو غسل کر لے۔
◈ حیض و نفاس کے بعد غسل کا طریقہ وہی ہے جو جنابت کے غسل کا طریقہ ہے۔

اضافی ہدایت:
◈ بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ حائضہ عورت غسل کرتے وقت بیری کے پتے پانی میں ڈال لے کیونکہ یہ صفائی و طہارت میں زیادہ مفید ہے۔

(4) موت

◈ بعض علماء نے موت کو بھی غسل واجب ہونے کی وجہ قرار دیا ہے۔

ان کا استدلال نبی کریم ﷺ کے درج ذیل ارشادات سے ہے:

بیٹی کے غسل کے بارے میں فرمایا:
«اِغْسِلْنَهَا ثَـلَاثًا، أَوْ خَمْسًا، أَوْ سَبْعًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذٰلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذٰلِكَ»
(صحيح البخاري، الجنائز، باب غسل الميت ووضوئه بالماء والسدر، ح: ۱۲۵۳ وصحيح مسلم، الجنائز، باب فی غسل الميت، ح: ۹۳۹)
"اسے تین، پانچ یا سات بار، یا اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ بار غسل دو۔”

محرم کی موت پر فرمایا:
«اِغْسِلُوْهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَکَفِّنُوْهُ فِي ثَوْبَيْهِ»
(صحیح البخاري، الجنائز، باب کیف یکفن المحرم، ح: ۱۲۵۶۷ وصحيح مسلم، الحج، باب ما يفعل بالمحرم اذا مات، ح: ۱۲۰۶، واللفظ له)
"اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اس کے دو کپڑوں ہی میں کفن دو۔”

◈ ان احادیث کی بنیاد پر علماء کہتے ہیں کہ موت بھی غسل واجب کرنے والا سبب ہے۔
◈ تاہم یہ وجوب زندہ لوگوں پر لاگو ہوتا ہے کیونکہ مرنے والا شریعت کے احکام کا مکلف نہیں رہتا۔
◈ زندہ لوگوں پر نبی ﷺ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میت کو غسل دینا واجب ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1