غسل کے مسائل
غسل جنابت کا مسنون طریقہ:
❀ ہر عمل کی طرح غسل بھی وہی صحیح ہوگا جو مسنون ہوگا، ورنہ نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ
(33-محمد:47)
”اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور ان کی اطاعت سے منہ موڑ کر اپنے اعمال برباد نہ کرو۔“
❀ہر کام کا دارو مدار نیت پر ہے، لہذا غسل کرتے ہوئے طہارت کی نیت کریں۔
❀پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھو کر بائیں ہاتھ سے گندگی وغیرہ صاف کریں اور استنجا کریں۔ مٹی یا صابن وغیرہ سے ہاتھ پاک کریں۔
❀ پھر وضو کریں، لیکن سر کا مسح نہ کریں اور پاؤں نہ دھوئیں۔ (وضو کا تفصیلی طریقہ وضو کے باب میں پڑھ لیں)۔
❀ پھر اپنی انگلیوں کو تر کر کے سر کے بالوں کا خلال کریں اور بعد میں تین چلو بھر کر پانی ڈالیں اور بالوں میں انگلیاں ڈال کر اچھی طرح ملیں، تاکہ بالوں کے نیچے جلد تر ہو جائے۔
❀تین چلو اس طرح ڈالیں کہ پہلے دائیں طرف، پھر بائیں طرف اور پھر درمیان میں۔
❀پھر سارا بدن دھو لیں۔
❀غسل والی جگہ سے ایک طرف ہو کر پاؤں دھو لیں۔ (بخاری، کتاب الغسل، باب من توضأ في الجنابة ثم غسل الخ : 248، 272، 274۔ مسلم : 316)
❀ اگر عورت نے غسل جنابت کے وقت سر کے بالوں کی مینڈھیاں کی ہوئی ہیں تو انھیں کھولنا ضروری نہیں، بلکہ تین چلو پانی بہا دینا ہی کافی ہے۔
(مسلم، کتاب الحیض، باب حكم ضفائر المغتسلة : 330)
❀ غسل حیض کا بھی یہی حکم ہے۔ کیونکہ مسلم کی مذکورہ بالا اسی حدیث میں ایک دوسری سند سے یہ الفاظ بھی ہیں: فانقضيه للحيضة والجنابة؟ فقال لا ”کیا میں بالوں کی مینڈھیاں غسل حیض اور غسل جنابت کے وقت کھولا کروں؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں کوئی ضرورت نہیں۔“
اور بخاری (316) اور سلسلہ صحیحہ (188) وغیرہ کی جس حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو سر کے بال کھولنے کا حکم دیا تھا، وہ غسل حیض نہیں تھا، بلکہ غسل احرام تھا، کیونکہ اس وقت تک تو عائشہ رضی اللہ عنہا پاک نہیں ہوئی تھیں۔
غسل میں صابن کا استعمال:
❀ صابن اور شیمپو وغیرہ غسل جنابت کے لیے ضروری نہیں، ہاں اگر کوئی صابن یا شیمپو استعمال کرے تو جائز ہے۔
برہنہ ہو کر غسل کرنا:
❀ غسل پردے میں کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پردہ کیا جبکہ وہ غسل کر رہے تھے۔“
(بخاری، کتاب الغسل، باب التستر في الغسل عند الناس : 281۔ مسلم : 337)
❀ تنہائی میں ننگے ہو کر غسل کرنا جائز ہے، لیکن تنہائی میں بھی پردہ کیا جائے تو افضل ہے۔
(بخاری، کتاب الغسل، باب من اغتسل عريانا وحده في الخلوة : 278۔ أبو داود : 4012۔ صحیح)
میاں بیوی کا اکٹھے غسل کرنا:
❀ خاوند اور بیوی اکٹھے غسل کر سکتے ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ”میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اکٹھے ایک برتن سے اس طرح غسل کرتے کہ ہمارے ہاتھ باری باری اس میں پڑتے تھے۔“
(بخاری، کتاب الغسل، باب هل يدخل يده في الخ : 261۔ مسلم : 321/45)
غسل کے بعد دوبارہ وضو کی ضرورت نہیں:
غسل والے وضو سے نماز پڑھی جا سکتی ہے، الگ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کے بعد وضو نہیں کرتے تھے۔“
(نسائی، کتاب الطهارة، باب ترك الوضوء من بعد الغسل : 253۔ ترمذی : 107۔ صحیح)
لیکن دوران غسل میں اگر کسی وجہ سے وضو ٹوٹ گیا، مثلاً شرم گاہ کو ہاتھ لگنے سے، تو نماز کے لیے نیا وضو کرنا پڑے گا۔
غسل میں جرابوں پر مسح جائز نہیں :
غسل فرض ہو جائے تو مسح بھی ختم ہو جاتا ہے، یعنی غسل میں پاؤں پر مسح جائز نہیں۔ سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں حکم دیا کرتے تھے کہ ہم سفر میں تین دن رات تک پاخانہ، پیشاب اور نیند کی وجہ سے اپنے موزے نہ اتاریں، لیکن جنبی ہونے پر اتارنے ہوں گے۔“
(ترمذی، کتاب الطهارة، باب مسح على الخفين للمسافر والمقيم : 96۔ نسائی : 127۔ ابن ماجه : 478۔ حسن)
غسل میں کتنا پانی استعمال کرنا چاہیے:
طہارت میں پانی بقدر ضرورت استعمال کرنا چاہیے، ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا گناہ ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ
(6-الأنعام:141)
”اسراف نہ کرو، کیونکہ اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع تقریباً دو کلو سے پانچ مدوں تقریباً تین کلو تک پانی سے غسل کرتے تھے۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب الوضوء بالمد : 201۔ مسلم : 325/51)
غسل کب فرض ہوتا ہے؟
غسل پانچ صورتوں میں فرض ہوتا ہے: جماع۔ احتلام۔ حیض و نفاس۔ قبول اسلام۔ موت۔
جماع سے غسل:
جماع سے غسل فرض ہو جائے گا، اگر چہ انزال نہ ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا جلس بين شعبها الأربع ثم جهدها فقد وجب عليه الغسل وإن لم ينزل
”جب مرد عورت کی چار شاخوں کے درمیان جماع کے لیے بیٹھے اور کوشش کرے تو ان پر غسل واجب ہو جاتا ہے، اگر چہ انزال نہ ہو۔“
(بخاری، کتاب الغسل، باب إذا التقى الختانان : 291۔ مسلم : 348)
جنابت میں ممنوع کام:
❀ حالت جنابت میں نماز اور طواف بیت اللہ ممنوع ہے، کیونکہ ان کے لیے طہارت شرط ہے۔
❀ بلا وجہ عبادات کو مؤخر کرنا گناہ ہے، لہذا جلدی غسل کر کے یہ فرائض ادا کر لینے چاہییں۔
دوبارہ جماع کے لیے غسل اور وضو:
دوبارہ جماع کے لیے غسل کر لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ سیدنا ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات اپنی تمام ازواج کے پاس گئے اور ہر ایک کے پاس غسل کیا، آپ سے پوچھا گیا: ”اے اللہ کے رسول! کیا ایک ہی غسل کافی نہیں؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ طریقہ زیادہ پاک، زیادہ اچھا اور زیادہ طہارت والا ہے۔“
(ابن ماجه، کتاب الطهارة، باب فيمن يغتسل عند كل واحدة غسلا : 590۔ أبو داود : 219۔ حسن)
دوبارہ جماع کرنا ہو تو وضو کر لینا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إذا أتىٰ أحدكم أهله ثم أراد أن يعود فليتوضأ
”جب کوئی شخص اپنی بیوی سے جماع کرے، پھر دوبارہ جماع کرنا چاہے تو اسے وضو کر لینا چاہیے۔“
(مسلم، کتاب الحيض، باب جواز النوم الجنب الخ : 308)
احتلام سے غسل:
❀ احتلام یہ ہے کہ سوتے یا جاگتے میں شہوت سے جوش کے ساتھ منی خارج ہو۔
❀ احتلام مردوں کو عام طور پر اور عورتوں کو کبھی کبھار ہوتا ہے۔
❀ کپڑے پر احتلام کے نشان ہوں تو غسل کرنا چاہیے، اگر چہ احتلام یاد نہ ہو۔
❀ نیند میں احتلام محسوس ہوا، لیکن کپڑے پر منی کے نشانات نہیں تو غسل فرض نہیں ہوگا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
سئل النبى صلى الله عليه وسلم عن الرجل يجد البلل ولا يذكر احتلاما، قال يغتسل، وعن الرجل يرىٰ أنه قد احتلم ولا يجد البلل قال لا غسل عليه
”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جو کپڑوں پر تری دیکھے جبکہ اسے احتلام یاد نہ ہو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے غسل کرنا چاہیے۔“ پھر اس شخص کے متعلق پوچھا گیا جسے نیند میں احتلام محسوس ہو لیکن کپڑوں پر تری نہ دیکھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر غسل نہیں۔“
(أبو داود، کتاب الطهارة، باب الرجل يجد البلة في منامه : 236۔ ترمذی : 113۔ ابن ماجه : 612۔ حسن)
❀ اس کے احکام بھی جماع سے غسل والے ہیں۔
❀ منی لگے کپڑے کو صاف کرنے کا طریقہ لباس کی طہارت کے مسائل میں ملاحظہ فرمائیں۔
مذی اور ودی کا مسئلہ
مذی:
وہ لیس دار پانی جو شہوت کے وقت عضو مخصوص سے نکلتا ہے۔
ودی:
وہ گاڑا سفید پانی جو پیشاب سے پہلے یا بعد میں خارج ہوتا ہے، یہ بیماری ہے، ہمارے ہاں اسے قطرے نکلنے کا نام دیا جاتا ہے۔
❀ مذی اور ودی نکلنے سے استنجا اور وضو کرنا چاہیے، ان سے غسل فرض نہیں ہوگا۔ (بخاری، کتاب الغسل، باب غسل المذي والوضوء منه : 269۔ مسلم : 303)
❀ لیکوریا عورتوں کے مرض کا بھی یہی حکم ہے۔
حیض و نفاس کا بیان:
❀ حیض وہ سیاہی مائل خون ہے جو بالغ عورتوں کو ہر ماہ آتا ہے، عام طور پر اس کی مدت تین سے سات دن تک ہوتی ہے اور نفاس وہ خون ہے جو بچے کی پیدائش پر جاری ہوتا ہے، عموماً اس کی مدت چالیس دن ہے، لیکن بعض اوقات پہلے بھی ختم ہو جاتا ہے۔ (أبو داود، کتاب الطهارة، باب ما جاء في وقت النفساء : 312۔ إرواء الغليل : 201۔ صحیح)
❀ حیض اور نفاس سے غسل فرض ہو جاتا ہے، غسل خون بند ہونے پر کرنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فإذا أقبلت الحيضة فدعي الصلاة، وإذا أدبرت فاغتسلي وصلي
”جب حیض شروع ہو جائے تو نماز چھوڑ دے اور جب چلا جائے تو غسل کر اور نماز پڑھ۔“
(بخاری، کتاب الحيض، باب إقبال المحيض وإدباره : 320۔ مسلم : 334/65)
اس خون کی بو دور کرنے کے لیے خوشبو استعمال کرنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
خذي فرصة ممسكة فتوضئي ثلاثا
”خوشبو کا پھایا لے اور اس سے تین مرتبہ طہارت حاصل کر۔“
(بخاری، کتاب الحيض، باب غسل المحيض : 315۔ مسلم : 749)
حیض و نفاس میں ممنوع کام:
❀ حیض اور نفاس والی عورت مندرجہ ذیل چار کام نہیں کرے گی: نماز۔ روزہ۔ جماع۔ بیت اللہ کا طواف۔
❀ حیض و نفاس والی عورت باقی تمام کام کر سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن المؤمن لا ينجس
”بلاشبہ مومن کسی حالت میں بھی ناپاک نہیں ہوتا۔“
(بخاری، کتاب الغسل، باب عرق الجنب وأن المسلم لا ينجس : 283۔ مسلم : 371)
نماز، روزہ اور طواف کے دوران میں حیض یا نفاس شروع ہو جائے تو وہ عبادت خود بخود ختم ہو جائے گی۔ فرض روزہ اور فرض طواف کی قضا دی جائے گی، جبکہ نماز کی قضا نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:
أن لا تطوفي بالبيت حتىٰ تطهري
”تو طواف نہ کرتی کہ پاک ہو جائے۔“
(بخاری، کتاب الحيض، باب تقضي الحائض المناسك كلها إلا الطواف بالبيت : 305)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كان يصيبنا ذٰلك فتؤمر بقضاء الصوم ولا تؤمر بقضاء الصلاة
”ہمیں حیض آتا تو ہمیں روزے کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا، لیکن نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔“
(مسلم، کتاب الحيض، باب وجوب قضاء الصوم على الحائض دون الصلاة : 335/69)
❀ حیض و نفاس شروع ہونے سے پہلے جو نماز فرض ہو چکی تھی یعنی جس نماز کا وقت ہو چکا تھا، لیکن اس نے سستی کی بنا پر ابھی تک اسے ادا نہیں کیا تھا تو اس نماز کی قضا حیض و نفاس کے بعد دینی ہو گی، کیونکہ وہ نماز اس پر فرض ہو چکی تھی۔
❀ حیض یا نفاس کا خون وقت سے پہلے ختم ہو جائے تو تمام پابندیاں ختم ہو جائیں گی اور نماز و روزہ فرض ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فإذا أقبلت الحيضة فدعي الصلاة، وإذا أدبرت فاغتسلي وصلي
”جب حیض شروع ہو جائے تو نماز چھوڑ دے اور جب چلا جائے تو غسل کر اور نماز پڑھ۔“
(بخاری، کتاب الحيض، باب إقبال المحيض وإدباره : 320۔ مسلم : 334/65)
کیا حائضہ قرآن پڑھ سکتی ہے؟
حیض و نفاس اور جنابت کی حالت میں تلاوت قرآن کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، صحیح بات یہ ہے کہ ان حالات میں حرمت تلاوت قرآن کے متعلق کوئی صحیح و واضح حدیث نہیں ہے، جب حرمت کی کوئی واضح و صحیح دلیل نہیں تو ان حالات میں تلاوت سے منع کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح حیض و نفاس کی حالت میں قرآن مجید کو چھونے سے منع کرنا بھی کسی واضح و صریح حدیث سے ثابت نہیں ہے، لیکن اگر کسی صاف کپڑے وغیرہ سے قرآن کو چھوا جائے اور اسی کے ذریعے سے ورق گردانی کی جائے تو بہتر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا کو مسجد سے مصلی پکڑانے کا حکم دیا، انھوں نے حیض کا عذر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
إن حيضتك ليست فى يدك
”و حیض تیرے ہاتھ میں تو نہیں ہے۔“
(لحائض رأس زوجها الخ : 298)
تو معلوم ہوا کہ حیض کا اثر ہاتھوں میں نہیں ہوتا ، ان سے کوئی بھی چیز پکڑی جاسکتی ہے۔
ایام حیض کے علاوہ پانی کی حیثیت:
❀ مخصوص دنوں کے علاوہ پانی نکلنے کے احکام حیض و نفاس والے نہیں ہیں۔
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
كنا لا نعد الكدرة والصفرة شيئا
”ہم مٹیالے اور زرد رنگ کے پانی کو کچھ نہیں سمجھتی تھیں۔“
(بخاری، کتاب الحيض، باب الصفرة والكدرة في غير أيام الحيض: 326)
استحاضہ کا مسئلہ :
اس کی تفصیل ”مریض اور معذور کی طہارت میں ملاحظہ فرمائیں۔“
قبول اسلام کا غسل:
❀ جب کوئی شخص اسلام قبول کرنا چاہے تو کلمہ پڑھانے سے پہلے اسے غسل کرایا جائے گا۔
سیدنا قیس بن عاصم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”میں قبول اسلام کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے مجھے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل کرنے کا حکم دیا۔“
(ابو داؤد، کتاب الطهارة، باب الرجل يسلم فيؤمر بالغسل: 355 – صحیح)
میت کا غسل:
❀ جب کوئی مسلمان فوت ہو جائے تو اسے غسل دینا فرض ہے۔ (اس کی تفصیل جنازے کے باب میں ملاحظہ فرمائیں۔)
غسل کے مزید مسائل:
❀ غسل جنابت جتنی جلدی ہو سکے کرنا چاہیے، کیونکہ یہ عبادت ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عورت پر جب غسل فرض ہو تو اس وقت غسل کرنا لازمی ہے، یہ صحیح نہیں ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتی ہیں:
ربما اغتسل فنام ، وربما توضأ فنام
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی غسل کر کے سوتے اور کبھی وضو کر کے سو جاتے۔“
(مسلم، كتاب الحيض، باب جواز نوم الجنب الخ: 307)
❀ عام لوگ جنبی آدمی کو بالکل ناپاک سمجھتے ہیں اور عورت کو تو حیض و نفاس کے دوران میں ایک الگ کمرے میں گھر کے گندے بستر پر ڈال دیا جاتا ہے، اس کے برتن مخصوص کر دیے جاتے ہیں، اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور ملنا جلنا ممنوع قرار پاتا ہے، لیکن اسلام میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے۔
❀ جنبی آدمی کوئی کام کرنا چاہے اور غسل کا وقت نہ ہو تو بہتر ہے کہ وضو کر لے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی غسل کر کے سوتے اور کبھی وضو کر کے سو جاتے۔
(مسلم، كتاب الحيض، باب جواز نوم الجنب الخ: 307)
اس کے پاس وضو کے لیے بھی وقت یا پانی نہیں تو وضو کے بغیر بھی کام کر سکتا ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کو ہر حال میں پاک قرار دیا ہے۔
اگر جنابت کا علم نماز کے بعد ہو:
❀ امام نے حالت جنابت میں جماعت کرا دی اور اسے بعد میں علم ہوا تو وہ غسل کر کے تنہا اپنی نماز لوٹائے گا۔
سلیمان بن یسار فرماتے ہیں:
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز فجر پڑھائی، پھر جرف میں اپنی زمین کی طرف گئے، تو انھوں نے اپنے کپڑوں میں احتلام کے نشانات دیکھے، فرمانے لگے:
”جب سے ہم چربی استعمال کرنے لگے ہیں تب سے رگیں بہنے لگی ہیں۔“
پھر غسل کیا اور اپنے کپڑوں سے منی کو دھویا اور نماز دہرائی لیکن واپس آکر مقتدیوں کو نماز دہرانے کا نہیں کہا۔
(الموطأ، كتاب الطهارة، باب إعادة الجنب الصلاة: 113 – السنن الكبرى للبيهقي: 170/1، ح: 501)
اگر زیادہ غسل جمع ہو جائیں:
اگر کئی غسل اکٹھے ہو جائیں تو سب کے لیے ایک غسل کافی ہے، کیونکہ مقصد تو طہارت حاصل کرنا ہے اور وہ حاصل ہو گئی۔
غسل مستحب:
مندرجہ ذیل صورتوں میں غسل کرنا مستحب یعنی افضل ہے۔
جمعہ کا غسل:
اس کی تفصیل جمعہ کے باب میں ملاحظہ فرمائیں۔
میت کو غسل دینے سے غسل:
اس کی تفصیل جنازے کے باب میں ملاحظہ فرمائیں۔
عیدین کا غسل:
اس کی تفصیل عیدین کے باب میں ملاحظہ فرمائیں۔
احرام کا غسل:
احرام باندھتے وقت غسل کرنا مسنون ہے۔
❀ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
أنه رأى النبى صلى الله عليه وسلم تجرد لإهلاله واغتسل
”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے احرام باندھنے سے پہلے غسل کیا۔“
(ترمذی، کتاب الحج، باب ما جاء في الاغتسال عند الإحرام: 830 – صحیح)
مکہ میں داخل ہوتے وقت غسل:
❀ مکہ مکرمہ میں داخل ہوتے وقت غسل کرنا مسنون ہے۔ نافع فرماتے ہیں:
”سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ذی طوی میں رات بسر کرتے حتی کہ صبح نماز پڑھتے اور غسل کرتے، پھر مکہ میں دن کے وقت داخل ہوتے اور فرماتے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے ہی کیا کرتے تھے۔“
(مسلم، کتاب الحج، باب استحباب المبیت بذي طوى الخ: 1259)