غسل کے دوران کلی اور ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہے یا نہیں؟
سوال:
اگر کوئی شخص غسل کرتے وقت کلی نہ کرے اور ناک میں پانی نہ ڈالے تو کیا اس کا غسل درست شمار ہوگا؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کوئی شخص غسل کے دوران کلی نہ کرے اور ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف نہ کرے تو اس کا غسل درست نہیں ہوگا، کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَإِن كُنتُم جُنُبًا فَاطَّهَّروا﴾
(سورة المائدة: ٦)
’’اور اگر تم جنبی ہو تو (نہا کر دھو کر) خوب اچھی طرح پاک ہو جایا کرو۔‘‘
یہ حکم پورے جسم کی طہارت کو شامل ہے، اور منہ کے اندرونی حصے اور ناک کے اندر کا حصہ بھی جسم کے وہ مقامات ہیں جن کی تطہیر واجب ہے۔
وضو اور غسل دونوں میں کلی اور ناک صاف کرنا کیوں ضروری ہے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو میں بھی کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا حکم دیا ہے، کیونکہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے:
﴿فَامسَحوا بِوُجوهِكُم﴾
(سورة المائدة: ٦)
’’پس اپنے چہروں کو دھویا کرو۔‘‘
چہرے کے دھونے میں منہ اور ناک کا اندرونی حصہ بھی شامل ہے۔ چونکہ طہارتِ کبریٰ (غسل) میں بھی چہرہ دھونا واجب ہے، لہٰذا غسل جنابت کے دوران کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرنا بھی واجب ہے۔
نتیجہ:
لہٰذا، اگر کسی نے غسل کے دوران کلی نہ کی اور ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف نہیں کیا تو اس کا غسل صحیح شمار نہیں ہوگا۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب