غرباء کی مدد اور اسلامی معاشرت میں زکوٰۃ کی اہمیت
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ – توضیح الاحکام، جلد 2، صفحہ 243

غرباء، مساکین سے تعاون اور مسلمانوں کی ذمہ داری

سوال

ایک عورت جس کا شوہر فوت ہو چکا ہے، اور اس کی ایک جوان بیٹی ہے، جو کہ کسی بھی مالی آمدنی کے ذرائع سے محروم ہیں۔ بیٹی کی ماں بیمار ہے، اور جب بیٹی کام یا روزگار کی تلاش میں گھر سے باہر نکلتی ہے تو بدکردار افراد اس کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لڑکی سے کوئی نکاح کرنے پر بھی آمادہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں یہ عورت اور اس کی بیٹی کیا کریں؟ کیا وہ درندہ صفت لوگوں کے ہاتھوں خود کو حوالے کر دیں؟ کیا بھوکی مر جائیں؟ خودکشی کر لیں؟ مانگنے لگیں؟ ماں کا گلا دبا دیں؟ وہ کس راہ کو اختیار کریں؟ جبکہ وہ ایسے ملک میں رہتی ہیں جہاں اسلامی قوانین نافذ نہیں۔ اس صورتحال میں وہ کس کے پاس جائیں؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کا مفصل جواب دیا جائے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگر سوال بالکل درست اور حالات حقیقت پر مبنی ہیں، تو درج ذیل نکات کی روشنی میں اس مسئلہ کا حل قرآن و سنت کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے:

اہلِ محلہ کی شرعی ذمہ داری:

✿ محلے کے لوگ اور اردگرد رہنے والے تمام افراد پر واجب ہے کہ وہ اس عورت اور اس کی بیٹی کی مالی امداد کریں۔
زکوٰۃ، صدقات اور دیگر جائز مالی ذرائع سے ان کی مکمل مدد کی جائے۔
✿ اگر اہل محلہ یہ مدد نہیں کرتے تو تمام لوگ گناہگار ہوں گے۔

ناجائز اور حرام راستے:

✿ زنا یا فحاشی جیسے راستے اپنانا، خودکشی کرنا، ماں کا گلا دبا دینا، جان بوجھ کر بھوک سے مرنا، سب حرام اور سخت ناجائز عمل ہیں۔
✿ سڑکوں، گلیوں یا بازاروں میں مانگنے لگ جانا بھی مذموم اور ناجائز ہے۔

فوری حل: لڑکی کا نکاح

✿ سب سے پہلے محلے کے اہل خیر کو چاہیے کہ اس لڑکی کا نکاح کسی صحیح العقیدہ اور نیک آدمی سے کروا دیں تاکہ فتنہ کا دروازہ بند ہو جائے۔

معاشرتی المیہ:

✿ ہمارا معاشرہ اس بڑی خرابی کا شکار ہے کہ لوگ زکوٰۃ و صدقات مستحقین کو نہیں پہنچاتے۔
✿ صرف ان لوگوں کی مدد کی جاتی ہے جو سیاسی حمایت کریں، یا جو انہیں خان، چوہدری، ملک کہہ کر عزت دیں۔
ذاتی مفادات کے لئے بڑی قربانیاں دینے پر تیار ہوتے ہیں لیکن واقعی مستحق افراد کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

مذہبی جماعتیں اور ان کا رویہ:

✿ بعض بدنصیب لوگ اپنی تمام دولت مختلف جماعتوں اور پارٹیوں کو دے دیتے ہیں جن کا دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔
✿ جبکہ دین اسلام کا واضح حکم ہے:
«ابدا بمن تعول» – سب سے پہلے اس پر خرچ کرو جس کا نان و نفقہ تمہارے ذمہ ہے۔
(صحیح بخاری: 1427، صحیح مسلم: 1034)

اصلاحی پہلو:

✿ اگر مخیر حضرات ان جماعتوں اور پارٹیوں کے دائرے سے باہر نکل کر، واقعی صحیح العقیدہ اور مستحق افراد تک زکوٰۃ و صدقات پہنچائیں تو ان شاء اللہ کوئی شخص غربت کا شکار نہیں رہے گا۔
✿ ضرورت اس امر کی ہے کہ ائمہ مساجد اور خطباء لوگوں کی صحیح تربیت کریں۔
✿ لوگوں کو انفاق فی سبیل اللہ کا درست اور شریعت کے مطابق طریقہ بتائیں۔
✿ بجائے اس کے کہ خود فائدہ اٹھانے کے لئے جھولیاں بھرتے رہیں، عوام کی اصلاح اور راہنمائی کو اپنا فرض سمجھیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1