غامدی مفکر کی لونڈیوں سے متعلق بحث کا تحقیقی جائزہ

غامدی مفکر کے پیش کردہ آثار کی حقیقت

غامدی مفکر نے جو آثار دلیل کے طور پر پیش کیے، ان کی سند کے جائزے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ وہ تمام آثار ضعیف ہیں اور ان سے کوئی شرعی استدلال کرنا درست نہیں۔

1. لونڈی کی پنڈلی یا بازو دیکھنے کے آثار

  • ان آثار میں کہا گیا ہے کہ لونڈی کی خریداری کے وقت اس کے بعض اعضا جیسے پنڈلی اور بازو کو دیکھنا جائز ہے۔
  • یہ آثار سند کے لحاظ سے ضعیف ہیں اور ان میں کئی مجہول راوی شامل ہیں۔

2. حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ منقول ہے کہ لونڈی کی پنڈلی، پیٹ اور پیٹھ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ وہ بازار میں اسی مقصد کے لیے کھڑی ہوتی ہیں۔

سند کی کمزوری:

  • اس روایت کی سند میں "ابن جریج” نے ایک مجہول شخص سے روایت کی ہے۔
  • ابن جریج کی تدلیس مشہور ہے، اور وہ عموماً مجروح راویوں سے روایت کرتے تھے۔

ماخذ: مصنف عبدالرزاق، حدیث نمبر 13208

3. حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے منسوب روایت

بعض روایات میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ذکر ہے کہ وہ لونڈی خریدتے وقت اس کے جسم کو دیکھتے اور چھوتے تھے۔

سند کی خرابی:

  • یہ روایت "معنعن” ہے اور ابن جریج نے "عن” کے صیغے کے ساتھ نقل کیا ہے، جو تدلیس کی علامت ہے۔
  • عبدالرزاق نے بھی "عمرو” یا "ابوالزبیر” جیسے غیر متعین راویوں سے یہ روایت لی ہے، جو اس کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔

ماخذ: مصنف عبدالرزاق، حدیث نمبر 13199

ان آثار کے بارے میں فقہاء کا موقف

1. فقہاء کی اصولی روش

  • فقہاء کسی مسئلے پر قرآن و سنت کی روشنی میں اصول اخذ کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر کسی حکم کا فیصلہ کرتے ہیں۔
  • لونڈیوں کے معاملے میں دو اصول سامنے آئے:
    • مال ہونے کا پہلو: چونکہ لونڈیوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے، ان پر مال کے احکام لاگو ہوتے ہیں۔
    • انسانی پہلو: ان کی نسوانیت اور انسانیت کے پہلو کو ترجیح دی گئی، جو زیادہ غالب رہا۔

2. امت کا اجتماعی ضمیر

  • امت نے اجتماعی طور پر ان روایات کو قبول نہیں کیا جو لونڈیوں کے بارے میں بے جا چھونے یا دیکھنے کی اجازت دیتی ہیں۔
  • مثال:
    • حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حکم کہ لونڈیاں آزاد عورتوں کی مشابہت نہ کریں، ان کے مقام کو واضح کرتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلے

سیاسی فیصلہ:

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حکم کہ لونڈیاں اپنا سر ڈھانپنے سے گریز کریں، ایک سیاسی اور سماجی فیصلہ تھا تاکہ آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے درمیان فرق واضح رہے۔

ماخذ: مصنف عبدالرزاق، علامہ طحطاوی رحمہ اللہ، مراقی الفلاح

زمانے کے تقاضے:

امام طحطاوی رحمہ اللہ کے مطابق، موجودہ زمانے میں بے حیائی کے عام ہونے کے سبب لونڈیوں پر بھی مکمل پردہ عائد ہونا چاہیے۔

خلاصہ اور تحقیق

1. تمام روایات کی حیثیت

  • غامدی مفکر کی پیش کردہ روایات ضعیف ہیں اور ان سے استدلال کرنا درست نہیں۔
  • غیر محرم کو چھونے پر شرعی ممانعت کے واضح احکامات موجود ہیں، جو ان ضعیف روایات کی نفی کرتے ہیں۔

2. فقہی اصول

لونڈیوں کے معاملے میں اصول یہ ہے کہ "قد یباح فی الامۃ ما لا یباح فی الحرۃ”، یعنی لونڈی کے لیے وہ کچھ جائز ہو سکتا ہے جو آزاد عورت کے لیے جائز نہیں۔ لیکن یہ اصول بھی شریعت کے عمومی قواعد سے تجاوز نہیں کرتا۔

3. صحابہ کرام کا طرزِ عمل

  • صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے میں لونڈیوں کی خرید و فروخت ایک عام معاملہ تھا، لیکن ان سے متعلق بے جا چھونے یا دیکھنے کے واقعات کی قابلِ اعتماد روایات موجود نہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے