غامدی فکر اور جدید مسائل کا حل یا قبولیتِ مسائل؟
دورانِ گفتگو ایک صاحب نے غامدی صاحب کی ذہانت اور جدید مسائل کا حل پیش کرنے کی بات کی۔ ان کے بقول، جدید ذہنیت غامدی صاحب سے متاثر ہوتی ہے کیونکہ وہ جدید دور کے مطابق مسائل پر روشنی ڈالتے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ جو کچھ غامدی صاحب نے پیش کیا ہے، وہ مسائل کا حل نہیں بلکہ ان مسائل کو فطری تسلیم کرتے ہوئے انہیں قبول کرنے کا نظریہ ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ وہی ذہن اس سے متاثر ہوتا ہے جس نے پہلے ہی ان مسائل کو اپنی فطرت کا حصہ سمجھ لیا ہو۔
غامدی فکر اور سٹاک ہوم سنڈروم کا تعلق
غامدی فکر کو "سٹاک ہوم سنڈروم” کی فکری شکل قرار دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
سٹاک ہوم سنڈروم وہ نفسیاتی کیفیت ہے جس میں مظلوم اپنے ظالم سے محبت کرنے لگتا ہے۔ اس کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ مظلوم شروع میں مزاحمت کرتا ہے، لیکن ناکامی کے بعد امید چھوڑ کر اپنے ظالم سے وابستہ ہوجاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہی وابستگی انسیت اور پھر محبت میں بدل جاتی ہے۔
غامدی صاحب کی فکر میں یہی کیفیت نظر آتی ہے۔ وہ ہر معاملے میں مسلمانوں کو قصوروار اور مغرب کو برتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا طرزِ فکر دراصل استعمار کے سامنے مسلمانوں کی مسلسل شکست کا نفسیاتی نتیجہ ہے۔ مغربی فکر کی برتری کا احساس انہیں اسلام کی تشریح اس انداز میں کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ اسلام اور مغربی نظریات کے درمیان کوئی بڑا اختلاف محسوس نہ ہو۔
غامدی فکر کے حامی: شکستہ ذہنیت کے حامل
غامدی صاحب کے حامیوں کی ذہنیت بھی اسی شکست خوردہ رویے کا نتیجہ ہے۔ ان کی سمجھ میں صرف وہی بات آتی ہے جو مغرب کے مطابق ہو۔ یہ لوگ اپنی عقل پر فخر کرتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ عقل نہیں بلکہ وقتی رجحانات کی پیروی ہے، جسے اسلام نے ’’اھواء‘‘ کہا ہے۔
اھواء وہ کیفیت ہے جس میں انسان اپنی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے اور سچائی سے دور ہو جاتا ہے۔ غامدی فکر میں ’’اھواء‘‘ کا یہی عنصر غالب ہے، جو کتاب و سنت اور سلف کے دستور کو نظرانداز کرکے ہر زمانے کے نئے رجحانات کے مطابق خود کو ڈھال لیتا ہے۔
ریاست، قوت اور غامدی صاحب کا متضاد موقف
غامدی صاحب کے نزدیک نہی عن المنکر (برائی سے روکنے) کے لیے قوت کا استعمال صرف ریاست کا حق ہے، لیکن جب ریاست کسی مذہبی اصول پر عملدرآمد کرتی ہے تو وہ یہی حق ریاست سے بھی چھین لیتے ہیں۔ ان کے بقول، ریاست کا کام صرف حقوق تلفی کو روکنا ہے، لیکن یہ ’’حقوق‘‘ کون سے ہیں اور کس بنیاد پر متعین ہوتے ہیں؟ اس بارے میں غامدی صاحب اور ان کے سامعین ہمیشہ خاموش رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک نہی عن المنکر کا مطلب درحقیقت صرف وہی چیزیں ہیں جنہیں سیکولر نظریات ’’برائی‘‘ سمجھتے ہیں۔
غامدی فکر: عقل یا اھواء؟
غامدی فکر کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ وقت کے ہر فکری رجحان کو اپناتے ہوئے اسے اسلام سے ہم آہنگ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طرزِ فکر ’’تحقیق‘‘ نہیں بلکہ ’’اھواء‘‘ کی پیروی ہے، جیسا کہ اسلام واضح کرتا ہے:
اَمَّا بَعدُ؛ فإنَّ کلَّ مُحۡدَثَۃٍ بِدۡعَۃ، وکلَّ بِدۡعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، وکلَّ ضَلالۃٍ فی النَّار۔
"اما بعد؛ بے شک ہر نئی بات (دین میں) بدعت ہے، اور ہر بدعت گمراہی ہے، اور ہر گمراہی (کا انجام) آگ ہے۔”
نتیجہ
غامدی فکر درحقیقت عقل کی آزادی نہیں بلکہ وقتی فکری رجحانات کی غلامی ہے، جسے ’’عقل‘‘ کا نام دے کر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کی فکر کے حامی بھی اسی فکری الجھن کا شکار ہیں، اور اسی لیے ہر نئی بات کو ’’حقیقت‘‘ سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔