غائبانہ نماز جنازہ کے بارے میں حکم
سوال
کیا نماز جنازہ غائبانہ مطلقاً جائز ہے یا اس کے لیے مخصوص شرائط ہیں؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اہل علم کے اقوال میں سے راجح (زیادہ درست اور مضبوط) قول یہ ہے کہ نماز جنازہ غائبانہ مشروع نہیں ہے، الا یہ کہ میت کی نماز جنازہ ہی نہ پڑھی گئی ہو۔ اس اصول کی وضاحت درج ذیل نکات میں کی گئی ہے:
غائبانہ نماز جنازہ کی مشروعیت کن صورتوں میں جائز ہے؟
◈ اگر کوئی شخص کسی غیر مسلم ملک میں وفات پا جائے اور اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو۔
◈ یا کوئی شخص سمندر، دریا یا کسی وادی میں غرق ہو جائے اور اس کی لاش دستیاب نہ ہو۔
ایسی صورتوں میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا واجب ہے۔
جن کی نماز جنازہ ادا ہو چکی ہو ان کے لیے غائبانہ نماز کا حکم:
◈ اگر کسی کی نماز جنازہ پہلے ہی ادا کی جا چکی ہو تو اس کا غائبانہ جنازہ پڑھنا مشروع نہیں ہے۔
◈ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف نجاشی کے بارے میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا ثابت ہے۔
◈ نجاشی کے ملک میں اس کی نماز جنازہ اداء نہیں کی گئی تھی، اسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں اس کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی تھی۔
◈ اس کے علاوہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور کا غائبانہ جنازہ ادا نہیں کیا، اگرچہ آپ کے زمانے میں بہت سے عظیم لوگ اور صحابہ وفات پا چکے تھے۔
دیگر اہل علم کے مختلف اقوال:
◈ بعض اہل علم کی رائے ہے کہ:
➤ جس شخص سے دین کو فائدہ پہنچا ہو، جیسے اس کا مال، عمل یا علم دین کے لیے مفید ہو، اس کا غائبانہ جنازہ پڑھا جائے گا۔
➤ اور جس شخص سے دین کو فائدہ نہ پہنچا ہو، اس کا غائبانہ جنازہ نہیں پڑھا جائے گا۔
◈ بعض اہل علم نے کہا ہے:
➤ نماز جنازہ غائبانہ مطلقاً جائز ہے، یعنی کسی بھی وفات پانے والے کے لیے غائبانہ نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
لیکن اہل علم کا یہ موقف سب سے ضعیف قول قرار دیا گیا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب