عید کے دن روزہ رکھنا منع ہے
تحریر : حافظ فیض اللہ ناصر

الْحَدِيثُ السَّادِسُ: عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ وَاسْمُهُ سَعْدُ بْنُ عُبَيْدٍ – قَالَ { : شَهِدْت الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَقَالَ هَذَانِ يَوْمَانِ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامِهِمَا: يَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ ، وَالْيَوْمُ الْآخَرُ: تَأْكُلُونَ فِيهِ مِنْ نُسُكِكُمْ . }
ابن ازہر کے آزاد کردہ غلام ابوعبید سعد بن عبید بیان کرتے ہیں کہ عید کے روز سید نا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ حاضر تھا کہ انھوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دودنوں کا روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، ایک تو تمھارے روزہ چھوڑنے کا یہ دن (یعنی عید الفطر) اور دوسرا وہ دن جس میں تم اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو (یعنی عید الاضحٰی ) ۔
(202) صحيح البخارى، كتاب الصوم، باب الصوم يوم الفطر ، ح: 1990 – صحيح مسلم ، كتاب الصيام، باب النهي عن صوم يوم الفطر ويوم الأضحى ، ح: 1137 .
شرح الحدیث:
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ان دونوں دِنوں میں روزہ نہ رکھنے کے وجوب کی طرف اشارہ ہے۔ [فتح الباري لابن حجر: 239/4]
راوى الحديث:
اس حدیث میں دو نام ذکر ہوئے ہیں۔ پہلا نام ابو عبید کا ہے، جو تا بعی تھے اور مدینہ کےرہنے والے تھے ۔ 98 ہجری میں مدینہ ہی میں ان کی وفات ہوئی۔ اور دوسرا نام ابن ازہر کا ہے، ان کا نام عبدالرحمٰن بن ازہر بن عوف ہے۔

——————

الْحَدِيثُ السَّابِعُ: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ { نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ يَوْمَيْنِ: الْفِطْرِ وَالنَّحْرِ . وَعَنْ الصَّمَّاءِ ، وَأَنْ يَحْتَبِيَ الرَّجُلُ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ ، وَعَنْ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصُّبْحِ وَالْعَصْرِ } أَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ بِتَمَامِهِ . وَأَخْرَجَ الْبُخَارِيُّ الصَّوْمَ فَقَطْ .
سیدنا ابوسعید خدری رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دودنوں یعنی فطر اورقربانی کے دن روزہ رکھنے سے، بُکّل مارنے سے، آدمی کا ایک کپڑے میں احتباء سے اور فجر اور عصر کے بعد نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ مسلم نے پوری حدیث بیان کی ہے جبکہ بخاری نے صرف روزے کا ذکر کیا ہے۔
شرح المفردات:
اِشْتِمَالُ الصَّمّاء: بکّل مارنے سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنے سارے بدن پہ اس طرح چادر لپیٹ لے کہ اس سے ہاتھ بھی باہر نہ نکال سکے۔
يحتبي: احتباء سے مراد یہ ہے کہ سرین کے بل بیٹھ کر گھٹے کھڑے کر کے ان کے گرد سہارا لینے کے لیے دونوں ہاتھ باندھ لینا۔ / واحد مذکر غائب ، فعل مضارع معلوم، باب افتعال ۔
شرح الحدیث:
امام نووی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ ان دو دنوں کے روزوں کی تحریم پر علماء کا اجماع ہے، خواہ کوئی ان دودنوں میں نذر کا روزہ رکھے، یا نفلی، یا کفارے کا یا کوئی اور۔ [شرح مسلم للنووي: 15/8]
(203) صحيح البخاري، كتاب الصوم، باب صوم يوم الفطر، ح: 1991.

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں: