نمازِ عید کے بعد ’’تقبل اللہ منا ومنک‘‘ کہنے کا حکم
سوال:
کیا نمازِ عید کے بعد ایک دوسرے کو ’’تقبل اللہ منا ومنک‘‘ کہنا شرعی طور پر ثابت ہے؟
جواب:
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس بارے میں دو مرفوع (نبی کریم ﷺ کی طرف منسوب) روایات منقول ہیں، جن کا تفصیلی جائزہ ذیل میں دیا گیا ہے:
پہلی مرفوع روایت: سیدنا واثلہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے منسوب
ماخذات:
- الکامل لابن عدی، ج6، ص2274 (دوسرا نسخہ 524/7) – "ھذا منکر”
- المجروحین لابن حبان، 301/2 (دوسرا نسخہ 319/2)
- السنن الکبریٰ للبیہقی، 319/3
- العلل المتناہیہ لابن الجوزی، 1/476، ح811 – "ھذا حدیث لایصح”
- التدوین فی اخبار قزوین، 1/342
- ابوبکر الازدی الموصلی، بحوالہ: سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعہ للالبانی، 12/385-386، ح5666
ضعف کی وجہ:
- اس روایت کا راوی محمد بن ابراہیم بن العلاء الشامی ہے، جسے موضوع (من گھڑت) روایات بیان کرنے والا قرار دیا گیا ہے:
- امام دارقطنی: کذاب (سوالات البرقانی للدارقطنی: 423)
- حافظ ابن حبان: "وہ شامیوں پر حدیث گھڑتا تھا” (المجروحین 301/2)
- حافظ حاکم: "اس نے ولید بن مسلم اور سوید بن عبدالعزیز سے موضوع حدیثیں بیان کیں” (المدخل الی الصحیح ص208، ت191)
دوسری مرفوع روایت: سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے منسوب
ماخذات:
- السنن الکبریٰ للبیہقی، 319/3، 320
- امالی ابن شمعون: 277
- المجروحین لابن حبان، 2/149 (دوسرا نسخہ 2/133)
- العلل المتناہیہ، 2/57-58، ح900 – "ھذا حدیث لیس بصحیح”
- تاریخ دمشق لابن عساکر، 36/69
ضعف کی وجہ:
- راوی عبدالخالق بن زید بن واقد ہے۔
- امام بخاری: "منکر الحدیث” (کتاب الضعفاء للبخاری: 244)
- امام بخاری: "میں جسے منکر الحدیث کہوں تو اس سے روایت بیان کرنے کا قائل نہیں ہوں” (التاریخ الاوسط 2/107، دوسرا نسخہ 3/582)
- یہ روایت نہ صرف سخت ضعیف ہے بلکہ منقطع بھی ہے کیونکہ مکحول اور عبادہ رضی اللہ عنہ کے درمیان واسطہ موجود نہیں۔
- حافظ ابن حجر نے بھی اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (دیکھئے: فتح الباری 2/446 تحت ح 952)
ضعیف روایات کے بعد بعض آثار کی تحقیق
(1) ابو امامہ اور واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہما کا عمل
روایت: محمد بن زیاد الالہانی (ثقہ) بیان کرتے ہیں کہ ہم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن ابو امامہ اور واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہما کے پاس جاتے تو وہ ’’تقبل اللہ منا ومنکم‘‘ کہتے، اور وہ دونوں جواب دیتے: "ومنکم ومنکم”
ماخذ: مختصر اختلاف الفقہاء للطحاوی / اختصار الجصاص 4/385
سند: حسن – کیونکہ یحیی بن عثمان بن صالح اور نعیم بن حماد جمہور کے نزدیک موثق ہیں۔
تائید: ابن الترکمانی اور امام احمد بن حنبل نے اس سند کو جید قرار دیا۔ (الجوہر النقی 3/319-320)
(2) جبیر بن نفیر رحمہ اللہ کا اثر
روایت: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عید کے دن ایک دوسرے کو ’’تقبل اللہ منا ومنک‘‘ کہا کرتے تھے۔
ماخذ: الجزء الثانی من کتاب صلوۃ العیدین (مخطوط مصور، ص22 ب)
سند: حسن
تائید: حافظ ابن حجر نے بھی حسن قرار دیا۔ (فتح الباری 2/446 تحت ح 952)
(3) صفوان بن عمرو السکسکی رحمہ اللہ کی روایت
روایت: صفوان نے عبداللہ بن بسر، خالد بن معدان، راشد بن سعد، عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر، اور عبدالرحمن بن عائذ رحمہم اللہ کو عید کے دن ’’تقبل اللہ منا ومنک‘‘ کہتے ہوئے دیکھا۔
ماخذ: تاریخ دمشق لابن عساکر، 26/106 (ترجمہ: صفوان بن عمرو)
سند: حسن
(4) امام مالک رحمہ اللہ کا قول
روایت: علی بن ثابت الجزری (صدوق حسن الحدیث) بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے امام مالک سے عید کے دن ’’تقبل اللہ منا ومنک‘‘ کہنے کے بارے میں پوچھا تو فرمایا: "ہمارے یہاں مدینہ میں اسی پر عمل ہے، ہم اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے۔”
ماخذ: کتاب الثقات لابن حبان، ج9، ص90
سند: حسن
(5) امام شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ کی روایت
روایت: امام شعبہ کہتے ہیں کہ مجھے عید کے دن یونس بن عبید ملے تو انہوں نے کہا: ’’تقبل اللہ منا ومنک‘‘
ماخذ: کتاب الدعاء للطبرانی، ج2، ص1234، ح929
سند: حسن
راوی حسن بن علی المعمری صدوق اور حسن الحدیث شمار ہوتے ہیں، اس روایت میں ان پر کوئی انکار بھی نہیں ہے۔
(6) طحاوی کا بیان
روایت: طحاوی نے اپنے اساتذہ اور معاصرین – بکار بن قتیبہ، امام مزنی، یونس بن عبدالاعلیٰ، اور ابوجعفر بن ابی عمران – کے بارے میں لکھا کہ جب انہیں عید کی مبارکباد دی جاتی تو وہ اسی طرح ’’تقبل اللہ منا ومنک‘‘ کہہ کر جواب دیتے۔
ماخذ: مختصر اختلاف العلماء، ج4، ص385
نتیجہ:
ان آثار سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عید کے دن ایک دوسرے کو ’’تقبل اللہ منا ومنک‘‘ کہنا جائز ہے۔ اگرچہ مرفوع احادیث اس بارے میں ضعیف یا موضوع ہیں، لیکن صحابہ کرام، تابعین، اور ائمہ محدثین و فقہاء کا اس پر عمل اور قول واضح طور پر ثابت ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب