عید میلاد النبی ﷺ منانے کا شرعی حکم اور دلائل
ماخوذ : فتاویٰ ارکان اسلام

عید میلاد النبی منانے کے متعلق شرعی حکم

الحمد للہ، والصلاة والسلام علی رسول اللہ، أما بعد!

1. رسول اللہ ﷺ کی ولادت کا درست دن معلوم نہیں

  • ◈ سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کی تاریخ قطعی طور پر متعین نہیں ہے۔
  • ◈ بعض معاصر اہل علم کی تحقیق کے مطابق آپ ﷺ کی ولادت کی رات 9 ربیع الاول تھی، 12 ربیع الاول نہیں۔
  • ◈ اس لیے 12 ربیع الاول کو عید میلاد النبی منانا تاریخی اعتبار سے بے بنیاد ہے۔

2. شرعی نقطۂ نظر سے عید میلاد کا کوئی وجود نہیں

  • ◈ شریعت اسلامیہ میں عید میلاد منانے کا کوئی تصور موجود نہیں۔
  • ◈ اگر یہ عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ اور عبادت کا درجہ رکھتا تو:
    • ✿ نبی کریم ﷺ خود اسے انجام دیتے۔
    • ✿ آپ ﷺ اپنی امت کو اس کا حکم فرماتے۔
  • ◈ چونکہ آپ ﷺ نے اس کا حکم نہیں دیا، نہ خود یہ عمل کیا، اس لیے یہ چیز دین میں شامل نہیں ہو سکتی۔

قرآن سے دلیل

﴿إِنّا نَحنُ نَزَّلنَا الذِّكرَ وَإِنّا لَهُ لَحـفِظونَ﴾
… سورة الحجر
’’بے شک یہ (کتاب) نصیحت ہم نے ہی اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘

3. دین میں نئے طریقے ایجاد کرنا ناقابلِ قبول

  • ◈ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور قرب کا جو طریقہ مقرر فرمایا ہے، وہ صرف اور صرف وہی ہے جو نبی اکرم ﷺ نے ہمیں سکھایا۔
  • ◈ کوئی بندہ از خود ایسا طریقہ ایجاد نہیں کر سکتا جو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ بنے۔
  • ◈ ایسا عمل دین میں نئی چیز داخل کرنے (بدعت) کے مترادف ہے، جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور گستاخی ہے۔

دین کامل ہو چکا ہے

﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتى﴾
… سورة المائدة
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں۔‘‘

  • ◈ اگر عید میلاد دین کا حصہ ہوتی تو نبی اکرم ﷺ کی وفات سے پہلے یہ رائج ہوتی۔
  • ◈ بعد میں پیدا ہونے والی کوئی بھی دینی رسم یا عبادت دین کامل کا حصہ نہیں ہو سکتی۔
  • ◈ اس آیت کی رو سے دین میں کسی بھی نئی چیز کی گنجائش نہیں۔

نبی ﷺ کی تعظیم اور محبت عبادت ہے

  • ◈ بلاشبہ نبی کریم ﷺ سے محبت، آپ کی تعظیم اور آپ کے ساتھ وابستگی دین کا اہم جزو ہیں۔
  • ◈ ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک نبی کریم ﷺ تمام مخلوق حتیٰ کہ اپنی جان، مال اور اولاد سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوں۔
  • ◈ اسی طرح آپ ﷺ کے ساتھ جذباتی تعلق اور محبت پیدا کرنا بھی عبادت کے زمرے میں آتا ہے۔

عید میلاد اگر عبادت ہے، تو اس کا حکم دین میں ہونا چاہیے تھا

  • ◈ جب عید میلاد کا منانا نبی ﷺ کی تعظیم اور تقرب الی اللہ کی نیت سے کیا جاتا ہے، تو یہ عبادت ٹھہری۔
  • ◈ اور عبادت میں وہی طریقہ مشروع ہوتا ہے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے مقرر فرمایا ہو۔
  • ◈ چونکہ نبی کریم ﷺ نے اسے نہیں منایا، نہ اس کا حکم دیا، اس لیے یہ عمل بدعت اور حرام ہے۔

عید میلاد کی محفلوں میں پائے جانے والے منکرات

  • ◈ عید میلاد کی تقریبات میں ایسے بے شمار منکرات پائے جاتے ہیں جو شرعی، عقلی اور فطری طور پر ناقابل قبول ہیں:
    • ✿ نعتیں گا گا کر پڑھی جاتی ہیں، جن میں نبی ﷺ کی شان میں حد سے زیادہ غلو کیا جاتا ہے۔
    • ✿ بعض اشعار میں (نعوذباللہ) آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ سے بھی بلند ظاہر کیا جاتا ہے۔
    • ✿ بعض مواقع پر جب سیرت النبی سنائی جاتی ہے اور آپ ﷺ کی ولادت کا ذکر آتا ہے تو سب لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں، اور کہتے ہیں:
      • "رسول اللہ ﷺ کی روح محفل میں تشریف لاتی ہے، اور ہم احتراماً کھڑے ہوتے ہیں”۔
      • یہ عقیدہ بے بنیاد اور غیر شرعی ہے۔

نبی ﷺ کو کھڑے ہونے کی عادت پسند نہ تھی

  • ◈ نبی اکرم ﷺ لوگوں کے کھڑے ہونے کو ناپسند فرماتے تھے۔
  • ◈ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، جو نبی ﷺ سے شدید محبت کرتے تھے، آپ ﷺ کو دیکھ کر بھی کھڑے نہیں ہوتے تھے۔
  • ◈ اس کی واضح دلیل حدیث میں موجود ہے:
    (جامع الترمذي، الادب، باب ماجاء فی کراہیۃ قیام الرجل للرجل، حدیث: ۲۷۵۵، ۲۷۵۴)

تین افضل صدیوں میں عید میلاد کا کوئی وجود نہ تھا

  • ◈ یہ بدعت پہلی تین افضل صدیوں کے بعد رائج ہوئی۔
  • ◈ ان محفلوں میں دیگر منکرات بھی عام ہیں:
    • مرد و عورت کا اختلاط
    • غیر شرعی گانے، نعتوں میں مبالغہ، فضول رسم و رواج
  • ◈ اس لیے یہ محفلیں قطعاً جائز نہیں کہلائی جا سکتیں۔

نتیجہ

  • ◈ عید میلاد النبی کا منانا تاریخی اعتبار سے بے بنیاد، اور شرعی لحاظ سے بدعت و حرام ہے۔
  • ◈ نہ نبی کریم ﷺ نے اسے منایا، نہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے، نہ تابعین نے، اور نہ تبع تابعین نے۔
  • ◈ اس عمل سے دین میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور شریعت سے دوری کا سبب بنتا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1