سوال:
نماز عید سے قبل قربانی کی جا سکتی ہے یا نہیں؟ میں نے ایک مولوی صاحب سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ گاؤں میں چونکہ عید جائز نہیں، اس لیے قربانی درست ہے، ایک دوسرے صاحب نے بھی ایسا ہی فتوی دیا، قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔
جواب:
نماز عید سے قبل قربانی کا جانور ذبح کرنے سے قربانی نہیں ہوتی، جیسا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا، وہ اپنے لیے ذبح کرتا ہے اور جس نے نماز کے بعد کیا، اس کی قربانی مکمل ہو گئی اور وہ مسلمانوں کے طریقے کو پہنچا ہے۔“
(بخاری،كتاب الأضاحي، باب قول النبي صلی اللہ علیہ وسلم لأبي بردة الخ 5556)
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ عام ہیں، شہر بستی اور گاؤں والے سب اس میں داخل ہیں۔ اب تو شہر والوں کے ساتھ خاص کرنے کے لیے دلیل چاہیے، جو صحیح اور صریح نص ہو، لیکن ایسی کوئی صحیح دلیل ہے ہی نہیں۔ بعض لوگ چونکہ گاؤں والوں پر نماز عید کو واجب نہیں سمجھتے، جیسا کہ بعض لوگوں کی معتبر کتاب ہدایہ میں ہے:
”نماز عید اس شخص پر واجب ہے جس پر جمعہ کی نماز واجب ہے۔“
(ہدایہ اولین ص 171)
اور جمعہ کے بارے میں یہ لکھا ہے:
”جمعہ صرف بڑے شہر، یا شہر کی عید گاہ میں صحیح ہے اور بستیوں، دیہاتوں میں جمعہ جائز نہیں ہے۔“ (ہدایہ اولین ص 128)
ان دونوں عبارتوں سے یہ بات واضح ہو گئی کہ احناف کے نزدیک گاؤں میں نہ جمعہ ہے اور نہ عید پڑھی جا سکتی ہے، لیکن یہ مذہب بالکل باطل ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا حکم ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ۚ ذَٰلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾
(الجمعة: 9)
”اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے آواز دی جائے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑ کر آؤ اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمھارے لیے بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔“
یہ آیت کریمہ سب لوگوں کے لیے ہے، بڑے چھوٹے، شہر، گاؤں اور بستی والوں سب کو یہ حکم ہے، کوئی اس سے مستثنی نہیں ہے اور قرآن وسنت میں کوئی ایسی دلیل بھی نہیں ہے جو اس کی تخصیص کرے کہ یہ صرف بڑے شہر والوں کے لیے ہے اور چھوٹے شہر، گاؤں اور بستی والوں کو یہ حکم نہیں۔ اس کے علاوہ بخاری شریف میں حدیث ہے:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد سب سے پہلا جمعہ عبد القیس کی مسجد بحرین کی جواثی نامی بستی میں پڑھایا گیا۔“
(بخاری، کتاب الجمعة، باب الجمعة في القرى والمدن1381/893)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ”من البحرین“ کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
”ایک روایت میں ہے کہ یہ بحرین کی بستیوں میں سے ایک بستی تھی اور دوسری روایت میں ہے عبد القیس کی بستیوں سے تھی۔“
یہ بات مسلم ہے کہ عبد القیس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بغیر جمعہ نہیں پڑھا، کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ عادت نہ تھی کہ وہ نزول وحی کے زمانہ میں اپنی طرف سے شرعی امور کے موجد بن جاتے۔ اگر ایسی بات ہوتی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنی طرف سے یہ کام کر لیا تھا تو قرآن میں نازل ہو جاتا، جیسا کہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عزل کے جواز پر استدلال کیا ہے کہ اگر عزل درست نہ ہوتا تو قرآن نازل ہو جاتا۔ جب اس بارے میں قرآن نازل نہیں ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نہیں روکا تو ثابت ہو گیا کہ یہ امر جائز ہے۔