عید قربان سے پہلے بال کٹوانا کیسا ہے؟ احادیث سے راہنمائی
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

عید سے پہلے بال کٹوانا کیسا ہے؟

جواب:

قربانی کا ارادہ ہو، تو عید سے پہلے بال نہیں کٹوانے چاہئیں۔
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب عشرہ ذوالحجہ داخل ہو جائے اور کوئی قربانی کرنا چاہے، تو اپنے سر اور جسم کے بال نہ مونڈھے۔
(صحیح مسلم: 1977)
❀ سنن النسائی (4362) میں ہے:
جو قربانی کرنا چاہتا ہو، وہ ذوالحجہ کے پہلے دس دن ناخن نہ تراشے، نہ جسم سے کوئی بال مونڈھے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ (مدینہ میں) قربانی کرنے کے بعد سر کے بال منڈواتے، فرمایا: یہ واجب نہیں۔
(موطأ الإمام مالك: 2/483، وسندہ صحیح)
❀سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ایام ذوالحجہ میں ایک عورت کو اپنے بچے کے بال کاٹتے دیکھ کر فرمایا:
اگر قربانی والے دن تک موخر کر دیتی تو بہتر تھا۔
(المستدرك على الصحيحين للحاكم: 4/246، ح: 7520، وسندہ حسن)
❀ امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ (94ھ) سے پوچھا گیا کہ کیا یحییٰ بن یعمر رحمہ اللہ خراسان میں فتویٰ دیتے تھے کہ جو قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، وہ عشرہ ذوالحجہ میں اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے؟ تو سعید بن مسیب رحمہ اللہ نے فرمایا: انہوں نے صحیح فتویٰ دیا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی یہی فتویٰ دیتے تھے۔
(مسند إسحاق بن راہویہ: 1817، وسندہ صحیح)
❀سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
ایک صحابی نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میرے پاس قربانی کے لیے صرف بکری ہے (وہ بھی کسی کو دودھ کے لیے عاریتاً دے رکھی ہے)، کیا میں اس کی قربانی کر لوں؟ فرمایا: نہیں، بلکہ آپ (دس ذوالحجہ کو) اپنے بال کاٹ لیں، ناخن تراش لیں، مونچھیں مونڈ لیں اور زیر ناف بال صاف کر لیں، تو اللہ تعالیٰ آپ کو مکمل قربانی کا اجر دے گا۔
(مسند الإمام أحمد: 2/169، سنن أبی داود: 2789، سنن النسائی: 4365، وسندہ حسن)
امام ابن حبان رحمہ اللہ (354ھ)، امام حاکم رحمہ اللہ (405ھ) اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) نے اسے صحیح کہا ہے۔
ذوالحجہ کا چاند دیکھنے سے پہلے بال کاٹنا مستحب ہے، ضروری نہیں۔
قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والا ذوالحجہ کا چاند نظر آنے سے پہلے جسم کے فاضل بال (زیر ناف)، سر کے بال اور مونچھیں کاٹ لے، ناخن تراشے، پھر قربانی تک اس سے پرہیز کرے، تو اسے قربانی کا پورا اجر و ثواب ملے گا۔
(مسند أحمد: 2/169، سنن أبی داود: 2789، سنن النسائی: 4365، وسندہ حسن)
امام ابن حبان رحمہ اللہ (354ھ)، امام حاکم رحمہ اللہ (405ھ) اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ (748ھ) نے اسے صحیح کہا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے