سوال
کیا عیدین کی تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کرنا حدیث سے ثابت ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نمازِ عید کی تکبیراتِ زائدہ کے ساتھ ہر تکبیر پر رفع الیدین کرنا سنت ہے۔
دلیل نمبر ۱
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
يَرْفَعُهُمَا فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ يُكَبِّرُهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ حَتَّى تَنْقَضِيَ صَلَاتُهُ۔
(سنن ابی داؤد ج۱ ص۴۶۴ رقم ۷۲۲، البغوی فی شرح السنة: ج۳ ص۲۲، سنن دارقطنی: ج۱ ص۲۸۸)
’’رسول اللہ ﷺ رکوع سے پہلے ہر تکبیر پر اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے یہاں تک کہ آپ کی نماز مکمل ہوجاتی۔‘‘
محدثین کی آراء:
- شرح السنہ کے محقق نے کہا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
- راوی بقیہ کے بارے میں اختلاف ہے۔
وَثِقَه الْجَمْھُوْرُ فِیْمَا سَمِعَه مِنَ الثقات وَقَال إِذَا قَالَ ثَنَاوَنَا فَھُوَ ثقة۔
- نسائی نے کہا: اگر وہ "حدثنا” یا "اخبرنا” کہے تو ثقہ ہے۔ (الکاشف ۱/۱۰۶ رقم ۶۲۶)
- بقیہ نے اپنے استاد الزبیدی سے سماع کی تصریح کی ہے۔
- الزبیدی کا پورا نام محمد بن الولید بن عامر ہے۔ (سنن الکبریٰ للبیہقی ۲/۸۳)
- وہ صحیحین کے راوی اور ثقہ ثبت تھے۔ (تقریب التھذیب: ص۳۲۲)
- اگر بقیہ سماع کی تصریح کرے تو ناصر الدین البانی بھی انہیں "صدوق” اور "حسن الحدیث” مانتے ہیں۔ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ: ۴۶۰۱، ۶۲۱، ۶۴۸، ۷۳۰، ۸۰۲)
دیگر رواۃ:
- محمد بن المصفی الحمصی: صدوق تھے، مگر تدلیس کرتے اور انہیں اوہام بھی تھے۔ (تقریب: ص۳۱۹)
- تاہم اس روایت میں انہوں نے سماع کی تصریح کی ہے، اس لیے تدلیس کا الزام بے بنیاد ہے۔
- احمد بن الفرج:
- بعض نے انہیں کذاب کہا اور بعض نے ثقہ۔
- البانی نے کہا: حافظے کی کمزوری کی وجہ سے ان پر جرح ہے مگر جھوٹے نہیں۔ ان کی روایت سے استشہاد کیا جا سکتا ہے، احتجاج نہیں۔ (سلسلۃ الصحیحۃ: ۲/۲۳۶)
یہ روایت شاہد کے طور پر بھی قوی ہے، کیونکہ محمد بن المصفی نے اس کی متابعت کی ہے۔
دلیل نمبر ۲
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے دوسری روایت ہے:
كان رسول اللہ ﷺ رَفَعُهُمَا فِي كُلِّ رَكْعَةٍ وَتَكْبِيرَةٍ كَبَّرَهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ، حَتَّى تَنْقَضِيَ صَلَاته۔
(مسند احمد: ۲/۱۳۴، منتقی ابن الجارود: ص۶۹/۱۷۸، سنن دارقطنی: ۱/۲۸۹)
’’رسول اللہ ﷺ ہر رکعت میں رکوع سے پہلے ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرتے تھے یہاں تک کہ نماز ختم ہوجاتی۔‘‘
تحقیق:
- ابن شہاب زہری نے اس روایت میں سماع کی تصریح کی ہے۔
- ان کا شاگرد محمد بن عبداللہ بن مسلم ابن اخی الزہری صحاح ستہ کا راوی ہے اور جمہور کے نزدیک ثقہ و صدوق ہے۔
الامام العالم الثقة۔ (سیر اعلام النبلاء: ۸/۱۹۷)
حافظ ابن حجر نے کہا: وہ سچا تھا مگر اسے اوہام تھے۔ (تقریب)
ایسے راوی کی روایت جب ثقہ کے مخالف نہ ہو تو "حسن لذاتہ” ہوتی ہے۔ یہ حدیث قوی شاہد کے ساتھ مل کر "صحیح لغیرہ” یعنی حجت بن جاتی ہے۔
دونوں احادیث کا مفہوم
- رکوع سے پہلے کہی جانے والی ہر تکبیر (اگر وہ سنت سے ثابت ہو) کے ساتھ رفع الیدین کرنا سنت ہے۔
- لہٰذا عیدین کی نماز میں تکبیراتِ زائدہ کے ساتھ رفع الیدین سنت ہے۔
- جو اس کے خلاف ہے، وہ غلط اور بے دلیل ہے۔
علامہ البانی کی تاویل اور اس پر رد
- علامہ ناصر الدین البانی نے دوسری دلیل کو "سند صحیح علی شرط الشیخین” مانتے ہوئے کہا کہ یہ صرف فرض نماز کے لیے ہے، عید کی تکبیرات زائدہ شامل نہیں۔ (ارواء الغلیل ۳/۱۱۳ رقم ۶۳۰)
- یہ تاویل کمزور ہے کیونکہ:
- اَلْعَبِرَةُ بِعُمُومِ اللَّفْظِ لاَ بِخُصُوصِ السَّبَب۔ (فتح الباری بحوالہ توجیہ القاری: ص۸۱، للشیخ ثناء اللہ الزاھدی)
- جب کوئی مخصص نہ ہو تو عموم پر عمل کرنا ضروری ہے۔ (توجیہ القاری: ص۷۹)
- امام بیہقی اور ابن المنذر نے بھی اس حدیث کو عیدین کی تکبیرات کے باب میں دلیل بنایا ہے۔ (تلخیص الخبیر ۸۶/۲)
لہٰذا البانی کی تاویل مردود ہے۔
امام مالک رحمہ اللہ کا قول
البانی نے احکام العیدین (جعفر بن محمد الفریابی، ص۸۳) سے امام مالک کا قول نقل کیا کہ:
’’ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرو، لیکن مجھے اس کا کوئی ثبوت معلوم نہیں۔‘‘
- اس قول کا صحیح مطلب یہ ہے کہ امام مالک نے اس کے بارے میں سن کر کہا، نہ کہ وہ بلا ثبوت عمل کے قائل تھے۔
- اگر بالفرض ان کا یہی مطلب ہو، تب بھی یہ لازم نہیں آتا کہ جو چیز امام مالک کے علم میں نہ ہو، وہ غیر ثابت ہے۔
دیگر اقوال
- اوزاعی (محدث شام) سے باسند صحیح یہ ثابت ہے کہ عید کی تمام تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین کیا جائے۔ (احکام العیدین للفریابی ص۱۸۲)
- یہی قول تابعی عطاء کا بھی ہے۔ (مصنف عبدالرزاق ۳/۲۹۷، واسنادہ صحیح)
خلاصہ
نمازِ عیدین میں تکبیراتِ زائدہ کے ساتھ رفع الیدین کرنا سنت ہے اور یہ نبی کریم ﷺ سے ثابت ہے۔ اس کے خلاف کہنا یا اسے بدعت قرار دینا درست نہیں۔