عیدین کی بارہ تکبیروں کا ثبوت اور ائمہ و صحابہ کا عمل
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ ج1، ص544

سوال

عیدین کی بارہ تکبیروں کا ثبوت کون سی کتاب میں ہے؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

پہلی روایت

عن عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ فِي عِيدٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ تَكْبِيرَةً، سَبْعًا فِي الْأُولَى، وَخَمْسًا فِي الْآخِرَةِ، وَلَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا، وَلَا بَعْدَهَا۔
(رواہ احمد کذا فی نیل الاوطار ابن ماجه سندھی: ج۱، باب ما جاء کم یکبر الامام فی صلاة العیدین، ص۳۸۷)
’’رسول اللہﷺ نے عید کی نماز میں پہلی رکعت میں سات تکبیریں کہیں، پھر دوسری رکعت میں پانچ تکبیریں کہیں۔‘‘

دوسری روایت

عن كثير بن عبد الله، عن أبيه، عن جده:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ فِي العِيدَيْنِ فِي الأُولَى سَبْعًا قَبْلَ القِرَاءَةِ، وَفِي الآخِرَةِ خَمْسًا قَبْلَ القِرَاءَةِ

وَفِي البَابِ عَنْ عَائِشَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو.
حَدِيثُ جَدِّ كَثِيرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَهُوَ أَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي هَذَا البَابِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ۔

(جامع الترمذی مع تحفة الاحوذی: ج۱، ص۳۷۶، والتعلیق المغنی علی الدارقطنی: ج۲، وشرح السنة: ج۲، ص۶۰۵)
’’کثیر بن عبداللہ اپنے والد کے ذریعہ اپنے دادا عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عیدین کی نماز میں پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے سات تکبیریں کہیں اور دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے پانچ تکبیریں کہیں۔‘‘

امام ترمذی کی رائے

امام ترمذی فرماتے ہیں کہ عید کی نماز کی تکبیروں کے بارے میں دوسری تمام حدیثوں سے زیادہ صحیح یہی ہے، یعنی اس مسئلہ کے بارے میں دیگر احادیث کی نسبت اس حدیث میں ضعف بہت کم درجے کا ہے۔
(دارقطنی مع التعلیق المغنی: ج۲، ص۴۸)

امام ترمذی مزید فرماتے ہیں:
وَالعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَغَيْرِهِمْ… وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ المَدِينَةِ وَبِهِ يَقُولُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاقُ۔
(جامع ترمذی مع تحفة الاحوذی)

دیگر ائمہ کی رائے

  • قال الشیخ سلام اللہ فی المھلی: یہ شافعی، احمد اور مالک کی حجت ہے اور یہی حضرت ابن عمر، ابن عباس اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔
  • حافظ عبدالرحمٰن مبارکپوری فرماتے ہیں:
    قلت وقد عمل به أبو بکر وعمر رضی اللہ عنہما۔ (تحفة الأحوذی: ج۱، ص۳۷۷)

خلاصہ:
امام شافعی، امام احمد اور امام مالک نے اپنے مسلک کی تائید میں اسی حدیث کو دلیل بنایا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس، ابو سعید خدری، حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہم سے بھی یہی روایت ہے اور انہی کا عمل بھی اسی پر رہا ہے۔

دوسرا مسلک (حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع حدیث کے مطابق نمازِ عید کا دوسرا طریقہ یہ ہے:

  • پہلی رکعت: تکبیر تحریمہ اور تکبیر رکوع سمیت پانچ تکبیریں، پھر قرأت کے بعد رکوع۔
  • دوسری رکعت: قرأت کے بعد رکوع سمیت چار تکبیریں۔ (عون المعبود مع سنن ابی داؤد)

یہ طریقہ بعض دوسرے صحابہ سے بھی مروی ہے، لیکن اس کے ثبوت میں کوئی قابل اعتماد مرفوع حدیث موجود نہیں۔

ترجیح

پہلا طریقہ (بارہ تکبیروں والا) سند کے اعتبار سے زیادہ بہتر ہے، کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کا عمل بھی اسی پر تھا۔
امام محمد بن موسیٰ حازمی نے اپنی کتاب ’’الاعتبار‘‘ میں وضاحت کی ہے:

الحادی والثلاثون فی ترجیح الاخبار أن یکون إحد الحدیثین قد عمل به الخلفاء الراشدون دون الثانی…
(کتاب الاعتبار: ص۱۹)
’’ترجیح کی اکتیسویں وجہ یہ ہے کہ دو متعارض حدیثوں میں سے وہ حدیث زیادہ راجح ہوگی جس پر خلفائے راشدین نے عمل کیا ہو۔ اسی لیے ۱۲ تکبیروں والی حدیث کو چار تکبیروں والی حدیث پر ترجیح دی گئی، کیونکہ حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کا عمل اسی پر تھا۔‘‘

مزید تفصیل کے لئے: نیل الاوطار: ج۳، ص۳۳۸ تا ۳۴۰

فائدہ

عیدالاضحیٰ کا چاند نظر آنے کے بعد تکبیروں کا آغاز کر دینا چاہیے، اور جب امام نماز کے لیے نکلے تو تکبیریں ختم کر دینی چاہئیں۔
(کتاب الام للشافعی: ج۲، ص۲۰۵)

تنبیہ

مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’رسول اکرم کی نماز‘‘ (ص۱۲۲) پر "کثیر بن عبداللہ بن کثیر” لکھا گیا ہے، جو تصحیف ہے۔ صحیح نام کثیر بن عبداللہ ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیں:

  • تحفۃ الاحوذی: ج۱، ص۳۷۷
  • سنن دارقطنی: ج۲، ص۴۸
  • صحیح ابن خزیمہ: ج، ص۴
  • بیہقی: ج۳، ص۲۵۸

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے