عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شرعی حیثیت
حفیظ الرحمن قادری بریلوی صاحب نے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مروجہ انداز میں ثابت کرنے کی بہت کوشش کی مگر افسوس ہے کہ وہ اپنے موقف پر ایک دلیل بھی پیش نہ کر سکے دلیل ہے ہی نہیں تو پیش کہاں سے کرتے ۔ بغیر دلیل کے زور لگانا بے سود ہوتا ہے۔
میلادالنبیﷺ پر اہلسنت اہلحدیث کا موقف
ہمارا موقف یہ ہے کہ جیسا اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا :
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرِ(33/ الاحزاب: 21)
بلا شبہ تمہارے لیے اللہ کے رسول بہترین نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔
اس آیت کریمہ کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ دین کے تمام معاملات مسائل میں صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی پیروی کے لائق ہیں اور جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے یا خود کر کے دکھائے ان میں اضافہ یا ترمیم کا نہ کسی کو کوئی حق ہے نہ اختیار جس طرح اللہ کی ذات وحدہ لاشریک ہے اور اس کی ذات وصفات میں کسی کو شریک کرنا گناہ عظیم ہے۔ وہ چاہے کوئی بڑی سے بڑی ہستی کیوں نہ ہو ۔ اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو باتیں دین کے حوالے سے بتا گئے ہیں ان میں کمی زیادتی کرنا اور اپنی طرف سے کچھ چیزیں ایجاد کر کے انہیں دین کا نام دینا اور قابل ثواب سمجھنا بدعت ہے اور جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے طریقے کے خلاف ہے وہ دین میں قابل قبول نہیں ہوگا ۔ کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے بعد میری اور میرے خلفاء راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھنا۔
حضرات گرامی بدعت ایک خطرناک عمل ہے اور بدعتی کے برے انجام کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح ارشادات موجود ہیں :
عن عائشة: أن رسول الله قال: من عمل عملا ليس عليه أمرنا فهو رد
(صحیح مسلم کتاب الاقضية باب نقض الاحكام الباطلة رقم (1718)
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے دین میں کوئی ایسا کام کیا جس کی بنیاد شریعت میں نہیں وہ کام مردود ہے۔
بدعت کی تعریف خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی :
فان خير الحديث كتاب الله وخير الهدى هدى محمد وشرالامور محدثاتها وكل بدعة ضلالة
(صحیح مسلم باب تحقيق الصلوة والحظة رقم (867)
بہترین بات اللہ کی کتاب ہے بہترین ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے اور بدترین کام دین میں نئی بات ایجاد کرنا ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔
سنن نسائی میں بدعت کی مزمت ان الفاظ میں مذکور ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ان اصدق الحديث كتاب الله واحسن الهدى هدى محمد وشر الأمور محدثاتها وكل محدثة بدعة وكل بدعة ضلالة وكل ضلالة فى النار
(سنن نسائى كتاب صلاة العيدين رقم 1578)
بہترین امور کتاب اللہ اور سنت رسول ہیں اور بدترین امور وہ ہیں جو نئے ایجاد کئے جائیں۔ آپ کے اس فرمان میں ہمارے سامنے دونوں راستے واضح ہو چکے ہیں۔ بہترین راستہ کتاب اللہ وسنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ بدترین راستہ وہ ہے جو ان کے علاوہ ہے اور وہ بدعت ہے اور بدعت گمراہی ہے جس کا انجام جہنم ہے۔
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ دین میں نئی چیزوں سے بچو اس لیے کہ ہر نئی بات گمراہی ہے۔ (سنن ابن ماجہ مقدمہ رقم 43)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
كل بدعة ضلالة وان راها الناس حسنة
(السنة للمروزي ص 68)
تمام بدعتیں گمراہی ہیں خواہ بظاہر لوگوں کو اچھی لگیں۔
بعض لوگوں کو اگر کسی بدعت سے منع کیا جائے تو جواب میں کہتے ہیں اگرچہ کام قرآن وحدیث سے ثابت نہیں مگر اس میں برائی بھی کیا ہے۔ بظاہر کام تو اچھا ہے کہنے والے بھائیوں کو قرآن کی آیات مبارکہ پر ضرور غور کرنا چاہیے۔
قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا أُولَئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ذَلِكَ جَزَاؤُهُمْ جَهَنَّمُ بِمَا كَفَرُوا وَاتَّخَذُوا آيَاتِي وَرُسُلِي هُزُوًا(18/ الكهف: 103-106)
کہہ دو کہ ہم تمہیں بتائیں جو عملوں کے لحاظ سے بڑے نقصان میں ہیں وہ لوگ جن کی سعی دنیا کی زندگی میں برباد ہوگئی اور وہ یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ اچھے کام کر رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کے سامنے جانے سے انکار کیا تو ان کے اعمال ضائع ہو گئے اور ہم قیامت کے دن ان کے لیے کچھ وزن قائم نہیں کریں گے۔
بدعت کی مفصل بحث اپنے مقام پر آئے گی۔ انشاء الله
بدعت کی تعریف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں ہم اجمالی طور پر اس طرح کر سکتے ہیں کہ دین میں کوئی نئی چیز کا اضافہ کرنا اسے بدعت کہتے ہیں اور ذرا تفصیل سے یوں کہہ سکتے ہیں کہ دین میں کسی ایسے کام کا اضافہ کرنا جس کا ثبوت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سے نہیں ملتا جبکہ کرنے والا اسے کارثواب اور ذریعہ نجات سمجھتا ہو۔ بدعت کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ جس کے ذریعے اسے با آسانی پہچانا جاسکتا ہے وہ یہ کہ بدعت ایک حالت پر قائم نہیں بلکہ اس میں اضافے ہوتے رہتے ہیں۔ اور اس کی شکلیں آئے دن تبدیل ہوتی رہتی ہیں مثلا شروع میں قبروں پر صرف چراغاں کیا گیا اور پھر بعض مزاروں پر چادریں چڑھانے کا رواج ہوا پھر ایک اضافہ یہ ہوا کہ قبروں کو با قاعدہ غسل دینے کی رسم ایجاد ہوئی اس کے بعد دھمال اور ناچ گانے کا رواج میلوں کی شکل میں شروع ہوا معلوم نہیں اس کے بعد اضافوں کی کیا شکل ہوگئی۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت کے دن کی مناسبت سے میلاد کے نام سے جو بے شمار رسمیں رائج ہو چکی ہیں ان کا کوئی ثبوت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہل بیت یا سلف صالحین سے نہیں ملتا میلاد کا انکار تو دنیا کے کسی مذہب نے نہیں کیا یہودیوں ، عیسائیوں ، ہندؤں ، نہ سکھوں نے بلکہ وہ کافر جو اللہ کے وجود کا انکار کرتے ہیں وہ بھی آپ کی ولادت کو مانتے ہیں کہ آپ کا میلاد ہوا میلاد سب کا ہوتا ہے میرا بھی ہوا ۔ آپ سب کا ہوا ہر شخص کا ہوتا ہے پیدائش ہوتی ہے مگر زندگی میں ایک بار ہوتا ہے ہر سال بار بار کوئی شخص پیدا نہیں ہوتا الغرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد ولادت کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا مگر ایک گروہ وہ ہے جو میلاد کا انکار کرتا ہے وہ گروہ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر نہیں بلکہ نوری مانتا ہے کیوں کہ نوری کا میلاد نہیں ہوتا میلاد تو بشر کا ہوتا ہے۔
ہمارے نزدیک سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت و محبت عین ایمان ہے آپ کی ولادت سے وفات تک حیات طیبہ کے ہر پہلو کا ذکر کرنا باعث نزول رحمت رب العالمین ہے آپ کا ذکر خیر زمان و مکان پر موقوف نہیں بلکہ ہر آن و ہر زمان سیرت طیبہ کا سننا سعادت عظمی ہے۔ لیکن 12 ربیع الاول کو جشن عید میلاد النبی کا جلوس نکالنا بھنگڑے ڈالنا رقص وسرور کرنا قوالیاں گانا خیر القرون سے ثابت ہے؟
اگر ثابت ہو جائے تو سر آنکھوں پر پھر کسی کو اعتراض کی مجال نہیں حقیقت یہ ہے کہ 23 سالہ دور نبوت اور 60 سالہ دور خلافت تقریباً ایک سو دس ساله دور صحابه تقریبا 220 ساله دور تابعین وغیرہ میں اس کا وجود کہیں بھی نہیں پایا گیا سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو محبت صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کو نصیب ہوئی ساری دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہے اتنی بے پناہ عقیدت و احترام کے باوجود کسی کو یہ جشن عید میلادالنبی کی سوجھی نہ کسی نے اس کو کار ثواب سمجھا جو کام اس وقت دین نہ تھا وہ آج کیسے دین بن گیا۔ حالانکہ اس کا سبب اس وقت بھی موجود تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم پر لازم ہے کہ میری سنت اور میرے خلفاء الراشیدین کی سنت کی پابندی کرو۔(مشکوۃ ج 1 ص30)
کسی شاعر نے خوب کہا ہے:
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
بعض لوگوں نے جب بدعت کے خلاف قرآن وحدیث کے قوی دلائل دیکھے تو بے بس ہو کر بدعت کے برے انجام سے بچنے کے لیے بدعت حسنہ کی آڑ لے کر بدعات کو اس قدر رواج دیا اور ان کی اشاعت کے لیے اتنی محنت کی کہ اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے اندر ایک ایسا گروہ پیدا ہو گیا جس میں بدعت سے اتنی دلچسپی اور محبت پیدا ہوگئی ۔ جتنی فرض سنت حقوق اللہ یا حقوق العباد میں بھی نہیں ہے ہم دیکھتے ہیں کہ بے شمار رسوم کو جن کی کوئی اصل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے یا صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں نہیں ملتی آج دین کا جز بن چکی ہیں۔ خیر القرون میں ان کا کہیں وجود نظر نہیں آتا۔ قبل اس کے کہ ہم ان چیزوں کے غیر مشروع ہونے پر بحث کریں چند مغالطات کا رد کرنا ضروری ہے جو اہل بدعت کی جانب سے سنت پر چلنے والوں کو دیئے جاتے ہیں۔
مغالطہ نمبر : 1
یہ کہا جاتا ہے کہ اگر ہر نئی بات بدعت ہے تو پھر یہ موٹر سائیکل سکوٹر ریل گاڑی بسیں کاریں ہوائی جہاز یہ چیزیں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں نہ تھیں یہ سب چیزیں اگر بدعت ہیں تو پھر استعمال میں کیوں لایا جاتا ہے؟
الجواب:
بظاہر تو یہ بات بڑی وزنی معلوم ہوتی ہے لیکن جس شخص کو بدعت کی صحیح تعریف معلوم ہوگی اور اس کی پہچان ہوگی وہ کبھی اس مغالطے کا شکار نہیں ہوتا یہ مغالطہ وہی لوگ دیتے ہیں جو یا تو بدعت کی تعریف سے ناواقف ہوتے ہیں یا پھر وہ جان بوجھ کر لوگوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں۔ کیونکہ ہم شروع میں یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ بدعت اس چیز کو کہا جائے گا جو دین میں نئی بات ثواب اور اجر کی نیت اور خیال سے نکالی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ بالکل واضح ہیں۔ یعنی جس نے ہمارے دینی معاملات میں کوئی نئی چیز پیدا کی نہ کہ دنیاوی معاملات میں اب دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں جو ہوائی جہاز پر سوار ہونا کارثواب سمجھتا ہو یا ریل گاڑی میں بیٹھنا دخول جنت کا باعث سمجھتا ہو اس طرح دیگر سواریوں کو ذریعہ نجات سمجھتا ہو۔
دوسرا جواب
یہ ہے کہ ان سواریوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خود کیا ہے :
وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ(16 / النحل : 8)
اور گھوڑے اور خچر اور گدھے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے اور وہ سواریاں پیدا کرے گا جوتم نہیں جانتے۔
اس آیت مبارکہ میں وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ فرما کر قیامت تک کی سواریوں کا ذکر فرما دیا لہذا ان چیزوں سے بدعت کی دلیل کشید کرنا قلت تدبر کا نتیجہ ہے ایسا وہم باطل ہے جیسے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ۔
مغالطہ نمبر : 2
بریلوی حضرات کی جانب سے دیا جاتا ہے یہ مغالطہ بین الاقوامی قسم کا ہے اور بعض سنت کے پابند لوگ بھی اس کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس طرح کی باتیں سن کر ذہنی انتشار میں مبتلا ہو جاتے ہیں وہ یہ کہ صاحب ہم جو کام کر رہے ہیں جب یہ نیکی کا کام ہے اچھا کام ہے تو آخر اس کے کرنے میں کیا حرج ہے؟ بیشک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت تو نہیں ہے لیکن اس میں برائی یا کوئی قباحت نہیں تو پھر اس سے آپ لوگ کیوں روکتے ہو؟
الجواب :
اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں کہ نیکی کے کام کرنے میں کوئی حرج نہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اچھا کام قابل تعریف ہے جب کیا جائے جس جگہ بھی کیا جائے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ نیکی کے کام سے روکنے والے نافرمان و گناہ گار ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیکی آخر کیا ہے؟ یہ کون بتائے گا کہ یہ کام باعث ثواب ہے اور یہ باعث گناہ ہے۔
پھر اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ نیکی کرنے کا طریقہ یہ ہے ثواب حاصل کرنے کا ذریعہ یہ ہے اور اس کی حدود و قیود میں اگر ہر شخص اپنی طرف سے نیکی کی تعریف اور طریقہ متعین کر لے گا تو پھر دین تو ایک مذاق بن کر رہ جائے گا۔ انبیاء کرام علیہم السلام کی بعثت کا مقصد فوت ہو جائے گا اس بات کا تعین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کر سکتے ہیں کہ نیکی کرنے کا طریقہ کیا ہے اور اس کی حدود کیا ہیں۔ ہر شخص کو اس کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے جن میں کچھ لوگوں نے اچھے کام کیے جن میں اللہ کا ذکر کرنا تھا اس کی عبادت تھی مگر اس کے باوجود وہ روک دیئے گئے اور ان کو بتایا گیا یہ طریقہ عبادت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں تو فورا اس سے رک گئے چند مثالیں پیش کرتے ہیں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس تین آدمی آئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کے متعلق پوچھا ان کی خبر دی گئی انہوں نے اس کو کم جانا اور کہنے لگے ہماری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیا نسبت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو بخشے ہوئے ہیں ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا میں ہمیشہ ساری رات نماز پڑھا کرونگا۔ دوسرے آدمی نے کہا میں ہمیشہ دن کو روزہ رکھوں گا اور افطار نہ کروں گا۔ تیسرے نے کہا میں عورتوں سے الگ رہوں گا کبھی نکاح نہیں کروں گا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور فرمایا تم نے ایسی ایسی باتیں کہیں ہیں خبر دار اللہ کی قسم میں تمہاری نسبت اللہ سے بہت ڈرتا ہوں لیکن میں روزہ بھی رکھتا ہوں افطار بھی کرتا ہوں نماز بھی پڑھتا ہوں سوتا بھی ہوں اور عورتوں سے نکاح بھی کیا ہے۔ جس نے میرے طریقے سے اعراض کیا وہ مجھ سے نہیں ۔ (بخاری ومسلم)
غور فرمائیں ! ان تین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جن کاموں کا ارادہ کیا تھا وہ کام اچھے ہیں یا برے نماز روزہ کیا یہ کام انہوں نے خلوص کے ساتھ کرنے کا ارادہ نہ کیا تھا اس میں کیا حرج تھا کیا یہ برائی اور گناہ کے کام تھے یا نیکی کے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع کیوں کیا؟
اسی طرح بات سمجھانے کے لیے میں ایک بات اکثر کہا کرتا ہوں کہ نماز مغرب میں فرض رکعت تین ہیں اگر کوئی چار پڑھ لے تو یہ درست ہوگا کیوں کہ اس میں برائی والی کوئی بات نہیں بلکہ ایک رکعت زیادہ کا ثواب مل جائے گا تو کہتے ہیں نہیں یہ غلط ہے ۔ پھر میں پوچھتا ہوں غلطی کیا ہے تو جواب دیتے ہیں یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں پڑھی پھر میں کہتا ہوں یہی بات تو ہم کہتے ہیں جو کام جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے ویسے ہی کرنا چاہیے کمی زیادتی کرنا اپنی طرف سے کوئی طریقہ ایجاد کرنا غلط ہے۔
اسی طرح سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ مسجد میں ذکر کرنے والی ایک جماعت تھی ان میں ایک شخص کہتا سو مرتبہ الله اكبر پڑھو تو حلقہ نشین لوگ کنکریوں پر سو مرتبہ تکبیر کہتے پھر وہ کہتا سو بار لا اله الا الله پڑھو تو وہ سو بار تہلیل پڑھتے پھر وہ کہتا سو بار سبحان الله کو تو وہ کنکریوں پر سو مرتبہ تسبیح پڑھتے یہ دیکھ کر عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم ان کنکریوں پر اپنے گناہ شمار کیا کرو میں تمہاری نیکیوں کا ضامن ہوں وہ ضائع نہ ہوں گی ۔ تعجب ہے تم پر اے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا جلد ہی تم ہلاکت میں پڑ گئے ہو ابھی تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تم میں بکثرت موجود ہیں اور ابھی تک جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے پرانے نہیں ہوئے اور ابھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برتن نہیں ٹوٹے۔
اور پھر فرمایا اندریں حالات تم بدعت اور گمراہی کا دروازہ کھولتے ہو۔ (مسند درامی ص 38، المنبات الوضع صفحه 136)
جو لوگ مسجد میں بیٹھ کر ذکر اذکار میں مصروف تھے کیا وہ کوئی برا کام کر رہے تھے کہ سیدنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کو ڈانٹا یہ کام کرنے میں کیا حرج تھا کیا وہ کسی کو گالیاں دے رہے تھے۔ اگر اپنی مرضی سے عبادت کا طریقہ ایجاد کرنا جائز ہوتا تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ منع نہ کرتے ۔
دراصل وہ کام تو اپنی طرف سے نیک ہی کر رہے تھے مگر ایسے کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نہیں تھا ایک اور روایت میں ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں چھینک ماری اور کہا : الحمد الله والسلام على رسول الله تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کا تو میں بھی قائل ہوں کہ : الحمد لله والسلام على رسول الله لیکن ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعلیم نہیں دی ہمیں اس موقعہ پر تعلیم دی گئی ہے کہ ہم : الحمد الله على كل حال کہا کریں۔(ترمذی جلد 2 صفحه 98، مشكوة جلد 2 صفحه 406)
اس شخص نے اگر اس موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پڑھ لیا تو کون سا گناہ کر لیا تھا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر کیوں اعتراض کیا کہ کام تو ٹھیک ہے مگر طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں تھا۔
مغالطہ نمبر : 3
جشن عید میلاد النبی منانے کی دلیل نہیں تو منع کہاں ہے قرآن وحدیث سے جواب دیں۔
الجواب :
یہ تو ایسا سوال ہے کہ جو شخص پیدا ہی نہیں ہوا مطالبہ کیا جاتا ہے کہ بتاؤ اس کی وفات کب ہوئی۔ اصل بات یہ ہے کہ کسی چیز کے ہونے کی دلیل ہوتی ہے اور نہ ہونے کی دلیل اس کا نہ ہوتا ہے۔ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی نے کیا ہی نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منع کیسے فرماتے ہاں اگر کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں یہ کام کرتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم منع نہ فرماتے تو یہ کام سنت ہوتا جو پھر انکار کرتا وہ منکرین سنت کہلا تا اور بدعت تو ہوتی ہی وہ ہے جس کی نہ ممانعت ہو اور نہ ثبوت۔
اگر ہم ہر چیز کے لیے منع کا ثبوت مانگیں گے تو پھر بہت ساری بدعات کا دروازہ کھل جائے گا ۔ مثلاً فجر کی نماز دو رکعت ہے اگر کوئی چار پڑھے تو بتائیں منع کہاں ہے۔ شیعہ حضرات ماہ محرم میں چھریاں مارتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھریاں مارنے سے منع کہاں کیا ہے۔ شیعہ اپنی اذان میں اشهد ان عليا ولي الله کہتے ہیں آپ اپنی اذان میں یہ الفاظ نہیں کہتے ان الفاظ کی ممانعت کا ثبوت دیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے۔
آپ لوگ تہجد کی اذان نہیں کہتے اس کی ممانعت کا ثبوت دیں۔ نماز جنازہ میں آپ اذان اور تکبیر نہیں کہتے اس کی ممانعت کا ثبوت پیش کریں نماز میں ایک رکعت میں دو سجدے کیے جاتے ہیں اگر کوئی تین کر لے تو منع کہاں ہے۔ عید کی نماز کے لیے آپ اذان و تکبیر نہیں کہتے اس کی ممانعت کا ثبوت دیں۔ آپ صبح کی نماز میں قنوت نہیں پڑھتے اس کی ممانعت کا ثبوت دیں۔
حضرات گرامی اس طرح کے ہزاروں سوالات پیش کیے جاسکتے ہیں مگر سمجھانے کے لیے ان چند پر ہی اکتفا کرتا ہوں اب یہ بات یقیناً واضح ہوگئی کہ ثبوت ممانعت کا نہیں ہوتا بلکہ ثابت کرنے کا ہوتا ہے۔ البتہ مجموعی طور پر بدعات کی ممانعت پر کافی احادیث موجود ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
من احدث فى أمرنا هذا ما ليس منه فهورد
(بخاری 2697)
جو کوئی ایسا عمل کرے جو ہمارے طریقہ پر نہیں وہ عمل مردود ہے۔
صحیح مسلم کے الفاظ ہیں :
من عمل عملا ليس عليه امرنا فهورد
جو کوئی ایسا عمل کرے جو ہمارے طریقہ پر نہیں تو وہ عمل مردود ہے۔ لہذا ان احادیث میں دین میں کسی طرح کا بھی اضافہ کرنے کی ممانعت ہے اہل ایمان کو چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی کامل شریعت میں نہ کمی کریں نہ اضافہ اور قرآن وسنت کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کریں اس میں دونوں جہانوں کی کامیابی ہے اللہ عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمين
مغالطہ نمبر : 4
بعض بریلوی حضرات یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ قرآن پر اعراب بھی تو رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نہیں تھے حجاج بن یوسف نے لگوائے تھے لہذا یہ بھی بدعت ہے؟
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ حجاج کے دور میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم بقیہ حیات تھے اگر یہ کام بدعت ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ضرور اعتراض کرتے مگر صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ میں سے کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا گویا کہ یہ اجماعی مسئلہ تھا یہ خود حجت و دلیل ہے۔
دوسرا جواب :
یہ ہے کہ اعراب کو بدعت قرار دینا محض جہالت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود قرآن پڑھتے تھے اور اعراب بھی پڑھتے کیونکہ بغیر اعراب کے کوئی عربی عبارت پڑھ ہی نہیں سکتا حجاج نے اعراب لگائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے۔
لہذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراب خود پڑھے ہیں یہ بدعت کیسے ہو سکتے ہیں یہ چند مغالطے تھے جو بریلوی عوام میں خاص طور پر مشہور ہیں جن کو اپنے موقف کی دلیل بنا کر پیش کرتے ہیں مگر آپ نے دیکھ لیا کہ ان مغالطوں میں ایک بات بھی ان کے موقف کی دلیل نہیں بنتی۔ حقیقی بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت میں شدید اختلاف ہے مثلاً مولانا امیرالدین نے سیرت طیبہ میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت 5 ربیع الاول کو ہوئی۔ (سیرت طیبہ ص : 76)
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ جمہور قول یہ ہے کہ آٹھ ربیع الاول کو آنحضرت کی ولادت ہوئی۔ (زادالمعادص 68)
برصغیر کے اکثر سیرت نگاروں نے 9 ربیع الاوّل کو یوم ولادت قرار دیا ہے ۔ قاضی سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے نبی موسم بہار دوشنبہ کے دن 9 ربیع الاول کو پیدا ہوئے۔ (رحمتہ اللعالمین ص 72)
سید اکبر شاہ نجیب آبادی فرماتے کہ 9 ربیع الاول 571ء بروز سوموار بعد از صبح صادق از قبل از طلوع آفتاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے ۔ (تاریخ اسلام حصہ اول ص 72)
شاہ معین الدین احمد ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبد اللہ کی وفات کے چند مہینوں بعد عین موسم بہار اپریل 9 ربیع الاول 571ء کو عبد اللہ کے گھر فرزند تولد ہوا بوڑھے اور زخم خوردہ عبدالمطلب پوتے کی پیدائش کی خبر سن کر گھر آئے اور نومولود کو خانہ کعبہ لیجا کر اس کے لیے دعا مانگی ۔ (تاریخ اسلام حصہ اول صفحہ 25)
چوہدری افضل حق نے اپنی کتاب محبوب خدا میں لکھا ہے کہ آپ 9 ربیع الاول کو پیدا ہوئے ۔ (محبوب خدا صفحہ 20)
حفیظ الرحمن سوھا روی نے قصص القرآن جلد میں 9 ربیع الاول کو پیدائش کا دن ٹھہرایا ہے ۔
ابن سعد رحمہ اللہ فرماتے ہیں ماہ ربیع الاول کی دس راتیں گزری تھیں کہ دوشنبہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ (الطبقات الکبری لابن سعد ص100)
محمود احمد رضوی بریلوی فرماتے ہیں کہ واقعہ فیل کے پچپن روز بعد 12 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571ء کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت ہوئی۔
پیر کرم شاہ بھیروی لکھتے ہیں کہ 12 ربیع الاول کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رونق افروز گیتی ہوئے۔(ضیاء القرآن ج 5 ص 225)
شیعہ کے نزدیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن 17 ربیع الاول ہے۔ چنانچہ نجم الحسن کراروی نے اپنی کتاب چودہ ستارے کے صفحہ 28۔29 پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن 9 ربیع الاول ذکر کیا ہے۔
اسی طرح مسعود رضا خاکی نے مضمون چودہ معصومین میں لکھا ہے کہ فقہ جعفریہ کے علماء کے نزدیک طے شدہ تاریخ ولادت 17 ربیع الاول ہے۔(البشر ماہنامہ لاہور ہادی انسانیت نمبر فروری 1980 ص 50)
پیر عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ کے نزدیک ولادت کا دن، 10 محرم ہے۔(غنية الطالبين ص 121 باب یوم عاشوره)
پیر صاحب کے نام کے وظیفے کرنے والوں کو اور ان کے نام کی کھیر کھانے والوں کو پیر صاحب کی بات پر یقین کر کے جشن عید میلاد النبی کا جلوس ، 10 محرم کو نکالنا چاہیے۔
علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے بھی سیرت النبی حصہ اول میں تاریخ ولادت 9 ربیع الاول کو قرار دیا ہے۔
مصر کے مشہور ریاضی دان محمود پاشا فلکی نے ایک رسالہ لکھا ہے جس میں انہوں نے ریاضی کے دلائل سے ثابت کیا ہے کہ آپ کی ولادت 9 ربیع الاول دو شنبه مطابق 20 اپریل 571ء میں ہوئی۔ (سیرت النبی جلد ا ص 171)
علامہ صفی الرحمان محدث مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر 9 ربیع الاول سال عام الفیل یوم دوشنبہ کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔ (الرحیق المختوم صفحه 10)
زبیر بن بکار کے نزدیک آپ کی پیدائش کا دن 12 رمضان ہے۔ (الاستعاب لابن عبد البر ، ج 1 : 30)
سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے 8 ربیع الاول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کا دن قرار دیا ہے۔(ماثبت بالسنة ص 57 از شاہ عبدالحق محدث دہلوی)
تاریخ پیدائش میں اختلاف ہونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت پر جشن عید میلادالنبی نہیں منایا جاتا تھا ورنہ عید کی تاریخ میں اتنا اختلاف نہیں ہوتا ۔ جس طرح شریعت اسلامیہ میں دو عیدیں ہر سال منائی جاتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر آج تک ایک دو دن کا اختلاف ہو جائے تو الگ بات ہے وگرنہ مہینوں اور ہفتوں کا اختلاف کبھی نہیں ہوا۔
البته 12 ربیع الاول کے یوم وفات پر جمہور مورخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے۔
علامہ سید سلیمان منصور پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں 12 ربیع الاول 11ھ یوم دو شنبہ وقت چاشت تھا کہ جسم اطہر سے روح انور نے پرواز کیا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 63 سال قمری پر 4 دن تھی ۔ (رحمتہ اللعالمین صفحه 293)
مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی فرماتے ہیں دو پہر کے قریب روز دوشنبه 12 ربیع الاول 11ھ کو اس دار فانی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا اگلے دن سہ شنبہ کے قریب مدفون ہوئے۔( تاریخ اسلام جلد اول صفحه 203)
اور احمد رضا خان بریلوی نے بھی ملفوظات میں 12 ربیع الاول کو وفات تسلیم کیا ہے۔ مولوی محمد عمر اچھروی بریلوی نے لکھا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش فرمایا تو بارھویں تاریخ مقرر کر کے اور آپ کا وصال ہوا تو مہینہ ربیع الاول بارہویں تاریخ مقرر کر کے۔ (مقياس حنفیت ص 69)
اور آگے لکھتا ہے اور آیت کا ظاہر اور سیاق وسباق اس بات پر دال ہے کہ بارھویں تاریخ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کی ہے۔ (مقیاس حنفیت ص 70)
بلکہ تمام بریلوی علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی تاریخ کو پیدا ہوئے اور اسی تاریخ کو فوت ہوئے۔ اگر ایک بچہ اُسی تاریخ کو پیدا ہو اور اُسی تاریخ کو فوت ہو تو خوشی ہوگی کہ غم ! اگر خوشی مانتے ہو تو جانے کا غم کیوں نہیں؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تو شدید غم پہنچا تھا۔
انڈیا پاکستان میں آج سے کچھ عرصہ پہلے یہ دن 2 وفات کے نام سے مشہور ومعروف تھا اس بات کی تصدیق آپ اپنے بڑے بوڑھے بزرگوں سے بھی کر سکتے ہیں اور ویسے بھی دنیاوی قاعدے کے اعتبار سے اگر کوئی شخص کسی تاریخ کو پیدا ہوا ہو اور پھر اسی تاریخ کو فوت ہو جائے تو اس شخص کے عزیز واقارب اس دن کو کبھی خوشی نہیں منائیں گے۔
میرے برادر 12 ربیع الاول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا دن ہے تاریخ سے معلوم ہو جانے کے بعد بھی کیا یہ دن ہمارے لیے خوشی کا رہ جاتا ہے اس دن کے غم کا پتہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تھا حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض کی شدت سے بے ہوش ہو گئے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے روتے ہوئے کہا ! افسوس میرے ابا کو بہت تکلیف ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آج کے بعد تیرے باپ کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں اے ابا جان اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا قبول فرمالی ہے اے ابا جان آپ کا ٹھکانا جنت الفردوس ہے اے ابا جان ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر جبریل علیہ السلام کو سناتے ہیں پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دفن کر دیے گئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے کہا اےانس رضی اللہ عنہ تمہارے دل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مٹی ڈالنے کے لیے کس طرح آمادہ ہو گئے تھے۔(بخاری کتاب المغازى باب مرض النبى ووفاته حديث 4462)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا تو غم سے نڈھال تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے چھ ماہ بعد وفات پاگئیں اور مولوی اس دن ڈھول بجا کر چھٹے بجا کر خوشی منا رہا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جس دن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس مدینہ تشریف لائے اس دن سے پہلے میں نے مدینے کو اتنا خوبصورت کبھی نہیں دیکھا تھا اور جس دن یعنی ربیع الاول کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی اسے زیادہ تاریک دن میں نے کبھی پہلے نہیں دیکھا۔(مشکوۃ صفحہ 547 ج 2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دن فوت ہوئے وہ 12 ربیع الاول کا دن تھا یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جشن عید میلاد النبی منایا تھا ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جنازہ مبارک قبر میں دفن ہو رہا تھا تو کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جشن عید میلاد النبی کا جلوس نکال کر قوالیاں گا کر اور رقص وسرور سے خوشی منا رہے تھے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی میں رو رہے تھے یہ فیصلہ اپنے ضمیر سے لینا ….!
غور فرمائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چالیس سال کی عمر میں نبوت ملی نبوت کے بعد 23 مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں 12 ربیع الاول کا دن آیا انہوں نے اپنی ولادت کا دن نہیں منایا اس کے بعد ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی محبت رکھنے والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 11ھ سے 13ھ تک ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ رہے دو مرتبہ ان کی زندگی میں یہ دن آیا 13ھ سے 24 ھ تک دس مرتبہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یہ دن آیا 24ھ سے 35 ھ تک حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں گیارہ مرتبہ یہ دن آیا 35ھ سے 40 ھ تک پانچ مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں یہ دن آیا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے آخری صحابی 110ھ میں فوت ہوئے اس وقت تک نہ تو کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے یہ دن منایا اور نہ ہی خلفاء الراشدین میں سے کسی نے حالانکہ وہ سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والے تھے خود بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے یوم پیدائش پر نہ کبھی مدینے کی گلیوں کو سجایا نہ سجانے کا حکم دیا نہ جھنڈیاں لگانے کا اہتمام کیا نہ مساجد میں چراغاں کیا نہ سجانے کا حکم دیا۔ اس کے بعد نہ یہ کام صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیے نہ تابعین رحمہم اللہ نہ بعد میں آنے والے لوگوں نے اور نہ ہی چاروں اماموں نے مثلاً :
✔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ 80ھ میں پیدا ہوئے 150ھ میں فوت ہوئے۔
✔امام مالک رحمہ اللہ 93ھ میں پیدا ہوئے 179ھ میں فوت ہوئے۔
✔امام شافعی رحمہ اللہ 150ھ میں پیدا ہوئے 204ھ میں فوت ہوئے ۔
✔امام حنبل رحمہ اللہ 164ھ میں پیدا ہوئے 241ھ میں فوت ہوئے۔
ان میں سے کسی امام نے بھی سرور کائنات کی ولادت پر جشن عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں منایا کیا یہ ائمہ آپ کی ذات اقدس سے محبت نہ کرتے تھے یا ان کو پوری زندگی مسئلہ ہی سمجھ نہ آیا؟
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سوموار کے دن کا روزہ رکھتے تھے۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پیر کے دن روزے کی بابت پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ دن میری پیدائش کا دن ہے اور اسی دن مجھ پر قرآن نازل ہوا۔ (مسلم شریف، کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام حدیث:2750)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیدائش کے دن روزہ رکھ کر یہ بتایا کہ میری پیدائش کے دن کو کوئی شخص عید کا دن نہ بنائے کیوں کہ عید کے دن روزہ نہیں ہوتا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ دونوں عیدوں کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کی ممانعت فرمائی۔(صحیح بخاری ، کتاب الصوم، باب صوم يوم الفطر حدیث: 1993)
اب کام ایک ہی ہوگا اگر روزہ ہے تو عید نہیں ، عید ہے تو روزہ نہیں۔
لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اس دن روزہ رکھیں مگر ہم اس کے مخالف دیگیں پکائیں اور تقسیم کریں حلوے پکائیں پوریاں کھلائیں۔ حالانکہ محبت تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلنے اتباع کرنے کا نام ہے۔
احمد رضا خان بریلوی کا قیام میلاد کے بارے میں عقیدہ :
فرماتے ہیں کہ میں نے ایک بندر کو قیام کرتے دیکھا۔ میں اپنے پرانے مکان میں جس میں میرے منجھلے بھائی مرحوم رہا کرتے تھے مجلس میلاد پڑھ رہا تھا کہ ایک بندر سامنے دیوار پر مؤدب بیٹھا سن رہا تھا جب قیام کا وقت آیا تو وہ مؤدب کھڑا ہو گیا پھر جب ہم بیٹھے وہ بھی بیٹھ گیا وہ بندر وھابی نہ تھا۔ (ملفوظات حصہ چہارم ص 32)
وہ قیام کرنے والا اور میلاد سننے والا بلاشبہ بندر ہی تھا وھابی نہ تھا ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کبھی انکار نہیں ہوا کہ جناب کے سامعین بندر اور قیام کرنے والے بندر ہرگز وھابی نہ ہوا کرتے تھے یہ عبادت جو بندر کرتے ہیں اللہ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمين
غور وفکر کرنے کے لیے چند سوالات پیش خدمت ہیں توجہ فرمائیں۔
➊ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کو عید کے طور پر منایا؟
➋ کیا یہ دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کا دن ہے یا وفات کا؟
➌ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کو عید میلاد النبی کا نام دے کر منایا یا منانے کا حکم دیا؟
➍ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے پہلے چالیس سالہ زندگی میں کبھی یوم پیدائش پر جشن منایا؟
➎ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی 23 سالہ نبوت والی زندگی میں جشن عید میلادالنبی منایا؟
➏ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اپنی یوم ولادت پر جشن عید میلاد النبی منانے کا حکم دیا؟
میرے بھائیو! کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ دن کیسے منایا ہوگا اگر نہیں سوچا تو مرنے سے پہلے تعصب کی عینک اتار کر فرقہ پرستی کے بھوت کو سر سے اتار کر اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو سینے میں بسا کر اللہ تعالیٰ سے صراط مستقيم کی دعا مانگ کر ایک دفعہ ضرور سوچیں کیا یہ دن خوشی کا ہے یا غم میں ڈوبا ہوا ہے؟
یہ بات یادرکھیں جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے وہ کام سنت ہے اور جو نہیں کیا وہ نہ کرنا سنت ہے جو کام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کیا وہ کام کرنا سنت اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے، جو کام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہیں کیا وہ کام نہ کرنا سنت اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
کیا آپ بھول گئے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات والے دن مدینہ طیبہ میں قیامت صغری برپا تھی۔
عید میلادالنبی کی تاریخ کب شروع ہوئی؟
میلاد النبی کی عید منانے کا آغاز ملک المعظم مظفر الدین کوکبری نے کیا یہ شخص 586ھ میں شہر اربل کا گورنر مقرر ہوا اور 604ھ میں اس نے محفل میلاد کا آغاز کیا تاریخ ابن خلکان میں لکھا ہے کہ شاہ اربل مجلس مولود کو ہر سال نہایت شان و شوکت سے مناتا تھا جب اربل شہر کے ارد گرد والوں کو خبر ہوئی کہ شاہ اربل نے ایک مجلس قائم کی ہے جس کو بڑی عقیدت اور شان وشوکت سے انجام دیتا ہے تو بغداد موصل جزیرہ سنجار اور دیگر بلاد نجم سے گویے شاعر اور واعظ بادشاہ کو خوش کرنے کے لیے ناچ گانے کے آلات لے کر محرم ہی سے شہر اربل میں آنا شروع ہو جاتے قلعہ کے نزدیک ہی ایک ناچ گھر تیار کیا گیا تھا جس میں کثرت سے قبے اور خیمے تھے شاه اربل ان خیموں میں گانا سنتا اور کبھی کبھی مست ہو کر ان گلوکاروں کے ساتھ خود بھی رقص کرتا تھا۔ (تاریخ ابن خلکان ج 3 ص 274)
چھ سو سال بعد شروع ہونے والا کام کیسے شریعت محمدی میں داخل ہو سکتا ہے قرون اولیٰ میں تو عید میلاد النبی کا نام ونشان بھی نہیں تھا ہم اسے دین کیسے مان لیں۔ اگر یہ کام کار ثواب ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ضرور کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کرنے کی ترغیب دلاتے پھر تابعین رحمہم اللہ اس پر عمل کرتے پھر اس کے بعد میں آنے والے کرتے پھر چاروں امام کرتے ۔ مگر کسی نے بھی اس کارخیر میں حصہ نہیں لیا ایک طرف لوگ کہتے ہیں کہ مقلدین کے لیے قول امام دلیل ہے مگر اس مسئلہ میں نہ جانے یہ لوگ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو کیوں بھولے ہوئے ہیں۔ کیونکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے اس کی کوئی دلیل نہیں ملتی فقہ حنفی کی کتابیں اس مسئلہ میں بالکل خاموش ہیں ہمیں تو تلاش کرنے کے باوجود بھی کوئی دلیل نہیں ملی خالی الذہن ہو کر مذہبی تعصبات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فرقہ واریت سے بالا تر ہو کر سوچیں کہ یہ میلاد کا جلوس اور اس کے اندر پائی جانے والی منکرات یہ ریڑھے تانگے گدھے گاڑیاں یہ رقص وسرور یہ گت کا بازی بیت اللہ کے جعلی ماڈل بنانا میوزک کے ساتھ قوالیاں یہ سب کچھ کسی شریعت سے لیا گیا ہے؟ قرآن مجید سے محفل میلاد پر پیش کئے جانے والے دلائل کے جوابات جن کا نفس مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں مگر عام طور پر پیش کیے جاتے ہیں اس لیے ان کے جوابات تحریر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا(5/ المائده: 114)
اے ہمارے پروردگار ہم پر آسمان سے کھانا نازل فرما کہ وہ ہمارے لیے یعنی ہم میں جو اول ہیں اور جو بعد میں ہیں سب کے لیے خوشی کی بات ہو جائے۔
پہلی دلیل
معلوم ہوا کہ مائدہ کے آنے سے ان کو حضرت مسیح علیہ السلام نے عید کا دن بنایا آج بھی اتوار کو عیسائی اس لیے عید مناتے ہیں کہ اس دن دستر خوان اترا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اس مائدہ سے بڑھ کر نعمت ہے لہذا ان کی ولادت کا دن بھی یوم عید ہے۔
الجواب :
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور اقدس میں یہ آیت مبارکہ قرآن میں موجود تھی یا نہیں اگر موجود تھی اور حقیقت بھی یہی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کرتے ہوئے جشن عید میلادالنبی منایا تھا؟
پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں قرآن میں یہ آیت موجود تھی یا نہیں اگر تھی تو انہوں نے اس آیت پر عمل کرتے ہوئے جشن عید میلاد النبی منایا کیسے اور کب صرف ایک حدیث پیش کریں؟ پھر اسلامی شریعتوں میں عید کا مطلب یہ نہیں رہا ہے کہ قومی تہوار کا ایک دن ہو جس میں تمام اخلاقی قیود اور شریعت کے تمام ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے بے ہنگم طریقے سے طرب و مسرت کا اظہار کیا جائے چراغاں کیا جائے جشن منایا جائے جیسا کہ آج کل یہی مفہوم سمجھ لیا گیا ہے اور اسی کے مطابق تہوار منائے جاتے ہیں بلکہ آسمانی شریعتوں میں اس کی حیثیت ایک ملی تقریب کی ہوتی ہے جس کا اہم مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس روز پوری ملت اجتماعی طور پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اس کی تکبیر وتحمید کے زمزمے بلند کرے ۔ یہاں بھی حضرت عیسی علیہ السلام نے اس دن کو عید منانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے اس سے ان کا مطلب یہی ہے کہ ہم تعریف و تمجید اور تکبیر و تحمید کریں مفتی احمد یار نعیمی بریلوی صاحب جیسے بعض لوگوں نے عید مائدہ سے عید میلاد النبی کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے اول تو یہ ہماری شریعت سے پہلی شریعت کا واقعہ ہے جسے اگر اسلام برقرار رکھنا چاہتا تو وضاحت کر دی جاتی۔ دوسرے یہ کہ پیغمبر کی زبان سے عید کا اظہار ہوا تھا اور پیغمبر بھی اللہ کے حکم سے شرعی احکام بیان کرنے کا مجاز ہوتا ہے دوسری بات کہ مائدہ کے نازل ہونے کی بھی کوئی مضبوط روایت موجود نہیں ہے اور نہ ہی حضرت عیسی علیہ السلام نے مروجہ جشن عید میلاد النبی کی طرح جشن عید مائدہ منایا نہ ہی گدھے اور بیل گاڑیوں کو سجایا نہ جلوس نکالا بالفرض اگر ایسا ہوتا تو پھر بھی ہمارے لیے دلیل نہ تھا کیونکہ حضرت عیسی علیہ السلام کی شریعت منسوخ ہو چکی ہے۔
بریلوی مکتبہ فکر کے مشہور عالم دین پیر کرم شاہ بھیروی فرماتے ہیں کہ : اولنا و آخرنا سے مراد یہ ہے کہ جو مائدہ کے نازل ہونے سے پہلے ایمان لا چکے ہیں اور جو بعد میں ایمان لائیں گے یہ سب کے لیے فرحت اور شادمانی کا دن ہوگا۔ (ضیاء القرآن ج 1 ص 523)
کرم شاہ صاحب کی عبارت سے ثابت ہوا کہ آیت مبارکہ کے مخاطب عیسائی ہی ہیں اور عمل نصاری سے دلیل پکڑنا کم فہمی کی دلیل ہے کیونکہ یہ شریعت منسوخ ہو چکی ہے ان کے قول و فعل کو پکڑنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ضروری ہے اگر بغیر تصدیق ہی منہ اٹھا کر ان کے پیچھے چلنا شروع کر دیا تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہو گا جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تُطِيعُوا الَّذِينَ كَفَرُوا يَرُدُّوكُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ فَتَنْقَلِبُوا خَاسِرِينَ (3/ آل عمران: 149)
اے ایمان والو اگر تم کافروں کا کہا مان لو گے تو وہ تم کو الٹے پاؤں پھیر دیں گے پھر تم بڑے خسارے میں پڑ جاؤ گے۔
جناب عیسی علیہ السلام سے جشن منانا گھوڑے سجانا گلیوں بازاروں میں جھنڈیاں لگانا شور وغل کرنا نعرے بازی کرنا جلوس نکالنا یہ قرآن کی کسی آیت یا حدیث سے ثابت ہے اگر نہیں ہے تو خدا راہ قرآن میں تحریف معنوی نہ کریں۔
اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ کفار کے پیچھے چلنا اور ان کی باتوں پر عمل کرنا جس کی رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق نہیں فرمائی خسارے کا موجب اور عذاب درد ناک کو دعوت دینا ہے۔
اگر ہر نعمت کے اظہار اور انعام پر عید منانا تسلیم کر لیا جائے تو پھر عیدوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات تو بے شمار ہیں ان کو کوئی شمار ہی نہیں کر سکتا جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا(14/ ابراهيم: 34)
اگر تم اللہ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہ کر پاؤ گے۔
عیدوں کا بھی کوئی شمار نہ ہوگا ہر روز عید جشن مناتے رہیں کیا اس آیت میں جس کا معنی احمد یار نعیمی سے نقل کیا ہے اس میں کون سے الفاظ کا معنی ہے کہ صرف سال بعد ایک دن عید منائی جائے؟ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو قرآن و حدیث کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جیسی اطاعت کرنے کی توفیق دے اور قرآن مجید کو سنت کی روشنی میں سمجھنے کی توفیق دے۔ آمين
دوسری دلیل :
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ(93/ الضحى: 11)
اپنے رب کی نعمتوں کا خوب چرچا کرو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری تمام نعمتوں سے بڑھ کر نعمت ہے کہ رب تعالیٰ نے اس پر احسان جتایا ہے اس کا چرچا کرنا اسی آیت پر عمل ہے۔ (جاء الحق صفحه 420)
الجواب :
پہلی بات یہ ہے کہ اس آیت کا جشن عید میلاد النبی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔
غور فرمائیں کہ بریلوی مفتی احمد یار نعیمی نے کس طرح آیت قرآنی کو اپنے خود ساختہ مذہب و عقیدے کی طرف پھیرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
اس آیت میں کونسا لفظ ہے جس کا معنی ہے جشن مناؤ عید مناؤ جلوس نکالو اگر اس آیت مبارکہ کا یہی مطلب ہے جو احمد یار نعیمی بریلوی نے نکالا ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بریلوی حضرات اس آیت پر سال میں صرف ایک مرتبہ جشن عید میلاد منا کر عمل کرتے ہیں اور سال کے باقی دنوں میں ان کا اس آیت پر عمل کیوں نہیں ہوتا؟ کچھ تو خدا کا خوف کیجئے یہاں تحدیث نعمت کا ذکر ہے نا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یوم ولادت پر عید منانے اور جلوس نکالنے کا۔ اس آیت کا مطلب صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ مفسرین کرام رحمہم اللہ نے جو سمجھا ہے وہ یہ ہے چنانچہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ بیان فرماتے ہیں۔ صحیحین میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مہاجرین نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار سارے کا سارا اجر لے گئے فرمایا نہیں جب تک کہ تم ان کے لیے دعا کیا کرو اور ان کی تعریف کرتے رہو۔ ابوداؤد میں ہے کہ اس نے خدا کی شکر گزاری نہیں کی جس نے لوگوں کی شکر گزاری نہ کی۔ ابوداؤد کی ایک اور حدیث میں ہے جسے کوئی نعمت ملی اور اس نے اسے بیان کیا تو وہ شکر گزار ہے اور جس نے اُسے چھپایا اس نے ناشکری کی ، ایک اور روایت میں ہے کہ جسے کوئی عطا دی جائے اسے چاہیے کہ اگر ہو سکے تو بدلہ اتار دے اگر نہ ہو سکے تو اس کی ثناء بیان کر لے ، جس نے ثناء کی وہ شکر گزار ہوا اور جس نے اس نعمت کا اظہار نہ کیا اس نے ناشکری کی۔ (ابوداؤد)
مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں نعمت سے مراد نبوت ہے ایک روایت میں ہے کہ : قرآن مراد ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ جو بھلائی کی باتیں آپ کو معلوم ہیں وہ اپنے بھائیوں سے بھی بیان کر دو محمد بن اسحاق رحمہ اللہ بھی یہ فرماتے ہیں کہ جو نعمت وکرامت نبوت کی تمہیں ملی ہے اسے بیان کرو اس کا ذکر کرو اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو۔ (تفسير ابن كثير ج 5 صفحه 565)
تیسری دلیل
بریلوی مفتی احمد یار نعیمی نے اس آیت کو بھی پیش کر کے اپنے خود ساختہ جشن میلاد کی دلیل بنانے کی ناکام کوشش کی ہے چنانچہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَاذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ(5/ المائده: 7)
تم پر اللہ کی جو نعمتیں نازل ہوئی ہیں انہیں یاد کرو۔
اور حضور کی تشریف آوری اللہ کی بڑی نعمت ہے میلاد پاک میں اس کا ذکر ہے لہذا محفل میلاد کرنا اس آیت پر عمل ہے۔ (جاء الحق صفحہ 220)
الجواب :
نعمت کا یاد کرنا نعمتوں کی محفل میلاد منانا ہر گز نہیں ہوتا اگر نعمت کو یاد کر نے کا مطلب یہ ہو کہ نعمتوں پر میلاد منایا جائے تو اس آیت کا مطلب کیا ہوگا اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
يَابَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ(2/ البقره:40)
اے بنی اسرائیل میری نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر انعام کی۔
تو کیا اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اے بنی اسرائیل میری نعمتوں کی محفل میلاد مناؤ یا نعمتوں کا جلوس نکالو پھر ہی نعمتوں کا تذکرہ ہوگا مفتی احمد یار بریلوی کا قیاس تب ہی درست ہو سکتا ہے اگر یہ مان لیا جائے کہ ذکر کرنے کا مطلب محفل میلاد منانا ہے تو پھر قرآن کی اس آیت کا مطلب کیا ہوگا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا اللَّهَ ذِكْرًا كَثِيرًا(33/ الاحزاب: 41)
اے اہل ایمان اللہ کا ذکر بہت زیادہ کیا کرو۔
ذرا سوچئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں تابعین رحمہم اللہ کے دور میں یہ آیات قرآن میں موجود نہ تھیں کیا کسی صحابی یا تابعی نے ان آیات کا یہ مطلب جو بریلوی حضرات نکال رہے ہیں نکالا؟ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جشن میلاد النبی کا جلوس نکالا؟ مدینے یا مکے کے بازاروں کو سجایا ؟ اگر نہیں تو پھر کیا انہوں نے ان آیات پر عمل نہیں کیا جو عمل آپ بتا رہے ہیں یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان آیات کا مطلب ہی نہیں سمجھ پائے جو بریلوی حضرات نے چودہ سو سال بعد سمجھا اگر ہر نعمت پر عید منانا شروع کر دیا جائے تو نعمتوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا(14/ ابراهيم: 34)
اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کر سکو گے۔ (ترجمہ احمد رضاخان بریلوی)
اگر ہر نعمت و انعام پر عید منانا شروع کر دیا جائے تو عیدوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے گا کیونکہ انعامات واحسانات رب العالمین کے بے حد اور بے شمار ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجالانا ہے اسلام میں تحدیث نعمت کا طریقہ بھی بتادیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ(16 / النحل : 114)
پس اللہ نے جو تم کو حلال رزق دیا ہے اسے کھاؤ اور اللہ کی نعمتوں کا شکر کرو اگر اس کی عبادت کرتے ہو۔
معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا آیت کا جشن عید میلاد سے کوئی واسطہ نہیں یہ خود ساختہ تشریحات ہیں۔
چوتھی دلیل
احمد یار نعیمی بیان کرتے ہیں کہ میلاد سنت انبیاء بھی ہے رب تعالیٰ فرماتا ہے :
قُلْ بِفَضْلِ اللَّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَٰلِكَ فَلْيَفْرَحُوا(10 / يونس:58)
اللہ کے فضل و رحمت پر خوشیاں مناؤ۔
معلوم ہوا کہ فضل الہی پر خوشی منانا حکم الہی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم رب کا فضل بھی ہیں اور رحمت بھی لہذا ان کی ولادت پر خوشی منانا اسی آیت پر عمل ہے اور چونکہ یہاں خوشی مطلق ہے لہذا ہر جائز خوشی اس میں داخل ہے لہذا میلاد کرنا وہاں کی زیب وزینت سج دھج وغیرہ سب باعث ثواب ہیں ۔ (جاء الحق صفحہ 224)
الجواب :
مفتی صاحب نے اپنی حسب عادت یہاں پر بھی اپنی مرضی کا ترجمہ کیا ہے وگرنہ فرح کا معنی خوب خوشیاں مناؤ ہرگز نہیں بنتا بلکہ اس کا معنی فقط خوشی ہے۔ اس کا تعلق انسان کے دل سے ہے کہ جب کسی نعمت پر خوش ہو تو اللہ کا شکر ادا کرے تو اسے عربی میں فرح کہتے ہیں اس طرح قرآن مجید کے دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ(3/ آل عمران: 170)
جو کچھ اللہ نے ان کو دیا اپنے فضل سے اس میں خوش ہیں۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ(9/ التوبہ: 81)
پیچھے رہ جانے والے اس پر خوش ہوئے۔
کیا منافقین نے اس پر جشن عید منائی؟
دوسرے مقام پر فرمایا کہ اگر ہم انسان کو نعمت دیں تو وہ ناشکرا ہو جاتا ہے اور اگر کسی مصیبت کے بعد دنیاوی نعمت عطا کر دیں تو :
إِنَّهُ لَفَرِحٌ فَخُورٌ(11/ ہود: 10)
بیشک وہ خوش ہونے والا بڑائی مارنے والا ہے۔ (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)
کیا اس آیت مبارکہ کی روح سے انسان نعمت ملنے پر جشن عید مناتا ہے؟ ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ(30/ الروم: 32)
سب گروه اسی پر خوش ہیں جو ان کے پاس ہے۔
تو کیا یہاں بھی فرحت سے جشن عید منانا ہی تسلیم کرینگے؟ کیا واقعی ہر فرقہ ہر سال جو اس کے پاس ہے اس پر جشن عید مناتا ہے؟ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں یہ آیات قرآن مجید موجود نہ تھیں اگر موجود تھیں اور یقین تھیں تو انہوں نے ان آیات پر عمل کیوں نہ کیا جس طرح بریلوی حضرات کرتے ہیں؟
ایک جگہ پر اللہ تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا :
وَإِنَّا إِذَا أَذَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَا(42 / الشورى:48)
اور جب ہم انسان کو اپنی رحمت کا مزہ چکھاتے ہیں تو اس سے خوش ہو جاتا ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
وَفَرِحُوا بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا(13/ الرعد: 26)
اور وہ دنیا کی زندگی پر خوش ہو رہے ہیں۔
اور کافر لوگ دنیا کی زندگی پر خوش ہو رہے ہیں۔ کیا کا فرلوگ دنیاوی زندگی پر جشن عید مناتے ہیں جلوس نکالتے ہیں؟
ایک جگہ یہ ارشاد فرمایا :
وَجَرَيْنَ بِهِمْ بِرِيحٍ طَيِّبَةٍ وَفَرِحُوا بِهَا(10/ يونس: 22)
اور وہ اچھی ہوا انہیں لے کر چلیں اور اس پر خوش ہوئے۔ (احمد رضاخان بریلوی)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
فَلَمَّا جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَرِحُوا بِمَا عِنْدَهُمْ مِنَ الْعِلْمِ(40 / غافر : 83)
تو جب ان کے پاس ان کے رسول روشن دلیلیں لائے تو وہ اسی پر خوش رہے جو ان کے پاس دنیاوی علم تھا۔ (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)
کیا انہوں نے اپنے دنیاوی علم پر جشن عید منایا جلوس نکالے؟
حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا(6 / الانعام:44)
یہاں تک جب وہ خوش ہوئے اس پر جو ان کو ملا۔
ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا :
إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِينَ(28/ القصص: 76)
بے شک اللہ تعالیٰ اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔
قرآن کریم کے مذکورہ مقامات پر فرحوا کے لفظ کا معنی عید منانا کیا جاسکتا ۔ مفتی احمد یار کا خود ساختہ ترجمہ عید کرنا اپنی طرف سے اختراع اور من گھڑت ہے اگر نہیں تو مفتی صاحب کے ماننے والے ان مذکورہ مقامات کا ترجمہ بھی عید منانا کریں۔ وگرنہ اللہ سے توبہ کریں اور اپنے من گھڑت مسائل کو ثابت کرنے کے لیے قرآن میں تحریف معنوی کرنے سے اللہ کا خوف کھائیں یہ حلوے مانڈے صرف چند دنوں کی بات ہے آخر اس دنیا کو چھوڑ کر اللہ کے حضور پیش ہونا ہے اُس وقت ہماری کیا حالت ہوگی ۔ اکثر لوگ اپنی جہالت کی وجہ سے نعت پڑھتے ہوئے کہتے ہیں۔
تیرا کھاواں تے تیرے گیت گاواں یا رسول اللہ
تیرا میلاد میں کیوں نہ مناواں یا رسول اللہ
مسلمانو غور کرو تم سب کس کا کھاتے ہو انبیاء علیہم السلام کس کا کھاتے تھے؟
چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہے :
أَمَّنْ يَبْدَأُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيدُهُ وَمَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ أَإِلَٰهٌ مَعَ اللَّهِ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ(27/ النمل : 64)
کون ہے جس نے مخلوق کو پہلی مرتبہ پیدا کیا؟ پھر اس کو لوٹائے گا اور کون ہے جو تم کو رزق دیتا ہے آسمان اور زمین سے کیا کوئی اللہ کے ساتھ اور بھی الہ ہے کہ دیجئے اگر تم سچے ہو تو دلیل پیش کرو ۔
دوسرے مقام پر فرمایا :
وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّهِ رِزْقُهَا(11/ ہود: 6)
اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللَّهُ وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ لَعَلَىٰ هُدًى أَوْ فِي ضَلَالٍ مُبِينٍ (34/ سبا: 24)
(اے میرے نبی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہیں کہ تمہیں آسمانوں اور زمین سے کون رزق دیتا ہے اور آپ ہی کہہ دیں کہ اللہ ہی رزق دیتا ہے اور ہم یا تم سیدھے رستے پر ہیں یا صریح گمراہی میں ۔
اسی طرح قرآن کریم میں سینکڑوں آیات ہیں جن میں صاف فرمایا گیا ہے کہ رزق دینے والا صرف اللہ ہی ہے ان آیات کی روشنی میں اپنی مذکورہ نعت کا جائزہ لیں اور اللہ سے ڈریں اور اللہ کا کھا کر اسی کا شکریہ کریں انبیاء کرام علیہم السلام بھی اُسی کا دیا ہوا کھاتے تھے ۔
ابولہب کے خواب کی حقیقت :
بریلوی مفتی احمد یار خان فرماتے ہیں کہ کفار نے بھی ولادت پاک کی خوشی منائی تو کچھ نہ کچھ فائدہ حاصل کر لیا چنانچہ جب ابولہب مر گیا تو اس کو اس کے گھر والوں نے خواب میں بُرے حال میں دیکھا پوچھا کیا گزری۔ ابولہب بولا کہ تم سے علیحدہ ہو کر مجھے کوئی خیر نصیب نہ ہوئی۔ ہاں مجھے اس کلمے کی انگلی سے پانی ملتا ہے۔ کیونکہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزاد کیا تھا بات یہ تھی کہ ابولہب عبد اللہ کا بھائی تھا اس کی لونڈی ثویبہ نے اس کو خبر دی کہ آج تیرے بھائی عبداللہ کے گھر فرزند محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تو اس نے خوشی میں اس لونڈی کو انگلی کے اشارے سے کہا کہ جا تو آزاد ہے یہ خوشی کا اظہار تھا جس کی برکت سے اللہ نے اس پر یہ کرم کیا کہ جب وہ دوزخ میں پیاسا ہوتا ہے تو اپنی اس انگلی کو چوستا ہے تو پیاس بجھ جاتی ہے۔ حالانکہ وہ کافر تھا۔ (جاء الحق صفحہ 243 تا 244)
الجواب :
مفتی احمد یار خان پر مجھے افسوس اور ترس آرہا ہے کہ عید میلاد کے جواز میں اگر کوئی دلیل ملی ہے تو ابو لہب کے عمل سے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ اور بدترین دشمن تھا جس کی ہلاکت اور بدبختی اور بربادی کا ذکر قرآن کریم میں خود رب العالمین نے اس کا نام لے کر کیا ہے :
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ (111/ اللہب : 1)
تباہ ہو گئے ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ خود تباہ ہو گیا۔
حالانکہ ظاہر بات ہے کہ اس کا یہ عمل اس وقت کا تھا جبکہ وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ میں آج جس کی پیدائش و میلاد کی خوشی میں لونڈی آزاد کر رہا ہوں وہ بڑا ہو کر نبی ورسول بنے گا اور میں اس کا مقابلہ کروں گا ۔ اس نے جو کیا وہ چاچا ہونے کے ناطے کیا پھر اُس نے زندگی میں صرف ایک بار لونڈی کو آزاد کیا جب آپ کی ولادت ہوئی دوسرے سال تیسرے سال ولادت کے دن لونڈی کو آزاد نہیں کیا صرف لونڈی آزاد کرنے سے جشن عید میلاد النبی کا جلوس نکالنا گلیوں کو سجانا کیسے ثابت ہو گیا اُس نے صرف لونڈی آزاد کی تھی کسی کافر کا عمل ہمارے لیے دلیل نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ کافر مشرک گستاخ تھا۔
ایک صاحب مجھے کہنے لگا آپ جشن عید میلاد النبی کیوں نہیں مناتے حالانکہ یہ کام تو ابولہب نے بھی کیا تھا میں نے کہا اسی لیے نہیں مناتے کہ ابولہب نے یہ کام کیا تھا۔ کسی کافر کا عمل ہمارے لیے حجت کیسے ہو سکتا ہے ہمیں منوانا ہے تو دلیل صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ عثمان رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لاؤ وگرنہ ابولہب کا عمل آپ کو مبارک ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمل ہمیں مبارک ہو ہمیں سوچنا چاہیے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے بے حد محبت کرتے تھے مگر انہوں نے کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یوم پیدائش پر اپنی لونڈیوں کو آزاد کیوں نہیں کیا ؟ کسی کافر کا خواب میں آنا اور اس کا عمل مسلمانوں کے لیے شرعی دلیل کیسے بن سکتا ہے؟
کفار کے اعمال کا ان کو کوئی اجر نہیں ملے گا چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ وَلِقَائِهِ فَحَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا (18 / الكهف: 105)
یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیتوں اور اس کے سامنے جانے سے انکار کیا تو ان کے اعمال ضائع ہو گئے اور ہم قیامت کے دن ان کے لیے کچھ بھی وزن قائم نہیں کریں گے۔
گویا کہ یہ آیات بتا رہی ہیں کہ کافروں کے سارے اعمال برباد ہیں اللہ کے ہاں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔
ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اٹھارہ پاکباز نبیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُمْ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ(6/ الانعام 88)
بالفرض اگر یہ انبیاء کرام علیہم السلام شرک کرتے تو ان کے بھی عمل ضائع ہو جاتے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا :
لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ (39/ الزمر : 65)
بالفرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی شرک کریں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل بھی ضائع ہو جائیں۔
جبکہ انبیاء کرام علیہم السلام کے متعلق شرک کرنے کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تو ابولہب جس نے ساری زندگی شرک و کفر میں گزاری ہو اور میلاد والے پیغمبر کی مخالفت کرتے ہوئے مر گیا تو ابولہب کی کیا حیثیت ہے۔
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
وَنَادَىٰ أَصْحَابُ النَّارِ أَصْحَابَ الْجَنَّةِ أَنْ أَفِيضُوا عَلَيْنَا مِنَ الْمَاءِ أَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكَافِرِينَ(7/ الاعراف: 50)
اور دوزخی بہشتیوں کو پکاریں گے کہ ہمیں اپنے پانی کا کچھ فیض دو یا اس کھانے کا جو اللہ نے تمہیں دیا۔ کہیں گے بیشک اللہ نے ان دونوں کو کافروں پر حرام کیا ہے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنالیا۔ (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)
اس آیت مبارکہ سے واضح ہوا کہ جہنمیوں کے لیے پانی حرام ہوگا پانی کا انکو کوئی فائدہ بھی نہیں ہوگا تو پھر ابولہب کے لیے انگلی سے جہنم میں پانی کیا ایسی کونسی طاقت ہے جو قرآن کے برخلاف ابولہب کو پانی فراہم کر رہی ہے اور اس کو یہ فیض پہنچارہی ہے۔
قرآن کریم میں ایک اور جگہ ارشاد فرمایا :
لَا يَذُوقُونَ فِيهَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا(78/ النباء: 24)
بے شک جہنم تاک میں ہے سرکشوں کا ٹھکانہ اس میں قرنوں رہیں گے اس میں کسی طرح کی ٹھنڈک کا مزہ نہ پائیں گے اور نہ کچھ پینے کو مگر
کھولتا ہوا پانی اور دوزخیوں کا چلتا پیپ جیسے کو تیسا بدلہ۔ (ترجمہ احمد رضا خان بریلوی)
اس آیت مبارکہ سے صاف واضح ہو رہا ہے کہ جہنمیوں کو ٹھنڈک کا مزہ اور ٹھنڈا پانی کسی صورت میں نہیں ملے گا بلکہ کھولتا ہوا پانی ملے گا۔ قرآن مجید کی ان پانچ آیات کے مقابلہ میں جو روایت ابولہب کے خواب والی بریلوی حضرات پیش کرتے ہیں۔ اس کی حیثیت کیا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ابولہب دشمن رسول منکر بعثت رسول اول دشمن رسول گستاخ رسول جس نے آپ کو تکلیفیں در تکلیفیں دیں اور اپنے بیٹوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پریشان کیا۔ اس گستاخ رسول ابو لہب کو مرنے کے بعد پینے کا ٹھنڈا پانی عطا کیا جائے کیا یہ بات کوئی عقلمند شخص تسلیم کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے دشمن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خود فرمایا :
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ(111/ اللہب : 1-3)
تباہ ہو گئے ابو لہب کے دونوں ہاتھ اور وہ خود تباہ ہو گیا اسے کچھ کام نہ آیا اس کا مال اور نہ جو کمایا اب دھنستا ہے لپیٹ مارتی آگ میں ۔ (ترجمہ احمد رضا خان)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جشن عید میلاد النبی کا ثبوت اللہ کے قرآن میں نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وفرمان میں موجود ہے ڈیڑھ لاکھ کے قریب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت و فرمان میں نہ یہ کام مقلدین حضرات کے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے کلام میں موجود ہے بس سارا پیٹ پوجا کا چکر ہے۔
سمجھنے کو تو وہ سب داستان غم سمجھتے ہیں
جو مطلب کہنے والے کا اس کو کم سمجھتے ہیں