عورت کی طرف سے رمی جمرات میں وکیل بنانے کا شرعی حکم
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

رمی جمرات میں کسی کو وکیل بنانے کا حکم: ایک وضاحتی فتویٰ

سوال

ایک خاتون نے مزدلفہ سے رات کے آخری حصے میں واپسی کی اور رمی جمرات کے لیے اپنے بیٹے کو اپنا وکیل مقرر کر دیا، حالانکہ وہ خود بھی رمی کرنے کی استطاعت رکھتی تھی۔ اس صورت میں شریعت کا کیا حکم ہے؟ براہ کرم فتویٰ جاری فرمائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رمی جمرات حج کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا اور خود بھی اس عمل کو انجام دیا۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«اِنَّمَا جُعِلَ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَرَمْیُ الْجِمَارِ لِاِقَامِةِ ذِکْرِ اللّٰهِ»
(سنن ابی داؤد، المناسک، باب فی الرمل، ح: ۱۸۸۸، جامع الترمذی، الحج، باب ما جاء کیف ترمی الجمار، ح: ۹۰۲، مسند احمد: ۶/ ۶۴، واللفظ له)

یعنی: "بیت اللہ کا طواف، صفا و مروہ کی سعی اور جمرات پر کنکریاں مارنے کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کو قائم کرنے کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔”

عبادت اور رمی جمرات کی اہمیت

❀ جمرات کو کنکریاں مارنا ایک عبادت ہے جس سے انسان اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے۔

❀ یہ عبادت صرف اللہ کی رضا کے لیے کی جاتی ہے اور اس میں خلوص، خشوع اور عاجزی کا مظاہرہ ضروری ہے۔

اول وقت یا آخر وقت رمی: کون سا افضل ہے؟

❀ اگر آخر وقت میں رمی کرنا ممکن ہو اطمینان، خشوع اور توجہ کے ساتھ، تو یہ زیادہ افضل ہے۔

❀ عبادت میں کیفیت (حضور قلب، خشوع) اس کے وقت پر مقدم ہو سکتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

«لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا هُوَ يُدَافِعُُ الْأَخْبَثَانِ»
(صحیح مسلم، المساجد، باب کراہة الصلاة بحضرة الطعام، ح: ۵۶۰)

یعنی: "کھانے کی موجودگی میں نماز نہ پڑھی جائے اور نہ ہی ایسی حالت میں کہ جب انسان کو پیشاب یا پاخانے کی حاجت ہو۔”

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت میں خشوع و خضوع کی حالت کو فوقیت حاصل ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات

آپ ﷺ نے اپنے گھر کے کمزور افراد کو اجازت دی کہ وہ مزدلفہ سے رات کے آخری حصے میں روانہ ہو جائیں تاکہ طلوع فجر کے بعد لوگوں کے ازدحام سے محفوظ رہیں۔

وکالت کا حکم: کیا کسی کو اپنی جگہ مقرر کیا جا سکتا ہے؟

قرآن مجید کا حکم ہے:

﴿وَأَتِمُّوا الحَجَّ وَالعُمرَةَ لِلَّهِ﴾
سورة البقرة: ۱۹۶

"اور اللہ کے لیے حج اور عمرے کو پورا کرو۔”

اس حکم کے تحت رمی جمرات ایک عبادت ہے جسے خود ادا کرنا واجب ہے جب تک کہ انسان اس کی قدرت رکھتا ہو۔

لہٰذا:

❀ مرد ہو یا عورت، اگر خود رمی کرنے کی استطاعت رکھتے ہوں تو ان کے لیے کسی کو وکیل بنانا جائز نہیں۔

❀ رمی جمرات کی عبادت ہر صاحب استطاعت فرد پر لازم ہے کہ وہ ذاتی طور پر انجام دے۔

کب وکالت جائز ہے؟

❀ صرف وہ افراد جو بیمار ہوں یا عورت حمل کی حالت میں ہو اور رمی سے حمل کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو، ان کے لیے کسی دوسرے کو وکیل مقرر کرنا جائز ہے۔

موجودہ صورت حال کا حکم

❀ مذکورہ عورت نے خود رمی کرنے کی قدرت رکھنے کے باوجود کسی اور کو وکیل مقرر کیا۔

یہ عمل درست نہیں تھا۔

❀ میری رائے میں، احتیاط کا تقاضا ہے کہ وہ عورت ایک فدیے کا جانور ذبح کرے اور اسے مکہ کے فقراء میں تقسیم کر دے تاکہ ترک واجب کی تلافی ہو سکے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے