عورت، روایات اور اسلامی تعلیمات
ہمارے معاشرے میں مردوں کی برتری ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے، چاہے وہ دیہات کے جرگے اور پنچایتوں میں بیٹھے ان پڑھ افراد ہوں یا شہروں کے تعلیم یافتہ افراد۔ اس سماج میں عورت کو ہمیشہ مظلوم سمجھا گیا ہے، کیونکہ وہ ایک ایسی روایتی تربیت کے تحت پروان چڑھتی ہے جہاں اسے پیر کی جوتی سمجھنے جیسے تصورات رائج ہوتے ہیں۔
عورت کا استحصال یا روایات کا جبر؟
یہ ایک عام سوچ بن چکی ہے کہ عورت صرف ظلم و ستم، مجبوری اور بے بسی کا شکار ہوتی ہے۔ تاہم، میں ایک عورت ہونے کے باوجود ان خیالات سے اختلاف کرتی ہوں۔ میں نہ تو "عورت مارچ” کی اس سوچ سے متفق ہوں جو مردوں کو چیلنج کرتی ہے، نہ اس نظریے کو تسلیم کرتی ہوں جو بیٹیوں کو والدین کی عزت کا بوجھ سمجھ کر ان کی مرضی کے خلاف شادی پر مجبور کرتا ہے۔
مغربی خیالات اور شریعت سے دوری
تعلیم یافتہ طبقہ مغربی خیالات سے متاثر ہو کر عورت کی آزادی کا حامی ہے، لیکن اسلامی تعلیمات کو فراموش کر دیتا ہے۔ کیا شریعت سے انحراف ہی مردانہ سماج سے بغاوت کا واحد راستہ ہے؟ مردوں کو ظالم کہہ کر کوسنے والے آخرکار اپنی بہن بیٹیوں کے لیے انہی مردوں کا انتخاب کرتے ہیں۔
عورت کی آزادی اور مغربی تقلید
کیا عورت کی آزادی صرف یہی ہے کہ وہ گھر کے کام نہ کرے، لباس کی ہر حد پار کر لے، اور نکاح جیسے بندھن سے آزاد ہو جائے؟ اگر مرد ظالم ہیں تو وہ مرد بھی جو کریم کی گاڑی میں کسی لڑکی کو بھگا کر لے جا رہا ہے، کیا وہ بھی قابلِ بھروسہ ہے؟
خاندانی نظام اور اسلامی تعلیمات
ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام کی مضبوطی کا سہرا اسلام کے سر ہے۔ اگر آپ اپنی بہن بیٹیوں کو بےحجاب گھمانا چاہتے ہیں تو یہ توقع نہ رکھیں کہ دوسرے لوگ انہیں عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ اگر ایک مرد کسی عورت کے لیے خطرہ ہے تو دوسرا مرد محافظ کیسے ہو سکتا ہے؟
عورت کے حقوق اور شریعت
کیا ہم نے کبھی لوگوں کو مذہب کی اصل تعلیمات بتانے کی کوشش کی ہے؟ دینِ اسلام عورت کو پسند کی شادی، خلع، اور عزت کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق دیتا ہے۔ ایک صحابیہ محض شوہر کی صورت ناپسند ہونے پر بھی علیحدگی کا حق رکھتی تھی، لیکن ہم ان مثالوں کو پیش کرنے کے بجائے شریعت سے بیزاری کو آزادی کا نام دیتے ہیں۔
دوہرا معیار اور آزادی کا مغالطہ
اگر عورت کو آزاد کرنا ہے تو مکمل مغربی طرزِ زندگی اپنائیں، جہاں نکاح کا بائیکاٹ ہو اور ہر فرد کو اپنی پسند سے رہنے کی کھلی اجازت ہو۔ لیکن اگر خاندانی نظام کو برقرار رکھنا ہے تو پھر اسلامی اصولوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔
نتیجہ: اصلاح کے لیے مذہب کی رہنمائی ضروری
اسلام سے زیادہ عورت کا خیر خواہ کوئی نہیں ہو سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم مذہب کی اصل تعلیمات کو فروغ دیں اور جاہلانہ رسم و رواج کا خاتمہ کریں۔ تاہم، افسوسناک بات یہ ہے کہ جدید طبقہ جاہلیت ختم کرنے کے بجائے مزید جاہلانہ سوچ کو عام کر رہا ہے۔ پہلے اپنی اصلاح کریں، پھر دوسروں کو سکھائیں۔