عورت کو تفویض کردہ طلاق کا اختیار اور شرعی حیثیت
ماخوذ : فتاوی علمیہ، جلد 3، نکاح و طلاق کے مسائل، صفحہ 163

سوال کا مفصل جواب:

سوال:

ایک لڑکی کی شادی ایک لڑکے (ف) کے ساتھ ہوئی۔ لڑکی کے گھر والوں کے مطالبے پر نکاح نامے میں فریقین کی رضا مندی سے یہ شرط درج کی گئی کہ لڑکے (ف) نے شرعی طور پر تین طلاق کا اختیار لڑکی (س) کو تفویض کر دیا ہے۔ اس شرط پر لڑکے اور گواہوں نے دستخط کیے۔
بعد ازاں یہ حقیقت سامنے آئی کہ لڑکا ایک فریب دہ اور ظالم شخص ہے، جس نے ایک بدکردار عورت کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کیے اور پھر خفیہ طور پر اس سے نکاح کر لیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا لڑکی (س) اس اختیار کو استعمال کرتے ہوئے شریعت کے مطابق اپنے شوہر کو طلاق دے سکتی ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جی ہاں، ایسی صورت میں شریعت کی رو سے "أمرك بيدك” (تیرا معاملہ تیرے ہاتھ میں ہے) کے اصول کے تحت عورت اپنے شوہر کو طلاق دینے کا حق رکھتی ہے، کیونکہ یہ اختیار باقاعدہ نکاح نامے میں شوہر کی رضا مندی اور گواہوں کی موجودگی میں درج کیا گیا ہے۔

شریعت کی روشنی میں دلائل:

1. حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول:

"إذا قال لامرأته: أمرك بيدك أو استفلحي بأمرك أو وهبها لأهلها فقبلوها فهي واحدة بائنة”
اگر مرد اپنی بیوی سے کہے کہ "تمہارا اختیار تمہارے ہاتھ میں ہے” یا "تم اپنے معاملے میں کامیاب ہو جاؤ” یا وہ (اختیار) بیوی کے گھر والوں کو دے دے اور وہ قبول کر لیں، تو یہ ایک طلاق بائن (نکاح کو ختم کرنے والی) شمار ہو گی۔
(المعجم الکبیر للطبرانی 9/379، حدیث 9627، وسندہ حسن)

2. ابو الحلال العقیلی رحمہ اللہ کا بیان:

انہوں نے (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ) سے پوچھا کہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو اختیار دے دیا ہو؟
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
"فأمرها بيدها” یعنی "اس عورت کا اختیار اس کے ہی ہاتھ میں ہے”۔
(مصنف ابن ابی شیبہ 565، حدیث 1807، وسند صحیح، سنن سعید بن منصور 372، حدیث 1615)

3. حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت:

ایک شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس نے اپنی بیوی کو اس کا اختیار دے دیا تو آپ نے فرمایا:
"وہ عورت جو فیصلہ کرے گی وہی فیصلہ نافذ ہو گا، اگر دونوں ایک دوسرے کا انکار کریں تو مرد سے قسم لی جائے گی”۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، نسخہ محمد عوامہ 9/58، حدیث 18388، وسند صحیح، سنن سعید بن منصور 1/373، حدیث 1620، وسندہ صحیح)

نتیجہ:

چونکہ یہ اختیار نکاح نامے میں شوہر اور گواہوں کے دستخطوں کے ساتھ درج ہے، لہٰذا اس میں انکار کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
امام مالک رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے کہ عورت کا اختیار معتبر ہوگا اور جو فیصلہ وہ کرے گی، وہ نافذ العمل ہو گا۔
(سنن الترمذی، حدیث 1178، باب ما جاء فی الأمر بیدک)

لہٰذا، اگر مذکورہ لڑکی (س) تین طہروں میں تین مرتبہ طلاق دے تو وہ نافذ ہو گی اور لڑکی (س) اور لڑکے (ف) کے درمیان نکاح ختم ہو جائے گا۔

متعلقہ فوائد:

1. خلع کا حکم:

اگر عورت اپنے شوہر سے خلع لیتی ہے تو یہ "فسخِ نکاح” کہلاتا ہے، یعنی نکاح بغیر طلاق کے ختم ہو جاتا ہے۔
(کتاب الام للامام الشافعی، جلد 5، صفحہ 114، ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ 67، صفحہ 9)
لہٰذا اگر دونوں بعد میں دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو جائز ہے۔

2. خلع لینے والی عورت کی عدت:

خلع لینے والی عورت کی عدت ایک مہینہ ہے، جیسا کہ حدیث رسول ﷺ اور آثار صحابہ سے ثابت ہے۔
(سنن الترمذی، حدیث 1185، ماہنامہ الحدیث حضرو: شمارہ 68، صفحہ 7-8)

3. بچوں کی حضانت:

ماں کو اپنے بچوں پر زیادہ حق حاصل ہے، بشرطیکہ وہ دوسرا نکاح نہ کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"أنت أحق به ما لم تنكحي”
"تو اس بچے کی زیادہ حقدار ہے جب تک تو دوسرا نکاح نہ کرے۔”
(سنن ابی داؤد 2276، مستدرک الحاکم 2/207، الحاکم نے صحیح کہا، امام ذہبی نے موافقت کی، حدیث حسن، مسند احمد 2/182، 203)
بعض صورتوں میں بچوں کو اختیار دیا جا سکتا ہے کہ وہ ماں یا باپ میں سے جس کے ساتھ رہنا چاہیں، رہ سکتے ہیں۔
(سنن ابی داؤد 2277، وسندہ صحیح، سنن الترمذی 1357، وقال حسن صحیح)

4. نکاح میں دھوکہ:

اگر لڑکا یا لڑکی نے دھوکہ دہی سے نکاح کیا ہو تو یہ حرام فعل ہے اور ایسا شخص گناہ گار ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"من غشنا فليس منا”
"جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔”
(صحیح مسلم، حدیث 101283)

5. نکاح کے وقت کی شرائط کی پابندی:

نکاح کے وقت دونوں فریقین نے جو شرائط طے کی ہوں، ان کا پورا کرنا ضروری ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
"إن أحق الشروط أن توفوا به ما استحللتم به الفروج”
"تمام شرائط میں سب سے زیادہ پورا کیے جانے کے لائق وہ شرطیں ہیں جن کے ذریعے تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہے، یعنی نکاح کی شرائط ضرور پوری کی جائیں گی۔”
(صحیح بخاری، حدیث 5151، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ، جلد 6، صفحہ 556)
آپ ﷺ نے اپنے داماد ابو العاص بن الربیع رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا:
"حدّثني فصدقني، ووعدني فوفى لي”
"اس نے مجھ سے بات کی تو سچ کہا، اور وعدہ کیا تو اسے پورا کیا۔”
(صحیح بخاری، حدیث 3729)

وما علینا الا البلاغ (1/فروری 2013ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے