اکیلی عورت صف ہے:
🌸سیدنا انس بن مالک رضی الله عنه بیان کرتے ہیں:
🌿(خلاصة الأحكام : 680/2)
صليت أنا ويتيم في بيتنا خلف النبي صلى الله عليه وسلم، وأمي أم سليم خلفنا .
’’میں اور ایک لڑکے نے ہمارے گھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز ادا کی، میری والدہ ام سلیم رضی الله عنه ہمارے پیچھے کھڑی تھیں۔‘‘
🌿(صحيح البخاري : 727 ، صحیح مسلم : 658)
🌸سیدنا انس بن مالک رضی الله عنه بیان کرتے ہیں :
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى به وبأمه، أو خالته ، قال : فأقاسني عن يمينه، وأقام المرأة خلفنا .
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور میری والدہ یا خالہ کو نماز پڑھائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں جانب، جب کہ عورت کو پیچھے کھڑا کیا۔‘‘
🌿(صحیح مسلم : 660)
ایک روایت ہے :
صلى بي رسول الله صلى الله عليه وسلم وبامرأة من أهلي، فأقامني عن يمينه، والمرأة خلفنا
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور میرے گھر کی ایک عورت کو نماز پڑھائی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں جانب اور عورت کو پیچھے کھڑا کیا۔‘‘
🌿(مسند الإمام أحمد : 302/1، سنن النسائي : 805 ، وسنده صحيح)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (۱۵۳۷) اور امام ابن حبان (۲۲۰۴) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
تنبیہ:
ان احادیث کو مختلف واقعات پر محمول کیا جائے گا۔
🌸عبداللہ بن ابی طلحہ رحمتہ اللہ بیان کرتے ہیں:
إن أبا طلحة دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى عمير بن أبي طلحة حين توفي، فأتاهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى عليه في منزلهم، فتقدم رسول الله صلى الله عليه وسلم، وكان أبو طلحة وراءه، وأم سليم وراء أبي طلحة، ولم يكن معهم غيرهم .
’’سیدنا ابوطلحہ رضی الله عنه کے بیٹے عمیر فوت ہوئے ، تو انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے گھر میں عمیر کی نماز جنازہ پڑھائی۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم آگے ہوئے، ابو طلحہ رضی الله عنه آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور ام سلیم رضی الله عنه اپنے خاوند ابو طلحہ رضی الله عنه کے پیچھے کھڑی ہوئیں۔ وہاں ان کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔‘‘
🌿(شرح معاني الآثار للطحاوي :508/1، المستدرك للحاكم :365/1، وسنده صحيح)
اس حدیث کو امام حاکم رحمتہ اللہ نے ’’بخاری ومسلم رحمتہ اللہ کی شرط پر صحیح‘‘ کہا ہے اور حافظ ذہبی رحمتہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
🌸سیدنا ابو اسید رضی الله عنه کے مولی ، ابوسعید رحمتہ اللہ بیان کرتے ہیں :
تزوجت امرأة، فكان عندي ليلة زفاف امرأتي نفر من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما حضرت الصلاة أراد أبو ذر أن يتقدم فيصلي، فجبده حذيفة، وقال : رب البيت أحق بالصلاة، فقال لأبي مسعود : أكذلك ؟ قال : نعم، قال أبو سعيد : فتقدمت، فصليت بهم، وأنا يومئذ عبد، وأمراني إذا أتيت بامرأتي أن أصلي ركعتين، وأن تصلي خلفي إن فعلت .
’’میں نے شادی کی۔ رخصتی کی رات میرے پاس بہت سے صحابہ موجود تھے ۔ نماز کا وقت آیا، تو سیدنا ابوذر رضی الله عنه کی امامت کروانا چاہی، لیکن سیدنا حذیفہ رضی الله عنه نے انہیں کھینچ لیا اور فرمایا : گھر والا نماز پڑھانے کا زیادہ مستحق ہے۔ پھر انہوں نے سیدنا ابو مسعود رضی الله عنه سے پوچھا : کیا ایسے ہی ہے؟ فرمایا : جی ہاں! ابوسعید رحمتہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آگے بڑھ کر نماز پڑھائی، حالانکہ میں اس وقت غلام تھا۔ سیدنا ابوذر رضی الله عنه اور سیدنا حذیفہ رضی الله عنه نے مجھے حکم دیا کہ جب میں اپنی بیوی کے پاس جاؤں تو دو رکعت ادا کروں اور اگر اس نے بھی پڑھنی ہوں ، تو میرے پیچھے نماز پڑھ لے۔‘‘
🌿(الأوسط لابن المنذر : 156/4 ، وسنده حسن؛ مصنف ابن أبي شيبة : 217/2 مختصراً)