"آزادی نسواں” یا معاشرتی اقدار پر حملہ؟
پاکستان میں گزشتہ چند برسوں سے "آزادی نسواں” اور "خواتین کے حقوق” کے نام پر ایک ایسا تماشا لگا ہوا ہے جو نہ صرف معاشرتی اقدار بلکہ خود خواتین کے حقیقی مسائل کو پس پشت ڈال رہا ہے۔ ہر سال چند مخصوص خواتین بے ہودہ بینرز اور اخلاق سوز نعروں کے ساتھ سڑکوں پر نکلتی ہیں، جس سے نہ صرف خود ان کی بلکہ عام عورت کی بھی تذلیل ہوتی ہے۔
نعروں کی بے ہودگی اور حقیقی مسائل کی نظر اندازی
ہر سال ہونے والے اس "عورت آزادی مارچ” میں ایسے نعرے اور بینرز دیکھنے کو ملتے ہیں جن کا نہ تو خواتین کے حقیقی مسائل سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ان سے کسی مثبت تبدیلی کی امید کی جا سکتی ہے۔
مضحکہ خیز نعرے:
- "میرا جسم، میری مرضی”
- "تمہارے باپ کی سڑک نہیں”
- "مَیں آوارہ، مَیں بدچلن”
- "نظر تیری گندی اور پردہ میں کروں”
یہ فقرے سراسر اشتعال انگیزی پر مبنی ہیں۔
خواتین کے اصل مسائل نظر انداز:
- کاروکاری، ونی، وٹہ سٹہ
- وراثت میں حق
- گھریلو تشدد
- کم اجرت
- جنسی ہراسانی
- جبری شادی
- تعلیم کے مواقع
ان جیسے سنگین مسائل پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
یہ کس طبقے کی نمائندگی ہے؟
یہ تحریک زیادہ تر ایلیٹ کلاس کی خواتین چلا رہی ہیں، جن کا خواتین کے حقیقی مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔
- جو خواتین مظاہرے کر رہی ہیں، ان کے گھروں میں خانسامے، نوکر چاکر موجود ہوتے ہیں، تو پھر یہ "کھانا خود گرم کرو” جیسے نعرے کیوں؟
- کیا یہ واقعی دیہاتی یا عام شہری عورت کے مسائل ہیں؟ یا صرف میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کا ایک طریقہ؟
احتجاج یا بے ہودگی؟
دنیا بھر میں جب لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے ہیں تو ان کے مطالبات واضح اور حقیقت پسندانہ ہوتے ہیں، لیکن یہاں اصل مسائل کی بجائے غیر ضروری باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے، جس سے ایک بے نتیجہ بحث اور معاشرتی خلفشار جنم لیتا ہے۔
عورت کے نام پر بے راہ روی کا فروغ
یہ تحریک خواتین کے حقوق کے لیے نہیں، بلکہ فحاشی، عریانی اور بے راہ روی کے فروغ کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔
نتائج:
- نہ کسی دفتر میں ڈے کیئر قائم ہوا،
- نہ مزدور خواتین کی تنخواہ میں اضافہ ہوا،
- نہ وراثت میں عورت کو اس کا حق ملا،
- نہ ہی شادی کے فیصلے میں خواتین کی رائے کو اہمیت دی گئی۔
بلکہ نتیجہ یہ نکلا کہ چند مخصوص خواتین نے اپنی مرضی کے چند نعرے بنا کر عام عورت کے حقوق کی جدوجہد کو نقصان پہنچایا اور معاشرتی و خاندانی نظام کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔