عورتوں کے لیے زیارتِ قبور: جائز یا ممنوع؟
اصل مضمون غلام مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ کا تحریر کردہ ہے، اسے پڑھنے میں آسانی کے لیے عنوانات، اور اضافی ترتیب کے ساتھ بہتر بنایا گیا ہے۔

عورتوں کے لیے قبرستان کی زیارت

عورتوں کے لیے قبرستان کی زیارت کے حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں، لیکن اکثر علماء کے مطابق عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت جائز ہے۔ ابتدا میں، عورتوں کو قبرستان جانے سے منع کیا گیا تھا، لیکن بعد میں یہ ممانعت ختم کر دی گئی اور اجازت دے دی گئی۔ اس تبدیلی کے بارے میں پہلے ممانعت والی حدیث اور پھر اس کی منسوخی کے دلائل درج ہیں۔

ممانعت والی حدیث

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَعَنَ زَوَّارَاتِ الْقُبُورِ۔
(مسند الإمام أحمد: 337/2، 356؛ سنن الترمذي: 1056؛ سنن ابن ماجہ: 1576؛ صحیح ابن حبان: 3178)
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو کثرت سے قبرستان جاتی تھیں۔

منسوخی کے دلائل

قبروں کی زیارت کی ممانعت پہلے سب کے لیے تھی، لیکن بعد میں یہ ممانعت ختم کر دی گئی اور مرد و عورت دونوں کو اجازت دے دی گئی۔ اس حوالے سے امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ زیارت قبور کی ممانعت والی احادیث منسوخ ہو چکی ہیں
(المستدرک علی الصحیحین: 1385)۔

دلیل نمبر 1:

عبداللہ بن ابو ملیکہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ایک دن اپنے بھائی عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کی قبر سے واپس آئیں۔ کسی نے ان سے پوچھا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زیارت قبور سے منع نہیں فرمایا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا: "ہاں، پہلے منع فرمایا تھا لیکن پھر زیارت کا حکم دیا”
(المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 376/1؛ السنن الکبرٰی للبیہقی: 78/3)۔

دلیل نمبر 2:

حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
نَہَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ، فَزُورُوہَا۔
(صحیح مسلم: 977)
یعنی پہلے قبروں کی زیارت سے منع کیا گیا تھا، اب تم جا سکتے ہو۔

دلیل نمبر 3:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَزُورُ الْقُبُورَ، فَإِنَّہَا تُذَکِّرُ الْمَوْتَ۔
(صحیح مسلم: 976)
اس حدیث میں بھی عمومی اجازت دی گئی ہے، کیونکہ موت کی یاد مرد و عورت دونوں کے لیے ضروری ہے۔

مندرجہ بالا دلائل کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے بھی قبروں کی زیارت جائز ہے۔

دلیل نمبر 4:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ جب میں قبرستان جاؤں تو کیا دعا کروں؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ دعا سکھائی:
السَّلَامُ عَلٰی أَہْلِ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُسْلِمِینَ، وَیَرْحَمُ اللّٰہُ الْمُسْتَقْدِمِینَ مِنَّا وَالْمُسْتَأْخِرِینَ، وَإِنَّا إِنْ شَائَ اللّٰہُ بِکُمْ لَلَاحِقُونَ
(صحیح مسلم: 314/1، ح: 103/974)
یعنی: "مؤمنوں اور مسلمانوں میں سے ان گھروں والوں پر سلامتی ہو، اللہ تعالی پہلے اور بعد میں آنے والوں سب پر رحم فرمائے، اور ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔”

اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عورتوں کے لیے قبرستان جانا جائز ہے، ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ دعا نہ سکھاتے۔

دلیل نمبر 5:

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسی عورت کے پاس سے ہوا جو قبر پر بیٹھ کر رو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:
اِتَّقِي اللّٰہَ، وَاصْبِرِي
یعنی: "اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔”
مزید فرمایا:
إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْـأُولٰی
(صحیح البخاري: 171/1، ح: 1283؛ صحیح مسلم: 926)
یعنی: "کامل صبر وہی ہے جو مصیبت کے آغاز میں ہو۔”

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو "بَابُ زِیَارَۃِ الْقُبُورِ” کے تحت ذکر کیا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عورت کا قبرستان جانا جائز ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو قبرستان میں آنے سے منع نہیں کیا بلکہ اسے صبر اور اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا۔

دلیل نمبر 6:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما فوت ہو گئے، اور ان کی میت مکہ مکرمہ میں لائی گئی۔ جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مکہ پہنچیں تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے ان کی قبر دکھاؤ، اور جب ان کو قبر دکھائی گئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کے لیے دعا کی۔
(مصنّف ابن أبي شیبۃ: 360/3، وسندہ صحیحٌ)

ان دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتوں کا قبرستان جانا جائز ہے۔ شروع میں مردوں اور عورتوں دونوں کو قبرستان جانے سے منع کیا گیا تھا، لیکن بعد میں دونوں کے لیے اجازت دے دی گئی۔

تنبیہ 1:

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سے قبرستان جانے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے
(مسند الإمام أحمد: 442/3؛ سنن ابن ماجہ: 1574؛ المعجم الکبیر للطبراني: 3591)۔
تاہم، اس روایت کی سند امام سفیان ثوری رحمہ اللہ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔

اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہی روایت منقول ہے
(مسند الإمام أحمد: 229/1؛ سنن أبي داود: 3236؛ سنن الترمذي: 320؛ سنن النسائي: 2043)۔
اس کی سند بھی ضعیف ہے کیونکہ اس میں ابو صالح باذام ضعیف راوی ہے، جس کے بارے میں حافظ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس کی روایت کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا
(خلاصۃ الأحکام: 1044/2)۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی اس کو ضعیف راوی قرار دیتے ہیں
(التلخیص الحبیر: 137/2)۔

تنبیہ 2:

حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے منسوب ایک روایت میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ وہ گھر سے کیوں باہر گئی تھیں؟ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ وہ تعزیت کے لیے گئی تھیں، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا آپ ان کے ساتھ قبرستان بھی گئی تھیں؟ حضرت فاطمہ نے کہا: "اللہ کی پناہ کہ میں قبرستان جاؤں۔” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر آپ ان کے ساتھ قبرستان جاتیں تو جنت کو نہ دیکھتیں”
(مسند الإمام أحمد: 168/2؛ سنن أبي داود: 3123؛ سنن النسائي: 1881؛ المستدرک علی الصحیحین للحاکم: 373/1)۔

اگرچہ اس روایت کو امام ابن حبان اور امام حاکم نے صحیح قرار دیا ہے، لیکن اس کے راوی ربیعہ بن سیف معافری کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ اور دیگر محدثین نے اسے منکر الحدیث قرار دیا ہے، لہٰذا یہ روایت منکر اور ضعیف ہے۔

تنبیہ 3:

ایک اور روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ وہ اپنے بھائی حضرت عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کی قبر پر آئیں اور کچھ اشعار پڑھ کر کہا کہ اگر وہ موجود ہوتیں تو ان کو اسی جگہ دفن کرتیں جہاں وہ فوت ہوئے تھے
(سنن الترمذي: 1055)۔
تاہم، اس روایت کی سند ابن جریج کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔

فقہ حنفی اور عورتوں کی زیارتِ قبور:

علامہ سرخسی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ہمارے نزدیک مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے قبرستان جانے کی رخصت ثابت ہے
(المبسوط: 10/24)۔
حنفی فتاویٰ کی معتبر کتاب "فتاویٰ عالمگیری” میں بھی یہی موقف بیان کیا گیا ہے کہ قبروں کی زیارت میں کوئی حرج نہیں اور یہ رخصت عورتوں کے لیے بھی ثابت ہے
(الفتاوی الہندیۃ المعروف بہ فتاویٰ عالمگیری: 350/5)۔

حاصل کلام:

عورتوں کا قبرستان جانا جائز ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں۔ ممانعت والی احادیث منسوخ ہیں، اور یہ ممانعت مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے تھی جو بعد میں ختم کر دی گئی۔ عورتوں کو قبرستان جا کر صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور زیارت کا مقصد صرف موت اور آخرت کی یاد ہونا چاہیے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!