سوال
ایک شخص فتویٰ دیتا ہے کہ عورتوں کے ختنے کے بارے میں کچھ بھی ثابت نہیں، بلکہ یہ بدعت ہے۔ نبی کریم ﷺ سے اس بارے میں کوئی روایت منقول نہیں۔ کیا یہ فتویٰ درست ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
علم کے بغیر فتویٰ دینا گناہ ہے
کسی بھی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ بغیر علم کے فتویٰ دے، اور جو ایسا کرتا ہے، اس کا گناہ اس پر ہوگا۔ مسلمانوں کے حکمرانوں پر فرض ہے کہ ایسے افراد کو فتویٰ دینے کے منصب سے معزول کر دیں۔
عورتوں کے ختنے کی مشروعیت
ائمہ اربعہ اور دیگر فقہاء کے اتفاق سے عورتوں کے ختنے کی مشروعیت ثابت ہے۔
متعلقہ احادیث
➊ پہلی حدیث
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
« اذا جا وزا الختا ن الختا ن فقد وجب الغسل »
"جب ختنہ شدہ (عضو) دوسرے ختنہ شدہ (عضو) سے تجاوز کر جائے تو غسل فرض ہو گیا۔”
ایک اور روایت:
(( اذا لتقی الختا نا ن ))
"جب دو ختنہ شدہ اعضا ملیں۔”
(بخاری: 1؍43، مسلم: 1؍156، ابو داؤد، ترمذی: 1؍34)
شارحین کی وضاحت: "ختانان” سے مراد مرد اور عورت دونوں کا ختنہ شدہ عضو ہے، یعنی دونوں کے اعضائے مخصوصہ میں جن حصوں کی کٹائی کی جاتی ہے۔
➋ دوسری حدیث
حضرت ام عطیہ الانصاریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، مدینہ میں ایک عورت ختنہ کیا کرتی تھی۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
« الا تنھکی فان ذلک احطی ٰ للمراۃ واجب الی البعل »
"زیادہ نہ کاٹو، کیونکہ یہ عورت کے لیے بہتر اور شوہر کے لیے زیادہ محبوب ہے۔”
(ابو داود: 2؍368)
شیخ البانی نے اسے الصحیحہ (2؍353) میں ذکر کیا اور متعدد شواہد کی بنا پر حدیث کو صحیح قرار دیا۔
مزید روایت:
«ذا خفضت فا شمی ولا تنھکی ’ فا نہ اسریٰ للوجہ واحطیٰ للزوج»
"جب ختنہ کرے تو صرف نشان دہی کرے، مبالغہ نہ کرے کیونکہ یہ چہرے میں خون کی روانی اور شوہر کے لیے زیادہ نفع مند ہے۔”
(المجمع: 1؍172)
➌ تیسری حدیث
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت:
« الختان سنته للرجا ل مکرمة للنساء »
"ختنہ مردوں کے لیے سنت ہے اور عورتوں کے لیے باعث عزت۔”
(بیہقی: 8؍325–334، مرفوعاً و موقوفاً)
بیہقی نے کہا: سند ضعیف ہے، موقوف روایت محفوظ ہے۔
➍ چوتھی حدیث
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت:
نبی ﷺ انصاری خواتین کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:
"اے انصار کی جماعت! بھرپور مہندی لگاؤ، ختنہ نیچے کرو اور مبالغہ نہ کرو۔ یہ تمہاری بیویوں کے لیے زیادہ مفید ہے۔”
(بزار، مجمع الزوائد: 5؍171)
مندل راوی ضعیف ہے، باقی راوی ثقہ ہیں۔ شواہد کے طور پر کافی ہے۔
➎ پانچویں حدیث
حضرت حسن رحمہ اللہ سے روایت:
حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو لڑکی کے ختنہ کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے فرمایا:
"یہ عمل (دعوت) نبی ﷺ کے زمانے میں نہ تھا۔”
(طبرانی کبیر: 3؍12، احمد: 4؍217، مجمع الزوائد: 4؍60)
سند اچھی ہے (الصحيحہ: 2؍457)
➏ چھٹی حدیث
ام المہاجر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
روم سے کچھ لڑکیاں قیدی بنائی گئیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسلام کی دعوت دی۔ بعض مسلمان ہوئیں، پھر فرمایا:
« اذھبو ھما فاخفصو ھما و طھر وھما لکنت اخدم عثمان»
(الادب المفرد للبخاری، رقم: 1245، 1239)
➐ ساتویں حدیث
ام علقمہ سے روایت ہے:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھتیجیوں کا ختنہ کیا گیا، ان کے دل لگی کے لیے عدی کو بلایا گیا۔ جب وہ گاتا اور ناچتا نظر آیا تو حضرت عائشہ نے فرمایا:
"یہ شیطان ہے، اسے نکالو!”
یہ حدیث حسن کے قریب ہے کیونکہ راوی کی توثیق موجود ہے۔
➑ آٹھویں حدیث
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
حضرت ہاجرہ، حضرت سارہ کی لونڈی تھیں۔ حضرت سارہ نے قسم کھائی کہ ہاجرہ کے تین اعضا بدل دوں گی، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا:
"اس کے کان چیر دو اور ختنہ کرو۔”
(تحفۃ المودود، ص 131)
ائمہ اور علماء کے اقوال
امام ابن قیم:
ختنہ عورتوں کے لیے مستحب ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں۔
(تحفۃ المودود، ص 131)
علی القاری:
"عورتوں کا ختنہ کرامت ہے۔”
(مرقاة: 8؍289–311)
خزائن الفتاویٰ:
"مردوں کا ختنہ سنت ہے، عورتوں کے متعلق اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں مکروہ ہے، بعض سنت، بعض فرض۔”
امام احمد:
"عورتوں کے لیے بھی واجب ہے۔”
امام نووی (المجموع: 1؍300):
"ختنہ مرد و عورت دونوں کے لیے فرض ہے۔ اکثر سلف کا قول یہی ہے۔”
شرح مسلم (1؍128)، نیل الاوطار (1؍138) میں بھی یہی مذکور ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ (الفتاویٰ: 21؍114):
"عورت کا ختنہ کرنا چاہئے، یہ خفیف سا عمل ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
‘انداز سے کاٹ، مبالغہ نہ کر۔ یہ چہرے کی خوبصورتی اور شوہر کے لیے فائدہ مند ہے۔'”
حکمت ختنہ
❀ مرد کے ختنہ کا مقصد: عضو کے سر پر موجود نجاست کی صفائی
❀ عورت کے ختنہ کا مقصد: شہوت میں اعتدال
اگر عورت کا ختنہ نہ کیا جائے تو وہ زیادہ شہوت پرست اور بے راہ رو ہو جاتی ہے
اعتدال کے ساتھ کٹائی سے توازن پیدا ہوتا ہے
نتیجہ
عورتوں کے ختنے کے ثبوت میں متعدد صحیح احادیث، ائمہ کے اقوال اور شرعی حکمتیں موجود ہیں۔ صرف وہی شخص انکار کر سکتا ہے جو ان تمام چیزوں سے ناواقف ہو۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب