سوال
عورت کا اپنے بالوں میں ایک جانب مانگ نکالنے کا کیا حکم ہے؟
جواب
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سنت طریقہ:
شریعت کے مطابق بالوں کی مانگ نکالنے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ:
◈ مانگ سر کے درمیان میں ہو۔
◈ یہ مانگ ناصیہ یعنی پیشانی کے اگلے حصے سے لے کر سر کے اوپر تک ہونی چاہیے۔
◈ کیونکہ سر میں دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے سب طرفوں میں مانگ نکالی جا سکتی ہے، اس لیے مشروع (شرعی طور پر جائز اور پسندیدہ) مانگ صرف درمیان والی ہے۔
ایک جانب مانگ نکالنے کی حیثیت:
ایک طرف مانگ نکالنا شرعی طور پر مشروع نہیں ہے۔
بعض اوقات اس انداز میں غیر مسلموں (مثلاً نصاریٰ وغیرہ) کی مشابہت پائی جاتی ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔
اس کی ممانعت نبی کریم ﷺ کی ایک حدیث میں بھی آتی ہے:
’’میری امت میں جہنمیوں کی دو قسمیں ہیں جو میں نے ابھی تک نہیں دیکھیں؛ ایک وہ قوم جن کے پاس بیلوں کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے جن کے ساتھ وہ لوگوں کو مارتے ہوں گے، اور دوسری وہ عورتیں جو کپڑے پہن کر بھی ننگی ہوں گی، مائل ہونے والی اور مائل کرنے والی ہوں گی، اور ان کے سر بختی اونٹوں کے کوہانوں کی طرح جھکے ہوئے ہوں گے، جنت میں داخل نہیں ہوں گی نہ ہی اس کی بو پائیں گی۔‘‘
(المشکاۃ: 383، 205/2؛ 306/2)
علماء کی تشریحات:
بعض علماء نے "مائلات و ممیلات” کی تفسیر اس طرح کی ہے کہ:
◈ "مائلات” وہ عورتیں ہیں جو ایک جانب جھکی ہوئی کنگھی کرتی ہیں۔
◈ "ممیلات” وہ ہیں جو دوسری عورتوں کو بھی اسی طرز پر کنگھی کرنے کی تلقین کرتی ہیں۔
تاہم صحیح اور راجح بات یہ ہے کہ:
◈ "مائلات” سے مراد وہ عورتیں ہیں جو حیاء اور دین کی راہ سے ہٹنے والی ہوتی ہیں۔
◈ "ممیلات” وہ ہیں جو دوسری عورتوں کو بھی دین سے ہٹاتی ہیں۔
دیگر دلائل:
مجموع الفتاویٰ لابن عثیمین میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے:
(مجموع الفتاویٰ، ابن عثیمین، 136/4، فتویٰ نمبر 66)
اس میں مذکور ہے کہ "مائلات” کا مطلب صرف ظاہری کنگھی نہیں بلکہ اخلاقی انحراف بھی ہے۔
حدیث کے الفاظ
"رُؤوسُهُنَّ كَأَسْنِمَةِ الْبُخْتِ”
اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ ان کے سر بختی اونٹ کے کوہانوں کی مانند ہوتے ہیں، یعنی ایک طرف جھکے ہوئے۔
شرح مسلم للنووی میں بھی بیان کیا گیا ہے:
(شرح مسلم، النووی، 205-383/2)
◈ "مائلات” وہ عورتیں ہیں جو ٹیڑھی کنگھی کرتی ہیں۔
◈ یہ طریقہ زنا کار عورتوں کا مشہور انداز ہے۔
◈ "ممیلات” وہ ہیں جو دوسروں کو بھی اسی انداز پر متاثر کرتی ہیں۔
قاضی عیاض نے بھی حدیث کے اسی مفہوم کو اپنایا ہے۔
نبی کریم ﷺ کا عمل:
ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب
"الاقتضاء”
میں لکھا ہے کہ:
◈ نبی ﷺ ابتدائی دور میں یہودیوں کی موافقت کرتے ہوئے بال بغیر مانگ کے چھوڑتے تھے۔
◈ بعد میں جب ان کی مخالفت کی گئی تو آپ ﷺ نے مانگ نکالنا شروع کر دیا۔
یہ روایت ابوداؤد نے نقل کی ہے:
(ابوداود: 224/2)
نتیجہ:
مرد و خواتین دونوں کے لیے سنت یہ ہے کہ بالوں کی مانگ نکالیں۔
تاہم یہ مانگ سر کے درمیان میں ہونی چاہیے۔
ایک طرف مانگ نکالنا مشروع نہیں اور بعض صورتوں میں اس میں غیر مسلموں کی مشابہت اور نبی ﷺ کے احکامات کی مخالفت بھی ہو سکتی ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب