عورتوں کا قبرستان جانا: شرعی حکم اور مکمل دلائل
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ، جلد 3 – نمازِ جنازہ سے متعلق مسائل، صفحہ 133

عورتوں کا قبرستان جانا – قرآن و سنت کی روشنی میں مکمل وضاحت

سوال:

کیا عورت قبرستان جا سکتی ہے؟ براہ کرم قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
(محمد ذیشان سبحانی، سیالکوٹ)

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا عمل:

عبداللہ بن ابی ملیکہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قبرستان سے واپس آئیں۔ ان سے پوچھا گیا:

"اے ام المؤمنین! آپ کہاں سے آ رہی ہیں؟”

آپ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا:

"میں اپنے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر سے آئی ہوں۔”

مزید پوچھا گیا:

"کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت سے منع نہیں فرمایا تھا؟”

انہوں نے جواب دیا:

"نعم، كان نهي ثم أمر بزيارتها”
"جی ہاں! آپ نے (شروع میں) منع فرمایا تھا، پھر بعد میں زیارت کا حکم دے دیا تھا۔”

(المستدرک للحاکم: 1392، وسندہ صحیح، السنن الکبریٰ للبیہقی 4/78، حدیث 6999)

اس حدیث سے حاصل ہونے والے دو اہم مسائل:

قبروں کی زیارت سے ممانعت والا ابتدائی حکم منسوخ ہو چکا ہے۔

عورتوں کے لیے اپنے قریبی رشتہ داروں کی قبروں پر (کبھی کبھار) جانا جائز اور غیر ممنوع ہے۔

صحیح مسلم کی حدیث:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيارَةِ القُبُورِ فَزُورُوهَا”
"میں نے تمہیں قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا، پس (اب) ان کی زیارت کیا کرو۔”

(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 314، حدیث 977، ترقیم دارالسلام 2260)

یہ حدیث عام ہے اور اس کے عموم میں عورتیں بھی شامل ہیں، لہٰذا عورتوں کے لیے بھی قبروں کی زیارت جائز ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عورت کو نصیحت کرنا:

سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر کے قریب بیٹھی رو رہی تھی۔ آپ نے فرمایا:

"اتَّقِ اللَّهَ وَاصْبِرِي”
"اللہ سے ڈر اور صبر کر!”

(صحیح بخاری: 1252، صحیح مسلم: 926، دارالسلام: 2141)

اس حدیث سے بھی عورتوں کے لیے قبروں کی زیارت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

دیگر دلائل:

سیدہ ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث اور دیگر روایات سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے کبھی کبھار اپنے قریبی رشتہ داروں کی قبروں کی زیارت جائز ہے۔

اعتراض: "قریبی رشتہ داروں” اور "کبھی کبھار” کی قید کیوں؟

1. کثرتِ زیارت کی ممانعت:

صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

"لعن رسول الله صلی الله عليه وسلم زوارات القبور”
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو کثرت سے قبروں کی زیارت کرتی ہیں۔”

(سنن ترمذی: 1056، حدیث حسن صحیح، وسندہ حسن)

لفظ "زوارات” مبالغے کا صیغہ ہے، یعنی کثرت سے زیارت کرنے والی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کا بکثرت قبروں کی زیارت کرنا ممنوع اور حرام ہے۔

تنبیہ:

ایک روایت میں "زائرات القبور” پر لعنت کا ذکر ہے:

(سنن ترمذی: 320، حدیث حسن، سنن ابی داود: 3236، سنن نسائی: 2045)

لیکن اس روایت کی سند درج ذیل دو وجوہات کی بنا پر ضعیف ہے:

➊ ابو صالح مولیٰ ام ہانی کو جمہور محدثین نے ضعیف راوی قرار دیا ہے۔

➋ ابو صالح نے یہ روایت اختلاط کے بعد بیان کی، اس لیے اسے "حسن” قرار دینا درست نہیں۔

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا واقعہ:

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں:

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے ایک عورت کو دیکھا جو یہ نہیں سمجھتی تھی کہ آپ نے اسے پہچان لیا ہے۔ جب آپ راستے کے درمیان پہنچے تو رک گئے حتیٰ کہ وہ عورت قریب آ گئی۔ دیکھا تو وہ آپ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔ آپ نے فرمایا:

"اے فاطمہ! گھر سے کیوں نکلی ہو؟”

انہوں نے عرض کیا:

"میں میت والوں کے گھر تعزیت اور مغفرت کی دعا کے لیے گئی تھی۔”

آپ نے فرمایا:

"شاید تم ان کے ساتھ کُدیٰ (قبرستان) تک بھی گئی ہو؟”

انہوں نے جواب دیا:

"میں اللہ کی پناہ مانگتی ہوں کہ میں وہاں گئی ہوں، اور میں نے آپ سے اس بارے میں (منع کرتے ہوئے) سنا ہے۔”

(سنن ابی داود: 3123)

یہ روایت "حسن لذاتہ” ہے۔ راوی ربیعہ بن سیف المعافری کو جمہور محدثین نے ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔ لہٰذا امام نسائی رحمۃ اللہ علیہ کا ان کو ضعیف کہنا مضر نہیں۔

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ عورتوں کے لیے اپنے قریبی رشتہ داروں کے علاوہ دوسروں کی قبروں کی زیارت جائز نہیں۔

عورتوں کی قبروں کی زیارت سے متعلق خلاصہ تحقیق:

عورتوں کے لیے اپنے قریبی رشتہ داروں (مثلاً بھائی، بیٹا، شوہر وغیرہ) کی قبروں پر کبھی کبھار جانا جائز ہے۔

غیر متعلقہ افراد کی قبروں پر عورتوں کا جانا حرام ہے۔

جو عورتیں بابوں، مزاروں، درباروں اور پیروں کی قبروں پر جاتی ہیں، ان کا جانا جائز نہیں بلکہ حرام ہے۔

عورتوں کا قبروں کی کثرت سے زیارت کرنا حرام ہے۔

قبروں کی زیارت کے مقاصد:

✿ مرحومین کے لیے دعائے مغفرت اور رحمت کرنا۔

✿ موت اور آخرت کی یاد تازہ کرنا۔

➏ قبر پر جا کر مردوں سے دعائیں، مرادیں مانگنا، ان سے مدد چاہنا، انہیں مشکل کشا یا حاجت روا سمجھنا اور اللہ تعالیٰ کی خاص صفات کو ان کے ساتھ منسوب کرنا – یہ سب
کفر، شرک اور ظلم عظیم ہے۔

(21 ستمبر 2011ء، جامعۃ الامام البخاری، سرگودھا)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1