عورت، سرمایہ داری اور جنسی استحصال
تحریر: عاطف ایوب

سرمایہ دارانہ نظام میں استحصال

سرمایہ دارانہ نظام میں دوائیوں، ہتھیاروں اور عورتوں کو کاروباری اجناس کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ جو دوائیں چند پیسوں میں بن سکتی ہیں، انہیں غریبوں کو مہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے، جبکہ ہتھیاروں کی تیاری اور فروخت بھی عالمی کاروبار کا حصہ بن چکی ہیں، جس کے نتیجے میں دنیا میں جنگیں جاری رکھی جاتی ہیں تاکہ کاروبار چلتا رہے۔ اس نظام میں عورت کو بھی ایک تجارتی شے بنا دیا گیا ہے، جہاں اس کی عزت اور وقار کو جنسی تجارت کے نام پر بیچا جا رہا ہے۔

عورت کا استحصال

عورتوں کی آزادی اور حقوق کی تحریکوں نے، خاص طور پر مغربی معاشروں میں، عورت کو "مساوی حقوق” کے نام پر جنسی استحصال کا شکار بنایا ہے۔ مغربی ممالک میں عورت کو ایک تجارتی جنس کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ہوٹلوں، کیفے، نائٹ کلبوں اور فلموں میں عورت کو ایک پراڈکٹ کے طور پر دکھایا جا رہا ہے، جو ایک بہت بڑی انڈسٹری کا حصہ ہے۔

جنسی آزادی کا تضاد

جدید دنیا میں جنسی آزادی اور عورت کے حقوق کے نام پر ایک تضاد پیدا کر دیا گیا ہے۔ جنسی استحصال کے مسائل کو نظرانداز کر کے عورت کی خوبصورتی اور جسم کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ پردے اور حیاء کو ختم کر کے عورت کو جنسی تجارت کے میدان میں لا کھڑا کیا گیا ہے، جہاں وہ خود اپنی عزت کی حفاظت سے محروم ہو گئی ہے۔

یہ نظام اس تصور کو فروغ دیتا ہے کہ عورت کی آزادی کا مطلب جسم کی نمائش اور معاشی خودمختاری ہے، جبکہ حقیقت میں یہ عورت کو ایک جنس کی طرح بیچنے کا عمل ہے۔

خلاصہ

➊ سرمایہ دارانہ نظام میں دوائیوں، ہتھیاروں اور عورتوں کو تجارتی مال کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔

➋ دوائیوں اور ہتھیاروں کی تجارت میں غریب عوام کا استحصال کیا جاتا ہے۔

➌ مغربی معاشروں میں عورت کی آزادی کے نام پر جنسی استحصال بڑھا ہے۔

➍ عورت کو جنسی آزادی اور معاشی خودمختاری کے نام پر جنسی تجارت میں دھکیلا جا رہا ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے