عمرے میں بال منڈوانے یا کٹوانے کا حکم اور افضل عمل کیا ہے؟
ماخوذ: فتاویٰ ارکان اسلام

عمرے میں بال منڈوانے اور کٹوانے کے احکام

سوال:

عمرے کے دوران بالوں کو منڈوانے یا کٹوانے کے بارے میں کیا شرعی حکم ہے؟ ان دونوں میں سے کون سا عمل افضل ہے؟

جواب:

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

✿ عمرے کے مناسک میں بال منڈوانا یا کٹوانا واجب عمل ہے۔

✿ اس کی دلیل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر جب آپ مکہ مکرمہ تشریف لائے، طواف اور سعی ادا کی، تو ان تمام افراد کو، جن کے پاس قربانی کا جانور نہیں تھا، حکم دیا کہ وہ بال کٹوا کر حلال ہو جائیں۔

✿ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم امر کی صورت میں تھا، اور اصولی طور پر امر وجوب کے لیے ہوتا ہے، اس لیے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عمرے کے بعد بال کٹوانا یا منڈوانا ضروری ہے۔

مزید وضاحت:

✿ ایک اور واضح دلیل غزوہ حدیبیہ کا واقعہ ہے:

❀ جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مکہ میں داخلے سے روک دیا گیا تھا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے بال منڈوا دیں۔

❀ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے کچھ تاخیر ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضی کا اظہار فرمایا۔

❀ یہ واقعہ بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عمرے میں بال منڈوانا یا کٹوانا صرف اختیار کا معاملہ نہیں بلکہ شرعی تقاضا ہے۔

افضل عمل کیا ہے؟

✿ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ بال کٹوانا افضل ہے یا منڈوانا؟ تو:

بال منڈوانا افضل ہے۔

❀ البتہ، متمتع (یعنی جو عمرہ اور حج ایک ہی سفر میں ادا کر رہا ہو) اگر تاخیر سے آیا ہو، تو اس کے لیے بال کٹوانا افضل ہے، تاکہ وہ بعد میں حج کے موقع پر بال منڈوا سکے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے