عمرہ کے لیے احرام، طواف، سعی اور حلق کا طریقہ
جیسا کہ یلملم اور ذاتِ عرق وغیرہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میقات مقرر فرمایا اوراس کا تفصیلی بیان پیچھے گزر چکا ہے۔ واضح رہے کہ حج اور عمرے کے میقاتوں میں کوئی فرق نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو تنعیم مقام پر لے جائیں اور وہ وہاں سے عمرے کا احرام باندھ آئیں ۔
[بخاري: 1784 ، كتاب العمرة: باب عمرة التنعيم ، مسلم: 1211]
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان صحابہ رضی اللہ عنہم کو ، کہ جن کے پاس قربانی کا جانور نہیں تھا۔ یہ حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کر کے بال ترشوالیں اور احرام کھول دیں۔“
[بخارى: 1785 أيضا ، مسلم: 1216]
اس عمل کے بعد وہ مکمل طور پر احرام سے نکل چکے ہیں حتی کہ اپنی بیویوں کے قریب بھی جا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں بال منڈوانا ترشوانے سے افضل ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی مرتبہ صرف اُن لوگوں کے لیے بخشش کی دعا فرمائی جو سر منڈانے والے تھے۔
[بخاري: 1728 ، مسلم: 1302]
دوران سال کسی بھی وقت عمرہ کرنا مشروع ہے
➊ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ مشروع قرار دیا ہے اور اس کا کوئی وقت متعین نہیں فرمایا۔
➋ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عمرة فى رمضان تعدل حجة
”رمضان میں عمرہ کرنا حج کے ثواب کے برابر ہے۔“
[بخاري: 1782 ، كتاب العمرة: باب عمرة رمضان ، مسلم: 1256 ، نسائي: 130/4 ، ابن ماجة: 2994 ، أحمد: 229/1 ، طبراني كبير: 11299 ، ابن حبان: 3699 ، دارمي: 51/2 ، بيهقي: 346/4 ، ابو داود: 1990 ، ابن خزيمة: 3077]
➌ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج سے پہلے ماہ ذی القعدہ میں دو عمرے کیے۔
[بخاري: 1781 ، كتاب العمرة: باب كم اعتمر النبي]
➍ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے ہیں تو انہوں نے جواب میں کہا:
اربع إحداهن فى رجب
”چار ، ان میں سے ایک رجب میں کیا۔“
[بخاري: 1775 أيضا]
➎ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کی تردید میں یوں کہا کہ :
ما اعتمر رسول الله فى رجب
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا ۔“
[بخاري: 1777]
➏ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ کیا ۔
[بخاري: 1784]
جن لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چار عمرے ذکر کیے ہیں انہوں نے حدیبیہ کے دن روکے جانے کو بھی عمرے میں شامل کر لیا ہے کیونکہ اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کھول کر سر منڈا لیا تھا اور جنہوں نے تین عمرے بیان کیے ہیں انہوں نے اسے شامل نہیں کیا اور جس نے دو عمرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیے ہیں اس نے عمرہ حدیبیہ اور حج کے ساتھ کیے جانے والے عمرے کو شمار نہیں کیا۔
راجح و برحق بات یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام عمرے حج کے مہینوں میں ہی کیے اور اس کا ایک سبب بھی تھا کہ اہل جاہلیت حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے سے منع کیا کرتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا رد کرنے کے لیے ایسا کیا ۔
[نيل الأوطار: 306/3]
(جمہور) حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا جائز ہے۔
تاہم بعض نے اسے مکروہ بھی کہا ہے مثلا ہادویہ وغیرہ ۔
[المغنى: 16/5 ، الحاوى: 30/4 ، الأم: 163/2 ، المبسوط: 178/4 ، الهداية: 182/1 ، الكافي لا بن عبدالبر: ص / 172 ، نيل الأوطار: 306/3]
(راجح) عمرہ پورے سال میں کسی وقت بھی کیا جا سکتا ہے اس میں کوئی کراہت کا پہلو نہیں ۔
[السيل الجرار: 215/2]
عمرہ فرض ہے یا سنت و مستحب اس کا بیان تفصیلا کتاب الحج کی ابتدا میں گزر چکا ہے۔