علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں روایات کا تجزیہ
تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کا عمل اوپر نہیں چڑھتا
حضرت ابو ایو ب انصاری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فرشتے سات سال تک علی (رضی اللہ عنہ) پر درود پڑھتے رہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے ساتھ علی کے علاوہ کسی نے نماز نہ پڑھی تھی۔
یہ روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے اس کے الفاظ ہیں:
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: فرشتے مجھ پر اور علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ پر سات سال تک درود پڑھتے رہے لیکن یہ درود آسمانوں پر نہیں چڑھا۔ اور میرے اور علی کے علاوہ زمین سے آسمان تک کسی کی اس امر کی شہادت کہ اللہ کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں سوائے میرے اور علی کے کسی کی بلند نہیں ہوتی۔ [اخرجه ابن عدى فى الكل فى ترجمه عباد۔ ابن جوزي فى الموضوعات: 340/1۔ وذكره السيوطي فى اللائي: 166/1]
اس امر میں اختلاف ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب نبوت عطا ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کیا عمر تھی۔ کوئی کہتا کہ پانچ سال تھی۔ کوئی سات، کوئی نو، کوئی گیارہ اور کوئی تیرہ سال بیان کرتا ہے۔
اگر فرض کرو ان کی عمر سات سال تھی تو چودہ سال کی عمر تک ان کے اور حضور کے علاوہ کسی کا درود آسمانوں پر نہیں پہنچا تو ہم اس صورتحال کو اس طرح قبول کریں گے کہ نبی کا درود نبوت کے باعث بلند ہوتا رہا۔ رہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کا معاملہ تو ان کا درود اس لیے اوپر چڑھتا رہا کہ وہ بچہ تھے۔ اور باقی چونکہ عمر رسیدہ تھے۔ لہٰذا ان کا درود اس لیے اوپر نہیں چڑھ سکا۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی اگر پوری عمر کی عورت نہ ہوتیں بلکہ وہ بھی بچی ہوتیں تو شاید ان کا درود بھی اوپر چڑھ جاتا۔
حضرت ابو ایو ب انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت میں محمد بن عبد اللہ بن ابی رافع ہے۔
محمد بن عبید اللہ:
محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع۔
یحیی کا بیان ہے کہ یہ کچھ نہیں۔
بخاری کہتے ہیں: منکر الحدیث ہے۔ [الموضوعات: 341/1]
ذہبی کا بیان ہے کہ محمد بن عبید اللہ بن ابی رافع المدنی کو محدثین نے ضعیف کہا ہے۔
بخاری کہتے ہیں: یہ منکر الحدیث ہے۔ اس سے مندل اور علی ہاشم حدیث روایت کرتا ہے۔
یحیی بن معین کا بیان ہے کہ اس کی حدیث کچھ نہیں ہوتی۔
ابو حاتم کا بیان ہے کہ انتہا سے زیادہ منکر الحدیث ہے۔ ردی قسم کا آدمی ہے۔ [ميزان الاعتدال: 246/6۔ تهذيب الكمال: 876/2۔ تقريب: 187/2۔ تاريخ البخاري الكبير: 171/1۔ الجرح والتعديل: 6/8۔ الكاشف: 225/2۔ ضعفاء ابن جوزي: 83/3]
ترمذی اور ابن ماجہ نے اس سے حدیث روایت کی ہے۔
ابن عدی کا بیان ہے کہ اس کا شمار کوفہ کے شیعوں میں ہوتا ہے۔
طبرانی نے اس سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اول جو اشخاص جنت میں داخل ہوں گے ان میں، میں اور تو اور حسن و حسین ہوں گے۔ اور ہمارے پیچھے ہماری اولاد ہوگی اور ہمارے شیعہ ہمارے دائیں اور بائیں ہوں گے۔
[ميزان الاعتدال: 247/6]
رہ گئی دوسری روایت تو اس کا راوی عباد بن عبد الصمد ہے۔
عباد بن عبد الصمد:
ابن عدی کا بیان ہے کہ یہ عباد غالی قسم کا شیعہ ہے۔
عقیلی کا بیان ہے کہ یہ ضعیف ہے۔ اس نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک نسخہ روایت کیا ہے۔ جس کی عام روایات منکر ہیں۔ اور اس کی عام روایات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل سے متعلق ہوتی ہیں۔
امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ انتہا سے زیادہ ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث ہے۔ یہ روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مردی ہے۔ جو ان شاء اللہ آگے پیش کی جائے گی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے