علم اور طالب علم کی فضیلت صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس الشیخ محمد منیر قمر کی کتاب احکام مساجد سے ماخوذ ہے۔

فضیلت علم و طالب علم:

اس صورت میں بھی افضل یہی ہے کہ وہ تعلیم و تدریس کے حلقے میں جا بیٹھے کیونکہ تلاوت و نوافل کی عبادت سے تعلیم و تدریس علم کی عبادت کو زیادہ افضل بتایا گیا ہے۔ چنانچہ معجم طبرانی اوسط میں اور مسند بزار میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ارشاد نبوی ہے:
فضل العلم خير من فضل العبادة وخير دينكم الورع
علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بہتر ہے، اور تمہارا بہتر دین تو درع و تقویٰ ہے۔
ایضا
ایسے ہی صحیح مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، ابن حبان اور مستدرک حاکم میں مختلف مگر ملتے جلتے الفاظ سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله به طريقا إلى الجنة وما اجتمع قوم فى بيت من بيوت الله يتلون كتاب الله ويتدارسونه بينهم إلا حفتهم الملائكة ونزلت عليهم السكينة وغشيتهم الرحمة وذكرهم الله فيمن عنده
جو شخص حصول علم کے لیے اس کی راہ پر چل نکلے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان کر دے گا، اور کوئی قوم جب اللہ کے کسی گھر میں (مسجد و مدرسہ وغیرہ) بیٹھے اور کتاب اللہ کی تلاوت اور تعلیم و تدریس میں مشغول ہو جائے، تو اللہ کے فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں۔ ان پر اللہ کی طرف سے سکینت نازل ہوتی ہے، رحمت الہی انہیں ڈھانپ لیتی ہے، اور اللہ ان کا ذکر اپنے مقربین فرشتوں میں کرتا ہے۔
مسلم مع نووی21/17/9 ۔ صحیح ابی داود 3097۔ صحیح ترمذی 2134۔ ابن ماجہ 225۔ الموارد78 ۔ صحیح ترغیب 32031/1
اور حصول علم کے لیے درس و تدریس کے حلقوں میں جا کر بیٹھنے والوں کی فضیلت کا اندازہ تو اس حدیث سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ جو ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان اور بیہقی میں حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
من سلك طريقا يلتمس فيه علما سهل الله له طريقا إلى الجنة وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب العلم رضا بما يصنع
جو شخص حصول علم کی راہ اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کی راہ آسان فرما دیتا ہے۔ اور اس طالب علم کے ساتھ اپنی رضامندی کا اظہار کرنے کے لیے فرشتے اس کی راہوں میں اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔
صحیح ابی داؤد 3096 – صحیح ترمذی 2109 – ابن ماجہ 223 – الموارد 80 – صحیح الترغیب 33/1
اور ابن ماجہ و ابن حبان، معجم طبرانی و مستدرک حاکم اور مسند احمد میں حضرت صفوان بن عسال مرادی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سرخ چادر پر ٹیک لگائے ہوئے مسجد میں تشریف فرما تھے۔ میں نے عرض کیا کہ میں حصول علم کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مرحبا بطالب العلم أن الطالب العلم تحفته الملائكة بأجنحتها ثم يركب بعضهم بعضا، حتى يبلغوا السماء الدنيا من محبتهم بما يطلب
طالب علم کو خوش آمدید، بے شک طالب علم کو فرشتے اپنے پروں میں لپیٹ لیتے ہیں، اور پھر ایک دوسرے پر سوار ہو کر آسمان دنیا تک چڑھ جاتے ہیں۔ اور یہ ان کا طالب علم سے اظہار محبت ہوتا ہے۔
ابن ماجہ 226 – الموارد 79 – صحیح ترغیب 34/1
اور انہی جیسی احادیث میں سے ہی ایک ترمذی، ابن ماجہ، ابن حبان اور مستدرک میں بھی ہے۔ جس میں زرین حبیش بیان فرماتے ہیں کہ:
میں حضرت صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو انہوں نے پوچھا: کیا لینے آئے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں حصول علم کی کوشش میں سرگرداں ہوں، تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
ما من خارج خرج من بيته فى طلب العلم، إلا وضعت له الملائكة أجنحتها رضا بما يصنع
کوئی بھی شخص جب حصول علم کی غرض سے اپنے گھر سے نکلتا ہے، تو اس کے اس فعل پر اپنی رضا مندی کا اظہار کرنے کے لئے فرشتے اس کی راہ میں اپنے پر بچھا دیتے ہیں۔
ابن ماجہ 226 – الموارد 79 – صحیح ترغیب 38/1، مسند احمد و مستدرک حاکم بحوالہ الصحیح الجامع 5702
اور معجم طبرانی و مستدرک حاکم میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من غدا إلى المسجد لا يريد إلا أن يتعلم خيرا أو يعلمه كان له أجر كأجر حاج تاما حجته
جو شخص محض اس غرض سے مسجد کی طرف گیا کہ وہ علم سیکھے یا سکھائے، تو اسے پورے ایک حج کا ثواب ملے گا۔
صحیح ترغیب 38/1
جب کہ ابن ماجہ، بیہقی اور مستدرک حاکم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
من جاء مسجدي هذا لم يأته إلا لخير يتعلمه، فهو بمنزلة المجاهد فى سبيل الله، ومن جاء لغير ذلك فهو بمنزلة الرجل ينظر إلى متاع غيره
جو شخص میری مسجد میں محض اس غرض سے آئے کہ وہ کوئی بھلائی (علم) سیکھے گا یا سکھلائے گا۔ تو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والوں جیسا شمار ہوگا۔ اور جو کسی دوسری غرض سے آئے گا، وہ ایسے ہی ہوگا جیسے کوئی کسی دوسرے کی چیز کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتا ہے۔
ابن ماجہ 227 صحیح الجامع 6184 صحیح ترغیب 39/1
اور درس قرآن و حدیث سننے والوں کے مقام و مرتبے کا اندازہ اس حدیث سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جو کم و بیش چوبیس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اور کم و بیش ایک سو ستاون (157) طرق سے سینتیس (37) آئمہ نے صحیحین کے سوا، دیگر کتب حدیث و سنت میں سے پینتالیس (45) سے زیادہ کتب میں مروی ہے۔ جس کی تخریج و تحقیق، تعلیق و تشریح پر بعض اہل علم نے مستقل کتابیں لکھی ہیں۔ اور حال ہی میں مدینہ یونیورسٹی کے ایک پروفیسر عبد الحسن حمد العباد نے روایت کے اعتبار سے اس حدیث کے مطالعہ پر مشتمل ”دراسة الحديث“ نظر الله امرا سمع مقالتي روایت و درایتہ لکھی ہے ۔ جو درمیانے سائز کے سوا دو سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہےْ (طبع مطابع الرشید مدینہ منورہ)۔ غرض اس حدیث میں ارشاد نبوی ہے:
نظر الله إمرأ سمع مقالتي فحفظها ورعاها ثم ذهب بها إلى من لم يسمعها
اللہ اس شخص کو سرسبز و شاداب (پر رونق، سرخ رو) رکھے، جس نے میری بات سنی اور اسے خوب اچھی طرح سے یاد کیا۔ پھر وہ ان لوگوں تک جا نکلا جنہوں نے وہ بات (حدیث) نہیں سنی ہوئی (اور انہیں جا کر سنائی)۔
صحیح ترغیب 41/1 – مجمع الزوائد 139/1
اور ترمذی وابن حبان کے الفاظ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہیں کہ:
نظر الله إمرأ سمع منا شيئا فبلغه كما سمع فرب مبلغ أوعى من سامع
اللہ اس شخص کو شاداب و سرخرو رکھے، جس نے ہم سے کچھ سنا، اور جیسا سنا آگے پہنچا دیا۔ آگے والے لوگوں میں سے کتنے لوگ اس سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔
صحیح الجامع 30429/6/3 – الصحیفة 689/1 – نظر کتاب العباد ص 33، 74 – صحیح ترمذی 2120 – ابن ماجہ 230 – الموارد 74
اور ابن حبان میں نظر الله امرا کی بجائے رحمه الله امرا ہے: کہ اللہ اس پر رحم فرمائے۔
فضیلت علم و طالب علم اور فضیلت علما ایک طویل موضوع ہے۔ جس پر بعض آئمہ نے ضخیم کتب تصنیف کی ہیں۔ حتیٰ کہ علامہ ابن عبد البر کی کتاب جامع بیان العلم و فضلہ غالباً سب سے ضخیم اور جامع کتاب ہے۔ تفصیل مطلوب ہو تو ایسی کتب کی طرف رجوع کیا جا سکتا ہے۔ ایسے ہی الترغیب والترہیب للمنذری اور خصوصاً صحیح الترغیب والترہیب للالبانی کی جلد اول میں کتاب العلم (ص 31 تا 61) بھی قابل مطالعہ ہیں۔ اور ہم یہاں تفصیل میں جانے کی بجائے انہی اشارات پر اکتفاء کرتے ہیں۔ کیونکہ ان سے اتنا تو واضح طور پر معلوم ہو ہی جاتا ہے کہ علم و طالب علم کا کیا مقام و مرتبہ ہے۔ نوافل و تلاوت پر علمی حلقوں میں بیٹھنے کو ترجیح حاصل ہے۔ لہذا اگر مسجد میں خالص قرآن و حدیث کا درس ہو رہا ہو تو ایسے درس کے حلقوں میں بیٹھنا عام نفلی نمازوں سے بہتر ہے۔
فقہ حنفی کی معتبر کتاب در مختار میں لکھا ہے:
فإستماع العظة أولى
اور وعظ و درس کا سننا اولیٰ و بہتر ہے۔
در مختار مع رد المختار 663/1 طبع ایچ ایم سعید کمپنی کراچی
اور رد المختار المعروف فتاویٰ شامیہ (حاشیہ ابن عابدین) میں بھی مصنف نے در مختار والے کی تائید و مزید تشریح کی ہے۔
رد المختار حاشیہ در مختار ایضاً

العودة الى المقصود:

یہی وجہ ہے کہ امام سیوطی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب الامر باتباع والنہی عن الابتداع میں لکھا ہے کہ بدعات یا نو ایجاد امور میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کوئی انسان جہالت و لاعلمی کے باوجود علمی مجلسوں کو چھوڑ کر نفلی عبادت میں مصروف رہے۔ یہ ایک ایسی غلطی ہے کہ جس سے انسان بہت ہی مخالف شریعت آفتوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ طہ کی آیت نمبر 114 میں خود اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی تلقین فرمائی ہے:
﴿وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا﴾
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیجئے کہ اے میرے رب! میرا علم زیادہ کر۔
اس آیت میں علم کی زیادتی کو طلب کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور سورہ کہف میں حضرت موسیٰ اور خضر علیہما السلام کے واقعہ کے شروع میں ہی آیت نمبر 66 میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قول منقول ہے:
﴿هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَىٰ أَن تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا ﴾
کیا میں آپ کے ساتھ اس شرط پر رہ سکتا ہوں کہ آپ کو جو کچھ اللہ تعالیٰ نے سکھایا ہے، اس میں سے مجھے بھی سکھائیں گے۔
(18-الكهف:66)
انبیاء کرام علیہم السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلیٰ قسم کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان کی مدد و نصرت کی جاتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی انہیں حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ مزید علم کی طلب رکھیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ علم کی کوئی انتہا نہیں۔ ہر شخص مزید علم کا محتاج رہتا ہے۔
بحوالہ اصلاح ص 159,160 مترجم
غرض علم سیکھنا فرض ہے۔ اور علم و علما سے دوری جہالت کے تسلط کو مضبوط بناتی ہے۔ اور حصول علم کے فرض ہونے کا پتہ اس حدیث سے بھی چلتا ہے۔ جو ابن ماجہ، الکامل ابن عدی اور شعب الایمان بیہقی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے، معجم طبرانی صغیر اور تاریخ بغداد للخطیب میں حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے، معجم طبرانی اوسط میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، معجم طبرانی کبیر میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے، تاریخ بغداد للخطیب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے، طبرانی اوسط اور شعب الایمان بیہقی میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس میں ارشاد نبوی ہے:
طلب العلم فريضة على كل مسلم
علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و زن) پر فرض ہے۔
ابن ماجہ بحوالہ 224 صحیح الجامع 10/4/2 صحیح ترغیب 34/1
اور جامع بیان العلم و فضلہ لابن عبد البر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے شروع میں تو ایسے ہی ہے، البتہ آخر میں مزید اضافی الفاظ یہ ہیں:
وإن طالب العلم يستغفر له كل شيء حتى الحيتان فى البحر
طالب علم کے لئے دنیا کی ہر چیز دعائے مغفرت کرتی ہے۔ حتیٰ کہ سمندر کے اندر مچھلیاں بھی اس کے لئے بخشش کی دعائیں کرتی ہیں۔
صحیح الجامع 11/4/2
اور طلب العلم فريضه على كل مسلم تک تو یہ حدیث صحیح ہے۔ جبکہ اس کے آخر میں جو بعض طرق میں و مسلمه کا لفظ آیا ہے۔ وہ صحیح نہیں۔ محدثین نے اس پر کلام کیا ہے۔ اور ویسے بھی اس کے بغیر بھی لفظ مسلم مرد و زن سب کو شامل ہے۔
اور یہاں اس بات کی صراحت بھی کرتے جائیں کہ جس علم کے حصول کو فرض قرار دیا گیا ہے، اور جس کے حصول کی ترغیب دلائی گئی ہے، اور جس علم کے حلقوں میں بیٹھنے کی طرف پر زور انداز سے دعوت دی گئی ہے۔ اس سے علم قرآن و سنت مراد ہے۔ نہ کہ قصے کہانیوں کی کوئی کتاب۔ اور ان حلقوں سے مراد بھی درس قرآن و حدیث کے حلقے ہیں، نہ کہ وہ حلقے جن میں محض باتیں ہو رہی ہوں، یا قصہ گوئی کا دور چل رہا ہو۔ کیونکہ مساجد میں ضعیف اور موضوع روایات پر مبنی تقریر یا خطاب اور ایسی باتوں کے لئے حلقہ بنانا ممنوع ہے۔ جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے۔ نفلی عبادت سے افضل اس حلقے میں بیٹھنا ہے جس میں قرآن و سنت کا درس ہو رہا ہو۔
اور بعض لوگ اس حلقے میں بیٹھنے سے اعراض کرتے ہیں۔ جس میں کوئی عالم دین وعظ و نصیحت کرتا ہے، اور قرآن و حدیث کے جواہر اور حکمت و دانائی کے موتی بانٹتا ہے۔ ایسے حلقوں کو چھوڑ کر اگر کوئی شخص دوسری طرف محض وقت گزاری کے لئے مجمع لگالے۔ اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے میں مشغول ہو جائے۔ تو ایسے شخص پر صحیح بخاری کی وہ حدیث صادق آتی ہے۔ جسے امام صاحب نے:
باب من قعد حيث ينتهي به مجلس ومن رأى فرجة فى الحلقة فجلس فيها
یعنی اس شخص کا باب جو جہاں جگہ پائے وہاں بیٹھ جائے۔ اور جو کسی حلقے میں کوئی خالی جگہ دیکھے وہاں جا بیٹھے۔
اس باب میں وارد حدیث میں حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ:
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے۔ صحابہ بھی موجود تھے۔ اسی اثناء میں تین آدمی آئے۔ دو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ اور ایک واپس چلا گیا۔ ان دو میں سے ایک حلقے کی خالی جگہ میں بیٹھ گیا اور دوسرا پیچھے بیٹھ گیا۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ألا أخبركم عن النفر الثلاثة أما أحدهم فأوى إلى الله فأواه الله وأما الآخر فاستحيا، فاستحيا الله منه، وأما الآخر فأعرض، فأعرض الله عنه
میں تمہیں تین افراد کے بارے میں بتاتا ہوں۔ ایک نے اللہ سے جگہ مانگی تو اللہ نے اسے جگہ مہیا فرمائی۔ دوسرے کو حیا آگئی تو اللہ کو بھی اس سے حیا معلوم ہوئی۔ اور تیسرے نے اعراض کیا تو اللہ نے بھی اس سے اعراض کیا۔
بخاری مع الفتح 156/1 و 562
اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں لکھا ہے:
اس حدیث سے علمی مجلسوں کے حلقوں کا استحباب ثابت ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہ مجلسوں میں با ادب رہنا چاہئے۔ اور جو خلا ہو اسے پر کرنا چاہئے۔ اسی طرح اس حدیث سے ان لوگوں کی تعریف نکلتی ہے، جو بھلائی (یعنی علم) کی طلب میں دوسروں کے ساتھ نکلتے ہیں۔
اور آگے لکھتے ہیں کہ:
علمی حلقوں کی حاضری اور عالم کا مسجد میں بیٹھنا باعث فضیلت و برکت ہے۔
فتح الباری 157/1
اور موصوف کی اس بات کے ساتھ ہی یہ بھی عرض کرتے جائیں کہ یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ علم کی اشاعت کے لئے عالم کا بیٹھنا عوام کے لئے بہت بڑی نعمت ہے۔ لوگوں کا فرض تو یہ بنتا ہے کہ وہ علم حاصل کریں چاہے اس کے لئے انہیں دور دراز کا سفر کر کے ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ اگر کوئی علم سکھانے والا ان کے پاس ہی موجود ہو، اور وہ اس سے منہ موڑے رہیں تو پھر یہ ان کی شقاوت و بدبختی ہے۔ قرون اولیٰ میں لوگ صرف ایک حدیث رسول کے حصول کے لئے مہینوں کا سفر طے کیا کرتے تھے۔ اور آج احادیث و حکمت کی باتوں کا بازار سب سے زیادہ سونا پڑا ہے۔ اور لوگ نفسانی خواہشات کے پیچھے بھاگے پھرتے ہیں۔ انا لله وانا اليه راجعون
اصلاح المساجد ص 161،145 – اعلام المساجد ص 328

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے