علم الرجال میں اختلاف کی اصل وجہ: تقلید یا تحقیق؟
ماخوذ : فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، جلد ۲، صفحہ ۲۹۶

سوال:

اسماء الرجال میں اختلاف کیوں ہوتا ہے؟

سوال کی وضاحت:

سائل نے دریافت کیا ہے کہ جب "علم الرجال” مکمل طور پر مرتب اور مدون ہو چکا ہے، اور اس میں نہ تو کوئی کمی ممکن ہے اور نہ ہی اضافہ، تو پھر علماء کے درمیان—چاہے وہ مختلف مسالک سے ہوں یا ایک ہی مسلک کے ہوں—ایک ہی روایت کے بارے میں رائے مختلف کیوں ہوتی ہے؟ اگر کوئی روایت واقعی ضعیف ہے، تو اس کا ضعف علم الرجال کی کتب میں تفصیل سے موجود ہے، اسی طرح صحیح اور حسن روایات کی بھی وضاحت موجود ہے۔ اس کے باوجود جرح و تعدیل، رد و قبول میں یہ اختلاف کیوں ہے؟ براہ کرم اس مسئلے کو واضح کیا جائے۔

جواب: 

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اختلاف کی بنیادی وجہ "تقلید” ہے

علم الرجال کی کتب میں رواۃ کی تفصیلات موجود ہونے کے باوجود بھی اختلافات کی ایک بنیادی وجہ "تقلید” ہے۔ اس کی وضاحت مختلف مثالوں کی روشنی میں کی جاتی ہے:

مثال اول:

انور شاہ کشمیری دیوبندی ایک حدیث کو قوی تسلیم کرتے ہوئے چودہ سال تک اس کا جواب سوچتے رہے۔

  • درس ترمذی (جلد ۲، صفحہ ۲۲۴)
  • العرف الشذی
  • معارف السنن
  • فیض الباری (جلد ۲، صفحہ ۳۷۵)

مثال دوم:

رشید احمد لدھیانوی دیوبندی فرماتے ہیں:

’’معہذا ہمارا فتوی اور عمل قول امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مطابق ہی رہے گا اس لیے کہ ہم امام رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقلد ہیں اور مقلد کے لیے قول امام حجت ہوتا ہے نہ کہ ادلہ اربعہ کہ ان سے استدلال وظیفۂ مجتہد ہے۔‘‘
(ارشاد القاری الی صحیح البخاری، صفحہ ۴۱۲)

مثال سوم:

محمود حسن دیوبندی نے واضح فرمایا:

الحق والانصاف ان الترجیع للشافعی فی هذه المسئلة و نحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفة

ترجمہ: حق اور انصاف یہ ہے کہ اس مسئلے میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے، مگر ہم مقلد ہیں، اس لیے ہم پر اپنے امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔
(التقریر للترمذی، صفحہ ۳۶)

مثال چہارم:

قاری رحمت دین دیوبندی نے حضرو میں راقم سے فرمایا:

’’اگر تم دو سو حدیثیں رفع یدین کے بارے میں پیش کرو تو میں نہیں مانتا‘‘

یہ قول بتاتا ہے کہ اگر کوئی حدیث پسند کے خلاف ہو، تو خواہ وہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو، اسے قبول نہیں کیا جاتا۔ اسی سبب سے بعض احادیث کو "صحیح” اور بعض کو "ضعیف” قرار دیا جاتا ہے، صرف اس بنیاد پر کہ وہ موافق یا مخالف ہیں۔

روایت پر جرح و تعدیل میں دوہرا معیار

مثال اول:

علی محمد حقانی دیوبندی نے ایک روایت میں یزید بن ابی زیاد کو ثقہ قرار دیا کیونکہ وہ ان کی پسندیدہ حدیث تھی، جبکہ ایک دوسری روایت میں یزید بن ابی زیاد کو ضعیف قرار دیا کیونکہ وہ ان کی رائے کے خلاف تھی۔

  • نبوی نماز (سندھی)، جلد ۱، صفحہ ۳۵۵ اور صفحہ ۱۶۹

مثال دوم:

امین اوکاڑوی دیوبندی نے اپنی مرضی کی حدیث میں عطاء بن ابی رباح کے بارے میں یہ کہا کہ:

"انہیں دو سو صحابہ سے ملاقات کا شرف حاصل ہے”

مگر جب حدیث ان کی رائے کے خلاف آئی تو یہی عطاء بن ابی رباح کے متعلق کہا:

"انہیں دو سو صحابہ سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں”

  • مجموعہ رسائل، طبع ۱۹۹۱ء، جلد ۱، صفحہ ۲۶۵ (نماز جنازہ میں سورۃ فاتحہ کی شرعی حیثیت، صفحہ ۹)
  • جلد ۱، صفحہ ۱۵۶ (تحقیق مسئلہ آمین، صفحہ ۴۴)

نتیجہ:

یہ تمام مثالیں اس بات کی دلیل ہیں کہ "علم الرجال” میں اختلاف کی بنیادی وجہ تقلید، مسلکی تعصب، اور خواہشات کی پیروی ہے۔ جب علماء خود کو اپنے امام یا مسلک کا پابند سمجھتے ہیں تو بعض اوقات واضح دلائل اور روایت کی صحت کے باوجود اسے قبول نہیں کرتے۔ یہی وہ رویہ ہے جو ایک ہی روایت پر مختلف احکام کا سبب بنتا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

1