علامہ جلال الدین سیوطی اور قبرپرستی
ماخذ: الأمر بالإتباع والنهي عن الابتداع، مصنف: علامہ جلال الدین السیوطی، ترجمہ: ابوالاسجد محمد صدیق رضا

جلال الدین سیوطی اور قبر پرستی کے رد میں اُن کی کتاب کا تعارف

علامہ جلال الدین السیوطی المتوفی (۹۱۱ھ ) نویں صدی ہجری کے مشہور کثیر التصانیف عالم گزرے ہیں، آپ نے علوم القرآن، علوم الحدیث، تفسیر، حدیث، فقہ، فتاوی جات وغیر ہا کئی ایک موضوعات پر مہمیز قلم کو جنبش دی اور کئی ایک کتابیں تصنیف فرما دیں، انھی کتب میں ایک کتاب ’’الأمر بالإتباع والنهي عن الابتداع‘‘ بھی ہے۔

آپ کی یہ کتاب ’’مصطفیٰ عاشور‘‘ کی تحقیق کے ساتھ مكتبة القرآن بولاق قاهرة سے طبع ہوئی۔ گو کہ علامہ سیوطی اہل علم کے ہاں علم حدیث میں ’’حاطب اللیل‘‘ مشہور ہیں، جو بلا تمیز رطب و یا بس اپنی کتب میں جمع فرما لیتے تھے۔ بہر حال آپ کی یہ تصنیف مجموعی لحاظ سے بہت ہی عمدہ تصنیف ہے۔ اس کتاب میں ایک فصل کا عنوان ہے: ’’تعظیم الأماكن التي لا تستحق التعظيم‘‘ (يعني ان مقامات کی تعظیم جو کہ تعظیم کے مستحق نہیں) یہ بحث کتاب مذکور کے صفحہ ۳ ۵ تا ۶۴ تک پھیلی ہوئی ہے۔ ہم اسی فصل کا اردو ترجمہ قارئین ماہنامہ ’’الحدیث‘‘ حضرو کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔

بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثابت شده پیشین گوئی کے مطابق آج امت مسلمہ کا بڑا حصہ تقلید اور آباء و بزرگ پرستی میں اُمم سابقہ کے نقش قدم پر چلا جا رہا ہے، مظاہر پرستی وقبر پرستی کے نمونے جگہ جگہ عام دعوت نظارہ و عبرت دے رہے ہیں، دین اسلام کی حقیقی تعلیم اجنبی سی ہوتی جا رہی ہے۔ ایسے دور میں کوئی حق بات بیان کرے تو اسے ایک نئی بات نئی سوچ قرار دیا جاتا ہے۔ علامہ سیوطی کی کتاب سے اس فصل کا ترجمہ پیش کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ قبر پرستی کا جرم اور اس کا رد کوئی نئی چیز نہیں بلکہ پہلے بھی لوگ اصلاح کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس فعل شنیع کا رد صحیح احادیث کی بنیاد پر ہے، جسے وہابیت یا نجدیت کا عنوان دیگر با آسانی ٹھکرایا نہیں جا سکتا۔

[محمد صدیق رضا]

یہاں سے علامہ جلال الدین سیوطی کی کتاب کا متن شروع ہو رہا ہے:

وہ مقامات جو تعظیم کے مستحق نہیں

اور منجملہ بدعات میں سے یہ بھی ہے کہ شیطان اسے عوام کے لئے مزین کر دیتا ہے جس بنا پر لوگوں کا اس میں مبتلا ہونا عام ہے۔ زعفران اور عرق گلاب ملا کر (بزعم خود مقدس) دیوار میں اور ستون بنانا اور ہر شہر میں کچھ مخصوص مقامات پر چراغ جلانے جیسے کام عوام سرانجام دیتے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے کاموں سے تقرب حاصل کرنے والے ہیں ، پھر اپنے دلوں میں ان مقامات کی تعظیم میں حد سے تجاوز کر جاتے ہیں، ان کی خوب تعظیم کرتے ہیں، ان کے لئے مختلف نذریں مان کر بیماریوں سے شفا اور اپنی ضرورتوں کے پورا ہونے کا یقین رکھتے ہیں۔ اس قسم کے مقامات: چشمے ، درخت ، دیوار یا کسی روشندان وغیرہ پر مشتمل ہیں، جو حدیث میں وارد ’’ذاتِ انواط‘‘  سے مشابہت رکھتے ہیں، جسے ترنمدی (۲۱۸۰) نے بیان کیا اور صحیح قرار دیا۔

سیدنا ابو واقد الیثی رضی الله عنه سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حنین کی طرف نکلے، قریش کا ایک بڑا اور سرسبز درخت تھا، جس کے پاس وہ ہر سال آیا کرتے تھے، اس درخت پر اپنا اسلحہ لٹکاتے اور اس کے پاس (اپنے جانوروں کو) چارہ کھلاتے اور (بطورِ تقرب) اس درخت کے لئے جانور ذبح کرتے۔

اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کی طرف نکلے، ابھی ہمیں کفر کو چھوڑے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا ہمشرکین کا ایک بیری کا درخت تھا، جس کے پاس وہ اعتکاف کرتے (چلے کاٹتے ) اس پر (حصولِ برکت کے لئے ) اپنا اسلحہ لٹکاتے ، اس درخت کو ’’ذات انواط‘‘ کہا جاتا تھا، ہم اُس بیری کے درخت کے پاس سے گزرے تو کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے لئے بھی ایک ایسا ہی ’’ذات انواط‘‘ مقرر کیجئے جس طرح کہ ان کا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعجب سے فرمایا: سبحان اللہ، اللہ اکبر ( یہ تو اس طرح کی بات ہے ) جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے اُن سے کہا تھا: ﴿اجعل لنا إلها كما لهم الهة﴾ ہمارے لئے بھی ایک ایسا الہ (معبود) مقرر کر دیں جس طرح کہ ان کے آلہہ (معبود) ہیں۔

(الاعراف: ۱۳۸)
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((والذي نفسي بيده لتركبن سنة من كان قبلكم)) اُس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم ضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے طریقے پر چلو گے۔

(ترمذی: ۲۱۸۰، وقال: حسن صحیح و وحدیث صحیح، مسند احمد ۲۱۸/۵ ۲۱۸۹)

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف کفار سے مشابہت کی بنا پر اس بات سے روک دیا۔ امام ابوبکر الطرطوشی نے فرمایا: دیکھو! اللہ تم پر رحم فرمائے ! تم جہاں کہیں بیری یا کوئی سا درخت دیکھو یا ستون ،دیوار، طاقچہ یا ایسا پتھر جس کی طرف لوگ جاتے اور اس کی تعظیم بجالاتے ہوں اور ان چیزوں سے شفا کا یقین رکھتے اور منت مانتے ہوئے) اس پر چیتھڑے ( کپڑے کے ٹکڑے) باندھتے ہوں، وہاں شمع اور چراغ روشن کرتے ہیں یا اُن مقامات کے لئے تیل وغیرہ کی نذر مانتے ہوں تو (جان لو کہ) یہ بھی ’’ذات انواط‘‘ ہی ہیں ، انھیں کاٹ ڈالو، جڑ سے اُکھاڑ پھینکو۔

(دیکھئے کتاب الحوادث والبدع للطر شوشی ص ۱۸-۱۹)
طرطوشی کا ’’ینو طون‘‘ کہنا اس سے مرادل کا نا ہے، یہ بہت ہی برا اور قبیح عمل ہے۔ اس لئے کہ یہ بتوں کی پرستش سے مشابہت رکھتا ہے اور بتوں کی عبادت کا ایک ذریعہ وراستہ ہے اور اسی کی ایک قسم ہے، چونکہ بتوں کی پرستش کرنے والے ایسے مخصوص مقامات پر (حصولِ برکت کے لئے) جاتے تھے۔

شریعت نے اس عمل کو اچھا قرار نہیں دیا، تو یہ عمل منکرات یعنی غیر شرعی اعمال میں سے ہے، خواہ وہاں کا قصد نماز، دعا، قراءت، ذکر الہی، جانور ذبح کرنے کے لئے کرے، یا وہاں کے لئے کسی اور عبادت کو خاص کر دے۔

نذریں ماننے کی بدعات:

اور مندرجہ بالا امور سے بھی زیادہ بر اعمل یہ ہے کہ ان مقامات کو روشن رکھنے کے لئے تیل یا شمع کی نذر مانے اور یہ کہے کہ یہ مقامات یا آستانے ان نذرانوں یا منتوں کو قبول کرتے ہیں جیسا کہ بعض گمراہ لوگ کہا کرتے ہیں۔ یا کسی قبر کے لئے اس قسم کی کوئی منت مان لے۔ یہ علماء کے ہاں بالاتفاق نذیر معصیت (یعنی نافرمانی والی منت) ہے۔ ایسی منتوں کا پورا کرنا جائز نہیں بلکہ بہت سے علماء کے نزدیک ایسی نذر ماننے والے شخص پر قسم کا کفارہ لازم آتا ہے۔ ان علماء میں امام احمد اور دیگر شامل ہیں۔اسی کا طرح ان مقامات کی مچھلیوں ، چشموں اور کنوؤں کے لئے روٹی دینے کی نذر ماننا بھی نافرمانی و گناہ ہے۔ قبروں کے مجاوروں کے لئے مال دینے کی نذر ماننا، خواہ درہموں کی شکل میں ہو یا سونا، چاندی ، اونٹ، گائے ، دنبہ وغیرہ کی شکل میں، یہ بھی گناہ اور نافرمانی ہے۔ اسی طرح ایسے مقامات کے خادموں ( مجاوروں) کے لئے جنھیں (عربی میں ): سَدَنَة کہا جاتا ہے، منت ماننا بھی نذر معصیت ہے اور اس میں بتوں کے خادموں کے لئے نذر ماننے کی مشابہت ہے۔

من گھڑت یا خیالی قبریں:

انھیں مقامات میں سے وہ جگہیں بھی ہیں جن (میں سے ہر نام) کے متعلق یہ گمان کیا جاتا ہے کہ یہ کسی نبی علیہ السلام یا کسی نیک انسان کی قبر ہے یا ان کی جائے قیام ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

[جیسا کہ ہمارے ہاں پاکستان و ہندوستان میں بھی کئی ایک چھوٹے بڑے شہروں میں مختلف بزرگوں کی طرف منسوب ٹھکانے یا آستانے مشہور ہیں جبکہ تاریخی طور پر اُن بزرگوں کا ہندو پاک میں آنا ثابت ہی نہیں ہے (یہ الفاظ مترجم کے ہیں]

اس طرح کے بہت سے مقامات دمشق میں ہیں ، مثلاً: لوگ گمان کرتے ہیں کہ شہر کے مشرقی دروازے کے باہر سید نا ابی بن کعب رضی الله عنه کی قبر ہے، جبکہ اہل علم میں یہ بات معروف نہیں کہ آپ دمشق میں فوت ہوئے (بلکہ) آپ تو مدینہ منورہ میں فوت ہوئے تھے۔ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ کس کی قبر ہے؟ اسی طرح جامع مسجد دمشق کی قبلہ رخ دیوار کے پاس والی جگہ ، جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ یہ سیدنا ہود علیہ السلام کی قبر ہے، حالانکہ اہل علم میں سے کسی نے بھی ہود علیہ سلام کا دمشق میں فوت ہونا بیان نہیں کیا۔

بلکہ کہا گیا ہے کہ آپ یمن میں فوت ہوئے اور یہ بھی کہ آپ مکہ میں فوت ہوئے۔

اسی طرح ’’باب حبرون‘‘ کے برابر والی قبر جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اہل بیت میں سے کسی کی قبر ہے جبکہ یہ بات درست نہیں بلکہ یہ تو بہت قدیم دروازہ ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ سلیمان علیہ سلام نے تعمیر کروایا اور یہ بھی کہ ذوالقرنین نے تعمیر کروایا اور اس کے علاوہ کچھ اور بھی اقوال ہیں۔

بات یہ ہے کہ ۶۳۶ ھ میں، ان لوگوں میں سے کسی غیر معتبر شخص نے انھیں بتایا کہ کسی معتبر بتایا میں نے ایک خواب دیکھا ہے، جس کا تقاضا یا تعبیر یہ ہے کہ یہاں اہل بیت اطہار میں سے کوئی دفن ہیں۔ شیخ شہاب الدین المعروف ابو شامہ رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھے ایک معتبر آدمی نے اُس شخص کے بارے میں بتلایا کہ اُس نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس نے یہ خواب کا قصہ گھڑا ہے۔ پھر لوگوں نے راہ گیروں کا راستہ بند کر دیا اور اس پورے باب کو ایک غصب شده مسجد بنالیا، راستہ راہ گیروں کے لئے تنگ ہو کر رہ گیا۔

اللہ تعالیٰ اُس شخص کے عذاب وسزا کو دوگنا کرے جو ( راستے میں ) اس مسجد بنانے کا سبب بنا اور اس شخص کو پورا پورا اثواب عطا فرمائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں اسے مسجد ضرار کی طرح گرانے میں تعاون کرے جو اللہ کے دشمن کفار کا مورچہ بنی ہوئی تھی۔ اس صورت حال میں شریعت اس کے مسجد ہونے کو نہیں دیکھتی اور اس کے ڈھانے کو بُر انہیں سمجھتی جبکہ اس سے شر اور تکلیف پہنچانا مقصود ہو۔

اسی طرح باب الجابیہ کے باہر والی مسجد ہے جسے مسجد اویس قرنی کہا جاتا ہے۔ یہ بات کسی نے بیان نہیں کی کہ اویس قرنی رحمہ اللہ دمشق میں فوت ہوئے تھے ۔ اسی طرح باب صغیر والی قبر جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی الله عنه کی قبر ہے جبکہ وہ بلا اختلاف مدینہ منورہ میں فوت ہوئیں، انھی مقامات میں سے ایک قاہرہ مصر کے مقام پر مشہد ہے، کہا جاتا ہے کہ یہاں سیدنا حسین رضی الله عنه کا سر مبارک ہے۔ یہ بات درست نہیں حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلے میں بہت سے اقوال ہیں جن کا یہ موقع محل نہیں۔ اسی طرح بہت سے معروف لوگوں کے مقبرے مشہور ہیں جب کہ یہ معروف بات ہے کہ یہ اُن کے مقبرے نہیں، ان میں اصلا کسی قسم کی کوئی فضیلت نہیں۔

اوہام و اباطیل:

ان میں وہ مقامات بھی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی اور کے قدم کا نشان ہے جیسا کہ جاہل لوگ بیت المقدس کے پتھر سے متعلق کہتے ہیں کہ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک کا نشان ہے، اسی طرح دمشق کی مسجد جسے ’’القدم‘‘ کا نام دیا جاتا ہے، اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے قدم مبارک کا نشان ہے۔ یہ بات باطل ہے، اس کی کوئی اصل نہیں ۔ چونکہ سیدنا موسی علیہ السلام دمشق اور اس کے گردو نواح میں تشریف نہیں لائے۔ اسی طرح وہ مساجد جو انبیاء علیہ السلام اور صالحین کی طرف منسوب کی جاتی ہیں کہ وہ خواب میں ان مقامات پر دیکھے گئے ہیں۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی نیک آدمی کو خواب میں کسی مقام پر دیکھے جانے سے اس مقام کی فضیلت لازم نہیں آتی لہذا اس بنیاد پر اس مقام کا قصد کرنا اور وہاں نماز پڑھنا مکروہ ہے، اس قسم کے کام تو اہل کتاب (یہود و نصاری) کرتے ہیں اور ایسے مقامات بہت سے شہروں میں بہت زیادہ ہیں ، ان مقامات کی خصوصیت کا اعتقاد نہ رکھا جائے خواہ ان میں سے کیسا ہی مقام ہو۔

اس لئے کہ کسی ایسے مقام کی تعظیم کہ جسے اللہ تعالیٰ نے کوئی عظمت نہ بخشی ہو ( محض من گھڑت بنیاد پر اسے عظیم قرار دینے کی وجہ سے ) وہ بہت ہی بُری جگہ ہوگی۔ اس طرح کی باطل زیارتیں در حقیقت اللہ کے گھر ( مساجد) کے مقابلہ میں کھڑی کی گئی ہیں اور ایسی چیزوں کو تعظیم دینے کے لئے قائم کی گئی ہیں کہ جنھیں اللہ تعالیٰ نے کوئی عظمت نہیں بخشی اور لوگوں کو ایسی چیزوں میں مشغول و مصروف کرنے کے لئے قائم کی گئی ہیں جو نفع و نقصان نہیں دے سکتیں، نیز مخلوق کو اللہ کی راہ سے روکنے کے لئے گھڑی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی وہ راه أس ’’وحده لا شريك له‘‘ کی عبادت ہے، وہ عبادت کہ جسے اُس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ اقدس سے مشروع قرار دیا۔ اسی طرح ان مقامات کو مقام عید بنانے کے لئے ایجاد کیا گیا۔ عید بنانے سے مرادان مقامات پر لوگوں کی بھیڑ اکٹھی کرنا اور انھیں ان کی طرف قصد کرنے کا عادی بنانا ہے.

پھر بسا اوقات ایسے مقامات میں (کرامات کے نام پر) ایسی ایسی (من گھڑت) حکایات بیان کی جاتی ہیں کہ جن میں ان کی تاثیر (کا ذکر ہوتا) ہے۔ مثلاً : ” ایک آدمی نے اس مقام پر دعا مانگی اس کی دعا قبول ہوئی ، یا ان کے لئے کسی چیز کی نذر مانی تو اس کی حاجت و ضرورت پوری ہوئی‘‘ یا اس قسم کے دیگر من گھڑت قصے بیان کرتے ہیں۔ دراصل انھی امور کی بنا پر بتوں کی پرستش ہوئی اور ان جیسے شبہات ہی کے ذریعے سے زمین پر شرک رونما ہوا۔

نذر ماننے کی کراہت:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بسند صحیح ثابت ہے کہ آپ نے نذر ماننے سے منع کیا، آپ نے فرمایا: (( إنه لا يأتي بخير و إنما يستخرج به من البخيل )) منت کوئی بھلائی نہیں لاتی ، یہ تو بخیل آدمی سے کچھ نکلواتی ہے۔

(صحیح بخاری : ۲۶۰۸ هیچ مسلم : ۱۹۳۹، دار السلام : ۴۲۳۹ واللفظ له)
جب فرمانبرداری یا نیکی کے امور کسی شرط کے ساتھ بندھے ہوئے یا معلق ہوں تو ان کا کوئی فائدہ نہیں اور نہ یہ کوئی بھلائی لاتے ہیں، تو اس نذر کے متعلق کیا کہا جا سکتا ہے جو نہ نفع دیتی ہے نہ نقصان ۔

واضح رہے کہ وہ منتیں جن کا تعلق شرک یا بدعت والے امور سے ہو، وہ ضرور نقصان دیتی ہیں کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی ہے نیز یہ صحیح عقیدے کا صفایا کر دیتی ہیں اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ ۔ کر کے مخلوق پرست بنادیتی ہے۔ (یہ الفاظ مترجم کے ہیں)

شبہ کا ازالہ:

باقی رہا ان مقامات میں دعا کا قبول ہو جانا تو (اس کے مختلف اسباب ہوتے ہیں) بسا اوقات اس کا سبب دعا مانگنے والے کی سخت پریشانی ، مجبوری اور بے بسی ہوتی ہے (جس پر اللہ رحم کر کے اس کی دعا قبول فرمالیتا ہے) اور بسا اوقات اس کا سبب خالصتا اللہ تعالی کی رحمت ہوتی ہے اور بسا اوقات اس کا سبب وہ معاملہ ہوتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے (پہلے سے) فیصلہ فرمایا ہوتا ہے (یعنی قضاء الہی) نہ کہ دعا کی وجہ سے اُسے وہ چیز عطاء ہوتی ہے۔ بسا اوقات کچھ دوسرے اسباب ہوتے ہیں، اگر چہ یہ دعا مانگنے والے کے حق میں عذاب ہوتا ہے۔ (پھر اس شبہ کا آسان ازالہ اور حل یوں بھی ممکن ہے کہ ) کفار اپنے بتوں کے سامنے اور بتوں کے وسیلے سے دعائیں مانگتے ہیں ، تو ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، اور پھر ان پر بارش برسائی جاتی ہے، ان کی مدد کی جاتی ہے اور انھیں ( بیماریوں ، تکلیفوں سے) عافیت دی جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ كلا نمد هؤلاء و هؤلاء من عطاء ربك ۖ وما كان عطاء ربك محظورا ﴾ ہر ایک کو ہم مدد پہنچائے جاتے ہیں ان کو اور اُن کو تیرے رب کی عطا میں سے اور تیرے رب کی عطا ( بخشش ) کسی نے نہیں روکی ۔

(بنی اسرائیل: ۲۰)

اس آیت کا مقصد یہ ہے کہ نیک ہوں یا بد، دنیاوی اسباب سے ہر دو کو اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے، محض کفر و شرک یا نا فرمانی کی بنا پر دنیاوی مال ومتاع کی بخشش روک نہیں دیتا۔ (یہ الفاظ مترجم کے ہیں)

تقدیر میں لکھے ہوئے کے اسباب میں بہت سے امور ہیں جن کی تعداد بہت طویل ہے۔ مخلوق پر تو صرف اس شریعت کی اتباع و پیروی لازم ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو مبعوث فرمایا اور یہ جاننا کہ اسی میں دنیا و آخرت کی بھلائی وعافیت ہے۔

قبروں میں نماز پڑھنے اور انھیں میلہ گاہ بنانے کی ممانعت:

اور ان مقامات میں سے کچھ مقامات ہیں کہ جن کی کچھ خصوصیت ہے لیکن وہ خصوصیت اس بات کی متقاضی نہیں کہ انھیں مقام عید بنا لیا جائے اور وہاں نماز میں پڑھی جائیں۔ یا دیگر عبادات کی جائیں نمازیں جیسے دعا وغیرہ، پس ان مقامات میں وہ مقامات ہیں جہاں انبیاء علیہ السلام کی قبریں ہیں .
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:

(( لا تـجـعـلـوا بـيـوتـكـم قبـورا ولا تجعلوا قبري عيدا وصلوا علي، فإن صلاتكم تبلغني حيث كنتم ))

اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ اور نہ میری قبر کو عید بنانا اور مجھ پر درود بھیجو بے شک تمھارا درود مجھے پہنچتا ہے خواہ تم کہیں سے بھیج رہے ہو ۔

(سنن ابی داود:۲۰۴۴ وسندہ حسن )

علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انھوں نے ایک شخص کو دیکھا ، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی اس خالی جگہ کی طرف آیا، وہاں داخل ہو کر دعا مانگنے لگا تو علی بن الحسین نے اس سے کہا: کیا میں تجھے حدیث نہ بتلاؤں؟ میرے والد نے میرے دادا سے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ، آپ نے فرمایا:

((لا تتخذوا قبري عيدا ولا بيوتكم قبورا وصلوا علي فإن صلاتكم علي تبلغني حيث كنتم))

میری قبر کو عید نہ بنانا اور نہ اپنے گھروں کو قبرستان بناؤ اور مجھ پر درود بھیجو اس لئے کہ تمھارا درود مجھے پہنچتا ہے خواہ تم کہیں ہو۔
اسے حافظ ابو عبداللہ محمد بن عبد الواحد المقرمی (الضیاء المقدسی) نے روایت کیا اس کتاب (المختاره ج ۲ ص ۴۹ ح ۴۲۸) میں جس میں انھوں نے اُن احادیث جیدہ کو اختیار کیا جو صحیحین پر زائد ہیں ۔

مصنف ابن ابی شیبہ (۳۷۵/۲ ح ۷۵۴۱) مسند ابی یعلی الموصلی (۳۶۱/۱-۳۶۲ ۴۶۹)

اس کتاب میں ان کی شرط حاکم کی شرط سے بہتر ہے اور اس روایت کو سعید بن منصور نے اپنی سنن میں روایت کیا ابوسعید مولی المہری کی سند سے.
(الصارم المنکی ص ۱۶۱، وسندہ ضعیف، اس میں حبان بن علی العنزی ضعیف ہے۔ دیکھئے تقریب التہذیب: ۱۰۷۶)

اس روایت کی سند ضعیف ہے. جعفر بن ابراہیم الجعفری کی توثیق سوائے ضیاء مقدسی کے کسی نے نہیں کی۔ حافظ ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کر کے کہا: ’’یعتبر بحديثه من غير رواية عن هولاء‘‘ اس کی حدیث کا اعتبار کیا جاتا ہے، ان لوگوں ( یعنی علی بن عمر عن ابید الخ) سے روایت کے بغیر ۔ (۱۶۰/۸) یعنی یہ روایت حافظ ابن حبان کے نزدیک قابل اعتبار نہیں ہے۔ (یہ الفاظ مترجم کے ہیں)

اور سہل بن ابی سہل کی سند سے بھی روایت کیا۔ انھوں نے کہا: مجھے حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب رضی الله عنه نے قبر کے پاس دیکھا ، پس انھوں نے مجھے بلایا اس وقت وہ سیدہ فاطمہ رضی الله عنه (؟) کے ہاں رات کا کھانا تناول فرمارہے تھے، کہا: آئیے رات کا کھانا کھا لیجئے، میں نے کہا: میں نے ( قبر مبارک پر جا کر ) نبی علیہ السلام پر سلام بھیجا، تو انھوں نے کہا: جب آپ مسجد میں داخل ہوتے ہیں تو سلام کہہ دیں پھر کہا: بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((لا تتخذوا قبري عيدا ، ولا تتخذوا بيوتكم مقابر ، لعن الله اليهود اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد ، وصلوا علي ، فإن صلاتكم تبلغنى حيث ما کنتم))

میری قبر کو عید نہ بنانا، اور اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ، اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت فرمائے انھوں نے اپنے انبیاء علیہ السلام کی قبروں کو عبادت گاہ بنالیا اور مجھ پر درود بھیجو یقیناً تمھارا درود مجھ تک پہنچتا ہے خواہ تم کہیں بھی ہو۔

(الصارم المستکی ص ۱۶۱ ۱۶۲، وسندہ ضعیف ، سہیل یا سہل نا معلوم ہے۔)

وجہ استدلال:

یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کرہ ارض پر سب سے افضل قبر ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے عید بنانے سے منع فرمایا۔ عید کا لفظ ’’معاودہ‘‘ سے ہے، مطلب یہ ہے کہ بار بار اُس پر آنا یا لوٹ کر آنا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی دوسرے کی قبر بالا ولی اس ممانعت کی مصداق ہے خواہ کسی کی بھی قبر ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھ ہی اس چیز کو بھی بیان فرمایا کہ ’’اپنے گھروں کو قبرستان‘‘ نہ بناؤ مطلب یہ ہے کہ ان میں نماز پڑھنا دعائیں مانگنا قراءت کرنا ترک نہ کر دو کہ وہ قبرستان کی طرح ہو جائیں ۔ مشرکین نصاریٰ کی مشابہت سے بچتے ہوئے ان کے برعکس عمل کریں۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قبر کو عید بنانے سے منع کرنے کے بعد یہ فرمایا کہ ’’مجھ پر درود بھیجو، تم جہاں بھی ہو تمھارا درود مجھ تک پہنچ جاتا ہے‘‘ آپ اس طرف اشارہ فرمارہے ہیں که درود و سلام میں سے جو کچھ مجھ تک پہنچتا ہے وہ (مجھ سے یا ) میری قبر سے تمھارے قُرب وبعد کے باوجود بھی پہنچ جاتا ہے، بس تمھیں اُس (یعنی میری قبر ) کو ’’عید‘‘ ( بار بارلوٹنے کی جگہ ) بنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔

پھر اہل بیت میں سے افضل ترین تابعی علی بن الحسین نے اُس آدمی کو اس عمل سے روک دیا کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس دعا مانگنے کو اختیار کرے اور یہ واضح فرمایا: دعا وغیرہ کے لئے آپ کی قبر کا قصد کرنا اُسے ’’عید‘‘ بنانا ہے۔ اسی طرح ان کے گھر کے بزرگ ان کے چچازاد بھائی حسن بن حسن نے اس چیز کو پسند نہیں فرمایا کہ انسان آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجنے کے لئے آپ کی قبر کا قصد کرے ، وہاں جائے۔ دیکھئے ( درود وسلام کے لئے ) اس طرز عمل کی طرف کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت اطہار نے اسے ظاہر کیا، وہ گھر والے کہ جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نسب اور گھر کا قرب حاصل تھا ، اس لئے کہ وہ دوسروں کی نسبت اس کی زیادہ احتیاج وضرورت رکھتے تھے، اور وہی اس کے زیادہ محفوظ کرنے والے تھے۔

آداب زیارت قبور:

قبروں کی زیارت کرنے والے شخص کے لئے مستحب یہ ہے کہ وہ اس سے آخرت کو یاد کرے اور یہ کہ وہ اہل قبور پر سلام بھیجے ، اور ان کے لئے وہ مسنون دعا مانگے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی الله عنه کو سکھایا کرتے تھے کہ جب وہ قبروں کی زیارت کریں تو ان کے سامنے یہ کہیں :

’’السلام عليكـم أهـل الـديـار مـن الـمـؤمـنـيـن، والمسلمين ، و إنا إن شاء الله بكم لا حقون، فنسأل الله لنا ولكم العافية‘‘ 

تم پر سلامتی ہو اے مومن اور مسلم گھر والو! اور یقیناً ہم ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں ہم اللہ تعالیٰ سے اپنے لئے اور تمھارے لئے عافیت طلب کرتے ہیں۔

(ابن ماجہ: ۱۵۴۷، بلفظ : ” سأل الله بدل : نسال الله "صحیح مسلم : ۹۷۵)

’’أنتم لنا سلف‘‘ تم ہم سے پہلے گزرے۔

(مسند الرویانی ار۶۷ ح ۱۵، وسندہ حسن)

’’و نحن بالأثر‘‘ ہم تمھارے پیچھے آنے والے ہیں۔

(ترمذی:۱۰۵۳، وسندہ ضعیف)

اس کے علاوہ جو بدعات کی جاتیں ہیں مثلاً وہاں نماز پڑھنا، انھیں عبادت گاہ بنانا ، ان پر مساجد تعمیر کرنا، اس سے ممانعت پر اور ایسا کرنے والے پر سختی سے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نصوص ( روایات ) متواتر ہیں۔

قبروں پر مساجد بنانے کی ممانعت:

رہا قبروں پر مساجد بنانا اور وہاں فانوس ،شمع یا چراغ جلانا، تو ان امور کے فاعل پر لعنت کی گئی ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے آپ نے فرمایا:

((لعن رسولُ اللهِ زائرات القبور والمتخذين عليها المساجد والسرج))

قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور ان پر مساجد بنانے والوں اور چراغ جلانے والوں پر اللہ (کے رسول) نے لعنت فرمائی ہے۔

(سنن الترمذی: ۳۲۰ وقال : حدیث حسن، وسندہ ضعیف یہ ضعیف روایت ہے۔)

مختلف گروہوں کے عام علماء نے اس سلسلے میں وارد ہونے والی ممانعت کی احادیث کی متابعت کرتے ہوئے ان امور سے ممانعت کی صراحت کی ہے۔ اس کے قطعی طور پر حرام ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ صحیح مسلم کی اس حدیث کی وجہ سے جو سید نا جندب بن عبد اللہ الجبلی رضی الله عنه سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے پانچ دن پہلے آپ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

((إني أبرأ إلى الله أن يكون لي منكم خليل، فإن الله قد اتخذني خليلا كما اتخذ إبراهيم خليلا، ولو كنت متخذا من أمتي خليلا لا تخذت أبا بكر خليلا ، ألا و إن من كان قبلكم كانوا يتخذون قبور أنبيائهم و صالحيهم مساجد، ألا فلا تتخذوا القبور مساجد ، إني أنها كم عن ذلك))

میں اللہ کے سامنے اس سے برأت کا اعلان کرتا ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو، یقیناً اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا حلیل بنایا جس طرح کہ ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا  اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر رضی الله عنه کو بناتا خبردار رہو تم سے پہلے جو لوگ تھے وہ اپنے انبیاء اور نیک لوگوں کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیتے تھے، آگاہ رہو کہ تم نے قبروں کو عبادت گاہ نہیں بنانا، یقیناً میں تمھیں اس سے منع کرتا ہوں۔

(صحیح مسلم : ۵۳۲ ، دار السلام : ۱۱۸۸)

اور صحیحین میں سیدہ عائشہ صدیقہ اور سیدنا ابن عباس رضی الله عنه سے روایت ہے، فرمایا:

جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ اپنے چہرہ اقدس پر بار بار اپنی مبارک چادر ڈال لیتے جب شدت بڑھتی ، آپ گھٹن محسوس فرماتے تو اُسے ہٹا دیتے ، اسی حالت میں آپ فرماتے: یہود و نصاری پر اللہ کی لعنت ہو انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بناڈالا ، آپ ان کے اس طرز عمل سے ڈرا ر ہے تھے۔

(صحیح البخاری: ۴۳۵ هیچ مسلم :۵۳۱، دار السلام : ۱۱۸۷)

اور صحیحین میں ہی سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنه سے مروی یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

((قاتل الله اليهود ، اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد))

اللہ تعالیٰ یہودکو ہلاک کرے، انھوں نے اپنے انبیاء (علیہ السلام) کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا تھا۔

(صحیح البخاری: ۴۳۷، صحیح مسلم : ۵۳۰، دار السلام : ۱۱۸۵)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس بیماری کے ایام میں کہ جس میں آپ کی وفات ہوئی فرمایا:

((لعن الله اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد))

اللہ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے کہ انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنالیا۔

سیدہ عائشہ رضی الله عنه نے فرمایا : اگر یہ خدشہ نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو ظاہر کر دیا جاتا مگر یہی خوف تھا کہ کہیں اسے بھی سجدہ گاہ نہ بنا لیا جائے۔

(صحیح بخاری: ۱۳۳۰ صحیح مسلم: ۵۲۹)

امام احمد نے (اپنی مسند میں) سیدنا ابن مسعود رضی الله عنه سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمايا:

((إن من شرار الناس من تدركهم الساعة وهم أحياء))

يقيناً بد ترین لوگ وہ ہوں گے جنھیں قیامت آپہنچے گی اور وہ زندہ ہوں گے۔

(مسند احمد ار ۴۰۵ ج ۳۸۴۴ بلفظ : ’’إن من شرار الناس من تدركهم الساعة وهم أحياء و من يتخذ القبور مساجد‘‘ وسنده حسن)

((والذين يتخذون قبور هم مساجد))

اور وہ لوگ جو قبروں کو عبادت گاہ بناتے ہیں۔

(مسند احمد ا/۴۵۳ بلفظ ..  وسندہ ضعیف اس کی سند ضعیف ہے۔)

قبروں پر بنی ہوئی مساجد کا حکم:

اس باب میں بہت سی احادیث اور آثار ہیں، قبروں پر بنی ہوئی ان مساجد کا ختم کر دینا لازمی ہے، یہ اُن امور میں سے ہے کہ معروف علماء کے ہاں اس میں کوئی اختلاف نہیں، نیز بلا اختلاف ان میں نماز پڑھنا مکروہ ہے، اس سلسلہ میں ممانعت اور لعنت وارد ہونے کی وجہ سے امام احمد کے ظاہر مذہب میں صحیح نہیں ہے۔

قبروں سے متعلق بعض دیگر بدعات:

اسی طرح ان مقامات اور قبروں پر چراغ ،شمع یا قنادیل، فانوس وغیرہ جلانا بھی بدعات میں سے ہے، اس مسئلے پر ممانعت وارد ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی اختلاف نہیں، ایسا کرنے والا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مطابق ملعون (لعنتی) ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا: بکثرت قبروں کی زیارت کرنے والی خواتین پر اللہ لعنت فرمائے۔
(السنن الکبری المیبقی ۷۸/۴ وسنده حسن ، سنن الترندی: ۱۰۵۶ سنن ابن ماجه: ۱۵۷۶)

اور ان پر مساجد بنانے اور چراغاں کرنے والوں پر بھی۔
(سنن الترمذی: ۳۲۰ وقال : ”حدیث حسن وسندہ ضعیف یہ ضعیف روایت ہے۔)

اور ان مقامات پر تیل یا شمع وغیرہ دینے کی نذر، منت کا پورا کرنا بھی جائز نہیں، بلکہ یہ نذر معصیت کی موجب ہے۔ اسی طرح ان مقامات پر نماز ادا کرنا بھی مکروہ ہے خواہ ان پر مسجد نہ بھی بنائی گئی ہو، اس لئے کہ ہر وہ جگہ جہاں نماز ادا کی جائے وہ ( لغوی طور پر ) مسجد ہی ہے اگر چہ وہاں تعمیر یا عمارت نہ بھی ہو۔ اور نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرمان میں اس سے منع کرتے ہوئے فرمایا:

((لا تجلسوا على القبور ولا تصلوا عليها))

قبروں پر مت بیٹھو اور نہ ان پر نماز پڑھو۔

(صحیح مسلم : ۹۷۲، دار السلام: ۳۲۵ ولفظه : ولا تصلوا الیها)

(عام بیٹھنا ہو یا بطور مجاور بیٹھنا یہ ممانعت ہر دو کو شامل ہے۔ واللہ اعلم)
اور فرمایا:

(( اجعلوا من صلاتكم في بيوتكم ولا تتخذوها قبوراً .))

اپنی کچھ نمازیں (جیسے سنت وغیرہ) اپنے گھروں میں بھی ادا کرو، اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔

(صحیح البخاری:۴۳۲، صحیح مسلم: ۷۷۷ واللفظ لہ)

یعنی جس طرح قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جاتی اپنے گھروں کو اس طرح نہ بناؤ کہ ان میں نماز ہی نہ پڑھو، امام احمد کے نزدیک قبروں کے درمیان نماز پڑھنا درست نہیں اور دوسروں کے نزدیک مکروہ ہے۔

قبرستان میں قبر پر نماز جنازہ پڑھنا بالکل صحیح ہے جیسا کہ صحیح البخاری اور دیگر کتب کی صحیح حدیث سے ثابت ہے، البتہ عام نمازیں پڑھنا منع ہے۔ (یہ الفاط مترجم کے ہیں)

بت پرستی کی بنیاد:

جان لیجئے کہ کچھ فقہا اس طرف گئے ہیں کہ قبرستان یا مقبرہ میں نماز کی کراہیت کا سبب تو بس وہاں نجاست کی موجودگی کا گمان ہے اور زمین کی نجاست اُس پر نماز پڑھنے کے لئے مانع ہے، خواہ وہ مقبرہ ہو یا نہ ہو۔

(واضح رہے کہ) صرف یہی سبب ممانعت کا مقصود نہیں ، ممانعت کا سب سے بڑا مقصد تو یہ ہے کہ گمان ہے کہ انھیں ’’اوثان‘‘ نہ بنا لیا جائے، جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ سے وارد ہے ، آپ نے فرمایا: میں اس بات کو نا پسند کرتا ہوں یا مکر وہ جانتا ہوں کہ مخلوق کی اس قدر تعظیم کی جائے یہاں تک کہ اس کی قبر کو مسجد بنا لیا جائے ، کہ اس کے بعد کے لوگوں پر یہ چیز فتنہ بن جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس فرمان میں اس کے اصل سبب کی صراحت فرمائی ہے، جب فرمایا:

((اللهم لا تجعل قبري و ثنا يعبد))

اے اللہ ! میری قبر کو وثن نہ بنانا کہ جس کی عبادت کی جائے۔

(مسند احمد ج ۲ ص ۲۴۶، مسند الحمیدی: ۱۰۲۵، وسنده حسن)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے :

’’تم سے پہلے لوگ قبروں کو مساجد بنایا کرتے تھے تم قبروں کو مساجد نہ بنانا.‘‘( تقدم)

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ کافر لوگ ایسے تھے کہ ’’جب اُن میں کوئی نیک آدمی فوت ہوتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے تھے ، اور ان میں یہ تصویر میں بنا لیتے تھے ، قیامت کے دن یہ اللہ کے ہاں بدترین مخلوق ہوں گے۔‘‘

(صحیح البخاری: ۴۲۷، صحیح مسلم : ۵۲۸)

ان احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتوں اور قبروں کو جمع فرمایا ، یا ایک ساتھ ان کا ذکر کیا (جس سے ان کا اصل سبب معلوم ہو جاتا ہے۔)

اسی طرح ’’لات‘‘ کی عبادت کا سبب بھی ایک نیک آدمی کی قبر کی تعظیم ہی تھا، ان کے ہاں ایک شخص تھا وہ ستو میں گھی وغیرہ ملا کر حاجیوں کو کھلایا کرتا تھا، تو جب یہ فوت ہوا تو لوگوں نے اس کی قبر پر اعتکاف کیا، اور (مفسرین نے) یہ بھی بیان کیا کہ ود، سواع ، یغوث، یعوق اور نسر نیک لوگ تھے۔ یہ آدم اور نوح علیہ اسلام کے درمیانی زمانہ کے لوگ تھے، کچھ لوگ ان کی پیروی کرنے والے تھے ، جب یہ فوت ہوئے تو ان کی پیروی کرنے والوں نے کہا: اگر ہم ان کی تصویریں بنالیں تو ؟ ( اور تصویریں بنالیں) پھر جب یہ پیروی کرنے والے فوت ہوئے ، ان کے بعد ان کی دوسری نسل آئی تو ابلیس ان کے پاس آیا اور ان سے کہا: وہ لوگ ان کی عبادت کیا کرتے تھے اور انھی کے ذریعے سے بارش طلب کرتے تھے۔ پس وہ ان کی عبادت کرنے لگے ، اسے محمد بن جریر الطبرکی نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ یہی وہ علت ہے کہ جس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کو مساجد بنانے سے منع فرمایا اور یہی وہ چیز ہے کہ جس نے بہت سی امتوں کو یا تو شرک اکبر میں مبتلا کر دیا یا اس کے علاوہ دوسری چیزوں میں۔ اسی لئے آپ بہت سی گمراہ قوموں کو پائیں گے کہ وہ نیک لوگوں کی قبروں کے سامنے گڑ گڑاتے خشوع و عاجزی و انکساری اختیار کرتے نظر آئیں گے اور یہ لوگ گویا اپنے دل کی گہرائیوں سے اُن کی ایسی عبادت کرتے نظر آئیں گے جو عبادت یہ اللہ کے گھروں مساجد میں کرتے نظر نہیں آتے ۔ بلکہ اللہ کے سامنے سحری کے پُر سعادت اوقات میں بھی نہیں، اور ان زیارت گاہوں اور قبروں کے سامنے نماز اور دعا (کی قبولیت) کی ایسی امید اور توقع رکھتے ہیں جو ان مساجد کے بارے میں بھی نہیں رکھتے کہ جن کی طرف رختِ سفر باندھا جاتا ہے یعنی مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ۔

یہی وہ فساد ہے، جس کے تمام اسباب و ذرائع کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ختم کر دیا، یہاں تک کہ آپ نے مقبروں میں نماز پڑھنے سے بھی مطلقاً منع فرما دیا محض اس فساد کا راستہ روکنے کے لئے جو کہ اوثان کی عبادت کا سبب بنا، اگر چہ اس نمازی نے خاص اُس جگہ اور اس کی برکت کا قصد وارادہ نہ بھی کیا ہو۔

اور اگر انسان وہاں نماز کا قصد وارادہ کرے یا اپنی ضرورتوں اور حاجتوں میں ان مقامات کو با برکت، قبولیت دعا کی امید رکھتے ہوئے وہاں اپنے لئے دعا مانگے تو یہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عین نافرمانی و دشمنی ہے۔ اس کے دین و شریعت کی مخالفت ہے اور ایک ایسے دین کا ایجاد کرنا ہے جس کی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت نہیں دی اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں اور آپ کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے ائمہ مسلمین نے اس کی اجازت دی ہے۔

یقیناً قبروں کی طرف قبولیت کی توقع رکھتے ہوئے دعائیں مانگنے کے لئے جانا ممنوع عمل ہے اور یہ حرام کے زیادہ قریب ہے۔
صحابہ کرام رضی الله عنه آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کئی ایک بار پریشانیوں اور تنگیوں میں مبتلا ہوئے ، اُن پر قحط کا سا سماں ہوا۔ انھیں حوادث ومصائب نے بھی گھیرا۔ تو وہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر کیوں نہ آئے ، آپ سے بارش کی درخواست کیوں نہ کی؟ آپ کی قبر پر درخواست اور فریادیں کیوں نہ کیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کے نزدیک مخلوق میں سب سے زیادہ عزت و شرف والے ہیں۔ بلکہ قحط سالی کے موقع پر سیدنا عمر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چا سیدنا عباس رضی الله عنه کے ساتھ عید گاہ تشریف لائے اور ان سے بارش کے لئے دعا کروائی۔

(دیکھے صحیح بخاری: ۱۰۱۰)

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے پاس بارش کی دعا نہ کی۔

اے مسلمان! اگر تو اپنے سلف صالحین کی طرح اللہ کی بندگی کرنے والا ہے تو ان کے طریقہ کی اقتدا کر توحید خالص کی تحقیق کر، اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کر ، اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان میں حکم دیا:

((فإياي فاعبدون))

پس تم میری ہی عبادت کرو۔

(العنکبوت :۵۶)

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

((فمن كان يرجوا لقاء ربه فليعمل عملا صالحا ولا يشرك بعبادة ربة أحدا))

تم میں سے جو کوئی اپنے رب کی ملاقات پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ نیک اعمال کرے اور اپنے رب کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائے۔

(الكهف: ١١٠)

تو صرف اللہ ہی کی عبادت کر ، صرف اسی سے دعا مانگ،صرف اسی سے مدد مانگ، اس لئے کہ کوئی (نعمت و رحمت) روکنے والا نہیں، کوئی دینے والا نہیں، کوئی نقصان پہنچانے والا نہیں، کوئی نفع دینے والا نہیں مگر صرف وہی اللہ سبحانہ وتعالی ، اس کے علاوہ کوئی الٰہ نہیں میں اسی پر بھروسا کرتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔

( الأمر بالاتباع والنهي عن الابتداع ص۵۳-۶۴، مطبوعہ مکتبة القرآن / القاهره، مصر)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے