تفتازانی کی کتاب سے شرک کی تعریف
جلالی صاحب! تفتازانی رحمہ اللہ کی کتاب شرح العقائد سے آپ نے شرک کی تعریف نکالی ہے۔
جواب
ذرا ان صاحب کا حال تو جانیے، سکوت بغداد کا سبب بننے والا، رافضی، مجرم نصیر الدین طوسی رحمہ اللہ جس کی وجہ سے بغداد کے مسلمانوں پر حملہ ہوا اور یہ ملک چھینا گیا۔ دجلہ کا پانی مسلمانوں کے خون سے رنگین کیا گیا اور ہزاروں مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا۔ اس کا شاگرد نجیب الدین ابو الحسن علی بن عمر القزوینی الکاتبی رحمہ اللہ کی علم کلام پر ایک کتاب ہے اور اس کی شرح آپ کے پسندیدہ حضرت تفتازانی رحمہ اللہ نے کی ہے۔ معلوم ہوا کہ اگر یہ اہل سنت کا امام ہوتا اور اہل سنت کا فرد ہوتا تو کیا شیطان نے اسے اس رافضی کی کتاب کی شرح پر ابھارنا تھا؟ اور عرب دنیا میں “رسالہ الشمسیہ” کے نام سے اور برصغیر میں رسالہ السعدیہ کے نام سے مشہور ہے۔
مزید یہ کہ آپ کے مدارس میں پڑھائی جانے والی کتاب “شرح العقائد” میں (جادو سے متعلق) تفتازانی رحمہ اللہ کہتا ہے:
ولا كفر فى تعليم السحر بل فى اعتقاده
جادو کی تعلیم کوئی کفر نہیں بلکہ اس میں اعتقاد رکھنا کفر ہے۔
ہم اس کے جواب میں جادو کی تعلیم کے کفر ہونے کے متعلق قرآن مجید کی صرف ایک ہی آیت پیش کرتے ہیں:
وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَىٰ مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ
(البقرة: 102)
اور وہ (یہود) اس چیز کے پیچھے لگ گئے جو شیاطین سلیمان علیہ السلام کے عہد حکومت میں پڑھتے تھے اور سلیمان علیہ السلام نے کفر نہیں کیا لیکن شیطانوں نے کفر کیا کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے۔
معلوم ہوا کہ: جادو سیکھنا اور لوگوں کو اس کی تعلیم دینا کفر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبیرہ گناہوں کا ذکر کرتے ہوئے جادو کو ذکر کیا ہے۔
(صحيح البخاري: 2766)
امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں کو خط لکھا کہ تمہیں جو بھی جادوگر ملے اسے قتل کر دیا جائے۔ تو ایک دن کے اندر تین جادوگروں کو مارا گیا۔ جس جادوگری کو اسلام نے کفر قرار دیا اور جس نے جادوگر کی گردن مارنے کا حکم دیا اس کے متعلق آپ کے حضرت کہتے ہیں اس کی تعلیم مطلب اس کا سکھانا کفر نہیں۔ اس کے متعلق آخری بات ملاحظہ کریں کہ یہ رافضیت کی زبان استعمال کرتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق کیا کہتا ہے، اس کا کلام دیکھیں:
أما ما وقع بين الصحابة من المحاربات والمشاجرات على الوجه المسطور فى كتب التواريخ والمشهور على السنة ثقات بظاهره على أن بعضهم قد حاد عن طريق الحق وبلغ حد الظلم والفسق
کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مابین جو اختلافات اور لڑائیاں ہوئیں وہ تاریخ کی کتب میں موجود ہیں اور ثقہ راویوں کے زبان پر بھی ہیں تو اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت میں سے بعض (صحابہ رضی اللہ عنہم) حق کو چھوڑ چکے تھے۔ حق سے دور ہو چکے تھے، بلکہ ظلم اور فسق کی حدود کو پہنچ چکے تھے، اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کے اندر حسد، کینہ بغض، جھگڑالو پن تھا۔
وطلب الملك والرياسة والميل إلى اللذات والشهوات
(شرح العقائد، ص: 310-311)
ان کے دلوں میں حکومت، بادشاہی لذتیں اور خواہشات پیدا ہو گئی تھیں۔
تفتازانی رحمہ اللہ کے متعلق آپ کے گھر سے ہی دلیل پیش کرتے ہیں۔
شیخ عبداللطیف بن عبد العزیز الکرمانی رحمہ اللہ کہتا ہے:
تفتازانی رحمہ اللہ قرآن مجید کی اس آیت:
لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا
(الأنبياء: 22)
کے متعلق کہتا ہے کہ یہ آیت اقتناعیہ حجت ہے یعنی ممکن ہے کہ اس آیت کے خلاف بھی ہو جائے۔ مطلب یہ کہ مان لیتے ہیں کہ دو الہ ہوتے تو فساد برپا ہو جاتا لیکن ممکن ہے کہ یہ فساد برپا نہ ہوتا، دونوں آپس میں کمپرومائز کر لیتے، مل کر چلا لیتے۔
(شرح الطحاوية، ص: 29)
عقل کہتی ہے ممکن تھا کہ دونوں الہ مل کر کام چلا لیتے۔
چنانچہ الکرمانی رحمہ اللہ نے اس پر کفر کا فتویٰ لگایا ہے۔
لہذا جس شخص کو اکابر علماء احناف وغیرہ کا فتویٰ کہیں تو اس کی بات مان لینا کیسے ممکن ہے؟ اور اس سے شرک کی تعریف پیش کرنا کیسا رویہ ہے؟
شرک کی تعریف آئمہ احناف کے اقوال کی روشنی میں:
آئیے! اب ہم تفتازانی رحمہ اللہ کی پیش کردہ شرک کی تعریف کے مقابلے میں حنفی امام کی تصریحات کو پیش کرتے ہیں۔ ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ (792ھ) کفار مکہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
لم يكونوا يعتقدون فى الأصنام أنها مشاركة لله فى خلق العالم، بل كان حالهم فيها كحال أمثالهم من مشركي الأمم من الهند والترك والبربر وغيرهم
وہ بتوں کے بارے میں یہ اعتقاد نہیں رکھتے تھے کہ وہ کائنات کی تخلیق میں اللہ تعالیٰ کے شریک تھے، بلکہ ان کا حال باقی مشرکوں کے احوال جیسا تھا، جیسے ہندوستان، ترک اور بربری مشرکین وغیرہ ہیں۔
تارة يعتقدون أن هذه تماثيل قوم صالحين من الأنبياء والصالحين، ويتخذونهم شفعاء
کبھی تو وہ یہ گمان کرتے تھے کہ یہ نیک لوگوں کی صورتیں، انبیاء اور صالحین کی مورتیاں ہیں اور انہیں (اللہ تعالیٰ کے ہاں) سفارشی پکڑتے تھے۔
ويتوسلون بهم إلى الله
اور انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں وسیلے کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
وهذا كان أصل شرك العرب
(الفوز الطحاو یہ، ص: 22)
یہ عرب کے مشرکوں کا اصل شرک تھا۔
معلوم ہوا کہ ابن ابی العز الحنفی رحمہ اللہ کے نزدیک مشرکین عرب کا اصل شرک انبیاء اور صالحین لوگوں کی مورتیاں بنا کر انہیں اللہ تعالیٰ کے ہاں سفارشی بنانا تھا۔
مگر جلالی صاحب! آپ کے نزدیک تو وہ مشرک ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو واجب الوجود مانے، اگر ایسا نہیں مانا تو وہ مشرک نہیں ہوگا۔ کفار مکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو واجب الوجود نہیں مانتے تھے تو پھر کیا وہ بھی مشرک نہ ہوئے؟
نیز کفار مکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو مستحق عبادت نہیں سمجھتے تھے، وہ ان مورتیوں کے ساتھ کیا کرتے تھے قرآن پاک اس کی خبر دیتا ہے:
هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِنْدَ اللَّهِ
(يونس: 18)
یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں ہماری سفارشی ہیں۔
جیسا کہ آج کل بعض لوگ کہتے ہیں ہماری سنتا نہیں اور ان کی موڑتا نہیں۔ چنانچہ وہ انہیں سفارشی بناتے تھے، ان کے پاس آ کر دعا مانگتے تھے کہ دعا زیادہ سنی جاتی ہے۔ آج کے بعض مسلمانوں کا بھی یہی حال ہے۔ جیسے ایک منگھو پیر کا مزار ہے وہاں لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ: ہمارا ایمان ہے ان پر کہ یہاں جو دعا کی جاتی ہے، مراد مانگی جاتی ہے قبول ہوتی ہے، اور وہاں مزار پر مگرمچھوں کا تالاب ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ پیر صاحب کی جوئیں ہیں، اور یہ مگرمچھ کی شکل میں تبدیل ہو گئی ہیں۔
إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
شاہ ولی اللہ، پیر جیلانی سے شرک کی تعریف
جلالی صاحب کہتے ہیں کہ:
شاہ عبد العزیز رحمہ اللہ خاندان ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ کے وہ عظیم سپوت ہیں۔ یہ وہ خاندان ہے کہ برصغیر میں جتنا علم حدیث آیا ہے ان کے گھر سے ہو کر آیا ہے۔۔۔۔۔۔
مذکورہ علماء سے شرک کی تعریف ملاحظہ ہو:
تو آئیے خاندان ولی اللہ رحمہ اللہ کے سپوت کی بات مانتے ہوئے ان سے جو شرک کی تعریف منقول ہے، اسے ملاحظہ کریں کیونکہ ان کے ترجمے کو لوگ الہامی ترجمہ بھی کہتے ہیں۔ جیسا کہ فتاویٰ رضویہ، جلد: 26 میں احمد رضا خان رحمہ اللہ نے کہا: اس ترجمے کو پیش نظر رکھا جائے۔
اب شاہ عبد القادر دہلوی رحمہ اللہ سے شرک کی تعریف سمجھیں وہ سورة البقرة آیت نمبر 221 کے تحت لکھتے ہیں: شرک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت کسی اور میں مانے یعنی کسی اور کے بارے میں یہ مانے کہ اس کو یہ بات معلوم ہے یا وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ طاہر القادری صاحب عرفان القرآن میں ترجمہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کام کے متعلق کہتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ما كان وما يكون سب کا علم تھا۔ یعنی جو ہو گیا اور جو ہونا ہے سب کا علم تھا۔ جلالی صاحب! خاندان ولی اللہ رحمہ اللہ کے سپوت نے آپ کی شرک کی تعریف کو تار تار کر دیا ہے۔
❀ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ شرک کی تعریف یوں کرتے ہیں:
والشرك أن يثبت لغير الله سبحانه وتعالىٰ شيئا من صفاته المختصة به كالتصرف فى العلم بالإرادة
شرک یہ ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے لیے اللہ تعالیٰ کی ان صفات میں سے جو اس کے ساتھ خاص ہیں کوئی صفت ثابت کرے، مثلاً: کائنات میں اس ارادے سے تصرف کرنا جس کی تعبیر كُنْ فَيَكُونُ سے کی جائے۔ یا غیر اللہ کے لیے علم ذاتی ماننا جو کہ بغیر حواس، بغیر عقل، بغیر الہام اور بغیر خواب کے حاصل ہوتا ہو یا غیر اللہ کے لیے یہ صفت مانی جائے کہ وہ بیماروں کو شفا دیتا ہے۔
مذکورہ بالا تعریف کو مد نظر رکھ کر درج ذیل واقعہ ملاحظہ فرمائیں اور فیصلہ خود کریں کہ شرک اور کیا ہوتا ہے؟
ملفوظات میں ہے کہ ایک پیر صاحب کا بیٹا کھیلتا کھیلتا باپ کی گدی پر آ کر بیٹھ گیا، مرید سے کہنے لگا: لکھے اس نے کہا: کیا لکھوں؟ بچے نے کہا: فلان فى الجنة فلاں شخص جنتی ہے۔ وہ لکھتا گیا۔ پھر بچے نے کہا: لکھ کہ: فلان فى النار فلاں شخص آگ میں ہے۔ اس نے نہ لکھا۔ بچے نے کہا: لکھ، اس نے نہ لکھا، بچے نے کہا: أنت فى النار تو آگ میں ہے۔ پریشان ہو کر پیر صاحب کو بتایا: پیر صاحب نے کہا: اس بچے نے في جهنم کہا، یا في النار کہا تھا؟ مرید نے کہا: فى النار کہا تھا۔ پیر صاحب نے کہا: جو اس نے کہا: اب وہ نہیں موڑا جا سکتا تمہاری مرضی ہے دنیا میں آگ میں جل لو، یا آخرت کی آگ میں جل لینا۔
ملفوظاتِ احمد رضا
یہ كُنْ فَيَكُونُ کی صفت پیروں کو دی گئی ہیں۔ حالانکہ یہ اللہ تعالیٰ کی صفت ہے جس کی چاہے قبول فرمائے جس کی چاہے موڑ دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس تشریف لائے، فرمایا: میں نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں مانگیں، دو قبول ہوئیں ایک نہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ ہے چاہے تو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا مؤخر کر دے۔ صفت كُنْ فَيَكُونُ کا وصف رب العالمین کا ہے۔ آج ہمارے پنجاب میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر گیارہویں والے بزرگ (شیخ عبد القادر جیلانی رحمہ اللہ) کے نام گیارہویں کو دودھ نہ دیا تو بھینس مر جائے گی اور بعض کہتے ہیں دودھ خشک ہو جائے گا اور بعض کہتے ہیں دودھ کی جگہ خون آنا شروع ہو جائے گا۔
یہ کیا اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق میں تسلیم نہیں کیا گیا؟ معیشت تو رب تعالیٰ تنگ کرتا ہے۔
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا
(طه: 124)
اور جس نے میری نصیحت سے منہ پھیرا تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہے۔
شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ مزید کہتے ہیں کہ ڈوبی ہوئی کشتیوں کو پار لگانے والا اللہ تعالیٰ ہے۔ جو یہ صفت اللہ تعالیٰ کے علاوہ میں تسلیم کرے تو یہ شرک ہے۔
مگر آپ کے حضرت افتخار احمد نعیمی رحمہ اللہ فتاوى نعيمية: 305/2 میں کہتا ہے کہ:
بارات جا رہی تھی اور اس کا دولہا شاہ دولا تھا، کشتی ڈوب گئی، (دولے شاہ کا اصل نام سید کبیر الدین شاہ دولا رحمہ اللہ تھا) پھر کسی کو خیال آیا کہ گیارہویں والے بزرگ کے نام گیارہویں دے دیں، تو بزرگ نے کشتی ڈوبی ہوئی کو پار لگا دیا 12 سال کے بعد۔
(فتاوى نعيمية: 305/2)
❀ شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ الفوز الكبير میں مزید لکھتے ہیں:
ولم يكن هؤلاء المشركون يشركون أحدا فى خلق الجوهر وتدبير أمور العظام
سابقہ امتوں کے مشرک کسی کو بھی کائنات کا خالق اور اللہ تعالیٰ کے اہم امور میں شریک نہیں کرتے تھے۔
(الفوز الكبير، ص: 22)
یعنی سابقہ امتوں کے مشرکین یہ عقیدہ نہیں رکھتے تھے کہ فلاں نے یہ بنایا ہے اور فلاں نے وہ بنایا ہے۔ جیسے آج کے دور کا شرک کرنے والا کہتا ہے:
ایک ظالم کہتا ہے کہ کوفہ کی مسجد کے منبر پر سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ بیٹھے اور فرمایا: میں تھا جس نے آسمان بنایا، میں تھا جس نے زمین بنائی، میں تھا جس نے جنت اور جہنم بنائی، عدل کی کرسی پر بیٹھ کر تمہارے درمیان فیصلے کروں گا، بارش میں برساتا ہوں، روزی میں دیتا ہوں، موت میں دیتا ہوں، زندہ میں کرتا ہوں، آدم علیہ السلام کو جنت سے میں نے نکالا، یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں میں نے گرفتار کیا۔ ایک (آدمی) گستاخ اٹھا! کہنے لگا کہ یہ تو ساری اللہ تعالیٰ کی شان ہے جو تم اپنے نام لگا رہے ہو، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ میری شان نہیں یہ میری نوکری ہے، شان تو اس سے بہت بلند ہے۔ اسی طرح آج کا کلمہ گو کہتا ہے کہ:
خدا وا پھڑیا چھڑاوے محمد
محمد دا پھڑیا چھڑا کوئی نئی سکدا
لوگو! بتاؤ یہ کیا ہے؟ یہ توحید ہے کہ شرک؟
اللہ تعالیٰ کے بندو! اللہ تعالیٰ نے رئیس المنافقین (عبد اللہ بن ابی) کو پکڑا، اس کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سفارش کی، جنازہ پڑھا، منہ میں لعاب ڈالا اور اپنی قمیص پہنائی، مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اگر تم ستر مرتبہ بھی استغفار کرو گے تو میں اسے معاف نہیں کروں گا۔
❀ اسی طرح ابو طالب رضی اللہ عنہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو نہ تسلیم کیا تو روز قیامت سب سے ہلکا عذاب انہیں ہوگا۔ لہذا آپ کا یہ دعویٰ بالکل باطل ہے کہ
محمد دا پھڑیا چھڑا کوئی نئی سکدا۔
یہ آج کا کلمہ گو مسلمان ہے، مگر مشرکین عرب اور سابقہ امتوں کے مشرک ان ہستیوں کے بارے میں، جنہیں وہ اللہ کا شریک بناتے تھے، یہ عقیدہ نہ رکھتے تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے زمین بنانے میں، آسمان بنانے میں شریک ہیں، اور نہ ہی وہ کسی کے لیے ایسی قدرت کا یقین کرتے تھے کہ اللہ کوئی کام کرنا چاہے تو ان کے پیر و بابا، شیخ و مرشد اس کام میں کوئی رکاوٹ ڈال سکیں۔ بلکہ ان کا شرک کیا تھا؟ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
وإنما كان إشراكهم فى الأمور الخاصة لبعض العباد
ان کا شرک یہ تھا کہ وہ بعض بندوں کو خاص امور میں اللہ تعالیٰ کا شریک کر دیتے تھے۔
یعنی وہ بعض امور میں اللہ تعالیٰ کے بندوں کو شریک جانتے تھے، اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بعض بندوں کو اتنی عزت بخشی ہے، اتنا شرف عطا کیا ہے کہ ان کی رضا اور ناراضی بندوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ جیسے ہمارے یہاں پنجابی میں کہتے ہیں: اے جی اللہ دے بڑے رتے ہوئے نہیں۔
ان کا ہاتھ اللہ تعالیٰ کے خزانوں کو پہنچا ہوا ہے، جو چاہیں دے دیں، لکھے لیکھ مٹا دیں، اللہ تعالیٰ نے جو لکھا ہے وہ مٹانے پر قادر ہیں اور اس کی جگہ نیا لکھنے پر طاقت رکھتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے کسی کو دینے کا فیصلہ نہیں کیا تو یہ اللہ کے اس قدر لاڈلے ہیں کہ وہ فیصلے تبدیل بھی کروا لیتے ہیں اور یہ جو چاہتے ہیں عطا کر دیتے ہیں۔ یہی ان کا عقیدہ تھا۔
كما إن ملكا من الملوك العظيم القدر يرسل عبيده المخصوصين إلى نواحي مملكته ويجعلهم مختارين متصرفين فى أمور جزئية
جیسے ایک بہت بڑی حکومت کا بادشاہ ہو، وہ اپنے خاص بندوں کو اپنی مملکت کے گرد و نواح بھیج دے اور ان کے ذمے کچھ کام لگا دے اور بہت سارے بندوں کے کام انہی کے سپرد کر دے اور جو لوگ بادشاہ تک پہنچنے کے لیے ان کو واسطہ بناتے ہیں، تو بادشاہ ان کی سفارش کو قبول کر لیتا ہے۔
جلالی صاحب! یہ تعریف شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی ہے، جن کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے کا ذکر کرتے ہوئے کہ برصغیر میں جتنا علم حدیث آیا ہے وہ اسی ولی اللہ کے خاندان سے ہو کر گزرا ہے۔
جلالی صاحب! شاہ صاحب کی تعریف کی روشنی میں تو آج کے دور کا قبر پرست مسلمان بھی مشرک قرار پاتا ہے۔
❀ بلکہ اس سے بڑھ کر آپ نے تو پیروں کے نام علاقے بانٹ رکھے ہیں۔ لاہور داتا کی نگری ہے، گجرات دولے شاہ کی نگری ہے، سیون کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ لعل شہباز کی نگری ہے، ملتان شاہ شمس تبریز رحمہ اللہ کی نگری ہے، اور پھر ان کے ذمے کام لگائے ہوئے ہیں۔
اگر کوئی مقدمے میں پھنس جائے تو وہ صرف بری بری سرکار بری کر دے، قسمت کھوئی ہری کے پاس آتا ہے۔ اگر کسی کو اولاد چاہیے تو شاہ دولا کے دربار آتا ہے۔ اگر کسی کو رزق کی تنگی ہو تو اس کے لیے بابا علی ہجویری رحمہ اللہ کی قبر ہے۔
جلالی صاحب! آپ نے علماء احناف سے شرک کی تعریف کیوں نہ پیش کی؟
چلیں، آپ کو آپ کے پیروں کی طرف ہی لے چلتے ہیں۔ پیر عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کے بارے میں آپ کے بزرگوں نے کہا ہے کہ تمام اولیاء کی گردن پر ان کا قدم ہے۔
❀ طاہر القادری صاحب کہتے ہیں کہ پیر عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ جب تک کسی کو ولی قرار نہ دیں، اس وقت تک وہ ولی نہیں بن سکتا۔ کسی نے ولی بننا ہوتا ہے تو اس کے کاغذات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کے کاغذات واپس پیر جیلانی رحمہ اللہ کے پاس لوٹاتے ہیں۔ پیر جیلانی رحمہ اللہ تصدیق کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجتے ہیں، اس کے بعد اسے ولایت ملتی ہے۔
جلالی صاحب! ہماری نہیں مانتے، نہ مانو، اپنے بزرگوں کی تو مان لو۔
❀ پیر جیلانی رحمہ اللہ فتوح الغیب مقالہ نمبر 17 میں اپنے مریدوں سے کہتے ہیں:
جب اللہ تعالیٰ تک رسائی ہو جائے تو سب سے بے خوف ہو جانا، اس کے علاوہ کسی کی ذات کی پروا نہ کرنا، نہ نفع میں اور نہ نقصان میں۔ اس کے سوا نہ کسی سے ڈرنا اور نہ امید رکھنا اور نہ ہی سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی کچھ دے سکتا ہے یا چھیننے پر قادر ہے۔ وہ اللہ اس لائق ہے کہ اسی سے ڈرا جائے، وہی معاف کرنے والا ہے، لہذا ہمیشہ اسی کی طرف توجہ کرتے رہنا، اسی کے در سے مانگنا، اسی کی اطاعت کرنا اور دنیا و آخرت میں مخلوقات سے کنارہ کش ہو کر اللہ تعالیٰ کے احکامات کا خیال کرنا۔
یعنی تمام مردہ، زندہ، بزرگ، پیر، شیخ اور مرشد کوئی کسی کا کچھ نہیں کر سکتے، نہ نفع دے سکتے ہیں اور نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ نے تمہاری تقدیر میں نفع لکھا ہے وہ کوئی روک نہیں سکتا اور اللہ تعالیٰ نے تیرے نصیب میں نقصان لکھا ہے تو اسے بھی کوئی روک نہیں سکتا۔
جیسے کہ بعض قبروں کے مجاور دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تمنا ہی کیا جو پوری نہ ہو۔ ارے! محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا تھی کہ ابو طالب رضی اللہ عنہ کلمہ پڑھ لیں۔ کیا یہ تمنا پوری ہوئی؟ اور بعض کہتے ہیں جو چاہو سو پوچھو، جو چاہو سو مانگو، وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ خدائی دعویٰ نہیں؟
پیر جیلانی رحمہ اللہ کی تعلیم پر غور کریں۔ فرماتے ہیں:
لا تعلق قلبك بشيء منهم
کسی بھی چیز کے بارے میں اپنے دل کو ان کی طرف نہ جھکانا، ساری کی ساری مخلوق کو اس آدمی کی طرح سمجھنا جیسے کسی بادشاہ نے کسی شخص کو ایک تخت دیا ہو، رسیوں میں جکڑ دیا ہو، پاؤں باندھ دیے ہوں، پھر اسے سولی پر لٹکا دے، گہری نہر کے کنارے پر اپنی کرسی لگا کر بیٹھ جائے اور اس کے پاس اسلحہ ہو، وہ اس پر تیر برسائے تو خوف بادشاہ کا دل میں آنا چاہیے یا سولی پر لٹکے شخص کا؟
اس مثال سے الشیخ جیلانی رحمہ اللہ یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ جو شخص سولی پر لٹکے شخص سے ڈرتا اور خوف کھاتا ہے یا اس سے کسی فائدہ کی امید لگاتا ہے، وہ عقل مند نہیں ہے۔ کیا یہ جانور نہیں ہے جو اس بادشاہ سے نہیں ڈرتا بلکہ وہ سولی پر لٹکے ہوئے مجبور اور بے کس انسان سے ڈرتا ہے؟ یاد رکھیے! اس مثال میں سولی پر لٹکے ہوئے انسان سے مراد تمام مخلوقات ہیں اور اس بادشاہ سے مراد اللہ مالک الملک ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے تمام مخلوقات مجبور اور بے کس ہیں۔ نوح علیہ السلام سالہا سال لا إله إلا الله کی آواز بلند کرتے رہے، قوم کے ظلم و جبر کو برداشت کرتے رہے، ان کا اپنا بیٹا کلمہ پڑھ کر ان کی جماعت میں شامل نہ ہوا، ان کی آنکھوں کے سامنے غرق ہوا، وہ اپنے بیٹے کو بچا نہ سکے۔
❀ الشیخ جیلانی رحمہ اللہ مزید نصیحت کرتے ہیں:
ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں کہ بصیرت کے بعد اندھے ہو جائیں، اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑ لینے کے بعد پھر ٹوٹ بیٹھیں، ہدایت پانے کے بعد پھر گمراہ ہو جائیں اور ایمان کے بعد کفر میں پڑ جائیں۔
جلالی صاحب! اگر توحید کی ابھی بھی سمجھ نہیں آئی تو پیر صاحب کا مقالہ نمبر 7 ملاحظہ کیجئے:
ليس الشرك عبادة الأصنام فحس
شرک صرف بتوں کی پوجا کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ بھی شرک ہے کہ کوئی اپنی خواہشات کے پیچھے چلے، دنیا و آخرت میں اس کے علاوہ اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو اختیار کر بیٹھے، مثلاً: رب بھی مشکل کشا، علی رضی اللہ عنہ بھی مشکل کشا ہے، رب بھی داتا ہے، علی ہجویری رحمہ اللہ بھی داتا، رب بھی غریب نواز اور اجمیر والا بھی غریب نواز ہے، رب کو بھی علم غیب ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مَا كَانَ وَمَا يَكُونُ کا علم تھا، وغیرہ۔ اور جو اللہ کے علاوہ ہے وہ اللہ کا غیر ہے، وہ کوئی بھی ہو، مثلاً: نبی، ولی، بزرگ، سب اللہ کے غیر ہیں، یعنی وہ الہ نہیں بلکہ وہ اللہ کی مخلوق ہیں اور جب کوئی اس کی طرف مائل ہو گیا اور اس پر بھروسا کر لیا تو اس نے شرک کیا۔
❀ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک سوجے ہوئے دیکھے تو عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دیے ہیں، پھر آپ اتنا لمبا قیام کیوں کرتے ہیں؟
تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
أفلا أكون عبدا شكورا
کیا میں اللہ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟
صحيح البخاري : 4836.
معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم اللہ کے بندے ہیں، یعنی اللہ کے غیر ہیں، عین نہیں ہیں۔ الشیخ جیلانی رحمہ اللہ کے کلام سے عیاں ہوا کہ جن امور میں اللہ تعالیٰ یکتا ہے، اگر کوئی کسی غیر میں میلان رکھے تو شرک کہلائے گا۔