عقیقے میں اشتراک کا حکم: کیا ایک جانور میں سات یا دس حصے جائز ہیں؟
ماخوذ : فتاویٰ محمدیہ جلد 1، صفحہ 665

سوال

اونٹ اور گائے میں قربانی کے دس اور سات حصص مشروع ہیں، کیا ایک جانور میں دس یا سات عقیقے بھی جائز ہیں؟

جواب

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

◄ گائے میں سات اور اونٹ کی قربانی میں دس حصے دار شریک ہو سکتے ہیں۔
◄ لیکن عقیقے میں اشتراک درست نہیں ہے۔

مشکوٰۃ میں حدیث ہے:

عَن أُمِّ كُرْزٍ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهِ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «عَنِ الْغُلَامِ شَاتَانِ وَعَنِ الْجَارِيَةِ شَاةٌ وَلَا يَضُرُّكُمْ ذُكْرَانًا كُنَّ أَوْ إِنَاثًا»

ترجمہ:
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: لڑکے کی طرف سے دو بکریاں اور لڑکی کی طرف سے ایک بکری ہے، چاہے نر ہوں یا مادہ، اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

◄ اس حدیث اور دیگر احادیث میں واضح طور پر ایک یا دو مستقل جانوروں کا ذکر ہے، نہ کہ حصوں کا۔
◄ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ علیہ نے امام احمد سے نقل کیا ہے کہ ایک ایسے سوال کے جواب میں امام احمد نے فرمایا:
"انالم اسمع فی ذٰلک بسمی” یعنی مجھے اس بارے میں کوئی حدیث معلوم نہیں۔ (تحفۃ الودود: 47، طبع مدینہ منورہ)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے