عقیقہ کرنا فرض ہے صحیح احادیث کی روشنی میں
یہ اقتباس شیخ جاوید اقبال سیالکوٹی کی کتاب والدین اور اُولاد کے حقوق سے ماخوذ ہے۔

عقیقہ کرنا فرض ہے

◈ عن سلمان بن عامر قال: سمعت رسول الله يقول: مع الغلام عقيقة فاهريقوا عنه دما وآميطوا عنه الأذى
” سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: ہر پیدا ہونے والے بچے کے ساتھ عقیقہ ہے پس اس بچے کی طرف سے خون بہا دو (یعنی جانور ذبح کرو) اور اس سے گندگی دور کرو۔“
(صحيح البخاري، كتاب العقيقة، باب اماطة الأذى عن الصبي في العقيقة: 5472 )
◈ عن عائشة قالت: أمرنا رسول الله أن نعق عن الغلام شاتين وعن الجارية شاء.
”عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ لڑکے کی طرف سے دو شاۃ اور لڑکی کی طرف سے ایک شاۃ (بکری یا بھیڑ) کا عقیقہ کریں۔ “
(صحیح ابن ماجه، ابواب الذبائح، باب العقيقة: 3163)
فائدہ: لڑکا ہو یا لڑکی ہر ایک کا عقیقہ فرض ہے جیسا کہ مذکور حدیث سے ثابت ہو چکا ہے۔
◈ عن سمرة قال: قال رسول الله: الغلام مرتهن بعقيقته يذبح عنه يوم السابع ويسمى ويحلق رأسه
”سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے گروی ہے اس کی طرف سے ساتویں دن ذبیح کیا جائے (یعنی بھیڑ یا بکری) اور اس کا نام رکھا جائے اور اس کا سر مونڈھا جائے۔“
(صحيح الترمذی، ابواب الاضاحي، باب ما جاء في العقيقة: 1522؛ ابن ماجه ، ابواب الذبائح، باب العقيقة : 3165)
◈ عن أم كرز قالت: سمعت رسول الله يقول: عن الغلام شاتان مكافتتان وعن الجارية شاة.
”ام کرز رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ لڑکے کی طرف سے دو ہم عمر شاۃ (بکری یا بھیڑ) اور لڑکی کی طرف سے ایک شاۃ عقیقہ کی جائے۔“
(صحيح ابن ماجه، ابواب الذبائح، باب العقيقة: 3163، الترمذي، أبواب الاضاحی، باب ما جاء في العقيقة: 5113 )
◈ عن أبى بريدة قال: كنا فى الجاهلية إذا ولد لا حدنا غلام ذبح شاء ولطخ رأسه بدمها فلما جاء الله بالإسلام كنا نذبح شاة ونحلق رأسه ونلطحه بزعفران
”ابو بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جاہلیت کے دور میں ہمارے کسی کے ہاں کوئی لڑکا پیدا ہوتا تو وہ اس کے طرف سے ایک بکری ذبح کرتا اور اس کے سر پر اس بکری کا خون لگا دیتا، جب اللہ تعالی نے اسلام کی نعمت سے نوازا تو ہم ایک بکری ذبح کرتے اور اس کے سر کو مونڈھتے اور اس کے سر پر زعفران لگاتے۔“
(صحیح ابوداود، كتاب الضحايا ، باب في الحقيقة: 2843)
فائدہ: ان احادیث سے معلوم ہوا کہ عقیقہ ساتویں دن کرنا چاہیے اگر ساتویں دن عقیقہ کی طاقت نہیں ہے تو جب زندگی میں طاقت ہوگی والدین پر فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی طرف سے عقیقہ کریں کیونکہ بچہ عقیقہ کے بدلے گروی ہے اور عقیقہ والدین پر فرض ہے۔
جس طرح ایک آدمی کسی سے قرض لیتا ہے اور اس کو اپنی شئے گروی دے دیتا ہے تو جب تک یہ قرض واپس نہیں دے گا اس وقت تک اس کو وہ شئے نہیں ملے گی جو اس نے بطور گروی رکھی ہے۔ اسی طرح بچہ عقیقہ کے بدلے گروی ہے اور عقیقہ والدین پر فرض ہے۔ اسی طرح اگر ساتویں دن عقیقہ کی طاقت تھی لیکن کسی وجہ سے رہ گیا تو والدین پر بعد میں فرض ہے کہ وہ عقیقہ کریں کیونکہ یہ ان پر قرض ہے۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے