عقیقہ کا کیا حکم ہے قران و حدیث کی روشنی میں
ماخوذ: فتاوی امن پوری از شیخ غلام مصطفی ظہیر امن پوری

سوال:

عقیقہ کا کیا حکم ہے؟

جواب:

بچے یا بچی کی پیدائش کے ساتویں دن خاص نیت سے مخصوص شرائط کا حامل جانور ذبح کرنا عقیقہ کہلاتا ہے۔ عقیقہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔ ہر دور میں محبان سنت اسے اپناتے چلے آئے ہیں۔
❀ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ (620ھ) فرماتے ہیں:
العقيقة سنة فى قول عامة أهل العلم
اکثر اہل علم کے مطابق عقیقہ سنت ہے۔
(المغنی: 459/9)
❀ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں:
أما أهل الحديث قاطبة وفقهاؤهم وجمهور أهل العلم فقالوا: هي من سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم
تمام محدثین کرام، فقہائے عظام اور اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ عقیقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
(تحفة المودود، ص 38)
سیدنا سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مع الغلام عقيقة، فأهريقوا عنه دما، وأميطوا عنه الأذى
ہر بچے کا عقیقہ ہے، اس کی طرف سے خون بہائیں اور اس سے گندگی (سر کے بال) دور کریں۔
(صحیح البخاری: 5471)
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كل غلام مرتهن بعقيقته، يذبح عنه يوم السابع، ويحلق رأسه ويسمى
ہر بچہ اپنے عقیقے کے عوض گروی ہوتا ہے، ساتویں روز اس کی طرف سے (جانور) ذبح کیا جائے، اس کا سر منڈوایا جائے اور اس کا نام رکھا جائے۔
(مسند الإمام أحمد: 7/5، 8، 12، 17، 18، 22، سنن أبی داود: 2838، سنن الترمذی: 1522، سنن النسائی: 4220، سنن ابن ماجہ: 3165، وسندہ صحیح)
اس حدیث کی سند کو امام احمد رحمہ اللہ نے ”جید“ کہا ہے۔
(المغنی لابن قدامة: 1200/11، تحفة المودود لابن القیم، ص 63)
اس حدیث کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے ”حسن صحیح“ اور امام ابن جارود رحمہ اللہ (910ھ) اور امام حاکم رحمہ اللہ (المستدرک: 4/237) نے صحیح کہا ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے متعلق سوال کیا گیا، تو فرمایا:
سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن العقيقة؟ فقال: لا يحب الله العقوق، كأنه كره الاسم قالوا: يا رسول الله إنما نسألك عن أحدنا يولد له؟ قال: من أحب منكم أن ينسك عن ولده فليفعل عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کے متعلق سوال کیا گیا، تو فرمایا: اللہ تعالیٰ نافرمانی کو پسند نہیں کرتا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام کو ناپسند کیا۔ صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارا سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو؟ فرمایا: آپ میں سے کوئی اگر بچے کی طرف سے قربانی کرنا چاہتا ہے، تو وہ بچے کی طرف سے دو بکریاں اور بچی کی طرف سے ایک بکری قربان کرے۔
(مسند الإمام أحمد: 182/2، 183، 1942، سنن أبی داود: 2842، سنن النسائی: 4212، مشکل الآثار للطحاوی: 1055، المستدرک للحاکم: 236/4، وسندہ حسن)
اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ”صحیح الإسناد“ کہا ہے، حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
اس حدیث کی بنا پر بعض علمائے احناف نے عقیقہ کے سنت ہونے کا انکار کیا ہے۔
❀ علمائے احناف کہتے ہیں:
العقيقة عن الجارية والغلام ليست بسنة، بل مباحة
بچی اور بچے کی طرف سے عقیقہ کرنا سنت نہیں، بلکہ مباح ہے۔
(التجريد للقدوری: 6356/12، فتاویٰ فیض کرمانی: 288/3، مخطوط)
❀ حافظ بغوی رحمہ اللہ (510ھ) مذکورہ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں:
ليس هذا الحديث عند العامة على توهين أمر العقيقة، ولكنه كره تسميتها بهذا الاسم على مذهبه فى تغيير الاسم القبيح إلى ما هو أحسن منه، فأحب أن يسميها بأحسن منه من نسيكة، أو ذبيحة، أو نحوها
اکثر اہل علم کے نزدیک اس حدیث سے عقیقہ کی حیثیت کم نہیں ہوتی، بلکہ چونکہ فتیح نام کو اچھے نام سے بدلنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نام کو ناپسند فرمایا، آپ چاہتے تھے کہ اس کا کوئی اچھا نام رکھا جائے، مثلاً نسیکہ، ذبیحہ وغیرہ۔
(شرح السنة: 264/11)

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے