سیدنا موسیٰ علیہ نے کیا عقیدہ بیان کیا؟
فرمان باری تعالی ہے:
وقال فرعون يها من ابن لي صرحا لعلى ابدع الأسباب لى اسباب أسباب السموت فاطلع إلى إله موسى وإني لأظنه كاذبا.
(المؤمن: 36-37)
’’فرعون نے کہا: ہامان! ایک بلند و بالا عمارت تعمیر کر، تاکہ میں آسمان کے راستوں تک پہنچ کر موسیٰ کے الہٰ پر جھانکوں ، میں تو اسے جھوٹا ہی سمجھتا ہوں۔‘‘
اس آیت کریمہ کے متعلق
امام الائمہ ابن خزیمہ رحمتہ اللہ ( 311 ھ) نے کیا خوب لکھا ہے:
فاسمعوا يا ذوي الحجا دليلا آخر من كتاب الله، أن الله جلا وعلا في السماء، مع الدليل على أن فرعون مع كفره وطغيانه قد أعلمه موسى عليه السلام بذلك، وكأنه قد علم أن خالق البشر في السماء، ألا تسمع قول الله يحكي عن فرعون قوله: (يها من ابن لي صرحا لعلى ابلغ الأسباب ، أسباب السموت فأتلع إلى إله موسى)، ففرعون عليه لعنة الله يأمر بناء صرح.فحسب أنه يطلع إلى إله موسى، وفي قوله وإني لأظنه كاذبا. دلالة على أن موسى قد كان أعلمه أن ربه جل وعلا أعلى وفوق وأحسب أن فرعون إنما قال لقومه: وإني لأظنه كاذبا، استدراجا منه لهم، كما خبرنا جل وعلا في قوله: وجحدوا بها و استيقنتها أنفسهم ظلما وعلوا، فأخبر الله تعالى أن هذه الفرقة جحدت يريد بألسنتهم لما استيقتتها قلوبهم، فشبه أن يكون فرعون إنما قال لقومه: وإني لأظنه كاذبا ، وقلبه أن كليم الله من الصادقين، لا من الكاذبين، والله أعلم، أكان فرعون مستيقنا بقلبه على ما أولت أم مكذبا بقلبه ظانا أنه غير صادق وخليل الله إبراهيم عليه السلام عالم في ابتداء النظر إلى الكواكب والقمر والشمس أن خالقه عال فوق خلقه حين نظر إلى الكواكب والقمر والشمس، ألا تسمع قوله: هذا رى ، ولم يطلب معرفة خالقه، من أسفل، إنما طلبه من أعلى مستيقنا عند نفسه أن ربه في السماء لا في الأرض.
ارباب عقل وخرد! اللہ کے آسمانوں کے اوپر ہونے کی ایک اور قرآنی دلیل سنیں۔ اس آیت سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ فرعون کو اس کے کفر اور سرکشی کے باوجود موسیٰ علیہ السلام نے یہ بات سکھا دی تھی۔ وہ گویا سمجھ گیا تھا کہ بشر کا خالق آسمانوں کے اوپر ہے۔ کیا آپ نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا، جو فرعون سے نقل کرتے ہوئے فرمایا ہے:
(يها من ابن لي صرحا لعلى ابدع الاسباب : اسباب السبوت فاظلع إلى إله موسی)
ہامان ! میرے لیے ایک بلند و بالا عمارت تعمیر کرو، تاکہ میں آسمان کے راستوں تک پہنچ کر موسیٰ کے الہ کو جھانکوں معلوم ہوا کہ فرعون لعین نے ایک بلند عمارت کی تعمیر کا حکم دے کر گمان کیا تھا کہ وہ موسیٰ علیہ السلام کے الہٰ کو جھانکے گا۔ فرعون کا موسیٰ علیہ السلام کو جھوٹا قرار دینا اس بات کی دلیل ہے کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اسے یہ بتایا تھا کہ ان کا رب تعالٰی بلند و بالا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو صرف اس لیے جھٹلایا تھا تا کہ اپنی قوم کو بہلا سکے۔ اللہ کا فرمان ہے کہ انھوں نے آیات الہی کا ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے انکار کیا تھا، حالانکہ ان کے دلوں میں ان کی سچائی کا یقین ہو چکا تھا۔ فرمان الہی کا مطلب یہ ہے کہ گروہ فرعون نے اپنی زبانوں سے حق کا انکار کیا تھا، جبکہ ان کے دلوں میں اس کی صداقت کا یقین تھا۔ گویا فرعون نے اپنی قوم کے سامنے موسیٰ علیہ السلام کے جھوٹے ہونے کا دعویٰ کیا تھا، حالانکہ اس کا دل کلیم اللہ (سیدنا موسیٰ علیہ السلام) کو سچا جانتا تھا، جھوٹا نھیں سمجھتا تھا۔ خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام ستاروں، چاند اور سورج پر غور کرنے کے آغاز میں ہی جانتے تھے کہ ان کا خالق اپنی مخلوق سے بلند ہے۔ کیا آپ نے ان کا (چاند، ستاروں اور سورج کو) اپنا رب کہنا ملاحظہ نہیں کیا؟ انھوں نے اپنے خالق کی معرفت حاصل کرنے کے لیے نیچے کا انتخاب نہیں کیا، بلکہ جب انھوں نے اپنے خالق کی معرفت چاہی، تو اس وقت انھیں یقین تھا کہ ان کا رب آسمانوں کے اوپر ہے، زمین میں نہیں ۔
(کتاب التوحيد : 283/1-284)
امام عثمان بن سعید دار می رحمتہ اللہ( 280 ھ ) فرماتے ہیں:
لقد علم فرعون في كفره وعتؤه على أن الله عزوجل فوق السماء، فقال: وقال فرعون يهامن ابن لي صرحا لعلى ابلغ الأسبابة اسباب السلوت فاظلع إلى إله موسى والى لأظنه كاذيا (المؤمن: 3730) ففي هذه الآية بيان واضح ودلالة ظاهرة أن موسى كان يدعو فرعون إلى معرفة الله بأنه فوق السماء، فمن أجل ذلك أمر بيناء الصرح ، ورام الإطلاع إليه.
” فرعون نے اپنے کفر اور سرکشی کے باوجود یہ جان لیا تھا کہ اللہ آسمانوں سے اوپر ہے۔ اسی لیے اس نے کہا: ہامان ! ایک بلند و بالا عمارت تعمیر کر ، تا کہ میں آسمان کے راستوں تک پہنچ کر موسیٰ کے الہٰ پر جھانکوں۔ اس آیت میں واضح بیان اور روشن دلیل ہے کہ موسیٰ علیہ السلام فرعون کو معرفت الہی کی دعوت اس طرح دیتے تھے کہ اللہ آسمانوں کے اوپر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے ایک بلند و بالا عمارت تعمیر کرنے کا حکم دیا اور یوں اللہ پر اطلاع پانے کا ارادہ کیا ۔“
(الرد على الجهمية 23)
امام ابوالحسن اشعری رحمتہ اللہ (324ھ) فرماتے ہیں:
كذب موسى عليه السلام في قوله: إن الله سبحانه فوق السماوات.
’’فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو اس بات میں جھٹلایا کہ اللہ آسمانوں کے اوپر ہے۔‘‘
(الإبانة في أصول الديانة: 105)
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں:
من قال: إنه ليس على العرش رب ولا فوق السموات خالق بل ما هنالك إلا العدم المحض والنفي الصرف فهو معطل جاحد لرب العالمين مضاء لفرعون الذي قال: وقال فرعون يهامن ابن في صرحا لعلى أبلغ الأسباب لأسباب السموت فاطلع إلى إله موسى وإني لأظنه كاذبا ، بل أهل السنة والحديث وسلف الأمة متفقون على أنه فوق سمواته على عرشه بائن من خلقه ليس في ذاته شيء من مخلوقاته ولا في مخلوقاته شيء من ذاته وعلى ذلك نصوص الكتاب والسنة وإجماع سلف الأمة وأئمة السنة بل على ذلك جميع المؤمنين من الأولين والآخرين وأهل السنة، وسلف الأمة متفقون على أن من تأول استوى بمعنى استولى أو بمعنى آخر ينفي أن يكون الله فوق سمواته فهو جهمي ضال.
’’ جس نے یہ کہا کہ عرش پر کوئی رب اور آسمانوں کے اوپر کوئی خالق نہیں، بلکہ وہاں عدم محض اور نفی صرف ہے، وہ معطل ہے اور رب العالمین کا انکاری ہے۔ وہ فرعون کا ہم نوا ہے کہ جس نے کہا تھا: ’’ہامان! ایک بلند و بالا عمارت تعمیر کر، تاکہ میں آسمان کے راستوں تک پہنچ کر موسیٰ کے اللہ پر جھانکوں اور میں اسے سمجھتا تو جھوٹا ہی ہوں‘‘ ۔ اہل سنت والجماعت اور اسلاف امت متفق ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں کے اوپر اپنے عرش پر ہے اور اپنی مخلوق سے جُدا ہے۔ اس کی ذات میں کوئی مخلوق نہیں، نہ مخلوق میں اس کی ذات کا کوئی حصہ ہے۔ اسی بات پر کتاب وسنت کی نصوص اور اسلاف امت و ائمہ سنت کا اجماع ہے، بلکہ اس پر تمام پہلے اور بعد والے مؤمنوں اور اہل سنت و الجماعت کا بھی اجماع ہے۔ اسلاف امت اس پر بھی متفق رہے ہیں کہ جو شخص استویٰ (مستوی ہونا) کا معنی استولیٰ (غالب ہونا) یا کچھ اور معنی کہ جس سے اللہ تعالیٰ کے آسمانوں کے اوپر ہونے کی نفی ہو، تو وہ گمراہ جہمی ہے۔‘‘
نیز فرماتے ہیں:
(الفتاوى الكبرى: 147)
هؤلاء النفاة يوافقون فرعون في هذا التكذيب لموسى.
’’ یہ (اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کی )نفی کرنے والے موسی علیہ السلام کی تکذیب میں فرعون کے ہم نوا ہیں۔‘‘
(بیان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية، ص 354)
شیخ الاسلام ثانی ، علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمتہ اللہ (751ھ ) لکھتے ہیں:
إخباره سبحانه عن فرعون أنه رام الصعود إلى السماء ليطلع إلى إله موسى فيكذبه فيما أخبر به من أنه سبحانه فوق السماوات، فقال: ﴿وقال فرعون يها من ابن في صرحا لعلى ابلغ الاسباب لى أسباب السبوت فالع إلى إله موسى واني لأظنه كاذبا ، فكذب فرعون موسى في إخباره إياه بأن ربه فوق السماء، وعند الجهمية لا فرق بين الإخبار بذلك وبين الإخبار بأنه يأكل ويشرب، وعلى زعمهم يكون فرعون قد نزه الرب عما لا يليق به وكذب موسى في إخباره بذلك، إذ من قال عندهم: إن ربه فوق السماوات فهو كاذب، فهم في هذا التكذيب موافقون لفرعون مخالفون لموسى ولجميع الأنبياء، ولذلك سماهم أئمة السنة فرعونية، قالوا: وهم شر من الجهمية، فإن الجهمية يقولون: إن الله في كل مكان بذاته، وهؤلاء عطلوه بالكلية، وأوقعوا عليه الوصف المطابق للعدم المحض، فأي طائفة من طوائف بني آدم أثبتت الصانع على أي وجه كان قولهم خيرا من قولهم.
’’فرمان الہی کے مطابق فرعون نے ارادہ کیا تھا کہ آسمان کی طرف چڑھے اور موسی علیہ السلام کے اللہ کی طرف جھانکے ، پھر موسیٰ علیہ السلام کو ان کی اس بات میں جھوٹا ثابت کرے کہ اللہ آسمانوں کے اوپر ہے۔ اس نے کہا: (ہامان ! ایک بلند و بالا عمارت تعمیر کر، تاکہ میں آسمان کے راستوں تک پہنچ کر موسیٰ کے الہٰ پر جھانکوں میں تو اسے جھوٹا ہی سمجھتا ہوں۔) چنانچہ فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی اس بات کو جھٹلایا کہ ان کا رب آسمانوں کے اوپر ہے۔ جمیوں کے نزدیک اللہ کو عرش پر قرار دینے اور اس کے لیے کھانا پینا ثابت کرنے میں کوئی فرق نہیں۔ ان کے خیال میں فرعون نے اللہ کو اس بات سے پاک قرار دیا تھا، جو اس کے لائق نہیں تھی اور (نعوذ باللہ) موسیٰ علیہ السلام نے اس خبر میں جھوٹ بولا تھا، کیونکہ ان کے خیال میں وہ جھوٹا ہے، جو اللہ کو آسمانوں کے اوپر قرار دے۔ اس تکذیب میں وہ فرعون کے موافق ہیں اور موسیٰ علیہ السلام اور تمام انبیا کے مخالف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ اہل سنت نے ان لوگوں کو فرعونیوں کا نام دیا ہے۔ ائمہ اہل سنت کا کہنا ہے کہ یہ لوگ جموں سے بھی بدتر ہیں، کیونکہ جہمی تو اللہ کو ہر جگہ مانتے ہیں، جبکہ یہ لوگ ذات باری تعالٰی کو بالکل معطل کرتے ہیں اور اس پر ایسے وصف کا اطلاق کرتے ہیں، جو عدم محض کے ہم معنی ہے۔ بنو آدم میں سے جس گروہ نے بھی ذات باری تعالیٰ کا اثبات کیا ہے، ان کی بات ان سے بہتر ہے۔‘‘
مزید فرماتے ہیں:
(إعلام المؤقعين: 283/2)
كان فرعون قد فهم من موسى عليه الصلاة والسلام أنه ينبت إلها فوق السماء حتى رام بصرحه أن يطلع إليه واتهم موسى عليه الصلاة والسلام بالكذب في ذلك، والجهمية لا تعلم أن الله فوقها بوجود ذاته، فهم أعجر فهما من فرعون بل وأضل.
فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کی باتوں سے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ ایسے الہٰ کا اثبات کرتے ہیں، جو آسمانوں کے اوپر ہے ، حتی کہ اس نے بلند عمارت کے ذریعے اللہ کو دیکھنے کا ارادہ بھی کیا اور اس بارے میں موسی علیہ السلام پر جھوٹ کا الزام بھی لگایا۔ جمی یہ بھی نہیں جانتے کہ اللہ اپنی ذات کے ساتھ آسمانوں کے اوپر ہے۔ چنانچہ یہ لوگ فرعون سے کم عقل ہیں، بلکہ اس سے زیادہ گمراہ بھی ہیں۔‘‘
(إجتماع الجيوش الإسلامية، ص 82)
علامہ ابن ابی العز حنفی رحمتہ اللہ (792ھ) فرماتے ہیں:
من نفى العلومن الجهمية فهو فرعوني ، ومن أثبته فهو موسوي محمدي.
’’جو جہمی ذات باری تعالیٰ کے بلند ہونے کا منکر ہے، وہ فرعونی ہے اور جو اس کا اثبات کرتا ہے، وہ موسوی اور محمدی ہے۔‘‘
(شرح العقيدة الطحاوية: 186)