عقیدۂ الوہیتِ مسیح کے 12 بنیادی شبہات اور ان کا مدلل ازالہ مع بائبل کے دلائل
یہ اقتباس مفتی خاور رشید بٹ کی کتاب "الوھیت مسیح علیہ السلام حقیقت کے آئینے میں” سے ماخوذ ہے۔

مسیحیوں کے شبہات اور ان کا ازالہ

کوئی بھی گروہ اگر کسی عقیدے پر کھڑا ہے تو اس کے پیچھے ضرور کچھ نہ کچھ بنیاد بنائی ہوتی ہے خواہ حقیقت میں کمزور ہی کیوں نہ ہو یہ الگ بات ہے، دراصل ایسی کچی بنیادوں کو شیطان اس قدر حسین و جمیل اور قدآور دکھاتا ہے کہ لوگ اس پر اکتفا کر کے بیٹھ جاتے ہیں یا پھر کسی خاص سبب سے ضعف کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسی طرح مسیحی حضرات نے بھی اگر الوہیت مسیح کا عقیدہ اپنایا ہے تو اس کے لیے انہوں نے کچھ دلائل پیش کیے ہیں جن کا تجزیہ یہاں مقصود ہے۔ (وبالله التوفيق)

شبہ اول : بائبل میں مسیح کو ابن اللہ کہا گیا ہے!

”جناب مسیح علیہ السلام کو اناجیل اربعہ اور دیگر خطوط و رسائل میں کئی مرتبہ ابن اللہ کہہ کر پکارا گیا ہے جس سے ان کی الوہیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ بیٹا اپنے باپ کے جوہر سے ہی ہوتا ہے۔“

جواب:

اول: جو لوگ بائبل کا مطالعہ نہیں رکھتے، ان کی نظر میں یہ بہت وزنی دلیل ہے جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ ابن اللہ کا لفظ فقط جناب عیسیٰ علیہ السلام کے حوالے سے ہی نہیں آیا بلکہ بائبل اس سے بھری پڑی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بائبلی اصطلاح کے مطابق خدا کا بیٹا اس کے محبوب، مقرب اور پسندیدہ شخص پر بولا جاتا ہے، نہ کہ اس کا حقیقی معنی مراد لیا جائے گا۔ ورنہ سب وہ لوگ جن کے حق میں بائبل کے اندر یہ لقب استعمال ہوا وہ بھی خدا تعالیٰ کے حقیقی فرزند کہلانے کے حقدار ٹھہرتے ہیں، ان کا تذکرہ آگے آرہا ہے۔
دوم: جناب مسیح علیہ السلام کے لیے آنے والا لفظ ابن اللہ اگر اپنے حقیقی معنی میں ہے تو پھر بائبل میں ہی ان کے لیے آنے والے الفاظ ابن آدم اور (انجیل متی 20:8 ) ابن داود (انجيل متى 1:1) کے متصادم ہے کیونکہ یہاں بھی حقیقی معنی ہی مراد ہے اور یہ ممکن ہی نہیں کسی کے دو حقیقی والد ہوں، لامحالہ ایک کو مجازی معنی میں ماننا پڑے گا۔ سو مجازی معنیٰ اس کا لیا جائے گا جس کی بائبل تصدیق کرتی ہے اور وہ ابن اللہ ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام ناسوت کے لحاظ سے ابن انسان اور لاہوت کے اعتبار سے ابن اللہ تھے تو یہ بھی ناقابل قبول اور کمزور بات ہے کیونکہ جیسا کہ پیچھے گزرا کہ ایک ہی شخص ایک ہی وقت میں خالق و مخلوق، رازق و مرزوق، الہ اور بندہ نہیں ہو سکتے۔
سوم: کسی بھی کتاب کے مغلق لفظ کی بہترین اور معتبر تشریح وہی ہوتی ہے جو اسی کتاب میں کر دی گئی ہو، چنانچہ لفظ ابن اللہ کی تشریح عہد جدید میں یوں کی گئی اور وہ بھی جناب عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق۔
”انجیل مرقس کا مصنف جناب مسیح علیہ السلام کے آخری لمحات کی تصویر کشی یوں کرتا ہے اور جو صوبہ دار اس کے سامنے کھڑا تھا اس نے اسے یوں دم دیتے ہوئے دیکھ کر کہا بے شک یہ آدمی خدا کا بیٹا تھا۔“
(انجیل مرقس 39:15 )
جبکہ یہی واقعہ انجیل لوقا کے مصنف نے یوں نقل کیا ہے:
”اے باپ! میں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہوں اور یہ کہہ کر جناب مسیح علیہ السلام نے دم دے دیا، یہ ماجرا دیکھ کر صوبہ دار نے خدا کی تمجید کی اور کہا: بے شک یہ آدمی راست باز تھا۔“
( انجیل لوقا 23 : 46-47)
معلوم ہوا خدا کا بیٹا نیک صالح اور برگزیدہ شخص پر بولا جاتا ہے نہ کہ خدا کے حقیقی بیٹے پر۔

خدا کا بیٹا:

یہ اصطلاح یہودیوں میں پہلے سے رائج تھی لیکن جو مفہوم عیسائی حضرات نے بعد میں گھڑا، اہل یہود کے ہاں وہ سراسر کفر اور قابل گردن زدنی ہے، چنانچہ جب یہودی کسی کو خدا کا بیٹا کہتے تو لامحالہ وہی مطلب ہوگا جو توحید کے منافی نہ ہو اور بائبل عہد قدیم کے مطابق ہو اور وہ ہے: محبوب، پیارا، نیک، صالح اور راست باز۔
1 . ایک یہودی عالم نتن ایل کو جناب عیسیٰ علیہ السلام کے شاگرد فلپس نے کہا:
”جس کا ذکر موسیٰ نے توریت میں اور نبیوں نے کیا ہے، وہ ہم کو مل گیا۔ وہ یوسف کا بیٹا یسوع ناصری ہے“ نتن ایل نے اس سے کہا: کیا ناصرہ سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے؟ فلپس نے کہا: چل کر دیکھ لے۔ یسوع نے نتن ایل کو اپنی طرف آتے دیکھ کر اس کے حق میں کہا: دیکھو یہ فی الحقیقت اسرائیلی ہے، اس میں مکر نہیں۔ نتن ایل نے اس سے کہا: تو مجھے کہاں سے جانتا ہے؟ یسوع نے اس کے جواب میں کہا: اس سے پہلے کہ فلپس نے تجھے بلایا، جب تو انجیر کے درخت کے نیچے تھا تو میں نے تجھے دیکھا۔ نتن ایل نے اس کو جواب دیا: اے ربی! تو خدا کا بیٹا ہے۔
(انجيل يوحنا 1: 45-49 )
یہ واقعہ اس دن کا ہے جبکہ ابھی جناب عیسیٰ علیہ السلام کو تبلیغ شروع کیے دوسرا دن تھا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک یہودی عالم خدا کے بیٹے کی اصطلاح ایسے مفہوم میں بولے جو ابھی ایجاد ہی نہیں ہوا اور نہ ہی معروف ہوا۔ لامحالہ وہ اس کا وہی مطلب لے رہا ہے جو اس کی شریعت میں تھا اور وہ نیک، صالح اور راستباز کا مفہوم ہے۔
2 . یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے بائبل میں برے انسان کو شیطان کا بیٹا کہا گیا ہے۔
(رسولوں کے اعمال 10:13 )
3 . جناب مسیح علیہ السلام نے فرمایا: ”مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کا بیٹا کہلائیں گے۔“
(انجیل متی 9:5 )
اسی انجیل کے اس باب میں آگے جا کر یہ قول لکھا ہوا ہے:
لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور ستانے والوں کے لیے دعا کرو تا کہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے، بیٹے ٹھہرو۔
(انجیل متی 5:44-45)
4 . انجیل لوقا میں لکھا ہے: ”تم اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور بھلا کرو اور بغیر ناامید ہوئے قرض دو تو تمہارا اجر بڑا ہو گا اور تم خدا تعالیٰ کے بیٹے ٹھہرو گے۔“
(انجیل لوقا 6:35)
جناب عیسیٰ علیہ السلام نے اہل جنت کے متعلق فرمایا:
ان میں بیاہ شادی نہ ہوگی کیونکہ وہ پھر مرنے کے بھی نہیں۔ اس لیے کہ فرشتوں کے برابر ہوں گے اور قیامت کے فرزند ہو کر خدا کے بھی فرزند ہوں گے۔
(انجیل لوقا ، 35، 20:36)
5 . انجیل یوحنا میں یوں آیا ہے: لیکن جتنوں نے اسے (یعنی مسیح کو) قبول کیا، اس نے انہیں خدا کے فرزند بننے کا حق بخشا یعنی انھیں جو اس کے نام پر ایمان لاتے ہیں۔ وہ نہ خون سے نہ جسم کی خواہش سے، نہ انسان کے ارادے سے بلکہ خدا سے پیدا ہوئے۔
(انجیل یوحنا 1:12-13)
اناجیل کے ان حوالہ جات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ان کے مصنفین کے ہاں ابن اللہ اور خدا کا بیٹا نیک صالح اور اللہ تعالیٰ کے محبوب مقرب شخص پر بولا جاتا ہے۔

خدا کا بیٹا مجازی مفہوم میں:

6 . عہد جدید کے بعض خطوط میں ابن اللہ کا مجازی معنیٰ اس قدر واضح موجود ہے کہ کسی شک و تردد کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ چنانچہ یوحنا کے پہلے خط میں لکھا ہے:
جس کا یہ ایمان ہے کہ یسوع ہی مسیح ہے وہ خدا سے پیدا ہوا ہے اور جو کوئی والد سے محبت رکھتا ہے وہ اس کی اولاد سے بھی محبت رکھتا ہے، جب ہم خدا سے محبت رکھتے اور اس کے حکموں پر عمل کرتے ہیں تو اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا کے فرزندوں سے بھی محبت رکھتے ہیں۔
(یوحنا کا پہلا خط 5:1-2)
اس خط کے اس باب کے آخر میں ہے:
”ہم جانتے ہیں کہ جو کوئی خدا سے پیدا ہوا ہے، وہ گناہ نہیں کرتا بلکہ اس کی حفاظت وہ کرتا ہے جو خدا سے پیدا ہوا اور وہ شریر اسے چھو نہیں پاتا۔“
(یوحنا کا پہلا خط 5:18)
اس خط کے تیسرے باب میں مزید وضاحت ہے:
”جو کوئی خدا سے پیدا ہوا ہے، وہ گناہ نہیں کرتا کیونکہ اس کا تخم اس میں بنا رہتا ہے بلکہ وہ گناہ کر ہی نہیں سکتا کیونکہ خدا سے پیدا ہوا ہے، اسی سے خدا کے فرزند اور ابلیس کے فرزند ظاہر ہوتے ہیں۔“
(یوحنا کا پہلا خط 3:9-10)
باب چہارم میں یوں لکھا ہے:
”اے عزیزو! آؤ ہم ایک دوسرے سے محبت رکھیں کیونکہ محبت خدا کی طرف سے ہے اور جو کوئی محبت رکھتا ہے، وہ خدا سے پیدا ہوا ہے اور خدا کو جانتا ہے۔“
(یوحنا کا پہلا خط 4:7)
7 . پولوس نے ایک خط میں لکھا ہے:
”اس لیے کہ جتنے خدا کے روح کی ہدایت سے چلتے ہیں، وہی خدا کے بیٹے ہیں، کیونکہ تم کو غلامی کی روح نہیں ملی جس سے پھر ڈر پیدا ہو بلکہ بیٹے پن کی روح ملی جس سے ہم ابا یعنی باپ کہہ کر پکارتے ہیں۔ روح خود ہماری روح کے ساتھ مل کر گواہی دیتا ہے کہ ہم خدا کے فرزند ہیں۔“
(رومیوں کے نام خط 8:14-16)
8 . اپنے دوسرے خط میں پولوس یوں گویا ہوا۔
”سب کام شکایت اور تکرار کے بغیر کیا کرو تا کہ تم بے عیب اور بھولے ہو کر ٹیڑھے اور بدلہ لوگوں میں خدا کے بے نقص فرزند بنے رہو۔“
(فلپیوں کے نام خط 2:14-15)
ان تمام حوالہ جات میں خدا کا بیٹا، خدا کے بیٹے اور خدا سے پیدا ہوئے جیسے الفاظ اپنے حقیقی معنی میں نہیں بلکہ مجازی طور پر مستعمل ہیں۔

انبیائے بنی اسرائیل کے لیے خدا کا بیٹا:

➊ عہد قدیم اور عہد جدید میں کئی مقامات پر بنی اسرائیلی انبیائے کرام کے لیے بھی خدا کا بیٹا اور کئی کے لیے خدا کا پہلوٹھا بیٹا کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے:
”انجیل لوقا میں جناب عیسیٰ علیہ السلام کا نسب نامہ لکھا ہوا ہے جسے آدم علیہ السلام تک پہنچایا گیا اور ان کا تذکرہ پھر یوں ہے: آدم ابن اللہ۔“

یہ بات واضح ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حقیقی بیٹے نہ تھے۔ کوئی مسیحی بھی ان کو حقیقی بیٹا ماننے کے لیے تیار نہیں، لہٰذا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے لیے آنے والا یہی لفظ ان کے حقیقی بیٹے ہونے پر کیسے دلالت کر سکتا ہے؟
مزید یہ کہ آدم علیہ السلام بغیر ماں اور بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ تو تھیں، لہٰذا اگر حقیقی بیٹا ماننا ہی ہے تو آدم علیہ السلام اس کے زیادہ حق دار تھے، جبکہ نہ مسلمان ایسا مانتے ہیں اور نہ ہی مسیحی۔
(انجیل لوقا 3:38)
➋ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جب فرعون کے پاس بات چیت کے لیے بھیجا تو فرمایا:
”تب تو فرعون سے یوں کہنا کہ خداوند نے یوں فرمایا ہے کہ اسرائیل میرا پہلوٹھا بیٹا ہے، اس لیے میں تجھ سے کہتا ہوں کہ میرے بیٹے کو جانے دے تا کہ وہ میری بندگی کرے اور اگر اسے نہیں جانے دیتا تو دیکھ میں تیرے پہلوٹھے بیٹے کو مار ڈالوں گا۔“
(خروج 4:22-23)
➌ اللہ تعالیٰ نے حضرت داود علیہ السلام کو فرمایا:
اور جب تیرے دن تمام ہو جائیں اور تو اپنے باپ دادا کے ساتھ سو جائے اور جب میں تیرے بعد تیری نسل کو جو تیری صلب سے ہوگی برپا کروں گا اور اس کی سلطنت کو مستقل کروں گا تو وہ میرے نام کے لیے ایک گھر بنائے گا اور میں اس کی سلطنت کے تخت کو ابد تک برقرار رکھوں گا۔ میں اس کا باپ ہوں گا اور وہ میرا بیٹا ہو گا۔
(2-سموئیل 7:12-14)
➍ داود علیہ السلام کے حوالے سے خدا تعالیٰ نے کہا:
وہ مجھے پکارے گا کہ تو میرا باپ ہے، میرا خدا اور میری نجات کی چٹان ہے اور میں اسے پہلوٹھا بناؤں گا، میں بادشاہوں میں سب سے اعلیٰ۔
(زبور 89:26-27)
➎ یرمیاہ نبی کی کتاب میں خدا تعالیٰ کا قول یوں لکھا ہے:
”میں اسرائیل کا باپ ہوں اور افرائیم (اسرائیل کا ہی دوسرا نام) میرا پہلوٹھا ہے۔“
(یرمیاہ 31:9)
اگر خدا کا بیٹا کہنے سے حقیقی بیٹا مراد ہے تو سیدنا داود علیہ السلام اور سیدنا یعقوب علیہ السلام (اسرائیل) زیادہ حق دار ہیں کیونکہ سابقہ شریعتوں اور معاشرتی رواج کے مطابق پہلوٹھا (بڑا بیٹا) بعد والوں سے باپ کے زیادہ قریب اور احترام کے زیادہ لائق ہوتا ہے بلکہ بعض علاقوں میں تو اس کو باپ کی جگہ پر ہی سمجھا جاتا ہے۔

بنی اسرائیل خدا کے فرزند:

➏ عہد قدیم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کئی مقامات پر سیدنا یعقوب علیہ السلام کی تمام اولاد کو بھی خدا کے فرزند کہا گیا ہے، چنانچہ لکھا ہے: ”تم خداوند اپنے خدا کے فرزند ہو۔“
(استثنا 14:1)
➐ اسی کتاب میں بنی اسرائیل سے خدا کی ناراضی کے حوالے سے لکھا ہے:
اور خدا نے دیکھا اور متنفر ہوا اور بیٹوں اور بیٹیوں سے غصہ ہوا۔
(استثنا 32:5)
➑ زبور میں آیا ہے:”میں نے کہا تم خدا ہو تم سب حق کے فرزند ہو تو بھی تم آدمیوں کی طرح مر جاؤ گے اور سرداروں میں سے ایک کی طرح گر جاؤ گے۔“
(زبور 82:6-7)
➒ خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے حوالے سے کہا:
میں نے فرزندوں کی تربیت کی اور انھیں سرفراز کیا مگر انھوں نے میرے خلاف سرکشی کی۔
(یشعیاہ 1:2)
➓ مزید لکھا ہے: ”اور بنی اسرائیل کا شمار ساحل کی ریت کی طرح ہو گا جو ناپی نہیں جاتی اور گنی نہیں جاتی اور اس کی بجائے کہ ان سے کہا جائے کہ تم میری امت نہیں، وہ زندہ خدا کے فرزند کہلائیں گے۔“
(ہوشع 10:1)
⓫ اس کتاب میں آگے جا کر خدا تعالیٰ کا یہ قول لکھا ہے:
”جب بنی اسرائیل ہنوز بچہ ہی تھا تو میں نے اس سے محبت رکھی اور میں نے مصر سے اپنے بیٹے کو بلایا۔“
(ہوسیع 1:11 )

فرشتے خدا کے فرزند:

⓬ بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ فرشتوں کو بھی خدا تعالیٰ کے بیٹے اور فرزند کہا گیا ہے، چنانچہ لکھا ہے: ”اور ایک دن خدا کے بیٹے خداوند کے حضور حاضر ہونے کے لیے آئے اور شیطان بھی ان کے درمیان آیا۔“
(ایوب 6 : 1)
یہی بات اس کتاب کے دوسرے باب، فقرہ ایک میں بھی لکھی ہوئی ہے۔ کوئی بھی مسیحی ان مقامات پر حقیقی معنی لینے کے لیے تیار نہیں ہوگا، لہٰذا جناب عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق آنے والے اسی لفظ کو بھی انہی دلائل کی روشنی میں مجازی معنی میں لیا جائے گا۔
خدا کے فرزند کی اصطلاح عہد قدیم میں آئی ہے جس کے اولین مخاطب یہودی ہیں اور ان کی ہی زبان میں ہے، لہٰذا جب یہ لوگ اس کو مجازی مفہوم میں لیتے ہیں تو بعد میں نئے آنے والے غیر زبانوں کے افراد اس کا مفہوم کیسے بدل سکتے ہیں؟

دیگر زبانیں:

حقیقت یہ ہے کہ لفظ فرزند اور بیٹے کی اصطلاح ہر لغت میں پائی جاتی ہے اور وہاں اس کو مجازی معنی میں لیا جاتا ہے، مثلاً ہمارے ہاں ابن الوقت کا لفظ ہے، عربی میں مسافر کو ابن السبیل کہا جاتا ہے، اس طرح کسی بھی تعلیمی ادارے سے تعلیم مکمل کرنے والوں کو ابناء جامعہ کہا جاتا ہے۔ وغیرہ
بائبل میں بھی اسی طرح ہے:
چنانچہ جناب مسیح علیہ السلام نے جہنم میں جانے والوں کو جہنم کے فرزند کہا۔
(انجیل متی 15:23 )
اور یروشلیم شہر کے رہنے والوں کو اس کے بچے قرار دیا۔
(انجیل متی 23: 37)
دنیا دار لوگوں کو اس عالم کے فرزند کہا ہے۔
(انجیل لوقا 34:20 )
جبکہ نیک اور راست باز لوگوں کو قیامت کے فرزند کہا ہے۔
(انجیل لوقا 36:20 )
یہ تو جناب عیسیٰ علیہ السلام کے اقوال تھے جبکہ پولوس نے تسالونیکیوں کو نور اور دن کے فرزند کہا ہے۔
(تسالونیکیوں کے نام پہلا خط 5:5 )
کیا اب بھی کوئی گنجائش باقی ہے؟
اعتراض:
اس تفصیل کے باوجود مسیحی حضرات جناب مسیح علیہ السلام کو خدا کا حقیقی بیٹا قرار دینے کی ضد کرتے ہیں اور ان دلائل کے مقابل کہتے ہیں کہ دراصل ان کو خدا نے اکلوتا فرزند (انجیل لوقا 95: 38 ) کہا ہے جبکہ باقی مقامات پر ایسا نہیں۔

جواب:

حضرت یعقوب اور حضرت داود علیہ السلام کو پہلوٹھا بیٹا کہا گیا جیسا کہ گزرا تو کیا انہیں بھی حقیقی بیٹا تسلیم کیا جائے گا؟ بہرحال از روئے بائبل لفظ اکلوتا کوئی ایسی حیثیت نہیں رکھتا کہ جس میں حقیقی معنی کے علاوہ کوئی دوسرا مفہوم پایا ہی نہیں جا سکتا۔ بلکہ اس میں رفعت، بلندی اور خصوصیت کا معنی بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ تورات میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے چھوٹے بیٹے اسحاق علیہ السلام کو ان کا اکلوتا فرزند کہا گیا ہے۔
(پیدائش 12، 1:22 )
حالانکہ ابراہیم علیہ السلام کا بڑا بیٹا اسماعیل علیہ السلام زندہ اور موجود تھا۔
کیا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ صرف اور صرف جناب اسحاق علیہ السلام ہی ان کے حقیقی بیٹے تھے؟

دوسرا شبہ :مسیح کا اللہ تعالیٰ کو باپ قرار دینا

جناب عیسیٰ علیہ السلام نے کئی مواقع پر تاکیدی طور پر اللہ تعالیٰ کو اپنا باپ قرار دیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے پیدا ہوئے ہیں اور اس صورت میں وہ بھی اپنے باپ کی طرح خدا ہوئے۔
(انجیل یوحنا میں تو کثیر تعداد میں اللہ تعالیٰ کو باپ کہہ کر پکارا گیا ہے مزید دیکھیں متی 7:21، متی 11:27، متی 24:38، لوقا 23:34، لوقا 23:46)

جواب:

اول: اناجیل سے واضح ہوتا ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کو جہاں اپنا باپ کہا ہے وہاں کئی مرتبہ ایمان والوں کا بھی باپ قرار دیا ہے، مثلاً متی کے چھٹے باب میں بارہ مرتبہ یہ بات آئی ہے بلکہ (فقرہ نمبر 9 )میں مسیحیوں کی نماز ہے جس کی ابتدا یوں ہے: ”اے ہمارے باپ! تو جو آسمان پر ہے۔“
(مزید حوالہ جات یہ ہیں متی 10:29، لوقا 6:36، لوقا 12:31-32، یوحنا 17:20)
اگر اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کا باپ ہے، اس وجہ سے وہ خدا بنتے ہیں تو پھر سب ایمان والے بھی خدا ہوئے اور یہ بات اتفاقی طور پر باطل ہے لہٰذا لامحالہ انجیل کی اصطلاح کے مطابق ہی باپ کا معنی لیا جائے گا یعنی پیار و محبت اور شفقت کرنے والا، لوگوں سے خیر و بھلائی کا ارادہ کرنے والا، ان کی رہنمائی کرنے والا۔
دوم: لفظ باپ کا معنی رہبر و رہنما اناجیل سے ہی ثابت ہوتا ہے، چنانچہ ایک موقع پر یہودیوں اور مسیح علیہ السلام کا مکالمہ ہوا تو یہودیوں نے اپنا باپ خدا کو کہا لیکن جناب عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ”اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے۔ تم اپنے باپ ابلیس سے ہو اور اپنے باپ کی خواہشوں کو پورا کرنا چاہتے ہو۔“
(لوقا 23:46)
یہود جو کہ عیسیٰ علیہ السلام کو پکڑ کر قتل کرنا چاہتے تھے اور ان کے منکر تھے چونکہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آئے تھے، اس لیے جناب عیسیٰ علیہ السلام نے شیطان کو ان کا باپ کہا۔
مزید وضاحت پولوس نے کرنتھیوں کی طرف پہلا خط لکھتے ہوئے کی:
میں تمھیں شرمندہ کرنے کے لیے یہ باتیں نہیں لکھتا، بلکہ اپنے پیارے فرزند جان کر تم کو نصیحت کرتا ہوں کیونکہ اگر مسیح میں تمہارے استاد دس ہزار بھی ہوتے تو بھی تمہارے باپ بہت سے نہیں، اس لیے کہ میں ہی انجیل کے وسیلے سے مسیح یسوع میں تمہارا باپ بنا۔
(1-کرنتھیوں 4:14-15)
پولوس اپنے آپ کو رہبر و مقتدی قرار دے رہا ہے، نہ کہ حقیقی ولدیت بتائی جا رہی ہے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے ہمارے معاشرے میں استاد کو باپ کہہ دیا جاتا ہے۔
سوم: بائبل میں فقط عیسیٰ علیہ السلام نے ہی اللہ تعالیٰ کو اپنا باپ یا میرا باپ کہہ کر نہیں پکارا بلکہ کئی انبیاء سے ایسا ملتا ہے، لہٰذا اگر کسی کے ذہن میں لفظ اپنا یا میرا سے شک پیدا ہوتا ہے تو یاد رکھ لے کہ یہ نہایت کمزور اور تار عنکبوت سے بھی زیادہ ناپائیدار دلیل ہے۔ حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:
❀ اللہ تعالیٰ نے داود علیہ السلام کے حوالے سے فرمایا:
”وہ مجھے پکار کر کہے گا: تو میرا باپ میرا خدا اور میری نجات کی چٹان ہے۔“
آگے خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور میں اس کو اپنا پہلوٹھا بناؤں گا۔“
(زبور 89:26-27)
یسعیاہ نبی نے خدا تعالیٰ کو یوں مخاطب کیا: یقیناً تو ہمارا باپ ہے اگرچہ ابراہام ہم سے ناواقف ہو اور اسرائیل ہم کو نہ پہچانے۔ تو اے خداوند! ہمارا باپ اور فدیہ دینے والا ہے۔
(یشعیاہ 63:16)
اس کتاب کے اگلے باب میں اس طرح ہے:
”اے خداوند! تو ہمارا باپ ہے۔ ہم مٹی ہیں اور تو ہمارا کمہار ہے۔“
(یشعیاہ 64:8)
یہ تو انبیاء کی بات ہے۔ عام انسانوں نے بھی اللہ تعالیٰ کو اپنا باپ کہا ہے: مثلاً یہودیوں نے ایک موقع پر جناب عیسیٰ علیہ السلام کو ان الفاظ میں جواب دیا تھا: ”ہمارا ایک باپ ہے یعنی خدا۔“
(انجیل ہو تا 41:8 )
اسی طرح مسیحیوں کی نماز کی ابتدا یوں ہوتی ہے:
”اے ہمارے باپ! تو جو آسمان پر ہے۔“
(انجیل متی 9:6 )
پولوس نے کئی مرتبہ خدا تعالیٰ کو ہمارے باپ خدا کہہ کر یاد کیا ہے۔
(رومیوں 1، 7:1 ۔ کرنتھیوں 2,3:1 کرنتھیوں 2:1 افسیوں 2:1 فلپیوں 1 : 2 للیمون 3:1 )
لامحالہ ان انبیاء اور دیگر لوگوں کا مقصد مجازی تھا نہ کہ حقیقی۔
جناب عیسیٰ علیہ السلام جو کہ یہودیوں کو مخاطب کرتے تھے ان کی کتاب کو جانتے اور ان کے محاورے کو پہچانتے تھے، انھوں نے بھی مجازی لحاظ سے اس نسبت کو بولا، ورنہ ضرور کسی موقع پر اس کی وضاحت کر دیتے، کیونکہ انبیاء کے آنے کا مقصد ہی لوگوں کے عقائد و نظریات کو درست کرنا ہوتا ہے، مزید شکوک و شبہات میں ڈالنا نہیں، اور اگر پورے تبلیغی دور (جو تین سال پر محیط تھا) میں یہودیوں کو ذرا سا بھی شک ہوا تو انھوں نے فوراً پتھروں سے سنگسار کرنا چاہا لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے وضاحت کر کے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی، جس کی تفصیل اگلے شبہ کے تحت آرہی ہے۔

تیسرا شبہ:میں اور باپ ایک ہیں

مسیحیوں کی طرف سے جناب مسیح علیہ السلام کے اس قول کو خوب اچھالا جاتا ہے اور انھیں اللہ کے مرتبہ پر فائز کیا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا تھا: ”میں اور باپ ایک ہیں۔“
(انجیل یوحنا 30:10 )
جواب:
اس جملے کو اگر اسی حد تک پڑھیں تو واقعی عام آدمی پریشان ہو سکتا ہے لیکن اگر اصول کے مطابق اس کو سیاق و سباق کے ساتھ پڑھیں تو پھر حقیقت نکھر کر سامنے آتی ہے۔ مکمل عبارت یوں ہے:
یروشلیم میں عید تجدید ہوئی اور جاڑے کا موسم تھا۔ اور یسوع ہیکل کے اندر سلیمانی برآمدہ میں ٹہل رہا تھا۔ پس یہودیوں نے اس کے گرد جمع ہو کر اس سے کہا: تو کب تک ہمارے دل کو ڈانواں ڈول رکھے گا؟ اگر تو مسیح ہے تو ہم سے صاف کہہ دے۔ یسوع نے انھیں جواب دیا کہ میں نے تو تم سے کہہ دیا مگر تم یقین نہیں کرتے۔ جو کام میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں، وہی میرے گواہ ہیں۔ لیکن تم اس لیے یقین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میں سے نہیں ہو۔ میری بھیڑیں میری آواز سنتی ہیں اور میں انھیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں۔ اور میں انھیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی انھیں میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا۔ میرا باپ جس نے مجھے وہ دی ہیں، سب سے بڑا ہے اور کوئی انھیں باپ کے ہاتھ سے نہیں چھین سکتا۔ میں اور باپ ایک ہیں۔ یہودیوں نے اسے سنگسار کرنے کے لیے پتھر اٹھائے۔ یسوع نے انھیں جواب دیا کہ میں نے تم کو باپ کی طرف سے بہتیرے اچھے کام دکھائے ہیں۔ ان میں سے کس کام کے سبب سے مجھے سنگسار کرتے ہو۔ یہودیوں نے اسے جواب دیا کہ اچھے کام کے سبب سے نہیں بلکہ کفر کے سبب سے تجھے سنگسار کرتے ہیں اور اس لیے کہ تو آدمی ہو کر اپنے آپ کو خدا بناتا ہے۔ یسوع نے انھیں جواب دیا کہ تمھاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں نے کہا تم خدا ہو جبکہ اس نے انھیں خدا کہا جن کے پاس خدا کا کلام آیا (اور کتاب مقدس کا باطل ہونا ممکن نہیں)۔ آیا تم اس شخص سے جسے باپ نے مقدس کر کے دنیا میں بھیجا، کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے، اس لیے کہ میں نے کہا میں خدا کا بیٹا ہوں؟ اگر میں اپنے باپ کے کام نہیں کرتا تو میرا یقین نہ کرو لیکن اگر میں کرتا ہوں تو گو میرا یقین نہ کرو مگر ان کاموں کا تو یقین کرو تا کہ تم جانو اور سمجھو کہ باپ مجھ میں ہے اور میں باپ میں۔ انھوں نے پھر اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا۔
(انجیل یوحنا 22:10تا 39 )
➊ جناب مسیح علیہ السلام نے کس قدر واضح الفاظ میں تشریح کر دی کہ میرا اپنے آپ کو خدا کے ساتھ ایک کہنے یا خدا کا بیٹا کہنے کا مطلب اسی طرح کا ہے جس طرح تمھاری شریعت میں انبیاء کو خدا کہہ کر پکارا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کو اس کے سبب نہ تو حقیقی خدا مانا گیا، نہ ہی انھوں نے لوگوں کو اس کی تبلیغ کی اور نہ ان پر کفر لازم آیا، لہٰذا میں بھی نہ تو کفر کہہ رہا ہوں اور نہ ہی قتل کی سزا کا مستحق ہوں۔
نوٹ: انبیاء کو خدا کہہ کر پکارنے والی بات زبور میں ہے۔
(زبور 6:82)
➋ جناب مسیح علیہ السلام کا کہنا میں اور باپ ایک ہیں، کی مزید تشریح کرتے ہوئے یہودیوں کو کہا کہ مجھ پر اس لیے تم کفر کا فتویٰ لگاتے ہو کہ میں نے اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا ہے یعنی انھوں نے ایک ہونے والے جملے کے باوجود اپنے آپ کو ہر لحاظ سے باپ (خدا) کے برابر قرار نہیں دیا بلکہ اپنا رتبہ ان سے نیچے ہی رکھا یعنی (بیٹا) کہا ورنہ کسی ایک موقع پر ہی کبھی انھوں نے اپنے آپ کو باپ کہا؟ ہرگز نہیں۔ معلوم ہوا کہ زیر بحث جملے کا مفہوم و مطلب وہ نہیں جو کشید کیا جارہا ہے۔
➌ یہ بات بھی قابل غور ہے اگر جناب مسیح علیہ السلام واقعی حقیقی خدا یا خدا کے حقیقی بیٹے تھے تو انھیں واضح الفاظ میں اس کا اقرار کرنا چاہیے تھا، یہی موقع تھا کیونکہ یہودیوں نے ان کے جملے (میں اور باپ ایک ہیں) سے حقیقی دعویٰ ہی سمجھا تھا لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہودیوں کی تردید کی اور ان الفاظ کو مجازی معنی میں استعمال کر کے باقاعدہ زبور سے دلیل بھی دی۔ اگر مسیحیوں کا استدلال تسلیم کریں تو ثابت ہوتا ہے جناب مسیح علیہ السلام نے یہودیوں کو دھوکے میں رکھا، ان کے سامنے دعویٰ واضح نہیں کیا اور ان کے ساتھ مغالطہ انگیزی سے کام لیا۔ نعوذ بالله من ذلك!
➍ یہ بھی معلوم ہوا کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے اوپر خدا کا بیٹا اور خدا مجھ میں ہے وغیرہ جملے اللہ تعالیٰ کا انھیں رسول مقرر کرنے کے سبب بولے تھے یعنی وہی بات کہ یہ الفاظ محبوب پیارے اور مقرب کے مفہوم میں ہیں، نہ کہ حقیقی معنی میں۔
➎ ایک ہونے والی بات جناب مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں اور ان کے شاگردوں کے حوالے سے بھی کی ہے تو کیا ان سب کو ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ اور مسیح علیہ السلام کے برابر قرار دیا جائے گا؟ اور کیا حواریوں کے شاگردوں کو کسی لحاظ سے ان کی برابری مل سکتی ہے؟ انجیل یوحنا میں لکھا ہے:
”میں صرف ان (حواریوں) ہی کے لیے درخواست نہیں کرتا بلکہ ان کے لیے بھی جو ان کے کلام کے وسیلے سے مجھ پر ایمان لائیں گے تا کہ وہ سب ایک ہوں یعنی جس طرح تو باپ مجھ میں ہے اور میں تجھ میں ہوں، وہ بھی ہم میں ہوں اور دنیا ایمان لائے کہ تو ہی نے مجھے بھیجا ہے اور وہ جلال جو تو نے مجھے دیا ہے میں نے انھیں دیا ہے تا کہ وہ ایک ہوں جیسے ہم ایک ہیں۔ میں ان میں اور تو مجھ میں تا کہ وہ کامل ہو کر ایک ہو جائیں۔“
(انجیل 23 – 20 : 17)
کیا مسیح علیہ السلام یہ دعا مانگ رہے تھے کہ میرے شاگرد اور ان کے شاگرد سب خدا بن جائیں؟ لا حول ولا قوة إلا بالله
لامحالہ ایسا مفہوم لیا جائے گا جو تمام عبارات کے موافق ہو اور وہ ہے مقصد اور ہدف میں ایک، نہ کہ ہر لحاظ سے ایک ہونا۔ عام محاورہ بھی اسی طرح ہے یعنی جب مقصد اور ہدف ایک ہو تو کہا جاتا ہے کہ” میں اور وہ ایک ہیں۔“ اسی باب کے( فقرہ 11) کو پڑھیں تو مزید وضاحت ہو جاتی ہے، مسیح علیہ السلام کہہ رہے ہیں:
میں آگے کو دنیا میں نہ ہوں گا مگر یہ (حواری) دنیا میں ہیں اور میں تیرے پاس آتا ہوں، اے قدوس باپ! اپنے اس نام کے وسیلے سے جو تو نے مجھے بخشا ہے، ان کی حفاظت کر تا کہ وہ ہماری طرح ایک ہوں۔
➏ پولوس نے بھی ایک ہونے والی اصطلاح استعمال کی ہے اور اس نے بھی مجازی مفہوم لیا ہے نہ کہ حقیقی، چنانچہ کرنتھیوں کے نام پہلے خط میں یوں لکھا ہے:
”کیا تم نہیں جانتے جو کوئی کسی سے صحبت کرتا ہے وہ اس کے ساتھ ایک تن ہو جاتا ہے؟ کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ وہ دونوں ایک تن ہوں گے اور جو خداوند کی صحبت میں رہتا ہے، وہ اس کے ساتھ ایک روح ہوتا ہے۔“
(1-کرنتھیوں 6:16-17)
اسلام میں بھی اسی طرح کا مفہوم ملتا ہے، چنانچہ حدیث قدسی ہے جسے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
”میرا بندہ نوافل کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو پسند کرنے لگتا ہوں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس کے ذریعے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے۔الخ“۔
(صحیح البخاری: کتاب الرقاق، باب التواضع، حدیث 6502)
بلاشبہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس انسان کے اندر حلول کر جاتا ہے یا بعینہٖ جسم کے اعضاء بن جاتا ہے بلکہ یہ مفہوم ہے کہ جب انسان عبادت الٰہی میں نہایت جدوجہد کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو خاص ملکہ اور تعاون ملتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنے اعضاء کو اطاعت الٰہی میں مگن رکھتا ہے۔
بائبل سے مزید حوالہ جات جن میں ایک ہونے سے حقیقی معنی نہیں مراد لیا گیا:
➐ اس واسطے مرد اپنے ماں باپ کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے مل رہے گا اور وہ ایک تن ہوں گے۔
(پیدائش 2:24)
➑ پولوس رقمطراز ہے:”اور تم سب جتنوں نے مسیح میں شامل ہونے کا بپتسمہ لیا مسیح کو پہن لیا، نہ کوئی یہودی رہا نہ کوئی یونانی نہ کوئی غلام نہ کوئی آزاد نہ کوئی مرد نہ کوئی عورت کیونکہ تم سب مسیح یسوع میں ایک ہو۔“
(گلتیوں 3:27-28)
➒ ”اور انجیل کے ایمان کے لیے ایک جان ہو کر جانفشانی کرتے ہو۔“
(فلپیوں 1:27)
(1-کرنتھیوں 12:13)
➓ ”پس اگر کچھ تسلی مسیح میں اور محبت کی دلجمعی اور روح کی شراکت اور رحم دلی اور درد مندی ہے تو میری یہ خوشی پوری کرو کہ ایک دل ہو کر رہو، یکساں محبت رکھو، ایک جان ہو۔“
(فلپیوں 2 – 1 : 2)
⓫ ”کیونکہ ہم سب نے خواہ یہودی ہوں، خواہ یونانی، خواہ غلام، خواہ آزاد ایک ہی روح کے وسیلے سے ایک بدن ہونے کے لیے بپتسمہ لیا۔“

چوتھا شبہ :میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں

عیسی علیہ السلام نے فرمایا تھا: ”میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے۔“
(انجیل یوحنا 14:20)
جواب:
یہ اور اس طرح کی عبارات سے مسیحیوں کا استدلال نہایت کمزور ہے کیونکہ:
اول: اگر اس جملے کو ظاہر پر محمول کیا جائے تو حلول کا ثبوت لازم آتا ہے جبکہ مسیحی حضرات یہ نظریہ نہیں رکھتے تو لامحالہ اس کی تأویل کرتے ہیں اور وہ یہ کہ باپ اور بیٹا جوہر میں متحد ہیں یعنی ظاہری لفظ سے گو دو شخصیات ہیں لیکن باطنی اعتبار سے دونوں ایک ہیں کیونکہ ظاہری لفظ سے باپ کا اطلاق بیٹے پر اور بیٹے کا باپ پر نہیں ہو سکتا۔ پیچھے یہ بحث تفصیل سے گزر چکی ہے کہ باطن (لاہوت) کے اعتبار سے بھی دونوں کا ایک ہونا عقل و نقل کے صریح خلاف ہے۔
دوم: جب ہم اس فقرے کے سیاق و سباق اور عہد جدید کے دیگر حوالہ جات کو دیکھتے ہیں تو اس کا مفہوم واضح ہو جاتا ہے۔ مثلاً اس باب کے( فقرہ 20 )میں یوں لکھا ہے:
”اس روز تم جانو گے کہ میں اپنے باپ میں ہوں اور تم مجھ میں اور میں تم میں۔“
پچھلے شبہ کے تحت انجیل یوحنا کا ہی حوالہ گزرا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے شاگردوں کے لیے دعا کی تھی جس کے الفاظ یہ ہیں:
”تا کہ وہ سب ایک ہوں یعنی جس طرح تو باپ مجھ میں ہے اور میں تجھ میں ہوں وہ بھی ہم میں ہوں۔ میں ان میں اور تو مجھ میں تا کہ وہ کامل ہو کر ایک ہو جائیں۔“
(انجیل یوحنا 17:21-23)
ان عبارات کے مطابق: باپ ہے مسیح میں اور مسیح ہے شاگردوں میں۔ جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ باپ ہے شاگردوں میں۔ اس کو منطق کی اصطلاح میں یوں سمجھیں کہ A برابر ہے B کے اور B برابر ہے C کے، لہٰذا A برابر ہوا C کے۔ کیا کوئی مسیحی ہے جو ان جملوں کے سبب حواریوں کو بھی خدا مانے؟
بائبل کے مزید حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں:
”خدا کو کبھی کسی نے نہیں دیکھا، اگر ہم ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں تو خدا ہم میں رہتا ہے اور اس کی محبت ہمارے دل میں کامل ہو گئی ہے، چونکہ اس نے اپنے روح میں سے ہمیں دیا ہے۔ اس سے ہم جانتے ہیں کہ ہم اس میں قائم رہتے ہیں اور وہ ہم میں اور ہم نے دیکھ لیا ہے اور گواہی دیتے ہیں کہ باپ نے بیٹے کو دنیا کا منجی کر کے بھیجا ہے۔ جو کوئی اقرار کرتا ہے کہ یسوع خدا کا بیٹا ہے خدا اس میں رہتا ہے۔ “
” اور وہ خدا میں، جو محبت خدا نے ہم سے کی اس کو ہم جان گئے اور ہمیں اس کا یقین ہے، خدا محبت ہے اور جو محبت میں قائم رہتا ہے وہ خدا میں قائم رہتا ہے اور خدا اس میں قائم رہتا ہے۔“
(یوحنا کا پہلا خط 4:12-16)
پولوس نے لکھا:”ہم زندہ خدا کا مقدس ہیں۔ چنانچہ خدا نے فرمایا کہ میں ان میں بسوں گا اور ان میں چلوں پھروں گا اور میں ان کا خدا ہوں گا اور وہ میری امت ہوں گے۔“
(2-کرنتھیوں 6:16)
ان حوالوں سے واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا ایمان والوں میں رہنا ان کی مدد و تعاون کرنا اور ان کے ارادے کو اپنے ارادے کے مطابق کرنا ہے۔ اگر اس اتحاد سے الوہیت لازم آتی ہے تو پھر تمام حواری، تمام اہل کرنتھیوں، بلکہ تمام نیک لوگ خدا ہوئے۔ اسی طرح جناب عیسیٰ علیہ السلام میں خدا کے ہونے کا یہی مفہوم ہے کہ ان کا ہر قول و فعل اللہ تعالیٰ کی مشیت، تائید، محبت اور رضا مندی سے ہے، نیز ان دونوں کا ہدف و ارادہ بھی ایک ہے۔

پانچواں شبہ: جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا

عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا: ”جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا۔“
(انجیل یوحنا 14:9)
دوسری جگہ ہے:مسیح ان دیکھے خدا کی صورت ہے۔
(کیلسیوں 1:15)
جواب:
اس جملے کی حقیقت جاننے سے قبل مکمل عبارت سامنے ہونا نہایت ضروری ہے۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام زندگی کے آخری کھانے میں اپنے شاگردوں سے گفتگو کر رہے ہیں: تمھارا دل نہ گھبرائے تم خدا پر ایمان رکھتے ہو مجھ پر بھی ایمان رکھو میرے باپ کے گھر میں بہت سے مکان ہیں اگر نہ ہوتے تو میں تم سے کہہ دیتا کیونکہ میں جاتا ہوں تا کہ تمھارے لیے جگہ تیار کروں اور اگر میں جا کر تمھارے لیے جگہ تیار کروں تو پھر آ کر تمھیں اپنے ساتھ لے لوں گا تا کہ جہاں میں ہوں وہاں تم بھی ہو، توما (حواری) نے اس سے کہا اے خداوند ہم نہیں جانتے کہ تو کہاں جاتا ہے پھر راہ کیسے جانیں؟ یسوع نے اسے کہا کہ راہ اور حق اور زندگی میں ہوں، کوئی میرے وسیلے کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا اگر تم نے مجھے جانا ہوتا تو میرے باپ کو بھی جانتے اب اسے جانتے ہو اور دیکھ لیا ہے، فلپس (حواری) نے اس سے کہا اے خداوند باپ کو ہمیں دکھا یہی ہمیں کافی ہے، یسوع نے اس سے کہا اے فلپس میں اتنی مدت سے تمھارے ساتھ ہوں کیا تو مجھے نہیں جانتا جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا تو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھا، کیا تو یقین نہیں کرتا کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ یہ باتیں جو میں تم سے کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے۔
( یوحنا 14:1-10)
اس سیاق کو مدنظر رکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہاں مجازی تعبیر ہے نہ کہ حقیقی کیونکہ:
اول:مسیح علیہ السلام کو خدا کہنے والے حضرات کا کہنا ہے کہ نظر آنے والا ظاہری جسم خدا نہیں تھا کیونکہ اس کا تو نہ کوئی جسم ہے اور نہ ہی کوئی حد بندی نیز نہ ہی وہ نظر آسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ بھی اس زیر بحث جملے کی تأویل کرتے ہیں کہ مراد معرفت ہے، یعنی جس نے میری لاہوتی (خدائی) حیثیت پہچانی اس نے باپ کو پہچان لیا۔
لیکن پیچھے تفصیل سے گزر چکا ہے کہ ایک ہی شخص ایک ہی وقت میں انسان بھی ہو اور خدا بھی ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا، لہٰذا یہ تأویل باطل ہوئی، لامحالہ کوئی ایسی تأویل کرنی پڑے گی جسے عقل بھی تسلیم کرے اور اناجیل بھی اس پر شاہد ہوں۔
دوم: اناجیل کے حسب ذیل حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں تا کہ مجازی معنی اور تأویل سمجھنے میں آسانی ہو:
① اپنے ستر شاگردوں کو دو دو کر کے تبلیغی دورے پر بھیجنے سے قبل جناب مسیح علیہ السلام نے ان کو چند نصیحتیں کیں ایک بات یہ بھی تھی: ”جو تمھاری سنتا ہے وہ میری سنتا ہے اور جو تمھیں نہیں مانتا وہ مجھے نہیں مانتا اور جو مجھے نہیں مانتا وہ میرے بھیجنے والے کو نہیں مانتا۔“
(لوقا 10:16)
② دوسری انجیل میں یوں ہے: ”جو تم کو قبول کرتا ہے وہ مجھے قبول کرتا ہے اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے۔“
(متی 10:40)
③ جناب مسیح علیہ السلام اپنے شاگردوں کو بات سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں: ”جو کوئی اس بچے کو میرے نام پر قبول کرتا ہے وہ مجھے قبول کرتا ہے اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے۔“
(لوقا 48 : 9)
یہ اور اس طرح کے دیگر حوالہ جات دیکھ کر کوئی احمق ہی ان سب میں مسیح علیہ السلام کا حلول تسلیم کرے گا یا ان کی ذات ایک قرار دے گا۔
صحیح و درست بات یہ ہے کہ جب کوئی اپنے کام کے لیے کسی کو مقرر کرتا اور کہیں بھیجتا ہے تو جو اس کے ساتھ معاملہ ہوگا وہ درحقیقت بھیجنے والے کے ساتھ سمجھا جاتا ہے۔ یہی مفہوم زیر بحث قول میں ہے کیونکہ انھوں نے اس جگہ کی نشاندہی فرمائی جہاں یہ جانے والے تھے اور وہ تھا خدا کے پاس تو ان کے شاگرد توما نے پوچھا ہمیں تو اس جگہ کا علم نہیں وہاں جانے کا راستہ کہاں سے معلوم ہوگا (فقرہ 5) تو پھر جناب مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ راہ اور حق اور زندگی میں ہوں (فقرہ 6) یعنی اللہ تعالیٰ کے قریب جگہ پانے کے لیے راستہ میری تعلیم، افعال و کردار ہے، اس لیے تو آگے فرمایا: ”کوئی میرے وسیلے کے بغیر باپ کے پاس نہیں آتا۔“ (فقرہ 6) برنبی کی یہی شان ہوتی ہے کہ اس کے نقش قدم پر چلے بغیر کوئی بھی خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا، جناب مسیح علیہ السلام نے آگے فرمایا: ”اگر تم نے مجھے جانا ہوتا تو میرے باپ کو بھی جانتے۔ اب اسے جانتے ہو اور دیکھ لیا ہے۔“ (فقرہ 7) ان جملوں پر غور کریں، بعینہٖ وہی بات ہے جو ابھی تأییدی حوالہ جات کے ضمن میں کہی گئی کہ مقرر کیے ہوئے شخص کے ساتھ جو بھی معاملہ ہوگا وہ بھیجنے والے کے ساتھ ہی سمجھا جاتا ہے۔
ان کے دوسرے شاگرد جناب فلپس نے مطالبہ کر دیا کہ باپ کو ہمیں دکھا بس یہی کافی ہے۔ (فقرہ 8)
یہاں جناب مسیح علیہ السلام بڑے متعجب ہو کر جواب دیتے ہیں: ”اے فلپس میں اتنی مدت سے تمھارے ساتھ ہوں کیا تو مجھے نہیں جانتا؟ جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا۔“ (فقرہ 9)
یعنی کسی بھی نبی کی تعلیم، اس کا اخلاق، اس کے معجزات وغیرہ ان میں خدا تعالیٰ ہی نظر آتا ہے کیونکہ اس نے ہی نبی کو بھیجا ہوتا ہے۔
اس مفہوم کی مزید تأیید بائبل کی یہ گواہی بھی دیتی ہے:
(1) خدا کو کسی نے کبھی نہیں دیکھا۔
(یوحنا1 : 18)
(2) اسی طرح کی بات یوحنا کے پہلے خط (4:12) میں بھی ہے۔
بلکہ ایک جگہ یوں لکھا ہے: ”نہ اسے کسی انسان نے دیکھا اور نہ ہی دیکھ سکتا ہے۔“
(1-تیمتھیس 6:16)
تو جب خدا تعالیٰ کو کوئی دیکھ نہیں سکتا تو جناب عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھنے سے وہ کیسے نظر آسکتا ہے؟ لامحالہ زیر بحث جملے کا وہی مطلب لیا جائے گا جو ابھی بتایا گیا۔
(3) بلکہ اس سے بھی واضح طور پر جناب عیسیٰ علیہ السلام خود فرماتے ہیں:
”لیکن میرے پاس جو گواہی ہے وہ یوحنا کی گواہی سے بڑی ہے کیونکہ جو کام باپ نے مجھے پورے کرنے کو دیے یعنی یہی کام جو میں کرتا ہوں وہ میرے گواہ ہیں کہ باپ نے مجھے بھیجا ہے اور باپ جس نے مجھے بھیجا ہے اس نے میری گواہی دی ہے۔ تم نے نہ کبھی اس کی آواز سنی ہے اور نہ اس کی صورت دیکھی۔“
( یوحنا 5:36-37)
اگر جناب عیسیٰ علیہ السلام ہی خدا ہیں تو یہودیوں کے سامنے آخری جملے کا کیا مطلب؟ حالانکہ وہ ان کی آواز بھی بن رہے تھے اور ان کی صورت بھی دیکھ رہے تھے۔ اب دو باتیں ہیں:
➊ زیر بحث جملے کا وہی مطلب لیا جائے جو کہ بائبل اور عقل دونوں کے مطابق ہے یعنی مجازی مفہوم۔
➋یا پھر اس حوالے میں جناب مسیح علیہ السلام یہودیوں سے جھوٹ نعوذ بالله من ذلك بول رہے ہیں۔
(4) مزید تقویت اس حوالے سے ہوتی ہے: جناب مسیح علیہ السلام اپنے شاگردوں کو یہودیوں پر حجت تمام ہونے کی بات بتلا رہے ہیں:
”اگر میں نہ آتا اور ان سے کلام نہ کرتا تو وہ گنہگار نہ ہوتے لیکن اب ان کے پاس ان کے گناہ کا کوئی عذر نہیں جو مجھ سے عداوت رکھتا ہے وہ میرے باپ سے بھی عداوت رکھتا ہے اگر میں ان میں وہ کام نہ کرتا جو کسی دوسرے نے نہیں کیے تو وہ گنہگار نہ ہوتے مگر اب تو انھوں نے مجھے اور میرے باپ دونوں کو دیکھا اور دونوں سے عداوت رکھی۔“
( یوحنا 22:15-24)
یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے کاموں کے ذریعے خدا تعالیٰ کو دکھا رہے ہیں اور انہی کاموں کو اپنے سچے ہونے کی دلیل بنا رہے ہیں اور یہی مفہوم زیر بحث جملے (جس نے مجھے دیکھا اس نے باپ کو دیکھا) کا بھی ہے۔
(5) شبہ میں پیش کیے گئے حوالے کو جب دیکھتے ہیں تو اپنی بات کو واضح کرتے ہوئے جناب عیسیٰ علیہ السلام نے فلپس کو آگے فرمایا:
”تو کیونکر کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دکھا؟ کیا تو یقین نہیں رکھتا کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے؟ یہ باتیں جو میں تم سے کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے۔ میرا یقین کرو کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں۔“ (فقرہ 9-11)
یعنی مسیح علیہ السلام اپنی طرف سے نہ کوئی بات کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی کام، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، اور ہر نبی کی یہی شان ہوتی ہے۔ باقی رہ گیا یہ جملہ کہ میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں اس کی تفصیل کے لیے سابقہ شبہ اور اس کا جواب ملاحظہ فرمائیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انجیل کی زبان میں ایسا جملہ وہاں بولا جاتا ہے جہاں دونوں افراد کا مقصد، ارادہ اور ہدف ایک ہو۔
سوم: اگر کوئی مسیحی پھر بھی ضد کرتا ہے تو الزامی طور پر ہم کہیں گے بائبل کے مطابق کسی بھی انسان کو دیکھنے سے خدا کو دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ انسان کو خدا نے اپنی صورت پر بنایا ہے۔
(پیدائش 1:26، 1-کرنتھیوں 11:7، یعقوب کا خط 3:9)
اگر مسیح علیہ السلام کو دیکھنے سے خدا نظر آتا ہے تو پھر ہر انسان خدا ہو!
بائبل کی اصطلاح میں خدا کے کسی خاص بندے کو دیکھنا گویا خدا کو دیکھنا ہوتا ہے مثلاً یعقوب علیہ السلام نے ایک شخص سے کشتی لڑی ساری رات مقابلہ ہوتا رہا وہ شخص غالب نہ آسکا تو وان روشن ہونے کے ڈر سے یعقوب علیہ السلام کو برکت دے کر جان چھڑائی اور پھر اس جگہ کا نام فنی ایل رکھا اس کی وجہ یہ بتائی کہ میں نے خدا کو روبرو دیکھا تو بھی میری جان بچی رہی۔
(پیدائش 32:24-32)
لیکن یہی واقعہ ہوشع نبی نے بیان کیا تو واضح طور پر کہا کشتی لڑنے والا شخص فرشتہ تھا۔
(ہوشع 12:3-4)
اسی طرح منوحہ نے خدا کا فرشتہ دیکھا تو جب وہ اوپر چلا گیا تو کہا ہم نے خدا کو دیکھا۔
(قضاۃ 13:15 – 22)
اسی طرح جناب عیسیٰ علیہ السلام کے زیر بحث جملے کا مطلب ہے کیونکہ وہ بھی خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے خاص بندے تھے۔ جیسا کہ انھوں نے خود کہا: ”اور جو مجھے دیکھتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو دیکھتا ہے۔“
(یوحنا 45:12)

چھٹا شبہ: میں اوپر کا ہوں دنیا کا نہیں ہوں

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا تھا: ”تم نیچے کے ہو، میں اوپر کا ہوں تم دنیا کے ہو میں دنیا کا نہیں ہوں۔“
( یوحنا 7:23)
معلوم ہوا جناب عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں آسمان سے آئے ہیں اور انسانی روپ دھارا لہٰذا خدا ہوئے۔

جواب:

اول: اس طرح کا جملہ تو انھوں نے اپنے شاگردوں کے لیے بھی کیا ہے۔ کیا وہ بھی خدا ہیں؟
جناب مسیح علیہ السلام نے اپنے حواریوں کو فرمایا: ”اگر تم دنیا کے ہوتے تو دنیا اپنوں کو عزیز رکھتی لیکن چونکہ تم دنیا کے نہیں بلکہ میں نے تم کو دنیا میں سے چن لیا ہے اس واسطے دنیا تم سے عداوت رکھتی ہے۔“
( یوحنا 15:19)
آگے جا کر خدا تعالیٰ سے مخاطب ہوئے (ان کا خدا کو پکارنا بھی بتاتا ہے کہ خود خدا نہیں) ”میں نے تیرا کلام انھیں پہنچا دیا اور دنیا نے ان سے عداوت رکھی اس لیے کہ جس طرح میں دنیا کا نہیں وہ بھی دنیا کے نہیں میں یہ درخواست نہیں کرتا کہ تو انھیں دنیا سے اٹھا لے بلکہ یہ کہ اس شریر سے ان کی حفاظت کر جس طرح میں دنیا کا نہیں وہ بھی دنیا کے نہیں۔“
(انجیل یوحنا 17:14-16)
اس جملے کی صحیح تعبیر یہ ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام اور ان کے حواری اس دنیا کے طالب و لالچی نہیں بلکہ ان کا مطمع نظر آسمان کی بادشاہت اور ابدی زندگی ہے جو کہ آخرت میں نصیب ہوگی۔ دنیا سے بے رغبت انسان کو ہمارے ہاں بھی کہہ دیا جاتا ہے یہ کونسا اس دنیا کا باسی لگتا ہے یہ تو کسی دوسرے جہاں سے یہاں آیا ہے۔
دوم: فرشتے بھی تو دنیا کے نہیں بلکہ اوپر کے ہیں اور بسا اوقات انسانی روپ بھی دھار لیتے ہیں تو کیا وہ بھی خدا ہوئے؟ مسیحی انھیں خدا ماننے کے لیے تیار ہے؟

ساتواں شبہ: آسمان سے اترا

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ”آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سوائے اس کے جو آسمان سے اترا یعنی ابن آدم جو آسمان میں ہے۔“
( یوحنا 3:13)
جواب:
یہاں دو جملوں سے استدلال کیا جاتا ہے:
(1) جو آسمان میں ہے۔
(2) جو آسمان سے اترا۔
جو آسمان میں ہے: انجیل یوحنا کے پرانے مخطوطات میں یہ جملہ موجود ہی نہیں بعد کے کسی زمانے میں اسے شامل کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق کے بعد ان کی طرف سے شائع ہونے والے تراجم میں یہ جملہ اب حذف کر دیا گیا ہے۔
مثلاً اردو میں جیولنکس بائبل طبع 2015ء، عربی میں الكتاب المقدس طبع لبنان 1993ء، انگریزی میں RSV، انگریزی میں NIV وغیرہ دیکھے جا سکتے ہیں لہٰذا یہ جملہ الحاقی ہونے کے سبب اپنی قدر و قیمت کھو چکا ہے۔ لیکن اگر کوئی مسیحی پھر بھی اسی جملے پر ضد ہو تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے آسمان پر تو فرشتے بھی ہیں۔ بائبل کے مطابق ایلیا نبی آسمان پر اٹھائے گئے تھے۔
(2-سلاطین 2:11)
خدا کی تلوار آسمان میں ہے۔
(یسعیا 34 : 5)
آسمان میں پانی ہیں۔
(یرمباہ 13 : 10)
آسمان میں قوتیں ہیں۔
(مرقس 13:25)
کیا یہ سب خدا ہیں؟

آسمان سے اترا:

اگر اس کو خدائی کی دلیل بناتا ہے تو پھر روزانہ آسمان سے اترنے والے فرشتے بھی خدا ہوئے۔ اسلام ہی نہیں بلکہ اہل بائبل کا بھی یہی نظریہ ہے کہ فرشتے آسمان سے اترتے ہیں اصل صورت میں ہی نہیں بلکہ انسانی روپ میں بھی اترتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ آسمان سے کسی چیز کا آنا اس کی خدائی کی دلیل نہیں ہوتا۔ اس انجیل کے دوسرے مقام سے زیر بحث جملے کی تشریح ہوتی ہے کہ آسمان سے آنے کا مطلب خدائی نہیں بلکہ انسانوں کی نجات کا ذریعہ ہے اور یہ کام تو ہر نبی کا ہے۔ جناب عیسیٰ علیہ السلام خود فرماتے ہیں:
”میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ موسیٰ نے تو وہ روٹی آسمان سے تمھیں نہ دی لیکن میرا باپ تمھیں آسمان سے حقیقی روٹی دیتا ہے۔ کیونکہ خدا کی روٹی وہ ہے جو آسمان سے اتر کر دنیا کو زندگی بخشتی ہے۔“ انھوں نے اس سے کہا: ”اے خداوند یہ روٹی ہم کو ہمیشہ دیا کر۔“ یسوع نے ان سے کہا: ”زندگی کی روٹی میں ہوں جو میرے پاس آئے وہ ہرگز بھوکا نہ ہوگا اور جو مجھ پر ایمان لائے وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا۔“
(انجیل یوحنا 6:32-35)
زیر بحث جملے کو اگر ابتدائے باب سے پڑھیں گے تو یہی بات آپ کے سامنے آئے گی کہ جناب مسیح علیہ السلام ایک فریسی عالم کو روحانی زندگی (نجات) ملنے کی بات سمجھا رہے ہیں۔

آٹھواں شبہ:دنیا کی پیدائش سے پہلے

مسیح علیہ السلام نے فرمایا: ”میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ اس سے پہلے کہ ابراہیم پیدا ہوا میں ہوں۔“
( یوحنا 8:58)
جناب یوحنا علیہ السلام نے فرمایا تھا: ”جو میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے مقدم ٹھہرا کیونکہ وہ مجھ سے پہلے تھا۔“
(یوحنا 1:15)
آگے جا کر جناب مسیح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی: ”اور اب اے باپ تو اس جلال سے جو میں دنیا کی پیدائش سے پیشتر تیرے ساتھ رکھتا تھا مجھے اپنے ساتھ جلالی بنا دے۔“
( یوحنا 17:5)
جواب:
(1) کسی بھی شخصیت کا حضرت یحیی، حضرت ابراہیم اور حضرت آدم علیہ السلام بلکہ تخلیق کائنات سے پہلے ہونا اس کے خدا ہونے پر دلالت نہیں کرتا زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین و آسمان یا پھر جنس بشر کی پیدائش سے قبل اللہ تعالیٰ نے اس کو پیدا کیا تھا۔
(2) اس طرح کے الفاظ قرب اور خصوصی تعلق پر تو رہنمائی کرتے ہیں اس کے خدا ہونے کی الگ دلیل درکار ہے جو مذکورہ عبارات میں ہرگز نہیں۔ اس کی تائید انجیل یوحنا سے یوں ہوتی ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: ”اے باپ میں چاہتا ہوں کہ جنھیں تو نے مجھے دیا ہے جہاں میں ہوں وہ بھی میرے ساتھ ہوں تا کہ میرے اس جلال کو دیکھیں جو تو نے مجھے دیا ہے کیونکہ تو نے بنائے عالم سے پیشتر مجھ سے محبت رکھی۔“
(یوحنا 17:24)
پہلے ہونے سے جہاں خصوصی تعلق کی نشاندہی ہوتی ہے وہاں علم النبی کی قدامت واضح کرنا بھی مقصود ہے یعنی تمام مخلوقات کی پیدائش سے قبل بھی خدا تعالیٰ مجھے جانتا تھا۔ اسی طرح کا مفہوم اسلام میں بھی ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان عالی شان میں ہے: ”میں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے مابین تھے۔“
(صحیح ترمذی البانی رقم 3609)
(3) سیدنا ابراہیم سے پہلے ہونے کا مطلب یا تو لاہوت (الہی حیثیت) کے اعتبار سے ہے، یا پھر ناسوت (انسانی حیثیت) کے لحاظ سے ہے یا پھر دونوں کے مجموعے کے ساتھ ہے۔
لاہوت ہو نہیں سکتا کیونکہ خدا کو تو کوئی دیکھ نہیں سکتا۔
(تیمتھیس 16 : 6)
جبکہ شبہ میں پیش کردہ پہلے حوالے میں جناب مسیح علیہ السلام نے خود بتایا ہے کہ ابراہیم میرا دن دیکھنے کی امید پر بہت خوش تھا۔
(یوحنا 8:57)
لامحالہ اس سے جناب مسیح علیہ السلام کی بعثت کے ایام مراد ہیں اور یہ جناب ابراہیم کے سینکڑوں سال بعد ہوئی، اس بات کو جناب مسیح علیہ السلام نے اپنے شاگردوں کے سامنے کھول کر اس طرح بیان کیا: ”میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ بہت سے نبیوں اور راستبازوں کو آرزو تھی کہ جو کچھ تم دیکھتے ہو دیکھیں مگر نہ دیکھا اور جو باتیں تم سنتے ہو سنیں مگر نہ سنیں۔“
(متی 17:13)
ایسے ہی ناسوت (انسانی حیثیت) کے ساتھ بھی تقدم نہیں جو لاہوت سے الگ ہے کیونکہ یہ عیسائی حضرات کے عقیدے کے برعکس ہے، اور یہ بھی کہ جناب مسیح علیہ السلام کی پیدائش حضرت ابراہیم کے کئی صدیوں بعد ہوئی، لہٰذا یہ صورت بھی نہیں۔
اب رہ جاتی ہے دونوں حیثیتوں کے مطابق تو اس کے لیے جناب مسیح علیہ السلام کی پیدائش ضروری ہے اور یہ تو حضرت ابراہیم کے کئی صدیوں بعد ہوئی یہ تینوں صورتیں نہیں تو فقط ایک ہی رہ جاتی ہے جو ان تینوں سے الگ اور عقل و دانش کے مطابق بھی ہے یعنی قبل از ابراہیم ہونے کا مطلب جناب مسیح علیہ السلام کی بعثت کے ایام اللہ تعالیٰ کے قدیم علم میں پہلے سے ہی ہیں۔
اعتراض:
اگر کوئی اس طرح جواب دینے کی کوشش کرے کہ جناب ابراہیم نے جس دن دیکھنے کی خواہش کی تھی اس کو دیکھا اور خوش بھی ہوا تھا جیسا کہ (یوحنا 8:56) میں لکھا ہوا ہے، معلوم ہوا ان کو دیگر انبیاء کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا جنھوں نے خواہش تو کی لیکن دیکھ نہیں سکے۔
جواب:
اس اعتراض کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے ہم ایک سوال کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم نے کس کو دیکھا تھا، لاہوت کو یا ناسوت کو یا دونوں کے مجموعے کو؟ لاہوت تو ایسی چیز ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی کیونکہ خدا تعالیٰ کو کوئی نہیں دیکھ سکتا اور اگر ناسوت (انسانی جسم) مراد ہے تو پھر خدا کا بیٹا مجسم کب ہوا؟ اگر جناب ابراہیم سے پہلے یا ان کے زمانے میں تسلیم کریں تو پھر کنواری مریم کے گھر میں جو جسم پیدا ہوا وہ کس کا ہے؟ خدا (بقول مسیحی حضرات) تو پہلے ہی جسم اختیار کر چکا تھا؟ اور پھر یہ کونسی لاجک ہے کہ پہلی مرتبہ مجسم ہونے کے لیے پیدائش کی ضرورت نہیں سمجھی گئی جبکہ دوسری مرتبہ لازمی ہے؟
اور اگر دونوں کے مجموعے کے لحاظ سے دیکھنا مراد ہے تو یہ عمل جناب ابراہیم کے سینکڑوں سال بعد ہوا وہ پہلے کیسے دیکھ سکتے ہیں؟ لامحالہ وہی بات مراد لی جائے گی جس کی صراحت کر دی گئی۔
(4) ابراہیم علیہ السلام دیگر انبیاء اور دنیا کی پیدائش سے پہلے ہونا خدائی کی دلیل ہے تو پھر ملکی صدق بھی خدا ہونا چاہیے کیونکہ اس کے متعلق بائبل کہتی ہے: ”یہ بے باپ بے ماں بے نسب نامہ ہے نہ اس کی عمر کا شروع نہ زندگی کا آخر بلکہ خدا کے بیٹے کے مشابہ ٹھہرا۔“
(عبرانیوں 7:3)
بلکہ فرشتے اور جنات وغیرہ بھی تو پہلے تھے، ان کے متعلق کیا خیال ہے؟

نواں شبہ:میں ہوں

مسیحی حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام نے ”میں ہوں“ کا لفظ استعمال کیا ہے جو کہ خدا تعالیٰ کے لیے خاص ہے، لہٰذا یہ خدا ہوئے۔
(خروج 3:14)
جواب:
(1) بائبل سے یہ بات تو معلوم ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنا ایک نام یہ بتایا ہے۔
(خروج 13 : 3 – 15)
لیکن یہ کہیں نہیں لکھا یہ خاص نام ہے اور نہ ہی جناب مسیح علیہ السلام نے اس کو اپنے لیے بطور نام یہاں بولا پچھلے شبہ کے تحت عبارت گزری ہے ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
(2) ہمارے معاشرے میں عام بات ہے جب دروازہ کھٹکھٹایا جاتا ہے تو اندر سے پوچھتے ہیں کون؟ باہر والا اگر واقف کار ہے تو عموماً جواب دیتا ہے ”میں ہوں“ تو اس کو خدا تسلیم کر لیں؟
(3) اگر بائبل کو دیکھیں تو یہی لفظ حضرت ابراہیم علیہ السلام (پیدائش 22:11) حضرت موسیٰ علیہ السلام (خروج 3:4) اور جناب مسیح علیہ السلام کے شاگردوں نے بھی اپنے لیے بولا ہے۔
(متی 22 : 26)
ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے لیے انگلش بائبل دیکھیں کیونکہ اردو تراجم میں لکھ دیا گیا ہے ”میں حاضر ہوں“ جبکہ حواریوں کے لیے اردو بائبل بھی دیکھی جا سکتی ہے۔
(4) خدا تعالیٰ نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو یہ نام بتایا تو وہاں پر ”میں ہوں“ نہیں بلکہ ”میں جو ہوں“ لکھا ہے۔
(خروج 13 : 3 – 15)
لہٰذا استدلال نہیں ہو سکتا۔

دسواں شبہ: مسیح علیہ السلام کو خدا کہا گیا

جناب مسیح علیہ السلام نے یہودیوں کو کہا تھا: ”مسیح کو کس طرح داؤد کا بیٹا کہتے ہیں داؤد تو زبور میں کہتا ہے کہ خداوند نے میرے خداوند سے کہا: میری دہنی طرف بیٹھ جب تک میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں تلے کی چوکی نہ کر دوں پس داؤد تو اسے خداوند کہتا ہے پھر وہ اس کا بیٹا کیونکر ٹھہرا؟“
(لوقا 20 : 41 – 43)
الجواب:
(1) جناب عیسیٰ علیہ السلام نے زبور کی جس عبارت کو اپنے حق میں پیش گوئی قرار دیا ہے درحقیقت یہ الوہیت کی نفی پر دلالت کرتی ہے، ذرا غور فرمائیں۔ یہ حوالہ (زبور 110:1) میں ہے، اب انہی کے مطابق اس عبارت کو دیکھیں، خداوند نے (یعنی اللہ تعالیٰ) نے میرے خداوند (یعنی حضرت مسیح علیہ السلام ) سے کہا: میری دہنی طرف بیٹھ۔ الخ۔
دوسرا لفظ خداوند کو حقیقی اللہ کے معنی میں لینا قطعاً درست نہیں کیونکہ پھر مطلب ہوا کہ خدا اپنے آپ کو کہہ رہا ہے کہ میری داہنی طرف بیٹھ، اور اگر یہ حقیقی خدا سے الگ کوئی ذات ہے اور وہ بھی حقیقی خدا ہے تو پھر خدا میں کثرت لازم آئی جو کہ ہرگز درست نہیں نیز یہ (مسیح علیہ السلام )کیسا حقیقی خدا ہے کہ اپنے دشمنوں کو زیر نہیں کر سکتا بلکہ دوسرے خدا کے تعاون کی ضرورت پڑی؟
(2) لامحالہ اس کا دوسرا مفہوم لیا جائے گا جو توحید کے منافی نہ ہو اور وہ ہے کہ جناب مسیح علیہ السلام یہودیوں کے سامنے اپنا مقام و مرتبہ واضح کر رہے ہیں کہ محض مجھے داؤد کا بیٹا کیوں سمجھتے ہو حالانکہ خود داؤد نے مجھے بنی اسرائیل کے لیے معلم، استاد اور رہبر قرار دیا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ کئی مقامات پر جناب مسیح علیہ السلام کو ربی (میرا خداوند) کہہ کر استاد مراد لیا گیا ہے چنانچہ لکھا ہے: یسوع نے پھر کر اور انھیں پیچھے آتے دیکھ کر ان سے کہا تم کیا ڈھونڈتے ہو؟ انھوں نے اس سے کہا اے ربی (یعنی اے استاد) تو کہاں رہتا ہے۔
(یوحنا 38 : 1)
نوٹ: یاد رہے کہ ربی کی تفسیر جو بریکٹ میں کی گئی (یعنی اے استاد) یہ بائبل میں ہے میری طرف سے نہیں۔
اسی طرح مریم مجدلیہ نے جناب یسوع کو ”ربونی“ کہہ کر پکارا اور اس کا ترجمہ کیا گیا یعنی اے استاد۔
(یوحنا 20 : 16)
اس کی مزید تأیید یوں ہوتی ہے کہ عربی بائبل میں (زبور 110:1) کے درج بالا حوالے کا ترجمہ اس طرح ملتا ہے: قال الرب لسیدی یعنی خدا تعالیٰ نے میرے سید (سردار اور رہنما) کو کہا۔ یعنی عبرانی سے عربی ترجمہ کرنے والے سیمی سکالرز بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ یہاں آنے والا دوسرا لفظ خداوند حقیقی خدا کے لیے نہیں۔
اگر آپ بائبل دیکھیں تو جس زبور کا حوالہ ہے وہاں پہلے خداوند کے لیے یہوواہ اور دوسرے کے لیے ادونائی لکھا ہے، اور یہ لفظ ہرگز حقیقی خدا کے لیے خاص نہیں بلکہ رہبر و رہنما کے لیے بھی مستعمل ہے جیسا کہ عزرا (حضرت عزیر علیہ السلام) کو ادونائی کہا گیا (عزرا 10:3 عبرانی بائبل) کیا یہ بھی حقیقی خدا ہوئے؟ شاید یہی وجہ ہے کہ بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور سے شائع شدہ اردو ترجمہ یوں کیا گیا: یہوواہ نے میرے خداوند سے کہا (زبور 110:1)۔
اگر پھر بھی کوئی مسیحی ضد کرے تو اس کے لیے بائبل کے حسب ذیل حوالہ جات کافی ہوں گے جس میں دیگر انبیاء و صالحین وغیرہ کو خداوند کہا گیا۔ مثلاً ابراہیم علیہ السلام (پیدائش 23:11، 15؛ 2-پطرس 2:6) حضرت اسحاق علیہ السلام کا بڑا بیٹا جناب عیسو (پیدائش 32:4، 5، 18) شاہ مصر (پیدائش 40:1) یوسف علیہ السلام (پیدائش 42:10، 30، 33؛ 44:18) سیسرا (قضاۃ 4:18) داؤد علیہ السلام (2-سموئیل 1:10) نبوکد نضر (دانی ایل 1:10؛ 4:19، 24) بادشاہ (متی 29:18) مالک و آقا (متی 20:25؛ 22:24؛ لوقا 22:14؛ 18:16، 19، 20، 25) پیلاطس گورنر (متی 27:63)۔
سوال:
زیر بحث حوالے میں دوسرے لفظ خداوند کے لیے یونانی میں کوریوس استعمال ہوا ہے جو صرف حقیقی خدا کے لیے آتا ہے۔
جواب:
یہ ہرگز درست نہیں تفصیل آگے (ص 84 )پر دیکھیں۔

گیارہواں شبہ: جناب مسیح علیہ السلام کو گناہ معاف کرنے کا اختیار تھا۔ اور یہ کام صرف خدا کر سکتا ہے

جواب:
اول: تفصیل میں جانے سے قبل مسیحی استدلال والی مکمل عبارت اور واقعہ مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے۔
➊ پھر وہ کشتی پر چڑھ کر پار گیا اور اپنے شہر میں آیا۔
➋ اور دیکھو لوگ ایک مفلوج کو چارپائی پر پڑا ہوا اس کے پاس لائے۔ یسوع نے ان کا ایمان دیکھ کر مفلوج سے کہا بیٹا خاطر جمع رکھ تیرے گناہ معاف ہوئے۔
➌ اور دیکھو بعض فقہاء نے اپنے دل میں کہا یہ کفر بکتا ہے۔
➍ یسوع نے ان کے خیال معلوم کر کے کہا کہ تم کیوں اپنے دلوں میں برے خیال لاتے ہو؟
➎ آسان کیا ہے۔ یہ کہنا کہ تیرے گناہ معاف ہوئے یا یہ کہنا کہ اٹھ اور چل پھر؟
➏ لیکن اس لیے کہ تم جان لو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے (اس نے مفلوج سے کہا) اٹھ، اپنی چارپائی اٹھا اور اپنے گھر چلا جا۔
➐ وہ اٹھ کر اپنے گھر چلا گیا۔
➑ لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے اور خدا کی تمجید کرنے لگے جس نے آدمیوں کو ایسا اختیار بخشا۔
(متی 1 : 9 – 8)
اول: یہاں دو باتیں قابل غور ہیں
① جناب عیسیٰ علیہ السلام نے اس مفلوج کو یہ نہیں کہا کہ میں نے تمھارے گناہ معاف کر دیے بلکہ اسے گناہ معاف ہونے کی نوید و خوشخبری سنائی، ان دونوں جملوں میں واضح فرق ہے کیونکہ دوسرا جملہ (یعنی خوشخبری سنانے والا) زیادہ سے زیادہ یہ بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مفلوج کے گناہ معاف کیے اور خبر جناب مسیح علیہ السلام نے اس کو دی، اور انبیاء علیہم السلام کا یہی طرز عمل ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیب کی خبریں پا کر لوگوں تک پہنچانا ان کی ذمہ داری ہوتی ہے جیسا کہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی صحابہ کو جنت میں جانے اور گناہوں کی معافی کی خبر دی جبکہ بعض انسانوں کو جہنمی بتلایا۔
② باقی رہ گیا یہ جملہ: تم جان لو کہ ابن آدم کو زمین پر گناہ معاف کرنے کا اختیار ہے، تو یہ نسبت مجازی ہے۔
اس کے قرائن حسب ذیل ہیں۔
(الف) کیونکہ اس قصے کا آخری جملہ ہے کہ وہ لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے اور خدا کی تمجید کرنے لگے جس نے آدمیوں کو ایسا اختیار بخشا دلالت کر رہا ہے کہ حقیقی معافی دینے والا خدا ہے جناب مسیح علیہ السلام تو محض اس کا اعلان کرنے والے تھے۔
(ب) اسی طرح لفظ ابن آدم بھی یہی بتاتا ہے کہ کیونکہ خدا ہرگز اپنے لیے یہ لفظ استعمال نہیں کرتا۔ اور نہ ہی خدا ابن آدم ہوتا ہے۔
(ج) لوگ یہ سمجھے کہ خدا نے انھیں یہ اختیار بخشا، اس کا مطلب ہوا کہ کوئی ایسی ہستی ہے جو جناب مسیح علیہ السلام کو اختیارات سونپتی ہے، اگر یہ خود خدا ہیں تو یہ اختیارات دیتا کون ہے اور لیتا کون ہے؟
(د) اسی طرح ان کی خاموشی بھی یہی بتاتی ہے نیز اگر ان کا اختیار حقیقی تھا تو پھر انھوں نے لوگوں کے لیے گناہوں کی معافی کس خدا سے مانگی؟
چنانچہ انجیل لوقا میں انھیں سولی دینے کا واقعہ لکھا ہے اور اس وقت خدا تعالیٰ سے یوں مخاطب ہوئے: یسوع نے کہا اے باپ ان کو معاف کر کیونکہ یہ جانتے نہیں کہ کیا کرتے ہیں۔
(لوقا 23:34)
دوم: گناہ معاف کرنے کا اختیار تو ان کے شاگردوں کو بھی عطا ہوا تھا کیا وہ بھی خدا ہیں؟ لامحالہ اس نسبت کو یہاں مجازی تسلیم کریں گے، تو جیسے شاگردوں کے حق میں مجازی ہے اسی طرح جناب مسیح علیہ السلام کے حق میں بھی مجازی ہے، شاگردوں کے حوالے سے لکھا ہے: یسوع نے پھر ان سے کہا تمھاری سلامتی ہو جس طرح باپ نے مجھے بھیجا ہے اسی طرح میں بھی تمھیں بھیجتا ہوں اور یہ کہہ کر ان پر پھونکا اور ان سے کہا روح القدس لو، جن کے گناہ تم بخشو ان کے بخشے گئے ہیں، جن کے گناہ تم قائم رکھو ان کے قائم رکھے گئے ہیں۔
(انجیل یوحنا 20:21-23)
مسیحیوں کے سب سے قدیم اور بڑے فرقے کیتھولک نے یہ اختیار مزید وسیع کر دیا اور فادرز کو بھی سونپ دیا گیا لہٰذا کوئی بھی کا فن باکس (Confession box) کے پاس جا کر اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے تو اندر بیٹھا ہوا فادر اس کو معافی دینے کا اعلان کر دیتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر کچھ عرصہ تک یہ لوگ چند روپے لے کر لوگوں کو جنت کی ٹکٹ اور رسید دیتے رہے۔
سوم: جناب مسیح علیہ السلام کو اگر گناہ معاف کرنے کا اختیار تھا تو وہ ازلی گناہ کی معافی بغیر سولی پر جان دیے کیوں نہ کروا سکے؟ نیز درج بالا حوالے میں جن لوگوں کے گناہ معاف کرنے کا اعلان کیا وہ تو صلیب پر ایمان رکھتے ہی نہ تھے، ان کے گناہ معاف کیے ہو گئے؟

بارہواں شبہ: خداوند

شاگرد توما نے جناب مسیح علیہ السلام کو میرے خداوند اے میرے خدا کہہ کر پکارا (یوحنا 20:28) اور انھوں نے کوئی اعتراض نہ کیا، معلوم ہوا وہ خدا تھے، اسی طرح ایک مرتبہ اپنے شاگردوں کو فرمانے لگے تم مجھے استاد اور خداوند کہتے ہو اور خوب کہتے ہو کیونکہ میں ہوں۔
( یوحنا 13 : 13)
جواب:
بائبل میں لفظ خداوند اور خدا مجازی معنوں میں بکثرت مستعمل ہے، لہٰذا اس طرح کا مشترک لفظ حقیقی خدائی کی دلیل نہیں بن سکتا۔ انجیل یوحنا (10:32-35) میں یہ لفظ انبیاء علیہم السلام کے لیے آیا ہے یہی بات زبور (82:6) میں بھی ہے۔ مسیحیوں کی تصنیف ”كليد الكتاب“ (ص 607) کے مطابق یہ لفظ انتیس (29) مرتبہ بائبل میں انسانوں کے لیے بولا گیا ہے۔ تو یہ بھی حقیقی خدا ہوئے۔ مزید تفصیل کے لیے دسواں شبہ دیکھیں۔

جناب مسیح علیہ السلام کے معجزات و احوال:

جناب عیسیٰ علیہ السلام کی الوہیت ثابت کرنے کے لیے کچھ لوگ ان کا مردوں کو زندہ کرنا، اندھوں اور کوڑھیوں کو شفا دینا، بغیر باپ کے پیدا ہونا اور مرنے کے بعد زندہ ہو کر آسمان پر جانا وغیرہ بطور دلیل پیش کرتے ہیں یعنی ان کے حالات و واقعات اور معجزات سے حجت پکڑتے ہیں، حالانکہ بائبل ہی بتاتی ہے کہ انبیاء ایسے بھی ہیں جن کے واقعات و معجزات جناب عیسیٰ علیہ السلام سے بھی بڑے ہیں بلکہ کئی تو انبیاء بھی نہیں جیسا کہ ان کے شاگردوں سے بڑے بڑے معجزات سرزد ہوئے ہیں، تفصیل آگے آرہی ہے۔ کیا یہ بھی خدا ہوئے؟
دوسری طرف بائبل سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ معجزات دکھانے سے تو کوئی نبی اپنی سچائی بھی ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ نبوت کے جھوٹے دعویدار بھی بڑے بڑے معجزات دکھا لیتے ہیں۔ تو جو چیز نبوت کی دلیل نہیں وہ کسی کی خدائی کیسے ثابت کر سکتی ہے؟
تورات میں لکھا ہے: اگر تیرے درمیان کوئی نبی یا خواب دیکھنے والا ظاہر ہو اور تجھ کو کسی نشان یا عجیب بات کی خبر دے اور وہ نشان یا عجیب بات جس کی اس نے تجھ کو خبر دی وقوع میں آئے اور وہ تجھ سے کہے کہ آؤ ہم اور معبودوں کی جن سے تو واقف نہیں پیروی کر کے ان کی پوجا کریں تو تو ہرگز اس نبی یا خواب دیکھنے والے کی بات کو نہ سننا۔ وہ نبی یا خواب دیکھنے والا قتل کیا جائے۔
(استثنا 13:1-4)
عیسیٰ علیہ السلام نے بذات خود صراحت کی: اگر کوئی تم سے کہے کہ دیکھو مسیح یہاں ہے یا وہاں ہے تو یقین نہ کرنا کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے اور ایسے بڑے نشان اور عجیب کام دکھائیں گے کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کر لیں۔
(متی 24:23-24)
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ معجزات کا صدور تو انسانوں سے ہوتا ہے خدا تو اپنی قدرت کا اظہار کرتا ہے۔
اس اصولی تمہید کے بعد ہم ان کے دلائل کو الگ الگ بیان کر کے تجزیہ پیش کرتے ہیں۔

دلیل اول: بغیر باپ کے پیدا ہونا۔

جواب:
(1) باپ کے بغیر معجزانہ پیدائش میں الوہیت کی دلیل ہرگز نہیں کیونکہ مسلمانوں اور مسیحیوں کا اتفاق ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام بغیر ماں اور بغیر باپ کے پیدا ہوئے اس کے باوجود انھیں کوئی خدا نہیں کہتا۔
قرآن مجید نے ان دونوں انبیاء کو تخلیق کے لحاظ سے ہم مثل قرار دیتے ہوئے فرمایا:
إِنَّ مَثَلَ عِيسَىٰ عِندَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ۖ خَلَقَهُ مِن تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُن فَيَكُونُ ‎ ﴿٥٩﴾ ‏ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ فَلَا تَكُن مِّنَ الْمُمْتَرِينَ ‎ ﴿٦٠﴾ ‏
(3-آل عمران:59، 60)
”بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے کہ اسے تھوڑی سی مٹی سے بنایا، پھر اسے فرمایا ہو جا، سو وہ ہو جاتا ہے۔“
بلکہ عہد جدید میں ایک ایسے شخص کا تذکرہ ہے جو کاہن تھا اور اس کا بھی باپ ہے نہ ماں، اس کی ابتدا کا علم ہے نہ انتہا کا، اس کا نام ملکی صدق ہے۔
چنانچہ لکھا ہے: اور یہ ملکی صدق سالم کا بادشاہ خدا تعالیٰ کا کاہن ہمیشہ کا ہن رہتا ہے۔ جب ابراہیم علیہ السلام بادشاہوں کا قتل کر کے واپس آتا تھا تو اس نے اس کا استقبال کیا اور اس کے لیے برکت چاہی، اس کو ابراہیم علیہ السلام نے سب چیزوں کی دسویں دی۔ یہ تو اول اپنے نام کے معنی کے موافق راستبازی کا بادشاہ ہے اور پھر سالم یعنی مصلح کا بادشاہ یہ بے باپ، بے ماں، بے نسب نامہ ہے، نہ اس کی عمر کا شروع نہ زندگی کا آخر بلکہ خدا کے بیٹے کے مشابہ ٹھہرا۔
(عبرانیوں کے نام خط 7:1-3)
یہ انسان ان صفات کے باوجود خدا نہیں تو جناب مسیح علیہ السلام کیسے خدا ہو سکتے ہیں؟ اور بغیر باپ کے پیدائش بطور دلیل کیوں پیش کی جاتی ہے؟
(2) ایک طرف تو ان کو خدا کہا جا رہا ہے اور دوسری طرف دلیل ان کی پیدائش کو بنایا جا رہا ہے، آیا خدا پیدا ہوتا ہے؟ ہرگز نہیں، کسی کا پیدا ہونا بتاتا ہے کہ وہ حادث ہے اور ایک نہ ایک دن وہ ختم ہو جائے گا، جبکہ خدا تعالیٰ میں یہ صفات ماننا اس کی توہین ہے اور شان الوہیت کے خلاف ہے۔
(3) اگر بغیر باپ کے پیدائش خدائی کی دلیل ہے تو امرود اور دیگر پھلوں میں پیدا ہونے والے کیڑے مکوڑے کس کھاتے میں ڈالے جائیں گے؟

دلیل ثانی: معجزات

جواب:
عہد جدید میں جناب مسیح علیہ السلام نے جتنے معجزات اور خارق عادت امور بیان کیے ہیں عہد قدیم میں ان سے بڑے بڑے معجزات سابقہ انبیاء وغیرہ سے نقل کیے گئے۔ اسی طرح عہد جدید میں انہی کے نام سے خارق عادت امور ان کے شاگرد و حواریوں سے بھی رونما ہوتے نظر آتے ہیں بلکہ عیسیٰ علیہ السلام نے ہر کامل ایمان والے سے ان کا صدور ہونا بتایا ہے۔ لکھا ہے:
”اور ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے وہ میرے نام سے بدروحوں کو نکالیں گے نئی نئی زبانیں بولیں گے سانپوں کو اٹھا لیں گے اور اگر کوئی ہلاک کرنے والی چیز پیئیں گے تو انھیں کچھ ضرر نہ پہنچے گا۔ وہ بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو اچھے ہو جائیں گے۔“
(مرقس 16:17-18)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ بھی فرمایا: ”میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا بلکہ ان سے بھی بڑے کام کرے گا کیونکہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں۔“
(انجیل یوحنا 14:12)
مزید فرمایا: ”میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا تو اس پہاڑ سے کہہ سکو گے کہ یہاں سے سرک کر وہاں چلا جا اور وہ چلا جائے گا اور کوئی بات تمھارے لیے ناممکن نہ ہو گی۔“
(متی 17:20)
یہ تو نیک اور ایمان والوں کی بات ہے پیچھے آپ نے بائبل کے حوالے سے بھی پڑھ لیا کہ جھوٹے اور فراڈ کرنے والے لوگ بھی بڑے بڑے معجزات دکھائیں گے اور راستباز لوگوں کو گمراہ کر دیں گے۔ لہٰذا کسی انسان سے خارق عادت معاملہ سرزد ہونا اس کی خدائی کی دلیل ہرگز نہیں ہو سکتا۔ الگ الگ دلیل حاضر خدمت ہے۔

اول: مردوں کو زندہ کرنا

اگر اس معجزے کو خدائی کی دلیل بنائیں تو جناب موسیٰ علیہ السلام کو بڑا خدا ماننا پڑے گا کیونکہ ان کا معجزہ لاٹھی کا سانپ بننا ہے جس میں پہلے نہ تو جان تھی نہ آنکھیں تھیں، نہ زبان تھی اور نہ ہی ہاتھ پاؤں تھے جبکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے انسانی جسم میں (اللہ کے حکم سے) جان ڈالی جس میں پہلے زندگی بھی تھی اور آنکھیں، زبان وغیرہ بھی تھیں۔
اسی طرح حضرت ہارون علیہ السلام کا معجزہ بھی ان سے بڑا ہے کیونکہ انھوں نے زمین کی گرد کو زندہ کیا اور جوئیں بنایا چنانچہ لکھا ہے: تب خداوند نے موسیٰ سے کہا ہارون سے کہہ ایک لاٹھی بڑھا کر زمین کی گرد کو مار تا کہ وہ تمام ملک مصر میں جوئیں بن جائیں، انھوں نے ایسا ہی کیا اور ہارون نے اپنی لاٹھی لے کر اپنا ہاتھ بڑھایا اور زمین کی گرد کو مارا اور انسان اور حیوان پر جوئیں ہو گئیں اور تمام ملک مصر میں زمین کی ساری گرد جوئیں بن گئیں۔
(خروج 8:16-17)
گزشتہ زمانے میں ایک نبی ایلیا بھی گزرے ہیں جنھیں اہل اسلام سیدنا الیاس علیہ السلام کے نام سے جانتے ہیں انھوں نے بھی دعا کر کے ایک مردہ لڑکے کو زندہ کیا تھا۔
(1-سلاطین 17:17-22)
یہ تو زندہ انبیاء کے معجزات ہیں، بائبل بتاتی ہے کہ جناب الیشع کی قبر میں ایک مردہ کو ڈالا گیا اور وہ ان کی ہڈیوں سے ٹکراتے ہی زندہ ہو گیا۔
(2-سلاطین 13:21)
حضرت مسیح علیہ السلام کے شاگرد جناب پطرس سے بھی مردہ زندہ ہونے کا معجزہ رونما ہوا تھا۔
(رسولوں کے اعمال 9:39-40)
اعتراض:
اس اور اس طرح کے دلائل کے متعلق مسیحی حضرات کا کہنا ہے کہ سابقہ انبیاء اور حواریوں سے جو معجزات سرزد ہوئے وہ ان کے ذاتی نہ تھے بلکہ اللہ تعالیٰ کی مدد و تعاون سے ہوئے جبکہ مسیح علیہ السلام کے معجزات ذاتی تھے اس لیے وہ خدا ہیں۔
جواب:
گیارہویں شبہ کے تحت گزرا کہ جناب مسیح علیہ السلام کی طرف ان افعال کی نسبت مجازی ہے حقیقی طور پر اللہ تعالیٰ ہی اختیار دینے والا ہے مزید صراحت کے لیے یہ حوالہ کافی ہوگا۔ اسرائیلیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے عیسیٰ علیہ السلام کے سب سے بڑے شاگرد اور مقرب خواری جناب پطرس نے فرمایا:
”اے اسرائیلیو! یہ باتیں سنو کہ یسوع ناصری ایک شخص تھا جس کا خدا کی طرف سے ہونا تم پر ان معجزوں اور عجیب کاموں اور نشانوں سے ثابت ہوا جو خدا نے اس کی معرفت تم میں دکھائے۔“
(رسولوں کے اعمال 2:22)

دوم: مردوں میں سے جی اُٹھنا

کچھ لوگ یوں دلیل بناتے ہیں: انبیاء جتنے بھی بڑے ہوں انھوں نے زیادہ سے زیادہ مردوں کو زندہ کرنے کا معجزہ دکھایا اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کے اذن اور حکم سے لیکن کوئی بھی اپنی موت کے بعد خود کو زندہ نہ کر سکا یہ صرف جناب مسیح علیہ السلام نے کیا لہٰذا وہ خدا ہوئے۔
جواب:
بفرض محال جناب مسیح علیہ السلام کا صلیب پر مرنا، دفن ہونا تین دن اور تین راتوں کے بعد جی اٹھنا تسلیم کر بھی لیں، پھر بھی عہد جدید سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ خود اپنی قدرت اور اپنی طاقت سے زندہ ہوئے تھے بلکہ ایسی ذات نے انھیں زندہ کیا تھا جو ان سے الگ مادراء اور جدا تھی، وہی خدا تعالیٰ تھا۔
اور اگر یہ خدائی کی دلیل ہے تو پھر دنیا کا ہر فرد و بشر خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو خدا کہلانے کا حقدار ٹھہرے گا کیونکہ روز قیامت خدا تعالیٰ سب کو زندہ کر دے گا۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے انھیں زندہ کیا اس کے حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔
➊ پولوس نے کہا: ”ہاں وہ کمزوری کے سبب سے مصلوب ہوا لیکن خدا کی قدرت کے سبب سے زندہ ہے۔“
(2-کرنتھیوں 13:4)
➋ رومیوں کے نام اپنے خط میں پولوس نے لکھا: ”پس موت میں شامل ہونے کے بپتسمہ کے وسیلے سے ہم اس کے ساتھ دفن ہوئے تا کہ جس طرح مسیح باپ کے جلال کے وسیلے سے مردوں میں سے جلایا گیا اسی طرح ہم بھی نئی زندگی میں چلیں۔“
(رومیوں 6:4)
انہی لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے رقمطراز ہے:
➌ اور اگر اسی کا روح تم میں بسا ہوا ہے جس نے یسوع کو مردوں میں سے جلایا تو جس نے مسیح یسوع کو مردوں میں سے جلایا وہ تمہارے فانی بدنوں کو بھی اپنے اس روح کے وسیلے سے زندہ کرے گا جو تم میں بسا ہوا ہے۔
(رومیوں 8:11)
➍ جب وہ خدا کے مقررہ انتظام اور علم سابق کے موافق پکڑوایا گیا تو تم نے بے شرع لوگوں کے ہاتھ سے اسے مصلوب کروا کر مار ڈالا لیکن خدا نے موت کے بند کھول کر اسے جلایا۔
(رسولوں کے اعمال 2:23-24)
یہ قول جناب پطرس کا ہے جو کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نائب اور سب سے بڑے حواری تھے۔
➎ اسی طرح انہوں نے کہا: تم نے زندگی کے مالک کو قتل کیا جسے خدا نے مردوں میں سے جلایا۔
(رسولوں کے اعمال 3:15)
➏ بلکہ نجات کا سبب اور ذریعہ ہی اس عقیدے کو قرار دیا گیا۔ اگر تو اپنی زبان سے یسوع کے خداوند (رب) ہونے کا اقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لائے کہ خدا نے اسے اسے مردوں میں سے جلایا تو نجات پائے گا۔
(رومیوں کے نام خط 10:9)
مزید حوالہ جات حسب ذیل ہیں:
(رسولوں کے اعمال 10:40)
(ایضاً 40:10)
(ایضاً 17:31)
(رومیوں کے نام خط 24:4)
(1 -کرنتھیوں 6:14)
(ایضاً 15:15)
(2 -کرنتھیوں 4:14)
(گلتیوں 1:1)
(افسیوں 1:20)
(ایضاً 2:5)
(کلیسیوں 2:12)
(1 – تھیسلنیکیوں 1:10 )
(عبرانیوں کے نام خط 13:20)
(1 – پطرس 1:21)

ان تمام مقامات پر صراحت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے زندہ کیا۔ لہٰذا جب بنیاد ہی کمزور ثابت ہوئی تو اس پر عمارت کیسے قائم رہ سکتی ہے۔
مزید یہ بھی غور طلب ہے کہ کسی شخصیت کا مرنا اور پھر زندہ ہونا خدائی کی دلیل بنائی جا رہی ہے۔ کیا خدا کو موت آئی؟ یہ کیسا خدا ہے؟

دلیل ثالث: شاگردوں کا انہیں سجدہ کرنا

حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت پر ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ انہیں بعض شاگردوں اور کچھ لوگوں نے سجدہ کیا تھا اور سجدہ تو صرف خدا کو کیا جاتا ہے۔
جواب:
بائبل کو پڑھنے والا بخوبی جانتا ہے کہ اس میں کئی انبیاء کا تذکرہ ہے جنہیں لوگوں نے سجدہ کیا بلکہ بعض مواقع پر تو ایک نبی نے دوسرے نبی کو سجدہ کیا اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ انبیاء نے عام انسانوں کو سجدہ کیا۔ کیا یہ سب خدا قرار پائیں گے؟ ہرگز نہیں کیونکہ سجدہ دو طرح کا ہوتا ہے ایک عبادت کی غرض سے دوسرا عزت و احترام کی خاطر عبادت کا سجدہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو کیا جاتا ہے جبکہ تعظیمی سجدہ دیگر مخلوقات کو کرنا جائز اور درست تھا۔ اسلام نے آکر اس کو بھی حرام کر دیا۔
صرف بائبل ہی نہیں بلکہ قرآن مجید میں بھی پہلی امتوں میں اس سجدے کا جواز ملتا ہے جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے والدین اور بھائیوں نے سجدہ کیا تھا۔
حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے سجدہ کیا تھا۔
بہرحال بائبل کے واقعات و نقوص حاضر خدمت ہیں۔
(1) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قبیلہ بنی حت کے لوگوں کو سجدہ کیا تھا۔
(پیدائش 23:7)
(2) اسی باب میں دوبارہ اس کا تذکرہ ہے۔
(پیدائش 23:12)
(3) حضرت یعقوب علیہ السلام، ان کی اولاد اور گھر والوں وغیرہ نے بڑے بھائی عیسو کو سجدہ کیا بلکہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے سات بار سجدہ کیا۔
(پیدائش 3 : 33 – 7)
(4) یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں نے سجدہ کیا۔
(پیدائش 42:6، 43:26-28)
(5) یوسف علیہ السلام نے اپنے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کو سجدہ کیا۔
(پیدائش 48:12)
(6) موسیٰ علیہ السلام نے اپنے سسر کو سجدہ کیا۔
(خروج 18:7)
(7) داؤد علیہ السلام نے وقت کے بادشاہ شاؤل (طالوت) کو سجدہ کیا۔
( سموئیل 24:8)
(8) ابیجیل نامی خاتون نے حضرت داؤد علیہ السلام کو سجدہ کیا۔
(سموئیل 25:23)
(9) حضرت سلیمان علیہ السلام کی والدہ بتشبع نے اپنے خاوند حضرت داؤد علیہ السلام کو سجدہ کیا۔
(1 سلاطین 1:16)
(10) داؤد علیہ السلام کے زمانے میں ایک نبی ناتن نام کے بھی تھے انہوں نے بھی حضرت داؤد علیہ السلام کو سجدہ کیا۔
(1 سلاطین 1:23)
نوٹ: ان حوالہ جات کی تصدیق کے لیے عربی بائبل خاص طور پر سامنے رکھیں کیونکہ وہاں سجدہ کا لفظ صراحت کے ساتھ لکھا ہوا ہے جبکہ اردو والی بائبل میں بعض مقامات پر سر جھکانا ترجمہ کیا گیا ہے۔
اعتراض:
جناب مسیح کا نام کے لیے سجدہ کرنے کا تذکرہ جن الفاظ (پروسکونیو) کے ساتھ یونانی میں آیا ہے انہی الفاظ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے لیے بھی ہے لہٰذا دونوں سجدے ایک ہی نوعیت کے ہیں۔
جواب:
محض لفظی مشابہت سے اگر کسی غیر خدا کو خدا بنانا ہے تو پھر بے شمار مخلوق خدا بن جائے گی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی خصوصیت کیا رہ گئی؟ مثلاً بائبل میں خدا کے لیے ایلوہیم کا لفظ آتا ہے جبکہ یہی لفظ موسیٰ علیہ السلام (عبرانی بائبل، خروج 7:1) اور فرشے (عبرانی بائبل، پیدائش 32:30) کے لیے بھی مستعمل ہے نیز عام انسانوں پر بھی اسے بولا گیا ہے۔
یہاں یعقوب علیہ السلام کی خدا سے کشتی کا تذکرہ نہیں بلکہ فرشتے سے کشتی کا ہے اور یہ فرشتہ تھا، خداوند متعال نہ تھا جیسا کہ بائبل کی بھی کتاب ہوسیع (12:4) میں مذکور ہے۔
اسی طرح خدا تعالیٰ کے لیے خاص الخاص بائبلی نام یہوواہ ہے جس کے تلفظ میں آج تک نہ یہودی متفق ہیں اور نہ ہی مسیحی، کوئی اسے یہوواہ پڑھتا ہے، کوئی یہوواہ اور کوئی ادونائی۔ بہرحال یہ بھی غیر خدا کے لیے کئی جگہ آیا ہے مثلاً خروج (4:24) میں یہ لفظ ہے، جس پر بائبل کی تخریج کرنے والوں نے نمبر 23 لگا کر بتایا ہے کہ اس کا تذکرہ گنتی (22:22) میں بھی ہے اور جب وہاں دیکھیں تو ترجمہ فرشتہ کیا گیا ہے۔
اسی طرح تین انبیاء یعنی حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے بھی اس لفظ کو بولا گیا ہے۔
عبرانی بائبل استثناء (33:2) میں ان تین نبیوں کے آنے کا تذکرہ ہے، اردو ترجمہ یوں ہے: خداوند سینا سے آیا اور سعیر سے ان پر طلوع ہوا، فاران کے پہاڑوں سے وہ جلوہ گر ہوا، دس ہزار۔
یہ ترجمہ ہمارے پاس موجود ہے، موجودہ تراجم میں اسے بدل دیا گیا ہے کیونکہ یہ بات سراسر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر صادق آتی تھی، کیونکہ فاران کے پہاڑوں سے مکہ فتح کرنے کے لیے جب آپ اترے تھے تو صحابہ کرام کی تعداد دس ہزار تھی۔
قدسیوں کے ساتھ آیا اور اس کے دہنے ہاتھ میں آتشی شریعت ان کے لیے تھی۔
(ترجمہ بائبل سوسائٹی 1927ء لاہور)
ان جگہوں سے خدا تو نہیں آیا بلکہ تین نبی آئے ہیں۔ معلوم ہوا محض لفظی مشابہت سے کوئی خدا نہیں بنتا۔
(1) اب آتے ہیں زیر بحث لفظ (پروسکیونیو) کی جانب تو ہمیں یونانی بائبل میں یہ لفظ عموماً خدا اور مسیح کے لیے ہی ملتا ہے لیکن بعض مقامات پر دوسروں کے لیے بھی آیا ہے مثلاً یونانی بائبل رسولوں کے اعمال (10:25) دیکھیں، ترجمہ یوں ہے: جب پطرس اندر آنے لگا تو ایسا ہوا کہ کرنیلیس نے اس کا استقبال کیا اور اس کے قدموں میں گر کر سجدہ کیا۔ یہاں وہی لفظ (پروسکیونیو) آیا ہے۔ صاف معلوم ہو رہا ہے کہ یہ سجدہ تعظیمی تھا نہ کہ عبادتی سجدہ جو صرف اللہ تعالیٰ کو ہی زیبا ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے لیے بھی یہ تعظیمی سجدے کے معنی میں ہے کیونکہ ان کا خدا نہ ہونا روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ اسی طرح مکاشفہ (3:9) میں بھی ہے: دیکھ میں شیطان کی ان جماعت والوں کو تیرے قابو میں کر دوں گا جو اپنے آپ کو یہودی کہتے ہیں اور ہیں نہیں بلکہ جھوٹ بولتے ہیں، دیکھ میں ایسا کروں گا کہ وہ آکر تیرے پاؤں میں سجدہ کریں گے اور جانیں گے کہ مجھے تجھ سے محبت ہے۔ یہ بات اللہ کہہ رہا ہے اور فلادلفیہ کے فرشتے کو کہی جا رہی ہے، ادھر بھی یہی لفظ آیا ہے تو کیا یہ فرشتہ بھی خدا ہوا؟
(2) حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کے وقت مجوسی مشرق سے آئے اور انہیں سجدہ کیا نیز نذرانے بھی دیے۔
(متی1 : 2 – 13)
یہاں بھی یہی لفظ مستعمل ہے، ظاہر ہے مجوسی نہ تو انہیں خدا خیال کرتے تھے اور نہ ہی ان کے والدین، نیز ایسی کوئی بات یہودیوں میں بھی معروف نہ تھی کہ مسیح خدا ہوگا۔ لہٰذا یہ سجدہ تعظیمی کے علاوہ دوسرا ہو ہی نہیں سکتا۔
(3) یونانی کے اس لفظ پر (4352) نمبر لکھا ہوا ہے جو بائبل کی یونانی ٹو انگریزی سٹرونگ کی معروف و معتبر ڈکشنری کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ وہاں اس کا ترجمہ یوں ملتا ہے:
(اول) کتے کی طرح جانتے ہوئے بوسہ لینا جیسے وہ اپنے مالک کا ہاتھ چاٹتا ہے .
(دوم) ذلت کا اظہار کرنا، خوف زدہ ہونا، پاؤں پڑنا، ڈرنا.
(سوم)جھکنا، خوشامد کرنا.
(چہارم) سجدہ عبادت اور سجدہ تعظیمی، الفاظ یہ ہیں :
(گریک ڈکشنری )

دلیل رابع: کوریوس

یونانی زبان میں خدا کے لیے “کوریوس” بھی مخصوص نام ہے اور یہ صرف خداوند متعال اور مسیح علیہ السلام پر استعمال ہوا ہے لہٰذا مسیح خدا ہے۔
جواب:
(1) ملتے جلتے ناموں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے، تفصیل پچھلے اعتراض کے تحت ہو گزری ہے۔
(2) کوریوس صرف خدا اور مسیح علیہ السلام ہی کے لیے نہیں بلکہ یونانی بائبل میں دیگر کئی افراد کے لیے بھی آیا ہے:
الف۔ گدھے اور گدھی کے مالک کے لیے
(لوقا33 : 19)
ب۔ لونڈی کا مالک
(اعمال 16 : 16 – 19)
ج۔ پولوس اور سیلاس کو کوریوس کہا گیا
(اعمال 16 : 30)
د۔ بادشاہ کو یہ نام دیا گیا
( اعمال 26:25)
گریک بائبل میں اس لفظ پر (2962) نمبر ہے جو سٹرونگ کی ڈکشنری کی طرف اشارہ کرتا ہے، وہاں جب دیکھا گیا تو ترجمہ یوں تھا:
Sir, Master, Lord, Authority, God معلوم ہوا یہ لفظ خدا کے لیے خاص نہیں۔
(گریک ڈکشنری )

دلیل خامس: مسئلہ تجسم

جناب مسیح علیہ السلام کی الوہیت پر ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ وہ کلام تھے اور کلام مجسم ہو کر دنیا میں آیا لہٰذا خود خدا ہوئے۔
اس کے لیے حسب ذیل فقرات سے استدلال کیا جاتا ہے:
”ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔ اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا۔“
(یوحنا 1:1-14)
جواب:
یہ عبارت نہ تو اللہ تعالیٰ کی ہے اور نہ حضرت مسیح علیہ السلام کی، جبکہ عقیدہ تو ان دونوں ہستیوں کے فرامین سے بنتا ہے۔ بعد کے زمانے میں کوئی انسان اپنا نظریہ اللہ تعالیٰ یا اس کے کسی نبی کے ذمے لگا سکتا ہے؟
بہرحال حسب ذیل سوالات پیدا ہوتے ہیں جن سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام مجسم خدا نہ تھے بلکہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں:
1۔ حضرت مسیح علیہ السلام کی نگاہ سے قبل کئی انبیاء آئے، بلکہ ان کی زندگی میں حضرت یحییٰ علیہ السلام موجود تھے۔ یہودی انہیں نبی تسلیم بھی کرتے تھے۔ کیا کسی نے کلام کے خدا ہونے یا مجسم ہونے کا عقیدہ دیا؟ عہد قدیم میں ایسی کوئی تعلیم پائی جاتی ہے؟ مسیحی سیمی سکالرز خود روشنی ڈالتے ہیں:
اگر اس عقیدے کو عہد عتیق کی توحید پرستی کے پس منظر میں دیکھا جائے تو کفر نظر آتا ہے اور کٹر یہودی یہی نظریہ رکھتے تھے۔
(قاموس الکتاب میں 235 طبع 2008 و بارنہم)
2۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے خود کہیں دعویٰ کیا کہ میں مجسم خدا ہوں یا پھر کلام کے مجسم ہونے کا نظریہ دیا؟
3۔ کلام (تثلیث کا دوسرا اقنوم) اگر مجسم ہوا تو پھر خدا باپ سے افضل ہوا کیونکہ اس میں یہ خصوصیت نہیں۔
4۔ درج بالا فقرات کو دیکھیں، لکھا ہے: ”ابتدا میں کلام تھا“۔ اگر ابتدا میں کلام تھا تو متکلم کدھر گیا؟ آیا متکلم پہلے ہوتا ہے یا کلام؟
متکلم کو پہلے ماننے کی صورت میں کلام (خدا بیٹا) ازلی نہ رہا، کلام کو پہلے ماننے کی صورت میں متکلم (خدا باپ) ازلی نہیں رہتا اور ویسے بھی یہ ممکن نہیں۔
اگر کہا جائے کہ کلام تو متکلم میں سمایا ہوا تھا اس لیے دونوں کی ازلیت کو چیلنج نہیں ہو سکتا تو یہ مسئلہ کھڑا ہو جائے گا کہ کلام تو اس وقت کلام کہلاتا ہے جب متکلم سے صادر ہو۔
مزید یہ کہ جب تک دونوں متحد بالذات (ایک ہستی ہی) رہے تب تک تو وحدانیت کی صورت باقی رہی، لیکن جونہی کلام متکلم سے نکلا اور مجسم ہو کر الگ ہستی اختیار کر گیا تو متحد بالذات بھی نہیں رہے۔ یوں خدا ایک نہیں دو ہو جائیں گے اور مسیحیوں کا یہ قول کہ ہم خدا کو واحد مانتے ہیں غلط ٹھہرے گا۔
کیونکہ درج بالا فقرات میں کلام کو خدا بھی کہا گیا ہے۔
5۔ کلام جب متکلم سے صادر ہو کر مجسم ہوا تو اس کلام سے مراد کیا ہے؟ متکلم کی صفت یا کوئی خاص کلمہ؟
اگر صفت مراد ہے تو مجسم ہونے کے بعد متکلم بغیر صفت کے رہ گیا اور اگر کوئی خاص کلمہ مجسم ہوا تو وہ کون سا ہے؟ تاکہ معلوم ہو اس میں مجسم خدا بننے کی اہلیت بھی ہے؟ اور اگر ہے تو اسی طرح کے دیگر کلمات خدا کیوں نہیں بنے؟
6۔ انجیل یوحنا کے یہ ابتدائی فقرات حضرت مسیح علیہ السلام کے نہیں بلکہ مصنف کے ہیں جو نبی نہیں اور مواری ہونے میں بھی اختلاف ہے۔ کیا غیر نبی کی بات پر عقیدہ کھڑا کیا جا سکتا ہے جس پر نجات کا دارو مدار ہو؟
7۔ جب کلام جسم نہ تھا اس وقت تک وہ خدا بیٹا نہ کہلایا، جس سے معلوم ہوا یہ حادث ہے، اور حادث کو فنا ہے بقا نہیں۔ یہی سبب ہے کہ بائبل بھی حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکا کر موت کا اقرار کرتی ہے، نیز مسیحی لوگ یہی کہتے ہیں:
”خداوند یسوع مسیح نے ہمارے لیے لعنتی موت قبول کی“ (نعوذ بالله)۔
کیا خدا ایسا ہوتا ہے؟
8۔ خدا بیٹے کی ابتدا حضرت مسیح علیہ السلام کی تجسیم سے ہوتی ہے، اس سے قبل نہیں۔ جب کلام بیٹا ہی نہیں تو بیٹے میں تبدیل ہونا الوہی حیثیت میں تبدیلی ہے اور خدا لاتبدل ہے۔
9۔ جب تک کلام نے تجسم اختیار نہ کیا خدا بیٹا نہ کہلایا، تو جب صلیب پر کلام کو موت آئی یا بالفاظ دیگر غیر مجسم ہوا تو اصولاً بیٹا نہ رہا، کیونکہ بیٹے کے لیے جسم ضروری ہے۔
❀ اگر مسیحی حضرات کہیں کہ موت کے بعد کلام نے پھر جسم اختیار کر لیا تھا تو سوال اٹھتا ہے: اسے پھر پیدا ہونے کی ضرورت ہے؟ اگر جواب نفی ہے تو پہلے ضرورت کیا تھی؟ اور اب کس قانون سے وہ ختم ہوئی؟ اور اگر جواب ہاں ہے (جو ظاہر ہے ہو نہیں سکتا) تو دوبارہ پیدائش بتائیں کہاں ہوئی؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ بوقت موت کلام مجسم ہی رہا؟ لیکن ایسی صورت میں کلام کی موت تسلیم کرنی پڑے گی۔ کیا خدا مر سکتا ہے؟
مسیحیوں کے سکالرز لکھتے ہیں: ”اور یہ مسیح کو چھوڑ دینے کی تھیوری بھی خوب رہی، باپ بیٹا اور روح القدس ایک ساتھ ہوتے ہیں اسی لیے تو ہم کہتے ہیں خدا ایک ہے۔ وہ تخلیق کائنات کے وقت اکٹھے تھے، مسیح کے بپتسمہ کے وقت اکٹھے تھے اور واقعہ صلیب میں بھی اکٹھے تھے۔“
(مسلیبی کلمات بس 166 ، پادری شفیق کنول )
❀ مسیحی اگر کہیں کہ خدا بیٹا نہیں بلکہ فقط وہ جسم تھا جس کو کلام نے اختیار کیا تھا تو پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ یسوع نے موت پر فتح پائی؟ یہ فتح تو اس جسم کی ہے جس کو موت کے وقت بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا تھا۔ یوں صرف ایک انسان نے انسانوں کے لیے قربانی دی، خدا بیٹے نے نہیں، لہٰذا سچی کفارہ تو ہوا ہی نہیں۔
10۔ کلام مجسم خدا ہے اور اسے خدا بیٹا کہا جاتا ہے۔ یہ بھی عقیدہ ہے کہ خدا واحد ہے۔ معلوم ہوا صرف یہی خدا تھا۔ جب خدا بیٹا بپتسمہ لے کر باہر نکلا تو آسمان سے آواز کس خدا نے دی تھی: ”یہ میرا پیارا بیٹا ہے“؟
( لوقا 3:22)
روح القدس (خدائی کا تیسرا قنوم) جو اس وقت کبوتر کی صورت میں آیا تھا، وہ پھر کون سا مجسم خدا تھا؟
11۔ خدا بیٹا اگر مجسم خدا تھا تو پھر اس نے کیوں کہا: ”باپ مجھ سے بڑا ہے“؟
(یوحنا 14:28)
کیا خدا سے بھی بڑا کوئی ہوتا ہے؟
12۔ اگر یسوع مجسم ہوتے ہی خدا بیٹا ہے تو بائبل یہ کیوں کہتی ہے: ”یسوع ابھی اپنے جلال کو نہ پہنچا تھا“؟
(یوحنا 7:39)
کیا انہیں دھیرے دھیرے خدائی ملی؟ یا پھر بتایا جائے کہ خدا جلال سے خالی ہوتا ہے؟
13۔ خدا بیٹا کیسا مجسم خدا ہے جو تجسیم سے قبل بھی خدا سے الگ تھا کیونکہ درج بالا فقرات میں ہے کہ کلام خدا کے ساتھ تھا، زمینی خدمت کے وقت بھی الگ رہا، مرنے کے بعد بھی خدا میں ضم نہیں ہوا بلکہ اس کی دہنی طرف جا بیٹھا (مرقس 16:19) اور جب دوبارہ تشریف آوری ہوگی اس وقت بھی خدا سے الگ ہوگا۔
14۔ یسوع بجسم خدا ہے تو ظاہر ہے جسم اختیار کرتے ہی خدا ہوا یعنی ماں کے پیٹ میں ہی خدا کی خوراک کیا تھی؟ ہر انسان جانتا ہے۔ پھر خدا کی پیدائش ہوئی، پھر خدا کا ختنہ ہوا وغیرہ وغیرہ۔ ایسا خدا ہوتا ہے؟
اگر یہ جواب دیا جائے کہ یہ معاملات انسانیت کے ساتھ رونما ہوئے تھے تو پھر سوال اٹھتا ہے: آخر کلام نے تجسیم کب اختیار کی تھی؟
15۔ اگر خدا کی تجسیم ہو سکتی ہے تو پھر بائبل کے اس حوالے کا کیا کرنا ہے؟
”وہ اپنے آپ کو دانا جتا کر بیوقوف بن گئے اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی انسان اور پرندوں اور چوپایوں اور کیڑے مکوڑوں کی صورت میں بدل ڈالا۔“
(رومیوں 1:22-23)
16۔ مسئلہ تجسم میں دو چیزیں لاہوت (خدائی) اور ناسوت (انسانیت) متحد ہوئی ہیں۔ اگر تجسد کے بعد دو ہیں تو پھر مجسم کیسا؟ اگر ایک ہو گئیں تو ایک لازماً معدوم ہوگی۔ یہ کون سی ہے؟ خود فیصلہ کر لیں۔
اور اگر کہا جائے کہ اس اتحاد میں تیسری صورت پیدا ہوئی ہے تو پھر یہ تغیر و تبدیلی ہوئی۔ کیا خدا میں تبدیلی ہو سکتی ہے؟
اس کو مثال سے یوں سمجھیں: دودھ اور پانی کا اتحاد ہو تو نہ دودھ خالص رہتا ہے اور نہ پانی، بلکہ ایک تیسری چیز نمودار ہوتی ہے۔ لہٰذا جسم بغیر تبدیلی کے ماننا سراسر غیر معقول ہے۔
17۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا ناسوت (انسانیت) دیگر انسانوں کی طرح ہے اور بائبل و قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کو کوئی انسان اس دنیا میں نہیں دیکھ سکتا۔ تو خدا کا تجسم انسانیت میں کیسے ہوا؟
18۔ موسیٰ علیہ السلام نے خدا کی آواز سنی جو انسانوں سے ہٹ کر تھی، اسی لیے بنی اسرائیل نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا: ”تو ہی ہم سے باتیں کیا کر اور ہم سن لیا کریں گے لیکن خدا ہم سے باتیں نہ کرے، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم مر جائیں۔“
(خروج 20:19)
جبکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی آواز روز ہی دوسرے انسانوں کی طرح سنتے تھے۔
19۔ مشاہدہ ہے کہ انسان میں جب جن داخل ہوتا ہے تو آواز میں تبدیلی آجاتی ہے۔ حاضرین دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ انسان نہیں بول رہا۔ اگر لاہوت (خدائی) نے ناسوت (انسانیت) کا جامہ اوڑھا ہے تو یہاں بھی فرق ہونا چاہیے تھا۔
20۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر بھی بجلی ڈالی تو وہ برداشت نہ کر سکا۔ انسان کے جسم میں طاقت کہاں؟
21۔ انبیاء پر جب کلام الٰہی اترتا تو ان کی کیفیت بدل جاتی تھی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے جسم میں خدائی آئی تو اس کے مطابق تبدیلی کیوں نہیں آئی؟
22۔ لوگوں سے مخاطب کون ہوتا تھا؟ اگر لاہوت (خدائی) ہے تو دعا کس سے کی ہے؟ رنج و الم کا شکار کون ہے؟ اگر ناسوت ہے تو پھر خدا مخاطب نہ ہوا جیسے درخت سے خدا نے موسیٰ سے کلام کیا۔
23۔ درخت میں خدا نے جب کلام کیا تو خدائی انداز تھا، جبکہ یسوع نے انسانی انداز میں کلام کیا: ”میں رسول ہوں، مخلوق ہوں، محتاج ہوں، انسان ہوں“ وغیرہ۔
24۔ اگر حضرت مسیح علیہ السلام مجسم خدا تھے تو موسیٰ علیہ السلام اور تورات کے پابند کیسے ہو سکتے ہیں؟ فرشتہ شریعت کا پابند نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ کیسے ہو گیا؟ وہ تو اس طرح کے معاملات سے بہت بلند و بالا ہے۔
25۔ معجزات اگر مجسم خدا نے کیے جن کا اظہار انسانیت سے ہوا تو پہلے انبیاء میں تو تجسیم بھی نہیں تھی اور کئی کے معجزات بھی بڑے ہیں۔ آخر خدا تجسیم کے بعد کمزور ہو گیا؟
سوال:
اسلام کے مطابق قرآن (جو خدا کا کلام ہے) روز قیامت مجسم اختیار کرے گا۔ تو پھر ہمارے عقیدے پر اعتراض کیوں؟
جواب:
1۔ اس سے مراد نیکی اور ثواب ہے نہ کہ کلام خدا، جیسا کہ امام نووی رحمہ اللہ نے علماء کا قول لکھا ہے۔
(شرح مسلم نووی )
دلیل اس کی یہ ہے کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق قبر میں نیک اور برے عمل انسانی صورت میں آئیں گے۔ نیک عمل خوبصورت نوجوان بن کر آئے گا اور کہے گا: أنا عملك الصالح یعنی ”میں تیرا نیک عمل ہوں“ اور برا عمل قبیح صورت میں آئے گا۔
(مسند احمد : 4/ 287 ، رقم 18557 ، سند صحیح الاستاذ شعیب الانووط )
2۔ بالفرض اگر قرآن کی تجسیم مان بھی لیں تو ہمارے عقیدے میں یہ ہرگز نہیں کہ قرآن جب انسانی جسم میں آئے گا تو وہ خدا ہوگا۔ آپ لوگ تو براہ راست ”مجسم خدا“ خدا کہتے ہیں۔ لہٰذا یہ وکیل مفید نہیں۔
3۔ دنیا کے امور الگ ہیں، قیامت کے الگ۔ بے شمار ایسے معاملات ہیں جن کے متعلق آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ دنیا میں نہیں ہوں گے۔
ان میں سے کسی کی بنیاد پر کوئی عقیدہ بنانے تو کیا ایمان لائیں گے؟ ظاہر ہے اوپر والا جواب ہی ہوگا۔ مثلاً کوئی حج کر کے خدائی کا دعویٰ کر دے، آپ دلیل طلب کریں تو کہے: ”تمہارا عقیدہ نہیں کہ خدا روز قیامت فیصلے کرے گا؟ میں دنیا میں کرتا ہوں، لہٰذا خدا ہوا!“
اس دلیل کو مانا جائے گا؟
یا کوئی آگ میں جلانے والا خدائی کا دعویٰ کر دے اور کہے: ”روز قیامت خدا بھی تو لوگوں کو دوزخ میں جلائے گا، لہٰذا میں خدا ہوا!“
لہٰذا ہمارا اور آپ کا اختلاف دنیا میں کلام کے مجسم ہونے پر ہے اور پھر اس بنیاد پر اسے خدا مانا جائے؟
4۔ اس انداز سے بھی فرق ہے کہ مسیحی عقیدے میں تجسیم کے لیے عورت کے رحم سے پیدا ہونا لازم ہے جبکہ قرآن کی تجسیم (اگر مان بھی لی جائے) ایسی ہرگز نہیں۔ لہٰذا گو لفظی لحاظ سے ”تجسیم“ کا لفظ بھی بولا جا سکتا ہے، البتہ قرآن کے لیے”تمثل“ کا کلمہ بولنا زیادہ مناسب ہے جس میں تصنّع و بناوٹ کا مفہوم ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت جبریل علیہ السلام انسانی صورت میں آئے تو چونکہ بغیر ولادت کے تھے، اس لیے قرآن مجید نے ان کے لیے ”تمثل“ کا لفظ استعمال کیا۔

دلیل سادس:نجات پانا

لکھا ہے: ”اگر تو اپنی زبان سے یسوع کے خداوند ہونے کا اقرار کرے تو نجات پائے گا“
(رومیوں 10:9 )
اور آگے لکھا ہے: ”جو کوئی خداوند کا نام لے گا نجات پائے گا“۔
(ایضا 10:13)
معلوم ہوا حضرت مسیح علیہ السلام خدا تھے۔
جواب:
(1) انسانوں کے لیے ”خدا“ اور ”خداوند“ کے الفاظ جب آئیں تو نبی، رسول اور راہبر و راہنما کے معنیٰ میں ہوتے ہیں جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے۔ لہٰذا یہ بات درست ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا رسول ماننے میں ہی نجات ہے۔ اس سے خدا ہونا کیسے ثابت ہوا؟
یہ بالکل ایسے ہی جیسے ہم مسلمان کہتے ہیں کہ جو کوئی ”لا إله إلا الله محمد رسول الله“ پڑھے گا نجات پائے گا۔ کیا کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا کہہ رہے ہیں؟ (نعوذ بالله)
بائبل کے ان حوالوں کا بھی یہی مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نام لیں گے تو نجات ملے گی اور اس کے ساتھ حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ کا رسول تسلیم کریں گے تو نجات ملے گی۔
(2) اگر یہ استدلال ہے کہ چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ذریعے نجات مل رہی ہے، یہی خدا ہونے کی دلیل ہے تو پھر کئی چیزیں خدا ماننی پڑیں گی:
پولوس بھی نجات دلاتا ہے
(رومیوں 1:14، 11 کرنتھیوں 22:9)
موسیٰ علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: ”خداوند نے اسرائیل کو ایک نجات دہندہ عنایت کیا“
(2 سلاطین 5:13)
باتیں بھی نجات دیتی ہیں
(عبرانیوں 9:6)
(3) دلیل میں مذکور حوالے کو اگر مکمل پڑھیں گے تو حضرت مسیح علیہ السلام کے خدا ہونے کی نفی موجود ہے۔ لکھا ہے:
”کہ اگر تو اپنی زبان سے یسوع کے خداوند ہونے کا اقرار کرے اور اپنے دل سے ایمان لائے کہ خدا نے اسے مردوں میں سے جلایا تو نجات پائے گا۔“
(رومیوں 10:9)
کیا خدا مر سکتا ہے؟ اور یہ کون سا خدا ہے جس نے اس ”خدا“ کو زندہ کیا؟

دلیل سابع: اول و آخر

میں اول و آخر ہوں۔
(مکاشفہ 18 : 1)
یہ حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا اور اول و آخر ہونا تو خدا کی ہی صفت ہے۔
جواب:
(1) اس کتاب (مکاشفہ) کا مصنف یوحنا عارف ہے لیکن یہ کون ہے؟ کسی کو علم نہیں۔
مسیحی سکالرز خود رقمطراز ہیں: ”بتایا گیا ہے کہ مکاشفہ کا مصنف یوحنا ہے مگر وثوق سے معلوم نہیں کہ یہ یوحنا کون تھا؟ آج بھی اس مسئلے پر بحث جاری ہے۔ مسیحیوں اور یہودیوں میں یوحنا ایک عام نام تھا۔ خود مصنف نے کہیں دعویٰ نہیں کیا کہ میں یسوع کے بارہ شاگردوں میں شامل تھا۔ شاید یہ اندازہ لگانا آسان ہو کہ یہ کتاب کب لکھی گئی، حالانکہ یہ بات بھی وثوق سے نہیں کہی جا سکتی۔“
(بائبل کی مطالعاتی اشاعت، صفحہ 2320، بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور، طبع 2010)
جس کتاب کے مصنف کا ہی علم نہیں، اس کو دلیل کے طور پر پیش کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے؟
(2) یہ کیسی دلیل ہے جو حضرت مسیح علیہ السلام سے ملتی ہے نہ ان کے شاگردوں سے؟ بعد کے زمانے میں یہ بات گھڑی گئی۔ اگر حضرت مسیح علیہ السلام خدا تھے اور یہ ان کی خدائی کی دلیل تھی تو انہیں اس کا علم کیوں نہ ہو سکا؟
(3) مکاشفہ میں جس شخص نے یہ جملہ کہا تھا اس کا سر اور بال سفید اون بلکہ برف کی مانند سفید تھے۔
( مکاشفہ14 : 1 )
جناب مسیح علیہ السلام تو جوانی کی عمر میں آسمان پر تشریف لے گئے تھے، یہ شخص کیسے یسوع مسیح ہو سکتا ہے؟
(4) اس کتاب کے مصنف نے مکاشفہ میں فرشتہ دیکھا تھا، اس نے بھی کہا تھا: ”میں الفا اور اومیگا، اول و آخر، ابتدا و انتہا ہوں“۔
( مکاشفہ 8 : 22 – 13)
یہ فرشتہ بھی خدا ہوا؟ مسیحی لوگ ماننے کے لیے تیار ہیں؟ زیر بحث حوالے کو مکمل پڑھیں گے تو ”اول و آخر“ کہنے والے شخص کی خدائی کا رد ادھر ہی مل جائے گا۔ مصنف نے لکھا: ”اور اس نے یہ کہہ کر مجھ پر اپنا داہنا ہاتھ رکھا کہ خوف نہ کر، میں اول اور آخر اور زندہ ہوں، میں مر گیا تھا اور دیکھ ابدالآباد زندہ رہوں گا۔“
(مکاشفہ 1:17-18)
خدا کبھی مرا بھی تھا؟
معلوم ہوا اگر حضرت مسیح علیہ السلام ہی مراد لیں تو یہ دیگر جملوں کی طرح مجازی مفہوم میں ہوگا۔

دلیل ثامن: قدوس

حضرت مسیح علیہ السلام کو قدوس کہا گیا اور یہ اللہ تعالیٰ کا نام بھی قدوس ہے۔
جواب:
(1) حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی میں انہیں قدوس نہیں بلکہ ”خدا کا قدوس“ کہا گیا تھا۔
(مرقس 1:24، لوقا 4:34، یوحنا 6:69)
اگر وہ خود خدا ہیں تو پھر ”قدوس“ کس خدا کا ہے؟ معلوم ہوا حضرت مسیح علیہ السلام اور خدا میں فرق ہے۔
(2) حضرت مسیح علیہ السلام کو فقط ”قدوس“ کے لفظ سے بعد میں آنے والے لوگوں نے یاد کیا ہے۔ مکاشفہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لہٰذا یہ کیسے دلیل بنائی جا سکتی ہے؟
(3) عہد قدیم میں کئی لوگوں کو قدوس کہا گیا تو کیا وہ بھی خدا ہیں؟
➊ اسرائیلی بزرگوں کو قدوس کہا گیا
( یسیعاہ6 : 12 )
➋ ”قدوس کوہ فاران سے آیا“
(حبقوق 3:3)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ (فاران) سے آئے تھے، کیا مسیحی لوگ انہیں خدا ماننے کے لیے تیار ہیں؟
➌ دانی ایل نبی کے بارے میں لکھا ہے کہ ان میں قدوسوں کی روح ہے ۔
(دانی ایل 4:5، 5:11)
اس سے ملتی جلتی بات جب ان کے سامنے کہی گئی تو انہوں نے انکار نہیں کیا۔
(دانی ایل 14 : 5)

دلیل تاسع: قادر مطلق

حضرت مسیح علیہ السلام کو قادر مطلق کہا گیا۔
جواب:
(1) اس کتاب کا مصنف ہی نامعلوم ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا۔
(2) یہ دلیل نہایت کمزور ہے کیونکہ نہ تو حضرت مسیح علیہ السلام نے خود ایسا کہا اور نہ ہی ان کے شاگردوں نے، بعد میں آنے والے لوگ عقیدت میں اپنے راہنما کو بہت کچھ بنا دیتے ہیں۔
(3) حضرت مسیح علیہ السلام کے ذاتی اقوال سے یہ جملہ ٹکراتا ہے یعنی تضاد ہے کیونکہ ان کی عبارات سے قادر مطلق ہونے کی واضح نفی ہوتی ہے، مثلاً:
”بیٹا آپ سے کچھ نہیں کر سکتا“
(مکاشہ 8 : 4)
”دائیں بائیں بٹھانا میرا کام نہیں“
(یوحنا19 : 5)
”میں اپنی مرضی نہیں بلکہ اپنے بھیجنے والے کی مرضی چاہتا ہوں“
(متی 20 : 20۔ 23)
معلوم ہوا سند اور متن دونوں لحاظ سے زیر بحث دلیل کمزور اور ناقابل التفات ہے۔
(یوحنا30 : 5)

دلیل عاشر: سبت کا مالک

انجیل میں لکھا ہے: ”ابن آدم سبت کا بھی مالک ہے“
(متی 12:8، مرقس 2:28، لوقا 6:5)
اور سبت کا مالک تو خدا ہے۔
جواب:
1۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دیگر انبیاء کی طرح یہودی شریعت کے احکامات واضح کر رہے تھے۔ اسی لیے انہوں نے یہاں داؤد علیہ السلام کی دلیل پیش کی۔ مجازی طور پر شریعت میں تبدیلی کی نسبت انبیاء کی طرف ہو جاتی ہے۔
یہ انداز قرآن مجید میں بھی ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو شریعت سازی کا حق دینا اسے رب بنانا ہے (التوبہ: 31)۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اپنی مرضی سے کوئی چیز حرام کی تو اللہ نے منع فرما دیا:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ﴾
(66-التحريم:1)
”اے نبی تو کیوں حرام کرتا ہے جو اللہ نے تیرے لیے حلال کیا ہے۔“
اور دوسرے مقام پر حرام و حلال واضح کرنا آپ ہی کی ذمہ داری بتائی گئی:
﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ﴾
(7-الأعراف:157)
”اور وہ (نبی) ان کے لیے پاکیزہ اشیاء کو حلال کرتا ہے اور خبیث چیزوں کو ان پر حرام کرتا ہے۔“
2۔ بائبل کے ان حوالوں پر غور کریں تو یہی بات واضح ہوتی ہے کیونکہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام موجودہ مسیحی مفہوم لے رہے ہوتے تو حاضرین جو کٹر و متعصب یہودی تھے، لازماً ان پر کفر کا فتویٰ لگاتے، جیسا کہ انہوں نے دوسرے موقع پر خدائی دعوے کے شک پر لگایا تھا۔
(یوحنا 30 : 10 – 35)
مزید یہاں لفظ ”ابن آدم“ خود واضح دلیل ہے کیونکہ خدا ابن آدم نہیں ہو سکتا۔
3۔ اس جملے سے خدائی کا مفہوم لینا حضرت مسیح علیہ السلام کے دیگر اقوال کے مخالف ہے جہاں وہ خود کو بے اختیار کہہ رہے ہیں (حوالہ جات گزر چکے ہیں)۔
4۔ اس انداز سے بھی غور کریں: اللہ تعالیٰ جیسے آسمان کا مالک ہے، زمین کا بھی ہے۔ اگر لوگ خود کو زمین کا مالک کہتے ہیں تو کیا یہ خدائی کا دعویٰ ہوتا ہے؟ ایسی مثالیں ہر زبان میں اور بائبل میں بھی بکثرت ہیں۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
ای میل

موضوع سے متعلق دیگر تحریریں:

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے