عقیدہ عذاب قبر اور اس کی اہمیت
اسلامی عقائد میں سے ایک عقیدہ عذاب قبر کا بھی ہے۔ یہ عقیدہ نہ صرف قرآن مجید بلکہ صحیح اور متواتر احادیث سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہے۔ نیز عام اہل سنت کا اس پر اجماع ہے کہ مرنے کے بعد ہر انسان سے عالم برزخ میں سوالات ہوتے ہیں، خواہ وہ قبر میں دفن ہو یا نہ ہو، اسے درندے کھا جائیں یا آگ میں جلا کر اس کی راکھ ہوا میں اڑا دی جائے یا وہ پانی میں ڈوب کر مر جائے اور اسے مچھلیاں اپنی خوراک بنا لیں۔ اس سے ایمان کے متعلق محاسبہ ہوتا ہے۔ پھر اگر وہ ایمان والا ہو تو قبر (برزخ) میں اسے ثابت قدمی نصیب ہوتی ہے، اور اگر وہ منافق ہو تو اسے قبر میں قطعاً ثابت قدمی نصیب نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ۖ وَيُضِلُّ اللَّهُ الظَّالِمِينَ ۚ وَيَفْعَلُ اللَّهُ مَا يَشَاءُ﴾
ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ پکی بات کے ساتھ مضبوط رکھتا ہے، دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی۔ ہاں! ظالموں کو اللہ بہکا دیتا ہے، اور اللہ جو چاہے کر گزرتا ہے۔ (14-إبراهيم:27)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ آیت عذاب قبر کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ نیز فرمایا: عذاب القبر حق عذاب قبر برحق ہے۔
(بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء في عذاب القبر، رقم: 1369 – 1372 )
شارح صحیح مسلم امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اعلم أن مذهب أهل السنة إثبات عذاب القبر، وقد تظاهرت عليه دلائل الكتاب والسنة، قال الله تعالى: ﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِيًّاۚ﴾ الآية وقد تظاهرت به الاحاديث الصحيحة عن النبى الله من رواية جماعة من الصحابة فى مواطن كثيرة، ولا يمتنع فى العقل ان يعيد الله تعالى فى جزء من الجسد ويعذبه واذا لم يمنعه العقل و ورد الشرع به وجب قبوله و اعتقاده
جان لو! اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ عذاب قبر برحق ہے اور اس پر کتاب وسنت کے واضح دلائل موجود ہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿اَلنَّارُ يُعْرَضُوْنَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَّ عَشِيًّاۚ﴾ وہ آگ ہے جس پر وہ ( فرعونی ) صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں ۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی عذاب قبر کے متعلق بہت سی احادیث صحیحہ موجود ہیں، جنھیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت نے بہت سے موقعوں پر بیان کیا ہے۔ اور عقل بھی اس بات کو محال نہیں سمجھتی کہ اللہ تعالیٰ جسم کے کسی جز میں زندگی لوٹا دے اور اسے سزا دے اور شرع میں بھی اس کا ثبوت موجود ہے۔ تو اس کو قبول کرنا اور اس پر اعتقاد رکھنا واجب ہے ۔
( نووی شرح صحیح مسلم: 2/ 386 – 385 درسی )
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومما ينبغي أن يعلم أن عذاب القبر هو عذاب البرزخ، فكل من مات وهو مستحق للعذاب ناله نصيبه منه قبر أو لم يقبر، فلو أكلته السباع أو أحرق حتى صار رمادا أو نسف فى الهواء أو صلب أو غرق فى البحر وصل إلى روحه وبدنه من العذاب ما يصل إلى المقبور.
یہ بات جاننا انتہائی ضروری ہے کہ عذاب قبر اصل میں عذاب برزخ ہی کا نام ہے۔ ہر مرنے والے کو جو عذاب کا مستحق ہو اس کا حصہ پہنچ جاتا ہے، خواہ وہ قبر میں دفن ہو یا نہ ہو، اسے درندے کھا گئے ہوں یا آگ میں جلا دیا گیا ہو، اس کی راکھ ہوا میں اڑا دی گئی ہو یا پھانسی دی گئی ہو یا سمندر میں ڈوب مرا ہو۔ (ان سب حالات) میں اس کی روح اور بدن کو عذاب پہنچے گا جو قبر والوں کو ہوتا ہے۔
(كتاب الروح ، ص : 56 )
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صحیح بخاری کے باب ما جاء في عذاب القبر کے تحت لکھتے ہیں:
واكتفى بإثبات وجوده خلافا لمن نفاه مطلقا من الخوارج وبعض المعتزلة كضرار بن عمرو وبشر المريسي ومن وافقهما وخالفهم فى ذلك أكثر المعتزلة وجميع أهل السنة وغيرهم.
امام بخاری رحمہ اللہ نے صرف اثبات عذاب قبر پر ہی اکتفا کیا ہے، تا کہ ان خارجیوں اور بعض معتزلہ کا رد کریں، جنھوں نے مطلقا عذاب قبر کی نفی کی ہے، جیسے ضرار بن عمرو، بشر مریسی اور جو ان کے ہم خیال ہیں۔ لیکن اکثر معتزلہ اور اہل سنت و غیر ہم نے اس مسئلے میں ان کی مخالفت کی ہے۔
(فتح الباري: 296/3 دار السلام )
علامہ عینی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
إثبات عذاب القبر وهو مذهب أهل السنة والجماعة، وأنكر ذلك ضرار بن عمرو وبشر المريسي وأكثر المتأخرين من المعتزلة.
عذاب قبر کا اثبات اہل سنت والجماعہ کا مذہب ہے جبکہ ضرار بن عمرو، بشر مريسی اور معتزلہ کے متأخرین میں سے اکثر نے اس کا انکار کیا ہے۔
(عمدة القاری شرح صحيح البخاري: 161/4)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومن الإيمان باليوم الآخر الإيمان بكل ما أخبر به النبى صلى الله عليه وآله وسلم يكون بعد الموت فيؤمنون بفتنة القبر وبعذاب القبر ونعيمه.
اور آخرت پر ایمان لانے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعد الموت کے بارے میں جو بھی خبر دی ہے، ان سب پر ایمان لاتے ہوئے انسان فتنہ قبر اور عذاب قبر اور نعمت قبر پر بھی ایمان رکھے۔
(شرح العقيدة الواسطيه، ص: 140 )
عصر حاضر کے عظیم محقق ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
احادیث رسول پر سچے دل سے ایمان لانے کے بعد اب جو شخص بھی ان احادیث کا مطالعہ کرے گا تو وہ اس حقیقت کو پا لے گا کہ قبر کا عذاب ایک حقیقت ہے۔ عذاب قبر کا تعلق چونکہ مشاہدے سے نہیں، بلکہ اس کا تعلق ایمان بالغیب سے ہے، اس لیے حواس اس کا ادراک نہیں کر سکتے۔ بس یوں سمجھ لیں کہ جیسے فرشتوں، جنات، جنت دوزخ کو ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے کہنے سے تسلیم کرتے ہیں، اسی طرح عذاب قبر کو بھی ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے، کیونکہ عذاب قبر کے متعلق بے شمار احادیث صحیحہ موجود ہیں جو درجہ تواتر تک پہنچ چکی ہیں۔ ان احادیث کا انکار گویا قرآن کریم کے انکار کے مترادف ہے۔
(عقيده عذاب قبر، ص: 20 )
مولانا محمد یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
پوری جزا و سزا تو آخرت ہی میں ملے گی جب ہر شخص کا فیصلہ اس کے اعمال کے مطابق چکایا جائے گا لیکن بعض اعمال کی کچھ جزا و سزا دنیا میں بھی ملتی ہے جیسا کہ بہت سی آیات و احادیث میں یہ مضمون آیا ہے اور تجربہ و مشاہدہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے۔ اسی طرح بعض اعمال پر قبر میں بھی جزا سزا ہوتی ہے اور یہ مضمون بھی احادیث متواترہ میں موجود ہے۔
آخر میں فرماتے ہیں:
بہرحال قبر کا عذاب و ثواب برحق ہے، اس پر ایمان لانا واجب ہے، اور اس سے ہر مومن کو پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل : 305/1)
خلاصہ کلام
علماء کرام کی محولہ بالا عبارتوں سے واضح ہوا کہ
➊ قرآن و سنت کی روشنی میں جملہ اہل سنت والجماعۃ کے عقیدے کا جزو ہے کہ عذاب قبر برحق ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے۔
➋ مرنے کے بعد انسان جہاں کہیں بھی ہو، اور جس حالت میں بھی ہو، اسے عذاب یا راحت پہنچتی ہے۔
➌ عذاب قبر کا انکار خوارج اور بعض معتزلہ اور ان کے متبعین نے کیا ہے، جبکہ یہ لوگ اہل سنت والجماعۃ سے خارج ہیں اور بالاتفاق گمراہ ہیں۔
➍ عذاب قبر کا تعلق مشاہدے سے نہیں بلکہ ایمان بالغیب سے ہے، اس لیے ہماری عقل اس کا ادراک نہیں کر سکتی۔
➎ ہر مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ عذاب قبر سے پناہ مانگے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس سے پناہ مانگا کرتے تھے۔
یاد رہے کہ اگر مرنے والا نیک ہو تو قبر اس کے لیے انعامات اخرویہ کا زینہ اول ثابت ہوتی ہے، اور اگر وہ نافرمان ہو تو پھر قبر آخرت کے عذاب کا نقطہ آغاز بنتی ہے۔ مزید تفصیل آگے آئے گی۔
◈ عذاب قبر روح اور جسم دونوں کو ہوتا ہے
یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ برزخ میں ہونے والی جزا و سزا کا تعلق مرنے والے کی روح اور بدن دونوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ انصاف کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جزا و سزا کا تعلق ان دونوں سے ہو۔ کیونکہ حیات دنیوی میں نیکی اور بدی کا ارتکاب روح اور بدن کے باہمی اتصال سے عمل میں آتا ہے۔ روح بدن کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتی اور اسی طرح خالی بدن بھی روح کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتا، بلکہ یہ دونوں مل کر بدی یا نیکی کو وجود میں لاتے ہیں۔ لہٰذا جب نیکی اور بدی روح اور بدن کے باہمی اشتراک سے وجود میں آئی ہو تو عدل و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ جزا و سزا بھی دونوں کو ملے۔ یہ نہیں کہ صرف روح کو ہی جزا و سزا دی جائے اور بدن کو یوں ہی چھوڑ دیا جائے۔
حافظ عماد الدین ابو الفداء ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وهم يدخلون جهنم من يوم مماتهم بأرواحهم، وينال أجسادهم فى قبورها من حرها وسمومها، فإذا كان يوم القيامة سلكت أرواحهم فى أجسادهم وخلدت فى نار جهنم.
ان کافروں کو موت کے دن ہی سے ارواح کے ساتھ جہنم میں داخل کیا جاتا ہے، اور قبروں میں ان کے جسموں کو جہنم کی آگ اور گرم ہوا پہنچتی رہتی ہے۔ پھر جب قیامت قائم ہوگی تو ان کی ارواح کو ان کے اجساد کے ساتھ جوڑ کر ہمیشہ کے لیے جہنم کی آگ میں داخل کر دیا جائے گا۔
(تفسير ابن كثير : 4 / 40 بيروت)
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
بل العذاب والنعيم على النفس والبدن جميعا باتفاق أهل السنة والجماعة.
اہل سنت والجماعۃ کا اتفاق ہے کہ برزخ میں عذاب و نعمت روح اور بدن دونوں پر وارد ہوتی ہے۔
(كتاب الروح، ص: 49)
علامہ جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
قال العلماء: عذاب القبر هو عذاب البرزخ، أضيف إلى القبر لأنه الغالب.
علماء نے فرمایا ہے کہ عذاب قبر، عذاب برزخ ہی (کا نام) ہے۔ اسے قبر کی طرف منسوب اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ (اموات کا قبروں میں مدفون ہونا) اغلب و اکثر ہے۔
آگے لکھتے ہیں:
ومحله الروح والبدن جميعا باتفاق أهل السنة، وكذا القول فى النعيم.
اور اس (عذاب) کا محل باتفاق اہل سنت روح اور بدن دونوں ہیں، اور نعمت و لذت میں بھی اہل سنت کا یہی قول ہے۔
(شرح الصدور، ص: 164 بيروت )
ڈاکٹر ابو جابر عبداللہ دامانوی حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
اہل السنۃ والجماعت کے نزدیک عذاب میں جسم و روح دونوں شریک ہوتے ہیں۔ جسد اپنی قبر میں عذاب میں مبتلا ہوتا ہے، جبکہ روح جہنم میں عذاب پاتی ہے۔
(عذاب قبر ، ص : 26 )
◈ عالم برزخ کی کیفیت
برزخ کی مکمل کیفیت کا علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے۔ ہمیں اس کی کیفیت کا اسی وقت پتا چلے گا جب ہم خود اس جہان میں پہنچیں گے۔ (اللہ تعالیٰ رحم کا معاملہ فرمائے اور موت کے بعد تمام منزلیں آسان فرمائے، آمین) یہاں دنیا میں ہمارے لیے ضروری ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جو بتایا ہے، بہ حیثیت مسلمان اس پر بغیر کسی تحریف، تعطیل، تکییف اور تمثیل کے ایمان لائیں۔
علامہ ابن ابی العز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مستحق عذاب قبر اور مستحق آرام قبر، نیز فرشتوں کے سوال کرنے کے ثبوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متواتر احادیث مروی ہیں۔ ان کا اعتقاد بھی ضروری ہے اور ان پر ایمان لانا بھی ضروری ہے۔ ہاں ان کی کیفیت کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہیں گے، اس لیے کہ عقل ان کی کیفیت معلوم کرنے سے قاصر ہے، اس جہان میں اس کا علم ممکن نہیں۔ نیز شریعت ایسی باتوں کا بھی ذکر نہیں کرتی جس کو عقلیں محال سمجھتی ہوں، البتہ ایسی باتوں کا ذکر کرتی ہے جس میں عقلیں حیران ہوتی ہیں۔
(اسلامی عقائد اردو ترجمه شرح عقیدہ طحاويه، ص:507)
کتاب و سنت سے یہ بات ثابت ہے کہ قبر میں نکیرین کے سوالات کے وقت کچھ دیر کے لیے روح کو جسم میں واپس لوٹا دیا جاتا ہے، جیسا کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی مشہور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وتعاد روحه فى جسده اور اس کی روح کو اس کے بدن میں لوٹا دیا جاتا ہے۔
(ابوداؤد، كتاب السنة، باب في المسألة في القبر وعذاب القبر، رقم: 4753 ، مسند احمد 4 / 288)
اس حدیث کے متعلق امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
هذا حديث ثابت مشهور مستفيض، صححه جماعة من الحفاظ، ولا نعلم أحدا من أئمة الحديث طعن فيه، بل رووه فى كتبهم وتلقوه بالقبول، وجعلوه أصلا من أصول الدين فى عذاب القبر ونعيمه ومسألة منكر ونكير وقبض الأرواح وصعودها إلى بين يدي الله ثم رجوعها إلى القبر.
یہ حدیث ثابت مشہور اور مستفیض ہے۔ حفاظ حدیث کی ایک جماعت نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ ہمیں حدیث کا کوئی ایسا امام معلوم نہیں جس نے اس پر طعن کیا ہو، بلکہ اسے ائمہ حدیث اپنی اپنی کتب میں لائے ہیں اور اسے قبول کر کے عذاب و ثواب قبر، منکر و نکیر کے سوال و جواب، روحوں کے قبض ہونے اور اسے اللہ تعالیٰ کی طرف لے جانے اور پھر قبر میں واپس لوٹانے کے سلسلے میں اصل دین میں سے ایک اصل قرار دیا ہے۔
(كتاب الروح، ص: 46)
سوال و جواب کے بعد جسم تو زیر زمین قبر ہی میں ہوتا ہے، البتہ روح جنت یا جہنم میں چلی جاتی ہے۔ اس کے بے شمار دلائل ہیں جن میں سے ایک دلیل سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی وہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إنما نسمة المؤمن طير يعلق فى شجر الجنة حتى يرجعه الله إلى جسده يوم يبعثه
مومن کی روح ایک پرندے کی طرح جنت میں اڑتی ہوتی ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے اس کے بدن کی طرف لوٹائے گا۔
الموطأ للامام مالك، كتاب الجنائز، باب جامع الجنائز، رقم: 566 بيروت اسے الشیخ البانی نے صحیح کہا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مومن کی روح جنت میں رہتی ہے اور قیامت کے دن ہی اسے دوبارہ اس کے جسم کی طرف لوٹایا جائے گا۔
جسم جو قبر میں ہوتا ہے اس کے متعلق بھی احادیث میں وضاحت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إن أحدكم إذا مات عرض عليه مقعده بالغداة والعشي، إن كان من أهل الجنة فمن أهل الجنة، وإن كان من أهل النار فمن أهل النار، فيقال: هذا مقعدك حتى يبعثك الله يوم القيامة
جب تم میں سے کوئی شخص مر جاتا ہے تو اس کا ٹھکانا اسے صبح و شام دکھایا جاتا ہے۔ اگر وہ جنتی ہے تو جنت والوں میں، اور اگر وہ دوزخی ہے تو دوزخ والوں میں۔ پھر کہا جاتا ہے کہ یہ تیرا ٹھکانا ہے، یہاں تک کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تجھے اٹھائے گا۔
(بخاری، کتاب الجنائز، باب الميت يعرض عليه مقعده بالغداة رقم: 1379)
اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ سوال و جواب میں کامیاب ہونے کے بعد مومن کو قبر میں کہا جاتا ہے:
نم كنومة العروس لا يوقظه إلا احب أهله إليه، حتى يبعثه الله من مضجعه ذلك
سو جا! نئی نویلی دلہن کی طرح، کہ جسے اس کے گھر والوں میں سے سب سے زیادہ محبوب ہستی (خاوند) کے علاوہ اور کوئی نہیں جگاتا، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ ہی اسے (روز قیامت) جگائے گا۔
ترمذى، كتاب الجنائز، باب ما جاء في عذاب القبر، رقم: 1071 اسے الشیخ البانی نے حسن کہا ہے۔
اسی طرح احادیث میں آتا ہے کہ قبر میں جنت کی طرف سے ایک کھڑکی کھول دی جاتی ہے، میت کو جنت کا لباس پہنا دیا جاتا ہے اور اس کے نیچے جنت کا بچھونا بچھا دیا جاتا ہے۔
(مستدرك الحاكم، کتاب الایمان: 1/ 38)
ان تمام دلائل سے واضح طور پر ثابت ہوتا ہے کہ مومن کی روح جنت میں عیش و عشرت کرتی ہے جبکہ اس کا جسم یہاں اسی زمینی قبر میں ہوتا ہے۔
◈ عالم برزخ کیا ہے؟
برزخ کے لغوی معنی آڑ، پردہ، دو چیزوں کے درمیان کی روک ہیں۔
(المنجد، ماده برز )
مولانا عبد الرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: برزخ دراصل دو چیزوں کے درمیان ایک تیسری چیز ہوتی ہے جو آڑ کا کام دیتی ہے، مگر اس تیسری چیز یعنی برزخ میں دونوں چیزوں کے خواص بھی موجود ہوتے ہیں خواہ ایک چیز کے خواص دوسری سے زیادہ ہوں یا برابر۔
(مترادفات القرآن، ص: 76)
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَهُوَ الَّذِي مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ هَٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَهَٰذَا مِلْحٌ أُجَاجٌ وَجَعَلَ بَيْنَهُمَا بَرْزَخًا وَحِجْرًا مَّحْجُورًا﴾
اور وہی تو ہے جس نے دو سمندر آپس میں ملا رکھے ہیں، یہ میٹھا مزے دار، اور یہ کھاری کڑوا۔ اور ان دونوں کے درمیان ایک پردہ اور مضبوط اوٹ کر دی ہے۔
(25-الفرقان:53)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ برزخ دو دریاؤں کے درمیان ایک تیسری چیز ہے جو میٹھے سمندر کو کڑوے اور کڑوے کو میٹھے میں ملنے سے روکتی ہے۔ یعنی دو سمندر جاری ہیں اور ان کے درمیان ایک تیسری چیز ہے جو ایک قسم کی دیوار ہے، دونوں سمندروں کو آپس میں ملنے نہیں دیتی۔
اصطلاح میں برزخ اس مدت اور زمانے کا نام ہے جو دنیا اور آخرت کے درمیان ہے، یعنی موت کے وقت سے لے کر قیامت کے لیے درمیانی وقفہ کو برزخ کہتے ہیں۔
علامہ الجوہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
البرزخ الحاجز بين الشيئين، والبرزخ ما بين الدنيا والآخرة من وقت الموت إلى البعث؛ فمن مات فقد دخل فى البرزخ.
برزخ (لغت میں) وہ روک ہے جو دو چیزوں کے درمیان ہوتی ہے اور (اصطلاح میں) برزخ وہ عرصہ ہے جو دنیا اور آخرت کے درمیان ہے، موت کی گھڑی سے لے کر قیامت تک۔ پس جو شخص مر گیا وہ برزخ میں داخل ہو گیا۔
(تفسير القرطبی، جز 12، ص: 135 )
امام ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں: البرزخ ما بين الموت إلى البعث برزخ موت اور قیامت کے درمیانی عرصے کو کہتے ہیں۔
امام مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔
(تفسير الطبری، جز 18، ص : 62)
قبر کی زندگی کو برزخ اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ بھی دنیاوی زندگی اور اخروی زندگی کے درمیان ایک پردہ اور اوٹ ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ . لَعَلِّي أَعْمَلُ صَالِحًا فِيمَا تَرَكْتُ ۚ كَلَّا ۚ إِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَائِلُهَا ۖ وَمِن وَرَائِهِم بَرْزَخٌ إِلَىٰ يَوْمِ يُبْعَثُونَ.﴾
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی ایک کو موت آنے لگتی ہے تو وہ کہتا ہے، اے میرے رب! مجھے واپس لوٹا دے کہ میں اپنی چھوڑی ہوئی (دنیا) میں جا کر نیک اعمال کروں۔ ہرگز نہیں، یہ تو صرف ایک قول ہے جس کا یہ قائل ہے، اور ان کے پیچھے تو ایک پردہ ہے ان کے دوبارہ جی اٹھنے تک۔
(23-المؤمنون:99، 100)
ڈاکٹر ابو جابر حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
اس آیت میں برزخ کو دنیا اور آخرت کے درمیان ایک آڑ قرار دیا گیا ہے، یعنی مرنے والوں پر جو حالات قیامت تک گزریں گے، انھیں دیکھنا اور جاننا ہمارے بس سے باہر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے اور ان کے درمیان ایک پردہ حائل کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میت پر قبر میں جو حالات گزرتے ہیں، ہم ان کا مشاہدہ نہیں کر سکتے۔ البتہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عذاب قبر کی جو تفصیلات بیان فرمائی ہیں، ان پر ہمارا ایمان ہے۔
(عقیده عذاب قبر، ص: 44، 45 )
◈ برزخ کے متعلق چند ضروری باتیں
✿ برزخ مردہ انسان کے لیے ظرف زمان ہے۔ مرنے کے بعد انسان عالم برزخ میں چلا جاتا ہے، جو مردہ چارپائی پر پڑا ہو وہ بھی عالم برزخ میں داخل ہو چکا ہے، اور جس کو لوگ کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں وہ بھی عالم برزخ میں ہی ہے، اور جس کو قبر میں دفن کر دیا گیا ہو وہ بھی برزخ میں ہے۔ الغرض مردہ جہاں ہے اور جس حالت میں ہے وہ عالم برزخ ہی میں ہے، کیونکہ موت کے وقت سے اس کا عالم (زمانہ) تبدیل ہو گیا ہے۔ پہلے وہ عالم دنیا میں تھا اور اب عالم برزخ میں داخل ہو گیا ہے، اگرچہ وہ چارپائی پر ہی کیوں نہ پڑا ہوا ہو۔
✿ وقت اور زمانے کی تبدیلی کے لیے جگہ کی تبدیلی ضروری نہیں ہوتی۔ مثلاً آپ نے عصر کی نماز مسجد میں ادا کی اور پھر آپ اسی مسجد میں اور اسی مصلیٰ پر بیٹھ گئے۔ جب سورج غروب ہو گیا اور مغرب ہو گئی تو آپ وہاں بیٹھے ہوئے ہی رات میں داخل ہو گئے ہیں، حالانکہ اسی جگہ بیٹھے ہیں، آپ کا مکان تبدیل نہیں ہوا لیکن زمانہ تبدیل ہو گیا۔ عصر کے وقت آپ دن میں تھے اور مغرب کے وقت آپ رات میں چلے گئے۔ اسی طرح مرنے سے پہلے آدمی عالم دنیا میں ہوتا ہے اور مرنے کے بعد عالم برزخ میں چلا جاتا ہے، خواہ چارپائی پر ہی کیوں نہ پڑا ہو، یا جہاں بھی ہو، کیونکہ اب اس کا زمانہ تبدیل ہو چکا ہے۔
✿ مرنے کے بعد عالم برزخ میں میت کے ساتھ ہونے والی کارروائی کو عذاب قبر اس لیے کہتے ہیں کہ مردوں کا قبروں میں دفن ہونا اغلب و اکثر ہے، جیسا کہ گزشتہ صفحات میں امام جلال الدین السیوطی رحمہ اللہ کی عبارت میں گزر چکا ہے۔
✿ عالم برزخ عالم دنیا سے بالکل مختلف ہے۔ نہ وہاں کی راحت و لذت اس دنیا کی راحت و لذت جیسی، اور نہ ہی رنج و الم اس فانی دنیا جیسا ہوگا۔
◈ قبر کیا ہے؟
مردے کے لیے برزخ ظرف زمان ہے، جبکہ قبر ظرف مکان ہے۔ تمام اہل سنت والجماعۃ کے نزدیک قبر زمین کے اس حصے کو کہتے ہیں جس میں مردے کو دفن کیا جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر مردہ انسان کے مدفن یعنی جائے دفن کو قبر کہتے ہیں۔
◈ لغت سے دلائل
لغت میں انسان کے مدفن کو ہی قبر کہا گیا ہے۔ مثلاً دیکھیں [ المنـجـد، مادہ قبر] مترادفات القرآن، ص: 273 – مفردات القرآن از علامه اصفهانی کتاب القاف. فيروز اللغات اردو عربی ص 550 مصباح اللغات، ص: 654
امیر المؤمنین فی الحدیث حضرت امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ اپنی صحیح میں قبر کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وقول الله عز وجل:” فأقبره“ أقبرت الرجل: إذا جعلت له قبرا، وقبرته: دفنته كِفَاتًا ، يكونون فيها احيا ويدفنون فيها امواتا
اور سورہ عبس میں جو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ”فأقبره“ ہے، (اس کی تشریح یہ ہے کہ یہ عرب کا محاورہ ہے )جب کوئی کسی کے لیے قبر بنائے تو اس وقت وہ کہتا ہے: أقبرت الرجلیعنی میں نے آدمی کی قبر بنائی اور قبرته کے معنی ہیں میں نے اسے دفن کیا۔
اور سورہ مرسلات میں جو كفاتا کا لفظ ہے ( اس کے معنی یہ ہیں ) کہ زندگی بھی زمین ہی پر گزارو گے، اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دفن ہوں گے ۔
(بخاری، کتاب الجنائز، باب ما جاء في قبر النبي صلى الله عليه وسلم وابي بكر وعمر رضي الله عنهما)
◈ قرآن مجید سے دلائل
قرآن مجید میں تقریباً آٹھ مقامات پر قبر کا صراحتاً ذکر آیا ہے، ان کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ قبر اسی معروف قبر ہی کو کہتے ہیں جو زمین میں بنائی جاتی ہے۔
﴿وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ﴾ اور آپ ان (منافقین) میں سے کسی کی قبر پر کھڑے نہ ہوں۔ (9-التوبة:84)
﴿وَمَا أَنتَ بِمُسْمِعٍ مَّن فِي الْقُبُورِ﴾ اور آپ ان کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں۔ (35-فاطر:22)
﴿كَمَا يَئِسَ الْكُفَّارُ مِنْ أَصْحَابِ الْقُبُورِ﴾ جیسے کفار اہل قبر سے مایوس ہو چکے ہیں۔(60-الممتحنة:13)
﴿ ثُمَّ أَمَاتَهُ فَأَقْبَرَهُ﴾ پھر اسے موت دی، پھر اسے قبر میں دفن کیا۔(80-عبس:21)
﴿وَإِذَا الْقُبُورُ بُعْثِرَتْ﴾ ”اور جب قبریں اکھاڑ دی جائیں گی۔“ (82-الإنفطار:4)
﴿حَتَّىٰ زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ﴾ یہاں تک کہ تم قبریں دیکھ لو۔ (102-التكاثر:2)
﴿وَأَنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ مَن فِي الْقُبُورِ﴾ اور یقیناً اللہ تعالیٰ ہی قبر والوں کو دوبارہ زندہ فرمائے گا۔ (22-الحج:7)
﴿أَفَلَا يَعْلَمُ إِذَا بُعْثِرَ مَا فِي الْقُبُورِ﴾ کیا وہ نہیں جانتا کہ جب قبروں میں جو کچھ ہے وہ نکال لیا جائے گا۔(100-العاديات:9)
تمام مفسرین کے نزدیک بالاتفاق قبر، قبور، اور مقابر سے مراد مردہ انسان کی جائے دفن ہی ہے۔
◈ حدیث سے دلائل
جس طرح قرآن مجید میں لفظ قبر کا اطلاق اسی معروف زمینی قبر پر کیا گیا ہے، ایسے ہی بے شمار احادیث ایسی ہیں جن میں قبر کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ہر جگہ قبر سے مراد مردہ انسان کا مدفن ہی ہے۔
ذیل میں اسی سلسلے کی صرف چند احادیث بیان کی جا رہی ہیں۔
➊عن أبى هريرة رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: قاتل الله اليهود اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہودیوں کو اللہ تعالیٰ ہلاک کرے، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد (سجدہ گاہ) بنا لیا۔
(بخاری کتاب الصلاة، باب الصلاة في البيعة، رقم: 437)
➋ عن جابر رضى الله عنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم عن تجصيص القبور.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبروں کو چونا گچ کرنے سے منع فرمایا۔
ابـن مـاجـه ، کتاب الجنائز، باب ما جاء في النهي عن البناء على القبور وتجصيصها والكتاب عليها، رقم: 1562 ، اسے الشیخ الالبانی نے صحیح کہا ہے۔
➌ عن أبى هريرة رضى الله عنه قال: زار النبى صلى الله عليه وآله وسلم قبر أمه فبكى وأبكى من حوله فقال:استأذنت ربي فى أن أستغفر لها فلم يؤذن لي، واستأذنته فى أن أزور قبرها فأذن لي، فزوروا القبور فإنها تذكر الموت
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی والدہ کی قبر پر تشریف لے گئے، خود بھی روئے اور گرد و پیش کو بھی رلا دیا۔ پھر فرمایا: میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کے حق میں استغفار کی اجازت چاہی لیکن نہ ملی۔ پھر زیارت قبر کی اجازت چاہی تو اجازت مل گئی، چنانچہ قبروں کی زیارت کیا کرو، کیونکہ یہ تمہیں موت یاد دلاتی ہیں۔
(مسلم، كتاب الجنائز، باب استئذان النبي الله ربه عز وجل في زيارة قبر امه، رقم: 972 )
لغت عرب، قرآن مجید کی آیات، اور بے شمار احادیث سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قبر سے مراد یہی زمینی گڑھا ہے۔ اس میں نکیرین آتے ہیں، اسی میں سوال و جواب ہوتے ہیں، اس کے بعد پھر اسی قبر کو اعمال کے مطابق جنت کا باغ یا جہنم کا گڑھا بنا دیا جاتا ہے۔ اس قبر کے علاوہ کسی اور قبر کا دعویٰ کرنا، جیسا کہ بعض لوگوں نے برزخی قبر کا دعویٰ کیا ہے، سراسر کتاب و سنت کے منافی ہے، اور اتنا بودا اور کمزور ہے جیسے تار عنکبوت۔
◈ قرآن مجید میں عذاب قبر کا بیان
قرآن مجید میں عذاب قبر کا بیان دو طرح سے ہے:
● اجمالاً ● تفصیلاً
● اجمالاً
یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر دو قسم کی وحی نازل فرمائی ہے، وحی متلو اور وحی غیر متلو۔
وحی متلو:
یعنی ایسی وحی جس کی باقاعدہ تلاوت کی جاتی ہے، اور جس کے ایک ایک حرف کے بدلے دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔ یہ وحی قرآن کریم کی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی۔ اس کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہیں۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ جس کی مثل پیش کرنے میں سب مخالفین نے اپنے اپنے دور میں گھٹنے ٹیک دیے، اور کوئی بھی اس میں کامیاب نہ ہو سکا۔
وحی غیر متلو:
یعنی ایسی وحی جس کی نہ تو باقاعدگی سے تلاوت کی جاتی ہے، اور نہ ہی ایک ایک حرف کے بدلے دس دس نیکیاں ملتی ہیں۔ یہ وحی احادیث مبارکہ کی صورت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہوئی۔ اس کے معنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں، جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ جناب حسان بن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
كان جبريل عليه السلام ينزل على رسول الله صلى الله عليه وسلم بالسنة كما ينزل عليه بالقرآن ويعلمه إياها كما يعلمه القرآن.
جس طرح جبریل علیہ السلام قرآن مجید لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اترتا تھا، اسی طرح سنت (حدیث) لے کر بھی اترتا تھا۔ اور جس طرح قرآن مجید سکھاتا تھا، اسی طرح سنت بھی سکھاتا تھا۔
(قواعد التحديث، ص: 59 بيروت)
علامہ ابو البقاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سنت پر بحث کرتے کرتے انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ قرآن و حدیث وحی ہونے کے اعتبار سے تو دونوں ہی منکرین کو للکارتے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوْحٰى﴾ مگر وہ تو وحی ہے جو آپ کی طرف کی جاتی ہے۔ لیکن فرق اتنا ہے کہ قرآن ہر اعتبار سے معجزہ ہے، اور اس کے الفاظ بھی وہی ہیں جو پہلے لوح محفوظ میں تھے۔ نہ تو جبریل علیہ السلام نے اس میں تصرف کیا اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے۔ جبکہ حدیث میں ایسا نہیں، کیونکہ اس کا مفہوم تو من جانب اللہ ہے، لیکن الفاظ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہیں۔ (ایضاً)
◈ حدیث کے وحی ہونے کے چند دلائل
➊ ﴿وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ﴾
اور جس قبلہ پر تم پہلے سے تھے، اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تاکہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابع دار کون ہے، اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے۔
(2-البقرة:143)
اس آیت کو سمجھنے کے لیے اس کا پس منظر اور شان نزول کا سمجھنا ضروری ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہجرت کے بعد مدنی زندگی کے ابتدائی ایام میں مسلمانوں کو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم تھا، گویا بیت المقدس مسلمانوں کا قبلہ تھا۔ تقریباً سولہ (16) ماہ تک مسلمان اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے۔ اس کے بعد قرآن مجید نے سابقہ حکم منسوخ کر کے مسجد حرام کو مسلمانوں کا قبلہ بناتے ہوئے فرمایا:
﴿فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾
پس آپ اپنا چہرہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں۔
(2-البقرة:286)
اس حکم پر منافقوں نے اعتراض کیا کہ اس سے پہلے بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے میں آخر کیا حکمت تھی؟ اس اعتراض کے جواب میں ان آیات کا نزول ہوا۔
اب اس میں بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کی نسبت اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف کی ہے، جس سے واضح ہوتا ہے کہ بیت المقدس کو اللہ کے حکم سے ہی قبلہ مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن آپ قرآن مجید اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں کہ کہیں بھی آپ کو کوئی ایسی آیت نہیں ملے گی جس میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم ہو۔ یہ حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا تھا، جسے قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کا حکم قرار دیا ہے۔ اس آیت میں یہ الفاظ نہیں کہ وما جعلت القبلة یعنی جس قبلے پر آپ پہلے تھے ، اسے تو نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا ایسا نہیں ، بلکہ” وما جعلنا القبلة“ اور آپ جس قبلے پر پہلے سے تھے، اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا۔۔
قرآن مجید کا یہ بیان اس بات کی دلیل ہے کہ بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کا حکم جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دیا گیا تھا، وہ ایک ایسی وحی پر مبنی تھا جو قرآن مجید کے علاوہ تھی ، اور وہ وحی صرف اور صرف حدیث مبارکہ ہی تھی ۔
➋ ﴿وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ ۖ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَٰذَا ۖ قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ﴾
”اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بعض عورتوں سے ایک پوشیدہ بات کہی، پھر جب اس نے اس (پوشیدہ ) بات کی خبر کر دی۔ اور اللہ نے اپنے نبی کو اس پر آگاہ کر دیا تو نبی نے تھوڑی سی بات تو بتا دی اور تھوڑی سی ٹال گئے۔ پھر جب نبی نے اپنی اس بیوی کو یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی اس کی خبر آپ کو کس نے دی؟ ( نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ) فرمایا: سب کچھ جاننے والے، پوری خبر رکھنے والے (اللہ ) نے مجھے یہ بتلایا ہے۔“
(66-التحريم:3)
اس آیت میں اظهره الله عليه اس پر اللہ نے اپنے نبی کو آگاہ کر دیا اور قال نبانى العليم الخبير فرمایا ! مجھے سب کچھ جاننے والے، خبر رکھنے والے (اللہ ) نے خبر دی ہے۔ کے الفاظ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ پر قرآنِ مجید کے علاوہ بھی وحی کا نزول ہوتا تھا ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اس افشاء راز سے مطلع فرمایا تھا وہ بات قرآن مجید میں کہیں بھی نہیں ہے۔
➌ ﴿مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ﴾
” تم نے کھجور کے جو درخت کاٹ ڈالے، یا جنھیں تم نے ان کی جڑوں پر باقی رہنے دیا، یہ سب اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا ، اور اس لیے بھی کہ فاسقوں کو ( اللہ ) رسوا کرے۔ “
(59-الحشر:5)
اس آیت میں واضح طور پر فرما دیا گیا ہے، کہ مسلمانوں نے یہ درخت اللہ تعالیٰ کی اجازت سے کاٹے تھے۔ لیکن کوئی بھی شخص قرآن مجید کی کوئی ایسی آیت پیش نہیں کر سکتا کہ جس میں اس جنگ کے دوران درخت کاٹنے کی اجازت موجود ہو ۔ اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو اس اجازت کا علم کس طرح ہوا تھا ؟ اس کا جواب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ اجازت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دی تھی اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس اجازت کا علم وحی غیر متلو کے ذریعے ہی سے ہوا تھا۔
طوالت کے ڈر سے ہم صرف انہی آیات پر اکتفا کرتے ہیں، ورنہ قرآن مجید میں تو اس طرح کی کئی مثالیں موجود ہیں جو حدیث کے وحی ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔
اب جب کہ یہ ثابت ہو گیا ہے کہ حدیث بھی وحی الہی ہے تو پھر بحیثیت مسلمان ہونے کے ہم سب پر واجب ہے کہ ان دونوں قسموں کی وحیوں پر ایمان لائیں کیوں کہ یہی کامل ایمان کی نشانی ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿وَأَنزَلَ اللَّهُ عَلَيْكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُن تَعْلَمُ ۚ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا﴾
اور اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے، اور آپ کو وہ سکھایا ہے جو آپ نہیں جانتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کا آپ پر بڑا فضل ہے۔
(4-النساء:113)
یہ آیت اور اس قسم کی دوسری آیات میں کتاب سے مراد قرآن مجید اور حکمت سے مراد حدیث پاک ہے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جن باتوں کی ہمیں خبر دی ہے، ان سب پر ایمان لانا اور ان کی تصدیق کرنا بھی اسی طرح ضروری اور واجب ہے جس طرح قرآن مجید پر ایمان لانا اور اس کی تصدیق کرنا واجب ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ”ألا إني أوتيت الكتاب ومثله معه“ آگاہ رہو! مجھے کتاب (قرآن مجید) اور اس کے ساتھ اس کی مثل (حدیث) بھی دی گئی ہے۔
ابوداؤد، كتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم: 4604 الشیخ البانی نے اسے صحیح کہا ہے۔
معلوم ہوا کہ حدیث بھی قرآن ہی کی طرح ہے، بلکہ آپ یوں کہہ لیں کہ حدیث قرآن مجید ہی کا بیان ہے۔ لہٰذا اگر کوئی مسئلہ قرآن مجید میں نہ ہو، صرف حدیث میں ہو تو سمجھ لو کہ گویا وہ قرآن مجید ہی میں ہے۔
● تفصيلاً
قرآن مجید میں بھی کئی جگہ عذاب و ثواب قبر کا ذکر ہوا ہے، جس کا بیان آئندہ سطور میں ہوگا، ان شاء الله۔ ہاں البتہ اس پر ایک اعتراض کیا جاتا ہے وہ یہ کہ
اعتراض ➊: جن آیات کو عذاب قبر کی تائید میں پیش کیا جاتا ہے، وہ مکی ہیں۔ جب ان مکی آیات سے عذاب قبر کا ثابت ہونا قرار دیا گیا تو پھر ہجرت کے بعد مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض روایتوں کے مطابق عذاب قبر سے انکار کیوں فرمایا؟
جواب: اس اعتراض کے کئی جوابات ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عذاب قبر سے کلی انکار نہ تھا، بلکہ صرف مسلمان گنہگاروں کی بابت یہ انکار تھا، کیونکہ مکی آیات میں کفار کے متعلق عذاب قبر کا اشارہ تھا، نہ کہ مسلمان گنہگاروں کے متعلق۔ جیسا کہ صحیح مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن ان کے پاس تشریف لائے جبکہ ان کے پاس ایک یہودی عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ کہنے لگی کیا تمہیں معلوم ہے کہ تم (مسلمان بھی) قبروں میں آزمائے جاؤ گے؟ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ (یہ سن کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانپ اٹھے اور فرمایا: ”إنما تفتن اليهود“ صرف اور صرف یہود ہی (قبروں میں) آزمائے جائیں گے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر ہم چند راتیں ٹھہرے، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے معلوم ہے؟ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے کہ قبروں میں تمہاری (مسلمانوں کی) بھی آزمائش ہوگی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: اس دن سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عذاب قبر سے پناہ مانگتے سنا۔
مسلم، کتاب المساجد، باب استحباب التعوذ من عذاب القبر ….. رقم: 1319
مذکورہ بالا روایت سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عذاب قبر کا کلی انکار نہیں فرمایا تھا۔ اگر ایسی بات ہوتی تو آپ یہ نہ فرماتے کہ یہود ہی قبروں میں آزمائے جائیں گے۔ آپ کا انکار صرف اور صرف مسلمان گنہگاروں کے متعلق تھا، جو اللہ تعالیٰ نے بعد میں وحی کے ذریعے آپ کو بتا دیا۔ اسی طرح قبر میں پیش آنے والے حالات کی تفصیل بھی آپ کو مدینہ میں ہی بتلائی گئی تھی۔
اسی طرح منکرین عذاب قبر کی جانب سے کیا جانے والا یہ اعتراض بھی غلط ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک یہودی عورت کے بتانے سے عذاب قبر کا علم ہوا۔ یہ اس لیے غلط ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس یہودی عورت کی بات کی نفی کی تھی نہ کہ اثبات۔ پھر کچھ عرصے بعد آ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے درس دیا اور فرمایا کہ مجھے وحی کے ذریعے بتایا گیا ہے۔ یعنی نہ تو اس مسئلہ میں میری اپنی ذاتی رائے کا کوئی عمل دخل ہے اور نہ ہی کسی یہودی عورت کے بتانے سے مجھے پتہ چلا۔ مجھے تو صرف اور صرف وحی کے ذریعے سے پتہ چلا ہے کہ تم لوگ بھی قبروں میں آزمائے جاؤ گے۔
حاصل کلام
● مکی آیات سے صرف کفار کو عذاب قبر دیا جانا ثابت تھا۔ گنہگار اہل توحید پر عذاب قبر مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وحی غیر متلو کے ذریعے سے بتایا گیا تھا۔ آپ کی نفی گنہگار مسلمانوں کے بارے میں تھی نہ کہ تمام لوگوں کے بارے میں۔
● اس قسم کا اعتراض اکثر منکرین حدیث ہی کرتے ہیں، حالانکہ انہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اس قسم کی روایات کو بنیاد بنا کر عذاب قبر کا انکار کریں کیونکہ:
اولاً: تو وہ حدیث رسول کے منکر ہیں، ان کے نزدیک تو حدیث (نعوذ باللہ) من گھڑت اور جھوٹی ہیں۔
ثانیاً: اگر وہ حدیث رسول کو مانتے ہیں تو پھر جن روایتوں سے وہ یہ اعتراض نکالتے ہیں، انہی روایتوں میں اثبات کا بھی ذکر ہے۔ لہٰذا وہ مکمل حدیث کو مانتے ہوئے عذاب قبر تسلیم کریں۔