عقیدہ ختم نبوت قرآن کی روشنی میں

تحریر: غلام  مصطفی ظہیر امن پوری حفظہ اللہ، کتاب کا پی ڈی ایف لنک

عقیدہ ختم نبوت قرآن کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ نے انبیا بھیجنے کا وعدہ کیا تھا ، وہ پورا کر دیا ہے، محمد ﷺ آخری نبی ہیں اور آپ کی نبوت قیامت تک لئے ہے، آپ کے بعد کوئی ظلی یا بروزی نبی نہیں آسکتا۔

حافظ ابن کثیرؒ (774ھ) لکھتے ہیں:

إِنَّهُ قَدْ أَرْسَلَ إِلَيْهِمْ رَسُولَهُ مُحَمَّدًا خَاتَمَ النَّبِيِّينَ الَّذِي لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ وَلَا رَسُولَ بَلْ هُوَ الْمُعَقِّبُ لِجَمِيعِهِمْ .

”اللہ نے انسانوں کی طرف اپنے رسول محمد ﷺ کو خاتم النبیین بنا کر بھیجا، آپ کے بعد نہ کوئی نبی ہے، نہ رسول، آپ سب انبیا کے آخر میں آئے ہیں۔“

(تفسير ابن كثير : 70/3)

علامہ ابن ابی العز حنفیؒ (792ھ ) لکھتے ہیں:

فَالْوَاجِبُ اتِّبَاعُ الْمُرْسَلِينَ، وَاتَّبَاعُ مَا أَنْزَلَهُ اللهُ عَلَيْهِمْ، وَ قَدْ خَتَمَهُمُ اللهُ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَهُ آخِرَ الْأَنْبِيَاءِ، وَجَعَلَ كِتَابَهُ مُهَيْمِنًا عَلَى مَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنْ كُتُبِ السَّمَاءِ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ، وَجَعَلَ دَعْوَتَهُ عَامَّةٌ لجَمِيعِ الثَّقَلَيْنِ : الْجِنِّ وَالْإِنْسِ، بَاقِيَةً إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَانْقَطَعَتْ حُجَّةُ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ، وَقَدْ بَيَّنَ اللهُ بِهِ كُلَّ شَيْءٍ .

’’رسولوں اور ان پر نازل کی گئی کتابوں کا اتباع واجب ہے، اللہ نے رسولوں کا یہ سلسلہ محمد ﷺ پر ختم کر دیا ہے اور آپ ﷺ کو آخری نبی بنایا ہے، آپ ﷺ کی کتاب کو دوسری کتب سماویہ پر گواہ بنایا ہے۔ آپ ﷺ پر کتاب و حکمت کا نزول کیا ہے، آپ ﷺ کی دعوت کو قیامت تک تمام جن وانس کے لئے عام کیا ہے۔ آپ ﷺ کے ذریعے اللہ نے بندوں کی حجت پوری کر دی، جو اللہ کے ذمہ تھی اور آپ ﷺ کے ذریعے ہر چیز کو بیان کر دیا ہے۔“

(شرح العقيدة الطحاوية : ص 73)

قرآن کریم اور ختم نبوت :

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ)

(سبا: 28)

’’ہم نے آپ کو تمام انسانیت کے لئے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ہے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘

قاضی عیاض (544ھ ) اللہ فرماتے ہیں:

إِنَّهُ أُرْسِلَ كَافَّةً لِلنَّاسِ وَأَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلى حَمْلٍ هَذَا الْكَلَامِ عَلَى ظَاهِرِه .

’’بلاشبہ نبی کریم ﷺ کو تمام انسانوں کے لیے مبعوث کیا گیا۔ امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ یہ کلام اپنے ظاہر پر محمول ہے ۔‘‘

(الشفا : 271/2)

یہ ایک کلیہ ہے کہ نبی کریم ﷺ تا قیامت تمام انسانیت کی طرف مبعوث کئے گئے ہیں، اس کا واضح مطلب ہے کہ آپ ﷺ آخری نبی ہیں۔

امام طبری دانش: (310ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:

يَقُولُ تَعَالَى ذِكْرُهُ : وَمَا أَرْسَلْنَاكَ، يَا مُحَمَّدُ ، إِلى هَؤُلَاءِ الْمُشْرِكِينَ بِاللهِ مِنْ قَوْمِكَ خَاصَّةٌ، وَلكِنَّا أَرْسَلْنَاكَ كَافَّةٌ لِلنَّاسِ أَجْمَعِينَ ؛ العَرَبِ مِنْهُمْ وَالعَجَمِ، وَالأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ، بَشِيرًا مَّنْ أَطَاعَكَ، وَنَذِيرًا مِّنْ كَذَّبَكَ، وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللهَ أَرْسَلَكَ كَذَلِكَ إِلَى جَمِيعِ الْبَشَرِ .

’’ فرمان باری تعالٰی ہے کہ اے محمد (ﷺ) ! ہم نے آپ کو صرف مشرکین قریش کی طرف ہی نہیں، بلکہ عرب و عجم ، گوروں، کالوں اور پوری انسانیت کی طرف مبعوث کیا ہے، اپنی اطاعت کرنے والوں کو خوشخبری دیجئے اور جھٹلانے والوں کو ڈرائے ،لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے کہ اللہ نے آپ کو تمام انسانوں کی طرف بھیجا ہے۔‘‘

(تفسير الطبري : 288/19، ط هجر)

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ (728ھ) فرماتے ہیں:

لَمَّا كَانَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا إِلَى جَمِيع الثَّقَلَيْنِ جِيْهِمْ وَإِنْسِهِمْ ، عَرَبِهِمْ وَعَجَمِهِمْ، وَهُوَ خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ، لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ، كَانَ مِنْ نِعْمَةِ اللهِ عَلَى عِبَادِهِ، وَمِنْ تَمَامِ حُجَّتِهِ عَلى خَلْقِهِ أَن تَكُونَ آيَاتُ نُبُوَّتِهِ وَبَرَاهِينُ رِسَالَتِهِ مَعْلُومَةً لِكُلِّ الْخَلْقِ الَّذِينَ بُعِثَ إِلَيْهِمْ .

محمد ﷺ جن وانس اور عرب و عجم سب کے لیے رسول اور خاتم الانبیا بن کر تشریف لائے ہیں، آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں، یہ اللہ کا اپنے بندوں پر انعام ہے۔ اس نے آپ ﷺ کی نبوت کے دلائل و براہین بیان کر کے تمام مخلوق پر حجت تمام کر دی ہے ۔

(الجواب الصحيح : 405/5)

نیز فرماتے ہیں:

لَا بُدَّ فِي الْإِيمَان مِنْ أَن تُؤْمِنَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ ، لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ، وَأَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ إِلَى جَمِيعِ الثَّقَلَيْنِ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ، خَلْقِهِ، فِي تَبْلِيغِ أَمْرِهِ وَنَهْيِهِ، وَوَعْدِم وَوَعِيدِهِ، وَحَلَالِهِ وَحَرَامِهِ، فَالحَلَالُ مَا أَجَلَهُ اللهُ وَرَسُولُهُ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَهُ اللهُ وَرَسُولُهُ، وَالدِّينُ مَا شَرَعَهُ اللهُ وَرَسُولُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنِ اعْتَقَدَ أَنَّ لِأَحَدٍ مِّنَ الْأَوْلِيَاءِ طَرِيقًا إِلَى اللَّهِ مِنْ غَيْرِ مُتَابَعَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؛ فَهُوَ كَافِرٌ مِّنْ أَوْلِيَاءِ الشَّيْطَان.

’’مومن ہونے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ آپ محمد ﷺ کے خاتم الانبیا ہونے کا عقیدہ رکھیں، آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام جنوں اور انسانوں کی طرف مبعوث فرمایا، تا کہ اس کے اوامر و نواہی ، وعد و د عید اور حلال و حرام ان تک پہنچادیں۔ چنانچہ حلال وہی ہے، جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حلال قرار دیا اور حرام وہی ہے، جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دیا اور دین وہی ہے ، جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے مشروع کیا ہو۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھے کہ کسی ولی کے پاس محمد ﷺ کی اطاعت کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا کوئی راستہ ہے، وہ کافر ہے اور شیطان کا دوست ہے۔“

(الفرقان بين أولياء الرّحمان وأولياء الشيطان، ص : 21)

فرمانِ الہٰی ہے:

(قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا)

’’( نبی !) کہہ دیجئے کہ میں آپ سب کے لئے اللہ کا رسول ہوں۔“

حافظ ابن کثیرؒ (774ھ ) لکھتے ہیں:

(الأعراف : 158)

يَقُولُ تَعَالَى لِنَبِيه وَرَسُولِهِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قُلْ يَا مُحَمَّدُ : يَا أَيُّهَا النَّاسُ ، وَهَذَا خِطَابٌ لِلْأَحْمَرِ وَالْأَسْوَدِ، وَالْعَرَبِي وَالْعَجَمِي إِلَى رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ، أَي جَمِيعُكُمْ، وَهُذَا مِنْ شَرَفِهِ وَعَظَمَتِهِ أَنَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، وَأَنَّهُ مَبْعُوثُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةٌ .

’’اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور رسول محمد ﷺ سے فرماتا ہے :

محمد (ﷺ) ! فرما دیجیے کہ لوگو! میں آپ سب کی طرف اللہ کا رسول بن کر آیا ہوں۔ یہ خطاب سرخ وسیاہ اور عربی و عجمی سب کے لیے ہے۔ یہ آپ نام کا شرف اور عظمت ہے کہ آپ خاتم النبین ہیں اور تمام لوگوں کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں۔“

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

(تفسير ابن كثير : 489/3، ت سلامة)

(مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا)

(الأحزاب: 40)

’’محمد (ﷺ؍) تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں، لیکن اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں اور اللہ ہر چیز سے بخوبی واقف ہے۔“

مفسر ابن عطیہؒ (541ھ) فرماتے ہیں:

هذِهِ الْأَلْفَاظُ عِنْدَ جَمَاعَةِ عُلَمَاءِ الْأُمَّةِ خَلَفًا وَسَلَفًا مُتَلَقَاةٌ عَلَى الْعُمُومِ النَّامِ مُقتَضِيَةٌ نَصًا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

’’علمائے سلف وخلف کے نزدیک یہ الفاظ عام ہیں اور واضح نص ہیں کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔“

(تفسیر ابن عطية : 388/4)

امام ابن جریر طبریؒ (310 ھ ) لکھتے ہیں:

خَاتَمُ النَّبِيِّينَ الَّذِي خَتَمَ النُّبُوَّةَ فَطُبعَ عَلَيْهَا ، فَلَا تُفْتَحُ لأحَدٍ بَّعْدَهُ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ .

’’نبی کریم ﷺ خاتم النبین ہیں، آپ نے نبوت ختم کر دی، اس پر مہر لگا دی گئی ہے، اب قیامت تک کسی کے لئے کھولی نہیں جائے گی۔“

(تفسير الطبري : 121/19)

حافظ ابن کثیرؒ (774ھ) لکھتے ہیں:

قَوْلُهُ : وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيما كَقَوْلِهِ : اللهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهُ

(الْأَنْعَامِ : 124)

فَهَذِهِ الْآيَةُ نَصِّ فِي أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ، وَإِذَا كَانَ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ فَلَا رَسُولَ بَعْدَهُ بِطَرِيقِ الأَوْلى وَالْأَحْرَى؛ لأنَّ مَقَامَ الرِّسَالَةِ أَخَصُّ مِنْ مَّقَامِ النُّبُوَّةِ، فَإِنَّ كُلَّ رَسُولٍ نَّبِي، وَلَا يَنْعَكِسُ، وَبِذلِكَ وَرَدَتِ الْأَحَادِيثُ المُتَوَاتِرَةُ عَنْ رَّسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حَدِيثِ جَمَاعَةٍ مِنَ الصَّحَابَةِ .

فرمان باری تعالیٰ :

(وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا)

’’لیکن آپ اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں، اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بخوبی واقف ہے۔“ بھی اللہ تعالٰی کے اس فرمان :

(الله أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَه)

’’اللہ بخوبی جانتا ہے کہ رسالت کے سونے؟“ کی طرح ہے۔ یہ آیت نص ہے کہ جناب محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ جب آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں، تو آپ کے بعد کوئی رسول کیسے ہو سکتا ہے ، مقام رسالت اور مقام نبوت میں عموم و خصوص مطلق ہے، ہر رسول نبی ہوتا ہے، لیکن ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ مسئلہ ختم نبوت پر رسول اللہ ﷺ سے متواتر احادیث موجود ہیں، جو صحابہ کی ایک جماعت نے بیان کی ہیں۔‘‘

(تفسير ابن كثير : 428/6)

محمد ﷺ کی نبوت ورسالت عام ہے، آپ کا دین جامع، عام فہم اور ہر قسم کے رد و بدل سے محفوظ ہے، آپ ﷺ کو خاتم النبین بنا کر بھیجا گیا ہے، جس کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، اس آیت کریمہ میں اللہ نے اپنی صفت علم کا ذکر کیا ہے، اس میں ایک لطیف نکتہ ہے، اللہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ قیامت تک کے لے وحی کی جتنی ضرورت تھی، وہ ہمارے علم میں ہے اور اس کا بیان ہم نے تنصیصا و تعلیلا محمد رسول اللہ ﷺ پر نازل کر دیا ہے۔

’’خاتم‘‘ کا لفظ دو طرح پڑھا جاتا ہے:

ایک تاء کے کسرہ کے ساتھ ، اس میں دو معانی کا احتمال ہے:

➊ اسم فاعل ہو، تو ’’خاتم‘‘ کا معنی ہوگا: ’’ختم کرنے والا‘‘

➋ اسم آلہ خلاف قیاس ہو، جس کا معنی ہوگا: ’’ختم کا آلہ‘‘ یعنی آپ کے ساتھ نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا گیا ہے۔

امام ابن جریرؒ ( 310ھ) لکھتے ہیں:

بِكَسْرِ التَّاءِ خَاتِمُ النَّبِيِّينَ، بِمَعْنَى أَنَّهُ خَتَمَ النَّبِيِّينَ.

’’تاء کے کسرہ سے خاتم النبین کا معنی یہ ہے کہ آپ ﷺ نے نبیوں کا سلسلہ ختم کر دیا ہے۔‘‘

(تفسير الطبري : 12/22، 13)

لفظ خاتم اگر تاء کے فتحہ سے پڑھیں، تو اسم آلہ کے معنی میں ہو گا، تب اس کے دو معنی ہوں گے:

➊ آخر، یعنی آخری نبی ، سب سے پیچھے آنے والے۔

➋ آپ ﷺ بمنزلہ مہر ہیں۔ اب نبوت پر مہر لگا دی گئی ہے۔

خاتم کے معنی مہر کے ہوں یا آخر کے یا ختم کرنے والے کے، ہر صورت میں اس کا مفہوم یہی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کے بعد کسی کو نبوت نہیں مل سکتی۔ اس میں نبوت کی کوئی تخصیص نہیں کہ وہ اصلی ہو یا ظلی و بروزی ، تشریعی ہو یا غیر تشریعی ۔ بالفرض اگر غیر تشریعی نبوت کا وجود ہو، تو وہ بھی ختم ہے۔ اگر اس کا وجود ہی نہیں، تو وہ پہلے سے ہی معدوم ہے، پھر اس کے ختم ہونے کا کوئی معنی نہیں۔ احادیث صحیحہ اور اجماع امت اس معنی کی تائید کرتا ہے۔

( ختم نبوت از محدث گوندلوی ، ص 17 – 18 )

اگر کوئی کہے کہ خاتم النبیین میں الف لام استغراق کے لیے نہیں، بلکہ ایسا الف لام ہے، جیسے (وَيَقْتُلُونَ النَّبِيِّينَ) میں ہے۔ یہ الف لام استغراقی نہیں، کیوں کہ سارے نبی قتل نہیں ہوئے۔

تو عرض ہے کہ جمع مذکر سالم پر اگر الف لام آئے ، تو دراصل وہ جمیع افراد کے لیے ہی ہوتا ہے، جیسے رب العالمین کا معنی ہے: سارے جہانوں کا رب۔

اگر قرینہ پایا جائے، تو اس سے بعض افراد مراد لیے جاسکتے ہیں، آیت (وَيَقْتُلُونَ النبيين) میں تین قرینے ہیں، جن سے لفظ ’’النبیین‘‘ کی تخصیص ہو جاتی ہے:

لفظ قتل، کیونکہ قرآن مجید میں بعض نبیوں کے قتل کا ذکر ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

(وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ)

’’ایک فریق کو تم قتل کرتے تھے۔‘‘

حقیقت بھی یہی ہے کہ بعض نبی قتل ہوئے ہیں۔ یہ قرینہ حسی اور پہلا لفظی ہے۔

یہود کا فاعل ہونا، کیوں کہ یہود صرف انہی نبیوں کو قتل کر سکتے تھے ، جو نبی ان میں مبعوث ہوئے۔

بعض انبیا کے غیر مقتول ہونے کا ذکر ۔

یہ تین قرائن دلالت کرتے ہیں کہ یہاں بعض نبی مراد ہیں، جب کہ ’’خاتم النبین‘‘ میں بعض انبیا مراد لینے کا کوئی قریبہ نہیں، یہاں تمام انبیا ہی مراد ہیں۔

ثابت ہوا کہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا ۔ اب جو نبوت کا مدعی ہو یا محمد ﷺ کے بعد نبی کا پیدا ہوناممکن سمجھے، وہ بالا تفاق کا فر ہے۔

علامہ ابن حزمؒ ( 456 ھ ) لکھتے ہیں:

أَمَّا مَنْ قَالَ : إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ هُوَ فُلَانٌ لِإِنْسَانِ بِعَيْنِهِ أَوْ إِنَّ الله تَعَالى يَحِلُّ فِي جِسْمِ مِنْ أَجْسَامٍ خَلْقِهِ أَوْ إِنَّ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيًّا غَيْرَ عِيسَى بْنِ مَرْيَمَ فَإِنَّهُ لَا يَخْتَلِفُ اثْنَانِ فِي تَكْفِيرِهِ لِصِحَّةِ قِيَامِ الْحُجَّةِ بِكُلِّ هَذَا عَلَى كُلّ أَحَدٍ .

’’جو کہے کہ اللہ فلاں شخص کے روپ میں ہے یا کہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے جسم میں حلول کرتا ہے یا کہے کہ محمد ﷺ کے بعد سید نا عیسی بن مریمؑ کے علاوہ کوئی اور نبی بھی آسکتا ہے، تو اس کے کفر میں (اہل اسلام میں سے ) دو انسانوں کا بھی اختلاف نہیں، کیوں کہ ان تمام عقائد کی حجت ہر شخص پر قائم ہوچکی ہے۔‘‘

(الفصل في الملل والأهواء والنحل: 130/3)

قاضی عیاضؒ (544ھ) لکھتے ہیں:

كَذلِك مَنِ ادَّعَى نُبُوَّةَ أَحَدٍ مَّعَ نَبِيِّنَا صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّم أَوْ بَعْدَهُ كَالْعِيْسَوِيَّةِ مِنَ الْيَهُودِ الْقَائِلِينَ بِتَخْصِيصِ رِسَالَتِهِ إِلَى الْعَرَبِ وَكَالْخُرَّمِيَّةِ الْقَائِلِينَ بِتَوَاتُرِ الرُّسُلِ وَكَأَكْثَرِ الرَّافِضَةِ الْقَائِلِينَ بِمُشَارَكَةِ عَلِي فِي الرِّسَالَةِ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَعْدَهُ فَكَذلِكَ كُلُّ إِمَامٍ عِنْدَ هَؤُلَاءِ يَقُومُ مَقَامَهُ فِي النُّبُوَّةِ وَالْحُجَّةِ وَكَالْبَزِيْغِيَّةِ وَالْبَيَانِيَّةِ مِنْهُمُ الْقَائِلِينَ بِنُبُوَّة بِزِيعٍ وَبَيَانِ وَأَشْبَاءِ هَؤُلَاءِ أَوْ مَنِ ادَّعَى النُّبُوَّةَ لِنَفْسِهِ أَوْ جَوَّزَ اكْتِسَابَهَا وَالْبُلُوعَ بِصَفَاءِ الْقَلْبِ إِلَى مَرْتَبَتِهَا كَالْفَلَاسِفَةِ وَغُلَاةِ المُتَصَوّفَةِ وَكَذَلِكَ مَن ادَّعَى مِنْهُم أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ وَإِن لَّمْ يَدَّعِ النُّبُوَّةَ أَوْ أَنَّهُ يَصْعَدُ إِلَى السَّمَاءِ وَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ وَيَأْكُلُ مِنْ ثِمَارِهَا وَيُعَانِقُ الْحُورَ الْعَيْنِ فَهَؤُلَاءِ كُلُّهُم كُفَّارٌ مُّكَذِّبُونَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَنَّهُ أَخْبَرَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ وَأَخْبَرَ عَنِ اللَّهِ تَعَالَى أَنَّهُ خَاتَمُ النَّبِيِّينَ وَأَنَّهُ أُرْسِلَ كَافَّةٌ لِلنَّاسِ وَأَجْمَعَتِ الْأُمَّةُ عَلَى حَمْلِ هَذَا الْكَلَامِ عَلى ظَاهِرِهِ وَأَنَّ مَفْهُومَهُ الْمُرَادَ بِهِ دُونَ تَأْوِيلٍ وَلَا تَحْصِيصِ فَلَا شَكٍّ فِي كُفْرِ هَؤُلَاءِ الطَّوَائِفِ كُلِّهَا قطعًا إِجْمَاعًا وَسَمْعًا.

’’اسی طرح جو شخص نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں یا اس کے بعد نبوت میں کسی کو شریک قرار دے، وہ کافر ہے۔ یہود کا عیسویہ فرقہ کہتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی نبوت خطہ عرب کے ساتھ خاص ہے۔ فرقہ خرمیہ کہتا ہے کہ رسول متواتر آتے رہیں گے۔ روافض کی اکثریت کہتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد سیدنا علیؓ آپ کی رسالت میں شریک ہیں، اسی طرح ان کے نزدیک ان کا ہر امام نبوت وحجت میں نبی کریم ﷺ کے قائم مقام ہے۔ بزیغیہ اور بیانیہ فرقے بزیغ اور بیان نامی اشخاص کی نبوت کے قائل ہیں یہ سب لوگ کافر ہیں۔ اسی طرح وہ بھی کافر ہے جس نے خود نبوت کا دعوی کیا یا فلاسفہ اور غالی صوفیوں کی طرح دل کی صفائی سے نبوت کے اکتساب اور نبوت کے مرتبہ تک پہنچنے کو جائز سمجھا، وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے جو نبوت کا مدگی نہ ہومگر خود پر وحی کے نزول کا دعوی کرتا ہو، یا کہتا ہو کہ وہ آسمان پر چڑھتا ہے، جنت میں داخل ہوتا ہے اور اس کے پھل کھاتا ہے اور حور عین سے معانقہ کرتا ہے، اس قسم کے نظریات رکھنے والے تمام لوگ کافر ہیں اور رسول اللہ ﷺ کی تکذیب کرتے ہیں، حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ خاتم النبین ہیں ۔ آپ پوری انسانیت کی طرف مبعوث ہیں۔ یہ کلام اپنے ظاہری معنی پر محمول ہوگا، اس پر امت کا اجماع ہے۔ اس میں کسی قسم کی تاویل و تخصیص کی گنجائش نہیں۔ پس مذکورہ بالا فرقوں کے کفر میں کوئی شک وشبہ نہیں۔ اجماع اور قرآن و سنت کے دلائل سے یہ لوگ دائرہ اسلام سے یقیناً خارج ہیں۔‘‘

(الشَّفا بتعريف حقوق المصطفى : 285/2، 286)

علامہ آلوسی حنفیؒ (1270 ھ ) لکھتے ہیں:

كَوْنُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاتَمَ النَّبِيِّينَ مِمَّا نَطَقَ بِهِ الْكِتَابُ وَصَدَعَتْ بِهِ السُّنَّةُ وَأَجْمَعَتْ عَلَيْهِ الْأُمَّةُ، فَيُكَفَّرُ مُدَّعِي خِلَافِه وَيُقْتَلُ إِنْ أَصَر .

’’جناب محمد ﷺ کا خاتم النبیین ہونا ان عقائد میں سے ہے، جنہیں قرآن نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے، سنت نے واشگاف کیا ہے اور امت نے اس پر اتفاق کیا ہے، لہذا اس کے خلاف دعوی کرنے والا کا فر قرار دیا جائے گا اور اگر اس دعوے پر اصرار کرے، تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔“

(روح المعاني : 32/22، 39)

نوٹ:

لفظ خاتم پر مفصل بحث آئندہ اوراق میں لکھی جائے گی۔

یہ پوسٹ اپنے دوست احباب کیساتھ شئیر کریں

فیس بک
وٹس اپ
ٹویٹر ایکس
پرنٹ کریں
ای میل
ٹیلی گرام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته، الحمد للہ و الصلٰوة والسلام علٰی سيد المرسلين

بغیر انٹرنیٹ مضامین پڑھنے کے لیئے ہماری موبائیل ایپلیکشن انسٹال کریں!

نئے اور پرانے مضامین کی اپڈیٹس حاصل کرنے کے لیئے ہمیں سوشل میڈیا پر لازمی فالو کریں!

جزاکم الله خیرا و احسن الجزاء