اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا – عقیدہ اہل السنۃ والجماعۃ
❖ سوال
ایک عالم کا کہنا ہے کہ:
"جو شخص اللہ تعالیٰ کو بلاکیف عرش پر مستوی مانے، وہ کافر ہے۔ کیونکہ اللہ عرش پر نہیں بلکہ ہر انسان کے سینے میں ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
’زمین و آسمان کی پیمائش مت کرو، صرف مسلمان مرد کے دل کی پیمائش کرو‘۔”
پھر سوال پوچھا گیا:
کیا یہ بات درست ہے؟ اس پر واضح اور مدلل جواب دیا جائے۔
❖ قرآن سے استواء علی العرش کا ثبوت
اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر قرآن کریم میں بار بار، صریح اور واضح الفاظ میں آیا ہے:
1. سورۃ الأعراف، آیت 54:
﴿إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ﴾
ترجمہ: "یقیناً تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔”
2. سورۃ یونس، آیت 3:
﴿إِنَّ رَبَّكُمُ ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ﴾
ترجمہ: "یقیناً تمہارا رب اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر بلند ہوا۔”
3. سورۃ الرعد، آیت 2:
﴿ٱللَّهُ ٱلَّذِى رَفَعَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ﴾
ترجمہ: "اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں کو بغیر کسی ستون کے بلند کیا، جیسا کہ تم دیکھتے ہو، پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔”
4. سورۃ طہ، آیت 5:
﴿ٱلرَّحْمَـٰنُ عَلَى ٱلْعَرْشِ ٱسْتَوَىٰ﴾
ترجمہ: "رحمٰن عرش پر بلند ہوا۔”
5. سورۃ الفرقان، آیت 59:
﴿ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ﴾
ترجمہ: "وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر بلند ہوا۔”
6. سورۃ السجدہ، آیت 4:
﴿ٱللَّهُ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ﴾
ترجمہ: "اللہ وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان جو کچھ ہے، چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر عرش پر بلند ہوا۔”
7. سورۃ الحدید، آیت 4:
﴿هُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ﴾
ترجمہ: "وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔”
❖ واضح نتیجہ
سات مختلف مقامات پر اللہ تعالیٰ کے عرش پر مستوی ہونے کا ذکر کیا گیا۔
یہ عقیدہ صرف قرآن کی تعلیم نہیں بلکہ عقیدۂ صحابہ، تابعین، سلف صالحین کا بھی ہے۔
اہل سنت کا اصول:
اللہ کی صفات کو ویسے ہی ماننا ہے جیسے قرآن و حدیث میں آئی ہیں،
نہ تاویل کرنی ہے، نہ کیفیت بیان کرنی ہے۔
❖ صفاتِ الٰہیہ: ان کا مفہوم اور فہمِ سلف
اللہ تعالیٰ کی صفات ایسی ہیں جو کامل، بے مثال اور مخلوق سے جدا ہیں۔
صفات ذات کی تابع ہوتی ہیں، اور چونکہ اللہ کی ذات بے مثل ہے،
اس لیے اس کی صفات بھی بے مثل ہیں۔
❖ انسان بھی "سمیع و بصیر” کہلایا، مگر…
سورۃ الدہر، آیت 2:
﴿إِنَّا خَلَقْنَا ٱلْإِنسَـٰنَ مِن نُّطْفَةٍ أَمْشَاجٍ نَّبْتَلِيهِ فَجَعَلْنَـٰهُ سَمِيعًا بَصِيرًا﴾
ترجمہ: "ہم نے انسان کو نطفے سے پیدا کیا تاکہ ہم اس کی آزمائش کریں،
اور ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔”
❖ مگر اللہ کا "سمیع و بصیر” ہونا بے مثل ہے
سورۃ الشوریٰ، آیت 11:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِۦ شَىْءٌۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ﴾
ترجمہ: "اس جیسا کوئی چیز نہیں، اور وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔”
❖ صفاتِ الٰہیہ کی معرفت: ایمان اور عبادت کی بنیاد
❖ اللہ تعالیٰ کی صفات کو سمجھنے کا منہجِ سلف
سلف صالحین (صحابہ، تابعین، ائمہ) کا عقیدہ یہ ہے کہ:
اللہ کی وہ تمام صفات جن کا ذکر قرآن اور صحیح احادیث میں ہوا ہے،
ان کو بغیر تاویل، بغیر تعطیل، بغیر تشبیہ اور بغیر تکییف کے مانا جائے۔
صفات کے لغوی معنی ہمیں معلوم ہیں، لیکن کیفیت (کیسے؟) ہمیں معلوم نہیں۔
❖ صفات میں اشتراک صرف الفاظ کا ہوتا ہے
مخلوق اور خالق کے درمیان صفات میں صرف لفظی اشتراک ہے۔
حقیقت اور کیفیت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
❖ صفاتِ الٰہیہ: متشابہات کا حصہ
اللہ تعالیٰ کی بعض صفات، جیسے:
ید (ہاتھ)، عین (آنکھ)، وجہ (چہرہ)
کو ہم ویسے ہی مانتے ہیں جیسے قرآن و حدیث میں آئی ہیں۔
ان میں کوئی تاویل یا مخلوق سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔
❖ متشابہ صفات کا فائدہ کیا ہے؟
اگر ہمیں ان صفات کی حقیقت یا کیفیت معلوم نہیں، تو ان کا ذکر کیوں ہے؟
❖ جواب
اللہ تعالیٰ کی معرفت صرف صفات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
کیونکہ:
ہم دنیا میں اللہ کو دیکھ نہیں سکتے۔
جیسے بادشاہ کو دیکھے بغیر اس کی صفات سے پہچانا جا سکتا ہے۔
اسی طرح اللہ کو اس کی صفات سے پہچانا جاتا ہے۔
❖ صفات سے تعلق کیسے قائم ہوتا ہے؟
بندہ جب اللہ کی صفات کو جان لیتا ہے، تو اس کے دل میں:
محبت، خشیت، امید، بھروسہ پیدا ہوتا ہے۔
مثلاً:
اللہ خالق ہے → میرا پیدا کرنے والا وہی ہے۔
اللہ رازق ہے → میرا رزق وہی دیتا ہے۔
اللہ سمیع ہے → میری دعائیں سنتا ہے۔
اللہ غفور و رحیم ہے → وہ میرے گناہوں کو معاف کرتا ہے۔
❖ غیب پر ایمان
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو غیب پر ایمان کا حکم دیا۔
اللہ کو دیکھے بغیر اس کی عبادت تبھی ممکن ہے جب اس کی صفات کا علم ہو۔
❖ ایمان والوں کی اللہ سے شدید محبت
سورۃ البقرہ، آیت 165:
﴿وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِ﴾
ترجمہ: "اور جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ سے شدید محبت رکھتے ہیں۔”
یہ محبت اللہ کی صفات کے علم کی بنیاد پر پیدا ہوتی ہے۔
❖ انسان اور اللہ کے تعلق کی حقیقی بنیاد
انسان کے دل میں جتنا زیادہ اللہ کی صفات کا علم ہوگا،
اتنا ہی اللہ سے تعلق مضبوط ہوگا۔
عبادت میں اخلاص، خشیت اور خضوع پیدا ہوگا۔
❖ عبادت کی بنیاد معرفت ہے
سورۃ الذاریات، آیت 56:
﴿وَمَا خَلَقْتُ ٱلْجِنَّ وَٱلْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾
ترجمہ: "میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا۔”
اور عبادت کی بنیاد معرفت ہے۔
اگر معرفت نہ ہو، تو عبادت بے روح اور بے حقیقت ہو گی۔
❖ جہمیہ کا انکارِ صفات
جہمیہ اور بعض دیگر گمراہ فرقے کہتے ہیں:
"اللہ کی کوئی صفت نہیں ہے۔”
نتیجہ:
اگر اللہ کی صفات نہ ہوں تو:
وہ کسی موجود ہستی کے طور پر پہچانا ہی نہیں جا سکتا۔
پھر وہ ایک موہوم چیز بن جائے گا۔
یہ عقیدہ سراسر کفر ہے۔
❖ صفاتِ الٰہیہ کا انکار = وجودِ الٰہی کا انکار
دنیا کی ہر چیز صفات کے ساتھ جانی جاتی ہے۔
اگر اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت نہ ہو تو:
وہ کسی حقیقی وجود کا حامل نہیں رہے گا (معاذ اللہ)۔
❖ ایمان کے لیے صفات کا علم ضروری ہے
اللہ کی بندگی کے لیے ضروری ہے کہ:
بندے کے ذہن میں اللہ کی صفات کا مکمل اور صحیح تصور ہو۔
تاکہ وہ یہ جان سکے کہ:
جس کی عبادت وہ کر رہا ہے، وہ:
موجود ہے، قوی ہے، سمیع ہے، بصیر ہے، رحیم ہے، غفور ہے، مالک ہے۔
❖ صفاتِ الٰہی کی اقسام اور ان کی معرفت
❖ صفات کی دو اقسام
علماء کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی صفات کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے:
صفاتِ ثبوتیہ (مثبت صفات)
وہ صفات جو اللہ تعالیٰ کے کمالات کو بیان کرتی ہیں۔
صفاتِ سلبیہ (نفی والی صفات)
وہ صفات جن میں اللہ تعالیٰ کو ہر قسم کے عیب، کمی، اور نقص سے پاک قرار دیا جاتا ہے۔
❖ 1. صفاتِ ثبوتیہ
یہ وہ صفات ہیں جو اللہ کی عظمت، کمال اور خوبیوں کو بیان کرتی ہیں، جیسے:
الغفور (بخشنے والا)
الرحیم (نہایت مہربان)
الشکور (قدردان)
الودود (محبت کرنے والا)
العادل (انصاف کرنے والا)
السمیع (سننے والا)
البصیر (دیکھنے والا)
❖ 2. صفاتِ سلبیہ
یہ وہ صفات ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی کمزوری، محتاجی، ناتوانی، نقص یا عیب کی نفی کی جاتی ہے، مثلاً:
اللہ نہ سوتا ہے، نہ اونگھتا ہے۔
وہ کسی چیز کا محتاج نہیں۔
اس کا کوئی شریک، بیوی یا اولاد نہیں۔
سورۃ الاخلاص، آیت 4:
﴿وَلَمْ يَكُن لَّهُۥ كُفُوًا أَحَدٌ﴾
ترجمہ: "اور نہ ہی اس کا کوئی ہمسر (برابر والا) ہے۔”
❖ صفاتِ سلبیہ کا مفہوم
اللہ تعالیٰ ہر اس صفت سے پاک ہے جو مخلوق میں پائی جاتی ہے اور کسی قسم کے عیب یا نقص پر دلالت کرتی ہے۔
مثلاً:
بھول جانا، تھک جانا، ظلم کرنا، محتاج ہونا، مرنا، جسمانی محدودیت وغیرہ۔
سورۃ الشوری، آیت 11:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَىْءٌۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ﴾
ترجمہ: "کوئی چیز اس جیسی نہیں، اور وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔”
❖ ذکرِ صفات کا مقصد
اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی ﷺ نے بار بار اللہ کی صفات کا ذکر کیا، تاکہ:
بندے کے دل میں اللہ کی معرفت اور محبت پیدا ہو۔
بندہ یہ سمجھے کہ وہ کس ہستی کی عبادت کر رہا ہے۔
❖ متشابہ صفات کے بیان کا مقصد
بعض صفات کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہوتی، مگر:
ان کا مقصد یہ ہے کہ:
بندہ جان لے کہ اللہ:
سننے والا ہے → دعاؤں کو سنتا ہے
دیکھنے والا ہے → تمام اعمال دیکھتا ہے
غفار ہے → بندوں کے گناہوں کو معاف کرتا ہے
عادل ہے → کسی پر ظلم نہیں کرتا
❖ اللہ کے صفاتی کلمات: "سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر”
اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کے بیان کے لیے ہمیں یہ عظیم الفاظ سکھائے:
1. سبحان اللہ
اس کا مطلب ہے: "اللہ ہر عیب، نقص اور خامی سے پاک ہے۔”
یہ صفاتِ سلبیہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
2. الحمد للہ
یعنی "تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔”
اس میں صفاتِ کمال اور خوبیوں کا بیان ہے۔
3. اللہ اکبر
یعنی "اللہ سب سے بڑا ہے۔”
مطلب یہ کہ اللہ تعالیٰ ہمارے فہم، تصور اور سوچ سے بھی بلند تر ہے۔
4. لا الہ الا اللہ
یعنی "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔”
صرف اللہ ہی عبادت کے لائق ہے کیونکہ:
وہ تمام صفاتِ کمال کا مالک ہے۔
اس کا کوئی شریک یا ہمسر نہیں۔
❖ صفات سے تعلق کے بغیر عبادت بے روح ہے
جب بندہ اللہ کی صفات کو جان لیتا ہے تو:
وہ دل سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔
عبادت میں خلوص، خشیت اور محبت پیدا ہوتی ہے۔
❖ استواء علی العرش: صفاتِ الٰہیہ میں سے ایک صفت
اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا قرآن سے ثابت ایک واضح صفت ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ:
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کے بعد عرش پر استقرار فرمایا۔
جیسے بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھ کر حکومت کرتا ہے،
ویسے ہی اللہ عرش پر مستوی ہو کر تمام کائنات کا نظام چلا رہا ہے۔
سورۃ فاطر، آیت 41:
﴿إِنَّ ٱللَّهَ يُمْسِكُ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ أَن تَزُولَا﴾
ترجمہ: "بے شک اللہ ہی آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ نہ جائیں۔”
❖ اللہ تعالیٰ کا عرش پر مستوی ہونا: صفات میں بے مثلیت
❖ "اللہ کا عرش پر ہونا” کی حقیقت
قرآن مجید میں سات مقامات پر آیا:
﴿ثُمَّ ٱسْتَوَىٰ عَلَى ٱلْعَرْشِ﴾
یعنی: "پھر وہ عرش پر مستوی ہوا”
"استواء” اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک ہے،
لیکن اس کی کیفیت (کیسے؟) ہمیں معلوم نہیں۔
سلف کا منہج:
الاستواء معلوم، والكيف مجهول، والإيمان به واجب، والسؤال عنه بدعة
"استواء کا معنی معلوم ہے، اس کی کیفیت نامعلوم ہے، اس پر ایمان واجب ہے، اور اس پر سوال کرنا بدعت ہے۔”
❖ اللہ کی صفات بے مثل ہیں
سورۃ الشوریٰ، آیت 11:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَىْءٌۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْبَصِيرُ﴾
ترجمہ: "اس جیسی کوئی چیز نہیں، اور وہی سننے والا، دیکھنے والا ہے۔”
جیسے اللہ کی ذات مخلوق سے مختلف ہے،
ویسے ہی اس کی صفات بھی مخلوق سے جدا اور بے مثل ہیں۔
❖ "استوی علی العرش” کا لغوی معنی
عربی زبان میں "استوی علی” کا مطلب ہوتا ہے:
بلند ہونا
اوپر چڑھنا
تخت نشین ہونا
قرآن سے مثالیں:
سورۃ الزخرف، آیت 13:
﴿لِتَسْتَوُۥا۟ عَلَىٰ ظُهُورِهِ﴾
ترجمہ: "تاکہ تم ان کی پیٹھوں پر سوار ہو سکو۔”
سورۃ ہود، آیت 44:
﴿وَٱسْتَوَتْ عَلَى ٱلْجُودِيِّ﴾
ترجمہ: "اور (نوح کی) کشتی جودی پہاڑ پر جا ٹھہری۔”
ان آیات میں "استوی” کا مطلب ہے: بلندی اور استقرار۔
❖ تاویلاتِ باطلہ: "استوی” کا مطلب "غالب آیا” کہنا
❖ بعض گمراہ فرقوں کی تاویل
معتزلہ، جہمیہ اور بعض اشاعرہ کہتے ہیں:
"استوی علی العرش” کا مطلب ہے: "عرش پر غالب آیا”
وہ دلیل کے طور پر ایک شعر پیش کرتے ہیں:
"استوی بشر على العراق من غير سيف ولا دم مهراق”
ترجمہ: "بشر عراق پر غالب آیا بغیر تلوار اور خون بہائے۔”
❖ اس تاویل کا ردّ
قرآن میں سات جگہ "استوی علی العرش” آیا
کبھی بھی "استولیٰ علی العرش” نہیں آیا۔
لغتِ عرب میں جب "استوی” کا صلہ "علی” کے ساتھ آتا ہے تو:
اس کا مطلب ہوتا ہے بلند ہونا، نہ کہ غلبہ پانا۔
"استولیٰ” کا مطلب ہوتا ہے:
کسی ایسی چیز پر قابو پانا جو پہلے قبضے میں نہ ہو۔
یہ اللہ کے لیے کفر پر مبنی تاویل ہے، کیونکہ:
اللہ کا عرش پہلے سے اس کے قبضے میں تھا۔
استیلاء کا مطلب اگر لیا جائے تو:
گویا (معاذ اللہ) اللہ کو پہلے عرش پر غلبہ حاصل نہ تھا، بعد میں ہوا!
یہ قرآن کے صریح نصوص کے خلاف ہے۔
❖ عرش کا وجود، زمین و آسمان کی تخلیق سے پہلے
سورۃ ہود، آیت 7:
﴿وَهُوَ ٱلَّذِى خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٰتِ وَٱلْأَرْضَ فِى سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُۥ عَلَى ٱلْمَآءِ﴾
ترجمہ: "اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا،
اور اس کا عرش پانی پر تھا۔”
اصولِ نحو کے مطابق:
"وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى ٱلْمَآءِ” ایک جملہ حالیہ ہے۔
مطلب: جب زمین و آسمان بنے ہی نہیں تھے، عرش پہلے سے موجود تھا۔
❖ نتیجہ
اگر عرش پہلے سے اللہ کے قبضے میں تھا،
تو "استوی” کو "غلبہ” کہنا لغو، بے بنیاد اور باطل ہے۔
سورۃ النساء، آیت 82:
﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ ٱللَّهِ لَوَجَدُوا۟ فِيهِ ٱخْتِلَـٰفًا كَثِيرًۭا﴾
ترجمہ: "اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا،
تو اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔”
❖ علُوِ الٰہی (اللہ کا بلند ہونا) اور سنت سے ثبوت
❖ نبی کریم ﷺ کا آسمان کی طرف اشارہ
حجۃ الوداع کے موقع پر نبی ﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا:
"کیا میں نے اللہ کا پیغام تم تک پہنچا دیا؟”
صحابہ نے جواب دیا: "جی ہاں، آپ نے پیغام پہنچا دیا۔”
تب آپ ﷺ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور فرمایا:
اللهم اشهد
ترجمہ: "اے اللہ! گواہ رہ جا۔”
اگر اللہ ہر جگہ بذاتِ خود موجود ہوتا، تو آسمان کی طرف اشارہ کرنا بے معنی ہوتا۔
❖ نبی ﷺ اور باندی کا واقعہ
ایک شخص اپنی باندی کو نبی ﷺ کے پاس لایا اور کہا کہ میں اسے آزاد کرنا چاہتا ہوں۔
نبی ﷺ نے اس باندی سے پوچھا:
"أين الله؟”
ترجمہ: "اللہ کہاں ہے؟”
اس نے آسمان کی طرف اشارہ کیا۔
پھر آپ ﷺ نے پوچھا:
"من أنا؟”
ترجمہ: "میں کون ہوں؟”
اس نے کہا: "اللہ کے رسول”۔
تب نبی ﷺ نے فرمایا:
"أعتقها فإنها مؤمنة”
ترجمہ: "اسے آزاد کر دو، یہ مومنہ ہے۔”
❖ اللہ تعالیٰ کا نزول
صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ:
اللہ تعالیٰ رات کے آخری حصہ میں آسمانِ دنیا پر نازل ہوتا ہے اور فرماتا ہے:
"ہے کوئی مغفرت مانگنے والا؟
ہے کوئی رزق طلب کرنے والا؟
ہے کوئی توبہ کرنے والا؟
تاکہ میں اس کی دعا قبول کروں، گناہ بخش دوں۔”
اگر اللہ ہر جگہ موجود ہوتا تو نزول کا کوئی مفہوم باقی نہ رہتا۔
❖ آیاتِ قرآنیہ سے علُوِ الٰہی کا ثبوت
سورۃ المجادلہ، آیت 7:
﴿مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَـٰثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ﴾
ترجمہ: "تین آدمی سرگوشی نہیں کرتے مگر اللہ چوتھا ہوتا ہے۔”
سورۃ الحدید، آیت 4:
﴿وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ﴾
ترجمہ: "اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہو۔”
❖ ان آیات کا مطلب کیا ہے؟
یہاں "اللہ ساتھ ہے” کا مطلب:
علم، قدرت، سمع و بصر کے ساتھ ہے۔
بذاتِ خود ہر جگہ موجود ہونے کا عقیدہ غلط ہے۔
❖ واقعہ خولہ بنت ثعلبہ
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
"میں ایک کمرے میں تھی، خولہ نبی ﷺ سے بات کر رہی تھیں۔
ان کی آواز اتنی آہستہ تھی کہ میں نہ سن سکی،
لیکن اللہ نے سات آسمانوں کے اوپر سے ان کی گفتگو سن لی۔”
سورۃ المجادلہ، آیت 1:
﴿قَدْ سَمِعَ ٱللَّهُ قَوْلَ ٱلَّتِى تُجَـٰدِلُكَ فِى زَوْجِهَا﴾
ترجمہ: "اللہ نے اس عورت کی بات سن لی جو اپنے شوہر کے بارے میں تجھ سے جھگڑ رہی تھی۔”
❖ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کا کلام
نبی ﷺ کے وصال کے وقت سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا:
"مَن كان يعبد محمداً فإن محمداً قد مات،
وَمَن كان يعبد الله فإن الله حيٌّ لا يموت، الذي في السماء”
ترجمہ: "جو محمد ﷺ کی عبادت کرتا تھا، وہ فوت ہو چکے،
اور جو اللہ کی عبادت کرتا ہے، وہ زندہ ہے، اور آسمان میں ہے۔”
(الرد علی الجہمیہ للدارمی)
❖ اجماعِ سلف: اللہ عرش پر ہے
صحابہ، تابعین، تبع تابعین، اور تمام سلف کا اس بات پر اجماع ہے کہ:
اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہے۔
وہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے، مگر بذات خود ہر جگہ موجود نہیں۔
❖ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا فتویٰ
"جس شخص نے یہ نہ مانا کہ اللہ اپنے عرش پر مستوی ہے،
تو وہ اپنے رب کا کافر ہے۔ اگر توبہ کرے تو فبہا، ورنہ قتل کر دیا جائے۔”
(معرفۃ علوم الحدیث، ص 84)
❖ نتیجہ: باطل عقیدہ کا انجام
جو یہ کہے کہ:
"اللہ ہر جگہ بذات خود موجود ہے”
تو اس عقیدے سے لازم آتا ہے کہ (نعوذ باللہ):
"اللہ گندی جگہوں، بیت الخلاء، بدکاری کے مقامات،
شراب خانوں اور غلاظت میں بھی موجود ہے۔”
ایسا عقیدہ حلولیہ، زنادقہ اور باطل فرقوں کا ہے،
نہ کہ اہلِ سنت والجماعۃ کا۔
❖ مکمل خلاصہ
اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانوں سے اوپر، عرشِ عظیم پر مستوی ہے۔
اس کی صفات بے مثل ہیں۔
وہ علم، قدرت، سمع و بصر سے ہر جگہ ہے۔
"اللہ ہر جگہ بذاتِ خود ہے” کہنا باطل، فاسد اور گمراہ کن عقیدہ ہے۔
سورۃ النساء، آیت 82:
﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ ٱللَّهِ لَوَجَدُوا۟ فِيهِ ٱخْتِلَـٰفًا كَثِيرًۭا﴾
ترجمہ: "اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا، تو تم اس میں کثیر اختلاف پاتے۔”