اس مضمون میں ہمارا اصل مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی، گناہوں اور بداعمالیوں کے کیسے تباہ کن، خطرناک اور بربادی لانے والے اثرات انسان کی زندگی، اس کے دل، اس کے رزق، اس کی برکت، اس کے کردار، اس کی عزت اور پوری قوم کے امن و سکون پر مرتب ہوتے ہیں۔
مقالے کے اس حصے میں پہلے ہم اطاعت و فرمانبرداری کی اہمیت بیان کریں گے، پھر یہ سمجھایا جائے گا کہ گناہوں کے کیا آثار ایک فرد کی زندگی میں پیدا ہوتے ہیں۔ اگلے حصوں میں قوم و ملت پر ان کے اجتماعی اثرات کا ذکر آئے گا۔
اسلام کا اصل پیغام یہی ہے کہ انسان اپنے رب کے حکم کے سامنے سراپا تسلیم ہو جائے، اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کو اپنی زندگی کا دستور بنا لے۔ اس کے بغیر نہ دنیا میں کامیابی ممکن ہے نہ آخرت میں نجات۔
اطاعت کی حقیقت اور اس کے ثمرات
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی فرماں برداری ہر مسلمان کی زندگی کا بنیادی اصول ہے۔ قرآن مجید میں بے شمار آیات اطاعتِ الٰہی و رسالت کی فضیلت بیان کرتی ہیں۔
قرآنی دلیل نمبر 1
﴿ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا ﴾ [الأحزاب: 71]
ترجمہ: "جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا رہے تو وہ یقینا عظیم کامیابی سے سرفراز ہو گیا۔”
یہ آیت بتاتی ہے کہ اطاعت کا نتیجہ دنیا و آخرت دونوں میں عظیم فلاح ہے۔
قرآنی دلیل نمبر 2
﴿ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا ﴾ [الأحزاب: 36]
ترجمہ: "اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ کھلی گمراہی میں جا پڑا۔”
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ نافرمانی کی راہ یقینی گمراہی ہے۔
آخرت میں اطاعت و نافرمانی کا انجام
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے جہاں دنیا کے نتائج بیان کیے، وہیں آخرت کے انجام کو بھی انتہائی وضاحت سے واضح فرمایا:
آیات
﴿ وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ … وَذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ﴾
﴿ وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ … وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ ﴾
[النساء: 13-14]
ترجمہ:
"جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا اسے اللہ جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں… اور یہی اصل کامیابی ہے۔
اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اسے جہنم میں داخل کرے گا… اور اس کے لئے رسواکُن عذاب ہے۔”
گناہوں کے اثرات — دو قسمیں
مضمون میں آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ:
❀ گناہوں کے اثرات دو طرح کے ہوتے ہیں:
➊ انفرادی — جو خود نافرمان پر پڑتے ہیں۔
➋ اجتماعی — جو قوم، معاشرے اور ریاست پر نازل ہوتے ہیں۔
اس حصے میں ہم انفرادی اثرات بیان کریں گے۔
افراد پر گناہوں کے برے اثرات
دل کا زنگ آلود ہو جانا
گناہ دل پر سیاہ دھبہ ڈال دیتے ہیں، جو مسلسل گناہوں سے پورا دل تاریک کر دیتے ہیں۔
حدیث
(إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَۃً سَوْدَاء… ) [ترمذی: 3334، ابن ماجہ: 4244]
ترجمہ:
"جب مومن گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑ جاتا ہے… اگر توبہ کرے تو دل صاف ہو جاتا ہے، اور اگر گناہ بڑھاتا رہے تو یہ سیاہی پورے دل کو ڈھانپ لیتی ہے۔ یہی وہ زنگ ہے جس کا قرآن میں ذکر ہوا ہے:
﴿ کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾"[ الترمذی :۳۳۳۴: حسن صحیح ، ابن ماجۃ :۴۲۴۴ وحسنہ الألبانی]
ترجمہ:
"ہرگز نہیں! بلکہ ان کے دلوں پر وہ زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کماتے رہے (یعنی ان کے گناہوں کی وجہ سے دل سخت اور سیاہ ہو گئے ہیں).”
دل کی تاریکی انسان کی شخصیت، کردار اور اعمال پر اثر انداز ہوتی ہے، یہاں تک کہ اس کے چہرے پر بھی سیاہی ظاہر ہونے لگتی ہے۔
اللہ کے ہاں گرتی ہوئی عزت
گناہوں سے انسان اللہ کی نظر سے گر جاتا ہے۔
حدیث
(إِیَّاکَ وَالْمَعْصِیَۃَ فَإِنَّ بِالْمَعْصِیَۃِ حَلَّ سَخَطُ اللّٰہِ) [مسند أحمد]
ترجمہ:
"گناہوں سے بچو، کیونکہ گناہیں اللہ کے غضب کو لازم کر دیتی ہیں۔”
اور جب اللہ ناراض ہو جائے تو:
﴿ وَمَنْ یُّھِنِ اللّٰہُ فَمَالَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ ﴾ [الحج: 18]
ترجمہ: "جسے اللہ ذلیل کر دے، اسے کوئی عزت نہیں دے سکتا۔”
شیطان کا قیدی بن جانا
گناہوں کی کثرت سے انسان شیطان کا تابع بن جاتا ہے۔
﴿ وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَہُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ ﴾ [الزخرف: 36]
ترجمہ:
"جو رحمن کے ذکر سے غافل ہو جاتا ہے ہم اس پر شیطان مسلط کر دیتے ہیں، جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔”
انسان کا اپنے آپ سے غافل ہو جانا
﴿ نَسُوا اللّٰہَ فَأَنْسَاہُمْ أَنْفُسَہُمْ ﴾ [الحشر: 19]
ترجمہ:
"انہوں نے اللہ کو بھلا دیا، تو اللہ نے انہیں ان کے اپنے آپ سے غافل کر دیا۔”
ایسا انسان نہ حق کو پہچانتا ہے، نہ خیر سن سکتا ہے، نہ سمجھ سکتا ہے۔
زندگی میں بے سکونی اور تنگی
﴿ وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ فَإِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا ﴾ [طٰہ: 124]
ترجمہ:
"جو میرے ذکر سے روگردانی کرے، اس کے لئے تنگ زندگی ہے۔”
گناہ انسان کی دنیا کو جہنم بنا دیتے ہیں۔
نعمتوں کا چھن جانا اور نئے انعامات کا رک جانا
گناہوں کی سب سے بڑی نحوست یہ ہے کہ موجودہ نعمتیں بھی چھن جاتی ہیں اور جو نعمتیں ملنے والی ہوتی ہیں وہ بھی روک لی جاتی ہیں۔ یہی بات حضرت آدمؑ اور اماں حواؑ کے واقعے میں صاف نظر آتی ہے۔
آیت
﴿ وَلَا تَقْرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ… فَأَزَلَّہُمَا الشَّیْطَانُ عَنْہَا فَأَخْرَجَہُمَا مِمَّا کَانَا فِیہِ ﴾ [البقرۃ: 35-36]
ترجمہ:
"اس درخت کے قریب نہ جانا… پھر شیطان نے دونوں کو پھسلا دیا اور اس نعمت و راحت سے نکال باہر کیا جس میں وہ تھے۔”
ایک معمولی سی نافرمانی نے جنت جیسی نعمت چھین لی۔
یہ اصول قیامت تک جاری ہے۔
برکت کا ختم ہو جانا
گناہ ایسی آگ ہیں جو برکت کو جلا کر راکھ کر دیتے ہیں:
❀ نہ عمر میں برکت
❀ نہ رزق میں
❀ نہ مال میں
❀ نہ اولاد میں
❀ نہ گھر میں
❀ نہ علم و عمل میں
جس گھر میں گناہ ہوں وہاں خیر کم اور بے برکتی زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے برعکس نیکی ہر چیز میں اضافہ اور برکت لاتی ہے۔
شرم و حیا کا خاتمہ
حیا ایمان کا ایک عظیم حصہ ہے۔ گناہوں کی کثرت انسان کے دل سے حیا کو چھین لیتی ہے۔
حدیث
(إِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ) [متفق علیہ]
ترجمہ:
"جب تم میں شرم و حیا باقی نہ رہے تو جو چاہو کرو۔”
گناہ کرنے والا انسان:
❀ برائی کو کھلم کھلا کرنے لگتا ہے
❀ اسے نہ اللہ سے حیا رہتی ہے نہ لوگوں سے
❀ بیوی یا بیٹی بے پردہ پھرے، اسے فرق نہیں پڑتا
❀ گھر میں بے حیائی کے پروگرام چلیں تو اسے برا نہیں لگتا
یہ سب گناہوں کی تاریکی کا نتیجہ ہے۔
رزق سے محرومی
گناہ اکثر اوقات انسان کو متوقع رزق سے بھی محروم کر دیتے ہیں۔ کئی مرتبہ اللہ رزق دروازے تک لے آتا ہے، مگر گناہ کی وجہ سے پلٹ جاتا ہے۔
حدیث
(وَإِنَّ الرَّجُلَ لَیُحْرَمُ الرِّزْقَ بِخَطِیئَۃٍ یَعْمَلُہَا) [ابن ماجہ: 90]
ترجمہ:
"آدمی اپنے کسی گناہ کی وجہ سے رزق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔”
آج یہ منظر عام ہے کہ لوگ:
❀ سودی لین دین
❀ انشورنس
❀ ناجائز شیئرز ٹریڈنگ
❀ لالچ
❀ حرام کاروبار
کے ذریعے جلدی امیر ہونے کی کوشش کرتے ہیں، مگر نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ موجودہ مال بھی ختم ہو جاتا ہے اور برکت بھی۔
ایک مثال یہ بھی بیان کی گئی کہ:
اگر کسی فقیر کے گھر میں موسیقی، ناچ گانا اور گناہ چل رہا ہو، تو صدقہ دینے والا اپنا صدقہ واپس لے لیتا ہے۔ گویا رزق دروازے تک آیا اور پھر گناہ کی وجہ سے پلٹ گیا۔
علم سے محرومی
سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ انسان علمِ نافع سے محروم ہو جائے۔
علم نور ہے جبکہ گناہ اس نور کو بجھا دیتے ہیں۔
اسی لیے امام مالکؒ نے امام شافعیؒ سے فرمایا تھا:
"اللہ نے تمہارے دل میں نور رکھا ہے، اسے گناہوں کے اندھیروں سے بجھنے نہ دینا۔”
امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
شَكَوْتُ إِلَىٰ وَكِيعٍ سُوءَ حِفْظِي
فَأرْشَدَنِي إِلَىٰ تَرْكِ المَعَاصِي
"میں نے وکیع سے کمزور حافظے کی شکایت کی، تو انہوں نے مجھے گناہ چھوڑنے کی تلقین کی۔”
علم کی برکت گناہوں سے چھن جاتی ہے۔
مشکلات اور مصائب کا طوفان
گناہ انسان کی زندگی میں مصائب اور پریشانیوں کی بھرمار کر دیتے ہیں۔
آیت
﴿ وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ ﴾ [الشوریٰ: 30]
ترجمہ:
"تمہیں جو بھی مصیبت آتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہے۔ اور بہت سے گناہ تو اللہ ویسے ہی معاف کر دیتا ہے۔”
گھر کے جھگڑے، کاروبار کی پریشانیاں، ذہنی دباؤ، اولاد کی نافرمانی—
اکثر یہ سب انسان کے اپنے گناہوں کے نتیجے میں ہوتا ہے۔
کاموں کا مشکل ہو جانا
گناہ سے انسان کے کام سدھرتے نہیں بلکہ بگڑتے ہیں۔
نیکی اور تقویٰ کاموں کو آسان کر دیتا ہے۔
آیت
﴿ وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰہَ يَجْعَلْ لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا ﴾ [الطلاق: 4]
ترجمہ:
"جو اللہ سے ڈرتا ہے (گناہوں سے بچتا ہے) اللہ اس کے معاملات آسان فرما دیتا ہے۔”
لیکن گناہ کرنے والے کے لئے ہر آسان کام بھی مشکل بن جاتا ہے۔
نیکیوں کا ضائع ہو جانا
یہ گناہوں کی سب سے خطرناک نحوست ہے کہ وہ انسان کی نیکیاں بھی برباد کر دیتے ہیں، خصوصاً خلوت میں کیے جانے والے گناہ۔
حدیث
حضرت ثوبانؓ کی حدیث:
قوم آئے گی جن کی نیکیاں تہامہ کے پہاڑوں جیسی ہوں گی،
مگر اللہ انہیں بکھرے ذرات کی طرح اڑا دے گا…
کیوں؟
کیا وہ کافر ہوں گے؟
نہیں!
جواب:
"وہ تمہارے ہی بھائی ہوں گے، تمہاری ہی قوم سے ہوں گے، رات کو قیام بھی کریں گے، مگر جب تنہائی میں اللہ کی حرام کردہ چیزیں سامنے آئیں گی تو انہیں چھوڑیں گے نہیں۔”
[ابن ماجہ: 4245]
خلوت کے گناہ نیکیوں کا صفایا کر دیتے ہیں۔
اجتماعی طور پر گناہوں اور بداعمالیوں کے نتائج
گناہوں کے یہ اثرات اتنے شدید ہوتے ہیں کہ قومیں تباہ ہو جاتی ہیں، معاشرے بے سکون ہو جاتے ہیں، ظلم غالب آ جاتا ہے اور امن و امان ختم ہو جاتا ہے۔ ان اثرات کو قرآن و حدیث میں انتہائی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے۔
خشکی و تری میں فساد، تباہی اور بربادی
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ:
❀ قتل و غارت عام
❀ چوری، ڈاکے، لاقانونیت
❀ عورتوں کی بے حرمتی
❀ معصوم بچوں کا اغوا
❀ معاشی تباہی
❀ رشوت اور بدعنوانی
❀ لوگوں کا عدلیہ و نظامِ انصاف سے مایوس ہونا
❀ حکمرانوں کی غفلت
❀ دشمنوں کا غلبہ اور اندرونی انتشار
یہ سب کسی حادثاتی نظام کا نتیجہ نہیں…
بلکہ قرآن کی سچی پیش گوئی ہے۔
آیت
﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ ﴾ [الروم: 41]
ترجمہ:
"خشکی اور تری میں لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے فساد پھیل گیا ہے، تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے، شاید کہ وہ باز آ جائیں۔”
گناہوں کے نتیجے میں:
❀ قومیں کمزور ہو جاتی ہیں
❀ دشمن غالب آ جاتا ہے
❀ ظلم عام ہو جاتا ہے
❀ امن و امان کی نعمت زائل ہو جاتی ہے
پہلی تباہ شدہ قوموں کا عبرتناک انجام
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿ أَهْلَكْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ ﴾ [الأنعام: 6]
ترجمہ:
"ہم نے انہیں ان کے گناہوں کی وجہ سے ہلاک کیا۔”
اور فرمایا:
﴿ فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ ﴾ [العنکبوت: 40]
ترجمہ:
"ہر قوم کو ہم نے اس کے گناہ کے سبب پکڑا۔”
کچھ قوموں پر:
❀ پتھر برسائے گئے
❀ کچھ کو چیخ نے پکڑا
❀ کچھ کو زمین نے نگل لیا
❀ کچھ کو پانی میں غرق کر دیا گیا
یہ اللہ کی سنت ہے، جو کبھی نہیں بدلتی۔
زلزلوں، سونامی اور قدرتی آفات کا نزول
جب زمین پر معاصی بڑھ جاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ زمین کو حرکت دے دیتا ہے، جس کے نتیجے میں بڑے بڑے شہر منٹوں میں مٹی میں مل جاتے ہیں۔
آیت
﴿ أَفَأَمِنَ الَّذِينَ مَكَرُوا السَّيِّئَاتِ أَنْ يَخْسِفَ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ… ﴾ [النحل: 45-47]
ترجمہ:
"کیا برے کاموں کی سازش کرنے والے اس سے بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے… یا پے درپے عذاب لا دے؟”
آخری زمانے میں زمین میں دھنسائے جانے کا ذکر
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
(سَيَكُونُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ خَسْفٌ وَقَذْفٌ وَمَسْخٌ)
"آخری زمانے میں زمین میں دھنسایا جائے گا، پتھروں کی بارش ہوگی اور لوگوں کی شکلیں مسخ ہوں گی۔”
پوچھا گیا: یہ کب ہوگا؟
آپ ﷺ نے فرمایا:
"جب موسیقی عام ہو جائے، گانے والیاں پھیل جائیں اور شراب کو حلال سمجھ لیا جائے۔”
[صحیح الجامع: 3665]
حدیث
(لَيَشْرَبَنَّ نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي الْخَمْرَ… فَيَخْسِفُ اللَّهُ بِهِمُ الْأَرْضَ…) [ابن ماجہ: 4020]
ترجمہ:
"میری امت میں کچھ لوگ شراب پئیں گے… موسیقی اور گانے بجانے ہوں گے… پھر اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور ان میں سے بعض کو بندر اور سور بنا دے گا۔”
آج دنیا بھر میں جو بڑے بڑے زلزلے، سونامی، اور تباہ کن آفات آ رہی ہیں، یہ سب اللہ کی سنت کے مطابق انسانوں کے اعمال کا نتیجہ ہیں۔
بدامنی، خوف اور دہشت کا چھا جانا
گناہوں کا ایک بڑا اثر امن کی نعمت کا چھن جانا ہے۔
آیت
﴿ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ ﴾ [النحل: 112]
ترجمہ:
"ان لوگوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی تو اللہ نے ان پر بھوک اور خوف کی لباس مسلط کر دی۔”
یہی کیفیت آج ہم اپنے معاشرے میں چلتے پھرتے دیکھ رہے ہیں۔
❀ جان محفوظ نہیں
❀ عزت محفوظ نہیں
❀ مال محفوظ نہیں
❀ گھروں میں خوف
❀ سڑکوں پر بدامنی
❀ ہر طرف چوری، قتل، ڈاکہ، ہنگامہ
یہ سب اجتماعی گناہوں کا نتیجہ ہے۔
مہلک بیماریاں، مہنگائی، قحط، ظلمِ حکمران اور خانہ جنگی
یہ وہ نتائج ہیں جنہیں رسول اللہ ﷺ نے ایک ہی جامع حدیث میں بیان فرمایا:
حدیث
➊ جب قوم میں بے حیائی عام ہو جائے تو طاعون اور نئی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
➋ جب ماپ تول میں کمی ہو تو قحط، مہنگائی اور حکمرانوں کا ظلم مسلط ہو جاتا ہے۔
➌ جب زکاۃ روک لی جائے تو بارش روک لی جاتی ہے۔
➍ جب اللہ اور رسول کے عہد توڑے جائیں تو دشمن غالب آ جاتا ہے۔
➎ جب فیصلے اللہ کے قانون کے مطابق نہ ہوں تو قوم آپس میں لڑ پڑتی ہے۔
[ابن ماجہ: 4019]
یہ حدیث آج ہمارے حالات کی مکمل تصویر ہے۔
ذلت و رسوائی کا مسلط ہو جانا
آج پوری امتِ مسلمہ جس ذلت، بے بسی، کمزوری اور بے وقعتی کا شکار ہے، وہ کسی سیاسی منصوبے یا کسی عالمی طاقت کا نتیجہ نہیں—
بلکہ خود رسول اللہ ﷺ نے اس ذلت کی بنیادی وجہ صاف صاف بیان فرما دی ہے۔
حدیث
(إِذَا تَبَايَعْتُمْ بِالْعِينَةِ، وَأَخَذْتُمْ أَذْنَابَ الْبَقَرِ، وَرَضِيتُمْ بِالزَّرْعِ، وَتَرَكْتُمُ الْجِهَادَ، سَلَّطَ اللَّهُ عَلَيْكُمْ ذُلًّا لَا يَنْزِعُهُ عَنْكُمْ حَتّٰى تَرْجِعُوا إِلَى دِينِكُمْ) [ابو داود: 3462]
ترجمہ:
"جب تم سودی لین دین کرنے لگو، گائیوں کی دمیں پکڑ لو (یعنی دنیا اور کھیتی باڑی میں کھو جاؤ)، زراعت پر راضی ہو جاؤ، اور جہاد چھوڑ دو…
تو اللہ تم پر ایسی ذلت مسلط کر دے گا کہ وہ تم سے اس وقت تک نہ اٹھے گی جب تک تم اپنے دین کی طرف واپس نہ لوٹ آؤ۔”
یہ حدیث امت کی موجودہ حالت کی مکمل وضاحت ہے:
❀ سود عام
❀ دنیا پرستی
❀ دینی غیرت کمزور
❀ جہادِ نفس چھوڑ دیا
❀ ایمان کمزور
❀ دین کے بجائے دنیا ایجنڈا بن گئی
نتیجہ کیا ہے؟
❀ دشمن ہم پر مسلط
❀ ہماری بات کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں
❀ ہمارے وسائل دوسروں کے قبضے میں
❀ امت عالمی سیاست میں بے وزن ہو چکی
یہ ذلت صرف ایک راستے سے ہٹے گی:
واپسی الی الدین۔
اللہ کی مدد کا ہٹ جانا، فتح کا شکست میں بدل جانا
جب گناہ فرد سے ہوتے ہیں تو نقصان اس کے دائرے میں رہتا ہے،
لیکن جب نافرمانی علماء، سرداروں، قوم، لشکر یا حکمرانوں سے ہو تو اس کا وبال پوری امت پر پڑتا ہے۔
قرآن مجید میں جنگِ اُحد کا واقعہ
پہلے اللہ نے مسلمانوں کو غلبہ دیا تھا۔
پھر مالِ غنیمت نظر آتے ہی کچھ افراد نے رسول ﷺ کے حکم کی نافرمانی کی۔
نتیجہ:
❀ ستر صحابہ شہید
❀ رسول اللہ ﷺ زخمی
❀ فتح شکست میں بدل گئی
آیت
﴿ حَتّٰى إِذَا فَشِلْتُمْ وَتَنَازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَعَصَيْتُمْ… ﴾ [آل عمران: 152]
ترجمہ:
"یہ سب اس وقت ہوا جب تم نے بزدلی دکھائی، آپ ﷺ کے حکم میں جھگڑا کیا اور نافرمانی کی۔”
ایک اور آیت:
﴿ قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ ﴾ [آل عمران: 165]
ترجمہ:
"کہہ دو: یہ مصیبت تمہاری اپنی وجہ سے آئی ہے۔”
یعنی اللہ کی مدد کبھی ہٹتی نہیں—
نافرمانی کرنے والے خود اسے دور کر دیتے ہیں۔
اندرونی خلفشار، آپس کی لڑائیاں اور خانہ جنگی
یہ بھی گناہوں اور دین چھوڑنے کا سزاوار نتیجہ ہے۔
حدیث
(وَمَا لَمْ تَحْكُمْ أَئِمَّتُهُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ… إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ بَأْسَهُمْ بَيْنَهُمْ) [ابن ماجہ: 4019]
ترجمہ:
"جب حکمران اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو اللہ ان میں آپس کی لڑائی مسلط کر دیتا ہے۔”
کیا آج ہم یہ منظر نہیں دیکھ رہے؟
❀ مسلمان مسلمان کو قتل کر رہا ہے
❀ ملک اندرونی جنگوں میں بٹ رہے ہیں
❀ فرقہ واریت، سیاسی فساد، لسانی جنگیں
❀ قوم ایک دوسرے کے خلاف کھڑی
یہ قرآن و حدیث کے مطابق گناہوں کے اجتماعی اثرات ہیں۔
امت پر دشمن کا تسلط
جس امت کے ہاتھ میں کبھی دنیا کی قیادت تھی، اسے آج خود اپنا دفاع بھی میسر نہیں۔
حدیث
(إِلَّا سَلَّطَ اللهُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ غَيْرِهِمْ فَيَأْخُذُ بَعْضَ مَا فِي أَيْدِيهِمْ) [ابن ماجہ: 4019]
ترجمہ:
"جب وہ اللہ اور رسول کے عہد کو توڑتے ہیں تو اللہ ان پر ایسے دشمن مسلط کر دیتا ہے جو ان کے مال و دولت کا ایک حصہ چھین لیتا ہے۔”
آج مسلمان ممالک میں یہی ہو رہا ہے:
❀ دشمن ہماری سرزمینوں پر قبضہ کرتے ہیں
❀ ہماری دولت، وسائل، تیل، معدنیات انہی کے ہاتھ میں
❀ ہم ان کے قرضوں کے محتاج
❀ ہماری پالیسیاں ان کے دباؤ میں بنتی ہیں
یہ سب دوزخ نہیں، گناہوں کی سزا ہے۔
مہلک بیماریاں، موت کی کثرت اور معاشرتی فساد
ابن عباسؓ نے گناہوں کے ان اجتماعی اثرات کو نہایت جامع انداز میں بیان کیا:
اثرِ ابن عباسؓ
(وَلَا فَشَا الزِّنَا فِي قَوْمٍ إِلَّا كَثُرَ فِيهِمُ الْمَوْتُ…) [موطا مالک: 987]
ترجمہ :
"اور جب کسی قوم میں زنا عام ہو جاتا ہے تو ان میں موت کی کثرت ہو جاتی ہے۔”
آخر میں اللہ تعالیٰ سے عاجزانہ دعا
اے اللہ! ہمیں انفرادی اور اجتماعی گناہوں سے محفوظ فرما۔
اے اللہ! ہمیں توبہ و استغفار کی توفیق دے۔
اے اللہ! ہماری قوم، ہمارے گھروں، ہمارے دلوں اور ہمارے معاشرے سے ہر طرح کے فساد کو دور فرما۔
آمین یا رب العالمین۔
مضمون کا خلاصہ
عزیزانِ محترم!
قرآن و حدیث کی واضح نصوص کی روشنی میں یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت ہی کامیابی کی اصل بنیاد ہے؛
اور نافرمانی، گناہ اور حدودِ الٰہی سے تجاوز ہی دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی کا حقیقی سبب ہے۔
اس مضمون میں ہم نے دیکھا کہ:
➊ انفرادی گناہوں کے اثرات
❀ دل کا سیاہ ہونا
❀ اللہ کے ہاں قدر کا ختم ہو جانا
❀ شیطان کا مسلط ہو جانا
❀ انسان کا خود اپنی ذات سے غافل ہو جانا
❀ تنگی، بے سکونی اور پریشانی
❀ موجودہ نعمتوں کا چھن جانا
❀ رزق، برکت، علم اور نیکیوں سے محرومی
❀ مشکلات، مصائب اور رکاوٹوں کا بڑھ جانا
❀ زندگی کا ہر کام مشکل ہو جانا
❀ خلوت میں گناہ کرنے سے نیکیوں کا برباد ہو جانا
➋ اجتماعی و ملکی گناہوں کے اثرات
❀ معاشرتی فساد، ظلم و خونریزی
❀ زلزلوں، طوفانوں اور ہلاکت خیز آفات کا نزول
❀ بدامنی، خوف و دہشت، جان و مال کی بے قدری
❀ مہنگائی، معاشی بحران، قحط سالی
❀ بیرونی دشمن کا تسلط
❀ باہمی لڑائیاں، خانہ جنگی اور قوم کی تقسیم
❀ قومی وقار کا ختم ہونا
❀ ذلت و رسوائی کا مسلط ہو جانا
❀ مسلمانوں کی فتح کا شکست میں بدل جانا (جنگِ احد کی مثال)
یہ سب نتائج اُس وقت ظاہر ہوتے ہیں،
جب قوم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کو چھوڑ دیتی ہے۔